Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

موبائل فون افسانہ

Mir Ajaz
Last updated: December 11, 2022 12:46 am
Mir Ajaz
Share
13 Min Read
SHARE

شبنم بنت رشید

دنیا میں سائنس کی بدولت ایجاد کی گئی جن حیرت انگیز چیزوں نے انسانی زندگی کو آسان بنا کر رونقیں بھی بخشی ہے۔ انہیں اپنانے میں یمبرزل وادی کے سادہ دل اور سادہ مزاج لوگ بھی پیش پیش ہیں، خاص کر گزشتہ کئی برسوں سے موبائل فون یہاں کے لوگوں کی زندگی کا ایک اہم حصہ بن گیا ہے۔ گھروں میں اب انسانوں سے زیادہ موبائل فونوں کی تعداد دیکھنے کو ملتی ہے۔ جن لوگوں کے لئے یہ فون خریدنا آسان نہ تھا اور جن کو اس کی بالکل بھی ضرورت نہ تھی وہ بھی دیکھا دیکھی کا شکار ہوگئے تو انکے ہاتھوں اور جیبوں میں بھی اسکی گھنٹیاں بجتی رہتیں ہیں۔ بڑے تو بڑے اب چھوٹے بھی اسکے بغیر رہ نہیں سکتے۔ غرض آج کے دور کے انسان کی پہلی ضرورت، پہلا شوق اور پہلا ساتھی یہ موبائل فون بن گیا ہے۔ اسکو ضرورت سے زیادہ ہاتھ میں رکھنا اسکی نمائش کرنا ایک فیشن بن گیا ہے۔ جو کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اس ایک فون کے اندر بے شمار جہاں آباد ہوتے ہیں۔ کسی بھی عمر کا کوئی بھی انسان کہیں بھی کسی بھی محفل میں آس پاس کے ماحول کا لحاظ نہ کرتے ہوے اپنی دنیا کو چن کر اتنا محو اور مصروف ہوجاتا ہے کہ کبھی بور ہونے کی شکایت ہی نہیں کرتا۔ پھر چاہے وقت کی انمول دولت کا صحیح استعمال ہو یا غلط اسکا احساس کرنا تو دور کی بات زبان سے اظہار کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جتنے زیادہ لوگ اس سے جڑ جاتے ہیں اُس سے کہیں زیادہ بکھر کر رہ جاتے ہیں۔ اسکے زیادہ استعمال سے جتنے لوگ مصروف ہوگئے اس سے کہیں زیادہ ذہنی تناؤ اور تنہائی کا شکار بھی ہوگئے ہیں۔ کسی کو زندگی بخشتا ہے تو کسی کی زندگی کو چھین بھی لیتا ہے یہ فون۔ کسی کو دور تو کسی کو قریب، کسی کو آباد تو کسی کو برباد بھی کرتا ہے۔ یہی قدرت کا قانون ہے کہ اچھائی اور برائی لازم ملزوم ہے تب ہی تو یہ دنیا آج تک قائم اور دائم ہے۔ مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ میرے پاس آج تک موبائل فون نہیں تھا۔ اسلئے نہیں کہ میں اسے فضول سمجھتی تھی یا اسے خریدنا میری اوقات سے باہر تھا بلکہ اسلئے کہ میں اسکو انسان کی صحت، انسان کی نیند اور وقت کی دولت کا ایک خطرناک دشمن سمجھتی تھی۔ مگر اس وقت تو میرے پاس صرف دو راستے تھے۔ پہلا راستہ یہ تھا کہ میں خدانخواستہ اپنی انمول زندگی کا خاتمہ کر دیتی، دوسرا راستہ یہ تھا کہ میں بغیر نکاح کے ساری عمر گزارنے کا فیصلہ کردیتی ۔ مگر یہ دونوں راستے تو اللہ سے دور اور گناہوں کی طرف لے جانے والے راستے تھے۔ تیسرا ایک نظر انداز کیا ہوا راستہ بھی تو تھا مگر بد قسمتی سے میرے معاملے میں دوسری طرف سے وہ راستہ اپنانے کے لیے کوئی تیار نہ ہوا۔
جونہی میرے ابو شام کو تھک ہار کر گھر آتے تھے تو تند لہجے میں دادی کا جرح شروع ہوجاتا تھا۔ وہ ابو سے مخاطب ہو کر کہتی تھی کہ دیکھو عباس بہت ہوگیا اب ہماری آبرو کی شادی کی عمر نکلتی جارہی ہے۔ بہت سمجھدار اور سیانی بھی ہوگئ ہے۔ تعلیم سے بھی فراغت پا چکی ہے۔ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے تھوڑا بہت کما بھی لیتی ہے۔ ہزاروں گن ہیں اسکے اندر۔ کیا اسکے لئے رشتوں کا قحط پڑگیا ہے؟ کیا تمہیں اس بات کا احساس ہے کہ میری عمر بھی ڈھلتے سورج کی مانند ہے؟ اس سے پہلے کہ میری زندگی کی شام ہوجائے میں اپنے جیتے جی اسکے ہاتھوں میں سجی مہندی دیکھنا چہیتی ہوں۔ مگر تمہیں تو کسی کی کوئی فکر ہی نہیں بلکہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہو۔ ابو کے چہرے پر حزن صاف صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ان کا بس چلتا تو وہ اپنے حالات کی شکایت شاید خدا کے سامنے بھی نہ کرتے مگر دادی کی باتیں سن کر انکے گلے میں پھندا سا لگ جاتا تھا پھر مجبور ہو کر مدہم لہجے میں جواب دیتے تھے ماں زمانہ بہت بدل گیا۔ ہماری روایتوں کے ساتھ ساتھ ہمارا سماج بھی بدل گیا۔ آج کل شرافت، خاندان دیکھ کر نہیں بلکہ پیسہ اور حیثیت دیکھ کے رشتے طے ہوتے ہیں۔ میرا یقین ہے کہ جوں ہی ہمارے حالات بدل جائیں گے تو آبرو کے ہاتھوں میں بھی مہندی سجے گی وہ بھی آپکے جی تے جی ۔ پھر دادی بھی نہ جانے کن خیالوں میں کھوجاتی تھی۔ مجھے دادی کی باتوں پر غصہ آتا تھا لیکن میں اپنے آپ کو روک لیتی تھی۔ امی کو بھی میری فکر دھیمک کی طرح چاٹ رہی تھی۔ ہم سب یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ ہمارے حالات کی وجہ سے ہمیں ہمارے اپنے خون کے رشتے اکثر نظرانداز کر دیتے تھے۔ غیروں سے تو کوئی گلہ ہی نہیں تھا۔ ورنہ میرے لیے رشتے آتے تو تھے مگر بات بنتے بنتے نہ بنتی تھی۔ جو بھی لوگ مجھے دیکھنے کے لیے آتے تھے وہ ہماری ذات، میری تاریخ پیدائش، تعلیمی قابلیت، میری شکل و صورت اور قد کو دیکھ کرمسکراتے تو تھے لیکن اگلے ہی پل ہمارے حالات جان کر ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ کر اٹھ کر چلے جاتے تھے۔ اسلئے میں ہر بار باقی لوگوں کی نسبت انکار سننے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوتی تھی۔ میرا چھوٹا بھائی ابھی پڑھائی کر رہا تھا۔ ابو دن بھر محنت اور ایمانداری سے کسی اور کا آٹو چلاتے تھے اور میں پڑھ لکھ کر گھر پر ہی گنتی کے چند بچوں کو کمپیوٹر چلانا سکھاتی تھی۔ بس انہی دو کاموں کے اردگرد ہماری زندگی گزر رہی تھی۔ ابو کے باپ دادا نے بھی ایک ٹوٹے پھوٹے مکان کے سوا کوئی اور وراثت نہیں چھوڑی تھی۔ اسلئے تو میرے والدین کے لئے میری شادی کرنا ایک معرکہ سر کرنے کے برابر تھا۔ جب بھی گھر میں میری شادی کو لے کر بحث شروع ہوجاتی تھی ہمیشہ دکھ پر ختم ہوتی، تو میں وہاں سے پہلے ہی اٹھ کر چلی جاتی تھی، کیونکہ میں اس دکھ کا ذمہ دار خود کو اور اپنی قسمت کو ٹھہراتی تھی۔ خود کو کوس کوس کر اندر ہی اندر منحوس سمجھتی تھی۔
ایک رات میں ایک حسین خواب دیکھ رہی تھی۔ خواب کے اندر اپنی زندگی کا بڑا حسین اور مکمل منظر دیکھنے میں محو تھی کہ اچانک کوئی میرے کندھے کو زور زور سے ہلا ہلا کر مجھے بیدار کرگیا۔ آنکھ کھلی تو نظر اٹھاکے دیکھا میری امی تشویش بھرے لہجے میں مجھ سے کہہ رہی تھی کہ اٹھو آبرو! ہمارا گھر جل رہا ہے۔ میں بہت گھبرائی اور ہڑ بڑھائی میں اپنے کچھ ضروری کاغذات اٹھا کر خود کو آگ کے شعلوں سے بچتے بچاتے باہر آگئی۔ آگ نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھ چھوڑا۔ گھر کی کیا اہمیت ہوتی ہے یہ ہمیں تب پتہ چلا جب ہم سڑک پر آگئے۔ گھر تو گھر ہوتا ہے جہاں انسان خود کو محفوظ محسوس تو کرتا ہی ہے ساتھ میں اپنے خوابوں کو بھی ترتیب دیتا ہے مگر ہمارے روکھے سوکھے اور چھوٹے چھوٹے خواب ہمارے ٹوٹے پھوٹے گھر کے ساتھ ہی خاکستر ہوگئے۔ مگر ایک دو دن کے بعد محلے کے کچھ مخلص لوگوں نے ہمارے گھر کا جلا ہوا ملبہ ہٹایا۔ پھر ایک ٹین کا شیڈ بنایا اور بستر، برتن، چولہا، گرم سرد کپڑے اور دو تین مہینوں کے راشن کا انتظام بھی کر دیا۔ اس ٹین کے شیڈ کے اندر تکلیف دہ اور بے چین زندگی کا آغاز ہوا۔ اس خوفناک رات کا ذکر کرنے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی۔ میں نے کسی حد تک خود کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر امی اور دادی کے ذرد چہروں پر سوکھے خشک آنسوئوں کے نشان، ہونٹوں پر جمی سفید پپڑی اور ابو کی بے بسی دیکھ کر میرا دل خون کے آنسوں رو رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی مجھے جیتے جی قبر میں اُتار رہا ہو۔ روز بہ روز اس شیڈ کے اندر ہماری زندگی بد سے بدتر ہوگئی۔ اب غموں اور وسوسوں سے بھری زندگی سے تو موت بہتر لگنے لگی۔ ایک دن میں گھر پر نہ تھی۔ میں صبح ہی اپنے ڈاکیومنٹس کی فائل لے کر کسی پرائیوٹ آفس میں ملازمت کے انٹرویو کے لئے گئ تھی۔ واپس آئی تو دیکھا کچھ لوگ جو حلیئے سے کسی پرائیوٹ نیوز چنل کی ٹیم لگ رہی تھی، ہمارے ٹین شیڈ سے نکل رہی تھی۔ اس سے پہلے میں سمجھ پاتی یا کچھ پوچھ لیتی وہ وہاں سے نکل گئے۔ اندر آکر معلوم پڑا کہ شاید کسی کے کہنے پر یہ میڈیا والے آئے تھے اور انہونے بڑی باریکی سے ایک جذباتی وڈیو بنا کر ابو کے اکاؤنٹ نمبر کے ساتھ بنا سوچے سمجھے اسی وقت سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔ مگر مجھے سوشل میڈیا کا یہ انداز پہلے سے ہی اسلئے پسند نہ تھا کیونکہ آج ہر انسان کے ہاتھ میں سوشل میڈیا کا یہ آلہء موبائل فون موجود ہوتا ہے، جس وجہ سے کسی کے گھر کے حالات یوں سرعام افشا ہوجاتے ہیں اور انسان لوگوں کی نظروں میں آکر شرمندگی محسوس کرنے لگتا ہے۔ اسلئے میں اب زیادہ تذبذب اور اندیشوں کا شکار ہوگئی۔ ابو کو بہت کچھ سنانا چاہا مگر پھر خود ہی خاموش ہوگئی کیونکہ میں بھی کہیں نہ کہیں اپنے گھر کے حالات سے ہار چکی تھی۔ خیر جو ہوا ٹھیک ہوا کیونکہ مجھے تصویر کا مثبت رخ نظر ہی نہ آتا تھا اور ہمارا یہ مسئلہ پہلا یا واحد مسئلہ نہ تھا بلکہ ہمارے جیسے نہ جانے کتنے بے بس اور مایوس لوگ کسمپرسی کی حالت میں جی رہے ہیں۔ اس طرح میرے ذہن سے ایک بوجھ سرک گیا۔ کچھ وقت میں ہمارا گھر بن گیا۔ ابو نے ایک سیکنڈ ہینڈ گاڑی کے ساتھ ساتھ میرے لئے دو سیکنڈ ہینڈ کمپیوٹر خرید کر مجھے نئے سرے سے اپنا کام کرنے کا حوصلہ دیا۔ میں اور ابو دن رات محنت کرنے لگے۔ میرے دو کمپیوٹر دو سے چار اور چار سے چھ ہوگئے۔ گھر میں محنت کا پیسہ آنے لگا تو ہماری ساری الجھنیں سلجھ گئی۔ اس طرح دادی، امی ، ابو اور بھائی سب کے چہروں پر خود بہ خود مسکراہٹیں نمودار ہویں ۔۔۔
���
پہلگام ، کشمیر
موبائل نمبر ؛ 9419038028

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
بڈگام میں چار منشیات فروش گرفتار، بھاری مقدار میں ممنوعہ نشیلی اشیا برآمد: پولیس
تازہ ترین
امرناتھ یاترا 2025: شمالی کشمیر میں سکیورٹی انتظامات کا اعلیٰ سطحی میٹنگ کے دوران جائزہ لیا گیا
تازہ ترین
کپواڑہ میں ایس آئی اے نے پاکستان میں مقیم ملی ٹینٹ کی جائیداد ضبط کر لی
تازہ ترین
سرینگر میں کانگریس کی عظیم الشان عید ملن تقریب منعقد
تازہ ترین

Related

ادب نامافسانے

قربانی کہانی

June 14, 2025
ادب نامافسانے

آخری تمنا افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

قربانی کے بعد افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

افواہوں کا سناٹا افسانہ

June 14, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?