Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

غالیچہ افسانہ

Mir Ajaz
Last updated: December 25, 2022 12:33 am
Mir Ajaz
Share
15 Min Read
SHARE

پرویز مانوس

شام کے ملگجی سایوں نے تمام کائنات کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا تھا۔ سلام جُو کشمکش کے عالم میں کُھڈی میں بیٹھ کر حُقے کےتیز تیز کش لگا کر دھویں کے مرغولے فضا میں چھوڑ کردیر تک اُن کا تعاقب کر رہا تھا۔ _ وہ سوچوں کے گھیرے میں اس طرح اُلجھ کر رہ گیا تھا جیسے مکڑے کے جالے میں توانا مکھی۔ _ اُس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن زندگی اُسے ایسے دوراہے پر لاکر کھڑا کردے گی جہاں اُس کے لئے صحیح فیصلہ لینا مشکل ہوجائے گا _۔
سلام جُو کشمیر کے اسی چھوٹے سے خوبصورت گاؤں میں پیدا ہوا تھا جہاں اُس کا باپ قالین بافی میں ووستہ جمال کے نام سے مشہور تھا۔ اُس کے انتقال کے بعد سلام جوُ نے باپ کے کسب کو آگے بڑھایا اور اچھا خاصا نام کمایا۔ _ ویسے تو اس گاؤں میں لگ بھگ سبھی گھروں میں کوئی نہ کوئی ہاتھ کا کام ہوتا ہی رہتا تھا ۔ کچھ سوزنی کا کام کرتے ……کچھ شال بافی کا…….اور کچھ پشمینہ کاتنے کا۔۔۔۔۔۔ لیکن سلام جُو نے اپنے گھر میں قالین بنانے کا ایک روایتی لُوم لگایا ہوا تھا جہاں کُھڈی میں بیٹھ کر وہ دن رات رنگ برنگے دھاگوں سے کھیلتا رہتا۔۔ پنجہ چلا چلا کر اُس کے ہاتھوں میں گھٹے بھی پڑجاتے تھے اور پوروں سے لہو رسنے لگتا۔ کبھی کبھار مغلی بھی اُسے مختلف رنگوں کے مہین ریشمی دھاگوں کے گُچھے بناکر دیتی اور منجلی بیٹی قالین کو اُلٹی طرف سے اضافی دھاگے کاٹ کر ہموار کردیتی _۔ سلام جُو اُس کو ننھے ہاتھو ں سے کام کرتے دیکھتا تو اُس کی آنکھیں بھر آتیں اور سوچتا، جس بچی کے ہاتھوں میں کتاب ہونی چاہیے قسمت نے اُس کے ہاتھوں میں یہ کاتنی تھما دی۔ یہ غُربت بھی کیسی بیماری ہے جس کا علاج خدا کے سوا کسی کے پاس نہیں لیکن وہ تقدیر کے ہاتھوں بےبس تھا _اور مفلوک الحالی میں گُزر بسر کرتا ۔
اسی کام سے تو اُن کی دو وقت کی روٹی اور پہناوے کا انتظام ہو جاتا تھا۔ سلام جُو اب ساٹھ کا ہوچکا تھا۔ اُس کی تین کنواری بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ _اُس کو خُدا نے سونے کے ہاتھ عطا کئے تھے اور وہ نہایت ہی صاف ، عمدہ رنگ برنگے اور خوبصورت ڈیزائن کے قالین بُنتا تھا، اسی لئے شہر کے بڑے بیوپاری خواجہ صاحب نے اُسے کچھ پیشگی رقم دے کر بندوا بنا لیا تھا اور اُس کے بنائے ہوئے قالین یورپی ممالک میں بیچ کر خود کروڑوں کا مالک بن بیٹھا تھا- ایک بار جب اُس کی چھوٹی بیٹی نو سالہ صبرینہ سلام جُو کے ساتھ بیوپاری کے گھر خام مال لانے گئے تو اُس کا عالیشان مکان دیکھ کر حیران رہ گئی۔ گھر آکر اُس نے باپ سے پوچھا،
بابا! آپ کب سے قالین بُن رہے ہیں۔
باپ نے بڑی شفقت سے جواب دیا “پچھلے تیس سال سے!
پھر خوجے کا مکان اتنا بڑا اور ہمارا اتنا چھوٹا کیوں ہے؟
باپ نے بات کو ٹالتے ہوئے کہا، تم ان جھمیلوںمیں مت پڑو –،،وہ بڑے آدمی ہیں !
لیکن مولوی صاحب تو کہتے ہیں سب سے بڑا خُدا ہے _
کیا وہ خُدا سے بھی بڑے ہیں؟
نہیں بیٹی ایسی بات نہیں کہتے،، بڑے سے مُراد دولت مند ہے !
بابا ہم کب دولت مند بنیں گے؟ سلام جُو اِس کےاس معصوم سوال کا کیا جواب دیتا، جان چھڑانے کے لئے بولا۔۔۔
بیٹی ایک دن ضرور بنیں گے!
وہ دن کب آئے گا بابا؟
بہت جلدی بیٹی!
صبرینہ نے سر کُجھاتے ہوئے کہا،، پھر ہم اُسی مکان میں رہیں گے؟
نہیں بیٹی! ہماری ایسی قسمت کہاں۔
ہم تو نوکر لوگ ہیں اُن کی برابری نہیں کرسکتے۔
کیوں نہیں کرسکتے؟
کیونکہ وہ مالک ہیں اور ہم صرف مزدور _ ،
اُن کو مالک اور ہم کو مزدور کس نے بنایا؟
بیٹی خُدا نے۔۔۔!
خدا نے ہم کو مالک اور اُن کو مزدور کیوں نہیں بنایا؟
بیٹی ہم نے کبھی مالک بننے کی خواہش ہی نہیں کی اسی لئے !
بابا آؤ آج ہم بھی خواہش کرتے ہیں کہ ہم بھی دولت مند بنیں گے !
بیٹی ہم تو غریب ہیں کیسے بن سکتے ہیں؟ اماں کہتی ہے کئی بار آپ کے بنائے ہوئے قالین کو انعام ملاہے،
ہاں بیٹی! لیکن وہ تو خواجہ صاحب کو ملتا ہے _ ہمارے حصّے میں تو صرف مزدوری ہی آتی ہے۔
بابا کیوں نہ ہم خود قومی سطح کے انعامی مقابلے میں اپنا قالین دلی لے جائیں۔
صبرینہ نے اپنا معصُوم چہرہ دونوں ہتھیلیوں میں لیتے ہوئے کہا تو یہ سُن کر سلام جُو کے ماتھے پر بل پڑ گئے،،
یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟
خواجہ صاحب کے پیشگی کا کیا ہوگا؟
اُن کو اگلے ماہ قالین تیار کرکے دینا ہے _ ۔
بابا! آپ نے ہی تو کہا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کے پاس امریکہ گئے ہوئے ہیں_۔
لیکن بیٹی اُن کا کیا وہ دولت مند ہیں کسی وقت بھی آ سکتے ہیں، انہیں کون سا پیدل آنا ہے، جہاز میں ہی آتے ہیں ۔
بابا آپ کبھی ہوائی جہاز میں بیٹھے ہیں؟
نہیں بیٹی ! ہماری قسمت میں تو صرف جہاز کو اُڑتے ہوئے دیکھنا لکھا ہے _ ۔
اچھا بابا ! ایک کام کرتے ہیں –
وہ کیابیٹی؟
بابا انعام ملنے پر ہم اُس کے پیسے لوٹا دیں گے۔
لیکن بیٹی !
لیکن ویکن کچھ نہیں ۔۔۔! اماں آپ ہی بابا کو کچھ سمجھاؤ ۔
صبرینہ ٹھیک کہہ رہی ہے ویسے بھی بیوپاری مُلک سے باہر ہے ، ہر بار آپ کےبنائے ہوئے قالین پر بیوپاری انعام حاصل کرتا ہے اس بار خود کوشش کرکے دیکھیں، کوشش کرنے میں کیا حرج ہے، خُدا بھی اُنہی کا ساتھ دیتا ہے جو کوشش کرتے ہیں، کیا پتہ اس معصوم کی دُعا سُن کر پروردگار کو ہم مسکینوں پر رحم آجائے۔
مغلی نے مشورہ دیا تو سلام جُو نے شرارت بھرے لہجے میں کہا _
تو بھی بچی کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے تجھے معلوم بھی ہے یہ کیا کہہ رہی ہے ؟
کہاں راجہ بوج اور کہاں گنگو تیلی ۔۔۔۔نہیں یہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔
یہ بے ایمانی ہوگی _ میں خواجہ صاحب سے دغا نہیں کرسکتا _۔ سلام جُو نے اپنا فیصلہ سُنادیا اور اُٹھ کر دوسرے کمرے میں جاکر حُقے پر اپنا غُصہ نکالنے لگا ۔مغلی دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا سلام جُو سوچوں کے سمند میں غوطہ زن ہے آہستہ سے بولی۔
آپ ناراض کیوں ہو گئے، _ بچی اُس کے دل میں بھی خواہش پیدا ہوئی کہ ہمارا بھی ویسا مکان ہو تو کیا بُرا کیا؟
مغلی! تُو سمجھتی نہیں _ میں اُسے وہ خواب نہیں دکھا سکتا جس کی تعبیر ممکن نہیں ۔_ وہ بچی ہے ابھی دُنیا کی سمجھ اُس میں نہیں ہے _، تُو جاکر اپنا کام کر اور مجھے بھی کُھڈی میں کام کرنے دے _۔
کہہ کر سلام جُو نے دھویں کا مرغولہ فضا میں چھوڑا اور کام میں لگ گیا _۔
اسی بات پر روٹھ کر مُسلسل دو روز تک صبرینہ نے کھانا نہیں کھایا، بھوک سے اُس کا حلق سوکھنے لگا تو اُسے زور سے قے آئی _۔ مغلی نے سلام جُو سے کہاکہ منتیں مانگ کر اسی دن کے لئےحاصل کی تھی اولاد ؟
تمہیں پر گئی ہے ضدی ! اُس نے ضد پکڑ لی ہے۔ آؤ اسے خود سمجھاؤ ،میری باکل نہیں مانتی _ ۔
سلام جُو کمرے میں داخل ہوا تو صبرینہ کی یہ حالت سلام جُو سے دیکھی نہ گئی، رو رو کر اُس کی آنکھیں سوج گئیں تھیں اور چہرے کا رنگ بھی زرد ہو چُکا تھا۔ _سلام جُو نے صبرینہ کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا، میرے بچی میں ہار گیا اور تُو جیت گئی۔ لیکن میرا دل دغا کرنے کو نہیں مان رہا ہے مغلی ۔ اس پر مغلی نے کہا
تم اُس کی فکر مت کرو میں نے اسلم بھائی سے بات کرلی ہے اُس سے کچھ رقم اُدھار لےکر نیا قالین تیار کریں گے اور وہی مقابلے کے لئے بھیج دیں گے ۔ مغلی نے سلام جُوکی مشکل آسان بناتے ہوئے کہا تو سلام جُو نے پوچھا،
کیا اسلم بھائی مان گئے؟
کیوں نہیں مانتے آخر وہ بھی تو جمال جُو کا خون ہے!
بابا. ! میں نے اس میں کچھ پیسے جمع کئے ہیں یہ بھی لے لو، صبرینہ نے اپنی گُلک باپ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ،تو سلام کی آنکھوں میں موتی جھلملانے لگے، مغلی نے اُسے کچھ اشارہ کیا تو اُس نے ضبط سے کام لیا _ ۔
پھر سلام جُو نئے جوش اور ولولے کے ساتھ نئے قالین پر کام کرنے لگا۔۔۔۔ دو سُرخ ،تین نیلے۔۔۔۔ ایک سفید، پانچ سبز ۔۔۔ تین سُرخ دو نیلے ۔۔۔ صبرینہ قالبافی کی تعلیم کاغذ سے پڑھ کر باپ کو بتا رہی تھی اور سلام جُو تیز تیز پنجہ چلا رہا تھا، گھر کے سارے افراد بھی اس میں اُس کا ہاتھ بٹانے میں لگے ہوئے تھے۔۔۔ _تقریباً ایک ماہ میں دس فٹ لمبا اور آٹھ فٹ چوڑا خوبصورت قالین بن کر تیار ہوگیا، جس کے لئے انہیں اپنی راتوں کی نیند بھی قربان کرنی پڑی۔ اب سب سے چہروں پر عجیب سی مسرت جھلکنے لگی۔
پھر کچھ روز بعد سلام جُو نے صبرینہ اور اپنے بھائی اسلم کے ساتھ دلی پہنچ کر انعامی مقابلے کے لئے اندراج کرایا جہاں اُن کے رہنے کا انتظام سرکاری ہٹ میں کیا گیا تھا _۔ چونکہ وہ دلی پہلی بار آئے تھے اس نے صبرینہ کو تمام تاریخی مقامات دکھا کر پوری دلی کی سیر کرائی _ صبرینہ بہت خوش تھی، لال قلعہ کے سامنے اُس نے ویڈیو کال پر ماں اور بہن اور بھائی سے بات کرتے ہوئے کہا ” یہی وہ جگہ ہے جہاں ترنگا لہرایا جاتا ہے۔ لال قلعہ ہے _ اور وہ دُور جو عمارت دکھائی دیتی ہے یہاں کی جامع مسجد ہے، کہتے ہیں یہ شاہجہان نے بنوائی ہے _۔ یہ دیکھ کر وہ سب بہت خوش ہوئے۔ اماں۔۔۔۔ ! میں نے باجی اور دیدی کے لئے چاندنی چوک سے ڈھیر ساری چوڑیاں بھی خریدی ہیں اور بھیا کے لئے روبوٹ اور ہاں آپ کے لئے تلے والی جُوتی ۔۔۔‘‘
جُوں جُوں نتیجے کا دن قریب آرہا تھا سلام جُو کا دل ڈوبتا جا رہا تھا کیونکہ اب کی بار مقابلے میں کافی سارے کاریگر مختلف ڈیزائنوں کے قالین لے کر شامل ہوئے تھے ’’وہ سوچ رہا تھا۔‘‘
اُس نے جذ بات میں آکر یہ فیصلہ کر تو لیا لیکن اگر خواجہ صاحب کو معلوم پڑ گیاکہ میں نے اپنے نام سے اندراج کرایا ہے تو وہ اُس کا قافئیہ حیات تنگ کردیں گے۔ اسی تذبذب میں وہ رات بھر کروٹیں بدلتا رہا کہ نہ جانے صُبح کیا ہوگا۔ _ ناشتے کے بعد وہ جونہی اپنے سٹال پر پہنچ تو دفعتاً اُس کے فون کی بیل بج اُٹھی، اُس نے دیکھا تو خواجہ صاحب کا فون تھا، اُس نے سوچا شاید اُسے میرے بارے میں معلوم پڑ گیا ہے، اُس کا ہاتھ کانپنے لگا اور فون نیچے گر گیا _ اُس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر صبرینہ نے پوچھا ” بابا کس کافون تھا؟ رانگ نمبر تھا بیٹی _ سلام جُو نے اپنی گھبراہٹ چھپاتے ہوئے کہا اور سوچنے لگا اب کیا ہوگا؟ پھر اُس نے سب کچھ خُدا پر چھوڑ دیا۔۔۔۔ دوپہر کو ایک بڑے ہال میں متعلقہ محکمہ کے بڑے آفیسر جمع ہوئے _۔ جیوری نے اپنا فیصلہ اعلیٰ افسر تک پہنچایا تو انہوں نے نتائج کا اعلان کیا _ سلام جُو کے غالیچے کو اول انعام سے نوازا گیا جس میں پانچ لاکھ نقد اور ٹرافی شامل تھی۔انعام لیتے وقت سلام جُو کا گلا رُندھ گیا، ہاتھ کانپنے لگے، آنکھیں نمدیدہ ہو گئیں اور کانوں میں صبرینہ کے الفاظ گونجے لگے،، بابا ہم کب دولت مند بنیں گے۔

���
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛ 9622937142

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
سرینگر میں کانگریس کی عظیم الشان عید ملن تقریب منعقد
تازہ ترین
ریاستی حیثیت کی بحالی عوامی خدمات کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرے گی: ڈاکٹر فاروق عبداللہ
تازہ ترین
حج 2025 کا پہلا قافلہ کل سرینگر پہنچے گا، دوسرا 26 جون کو متوقع:حج کمیٹی
تازہ ترین
ملک میں کورونا انفیکشن سے 11 مریضوں کی موت، کل ایکٹو کیسز کم ہو کر 7264 رہ گئے
برصغیر

Related

ادب نامافسانے

قربانی کہانی

June 14, 2025
ادب نامافسانے

آخری تمنا افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

قربانی کے بعد افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

افواہوں کا سناٹا افسانہ

June 14, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?