Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

تنہائی کا روگ کہانی

Mir Ajaz
Last updated: August 21, 2022 1:10 am
Mir Ajaz
Share
16 Min Read
SHARE

جاوید شبیر
اُسے پہلے بار تنہائی کا احساس اُس دن ہوا تھا جب دوستوں نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہا تھا کہ اب بھابی کے آنے سے اُس کا اکیلا پن مِٹ گیا ہوگا۔ تب راج کو لگا تھا کہ لوگوں کی سوچ بھی عجیب ہے۔ بھلا لوگوں کی بھیڑ، دوستوں کا جُھرمٹ، بچوں کا غُل غپاڑہ یا پھر صرف بیوی کے ہونے سے تنہائی مٹ سکتی ہے؟
نہیں!وہ جس تنہائی کا شکار ہے اُس کی پتنی شیلا بھی مِٹاپائی تھی۔
جب چھ برس پہلے راج کی شادی کی بات چلی تھی تو کئی بار انکار کرنے کے بعد اُس نے آخر کار پتاجی اور ماتاجی کی مرضی کے آگے اپنا سر جُھکا دیا تھا اور اپنی خاندانی روایات کا احترام رکھتے ہوئے اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ تب اُسے کئی دنوں تک اپنے آپ سے گِھن آتی رہی تھی۔ اُسے لگا تھا کہ وہ کم ہمت ہے، بُزدل ہے۔ اگر شادی نہ کرنے کا ارادہ تھا تو صاف ناکردی ہوتی لیکن ماں کی ممتا، باپ کا بڑھاپا اور خاندانی وقار اُس کے آڑے آگئے۔اُسے سب دوستوں اور رشتے داروں نے سمجھایا تھا کہ شادی رچانا انسانی زندگی کے ارتقاء کا ایک بہت ہی اہم جُز ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شائد بڑے بڑے رشیوں مُنیوں نے شادی نہ کی ہوتی۔ بڑے اوتار اور مختلف مذاہب کے پیغامبر غیر شادی شدہ رہ گئے ہوتے۔ مختلف ادوار میں دنیا میں آئے ہوئے فلاسفر، سائینسدان اور دوسرے بڑے لوگ کنوارے رہ گئے ہوتے۔ کرشن کو رادھا نہ ملتی، رام کو سیتا کا ساتھ نہ ہوتا ۔ اور تو اور وہ بھی اس دنیا میں نہ آیا ہوتا اگر اُس کی ماتاجی کی شادی اُس کے پتاجی سے نہ ہوئی ہوتی۔ اُسے سب نے سمجھایا کہ بزرگوں کا فیصلہ ہمیشہ صحیح ہوتا ہے کیونکہ یہ تجربے کی بنیاد پہ ہوتا ہے۔ خاندان کو آگے چلانے کے لئے شادی ایک اہم فریضہ ہے جسے ہر مذہب اور ہر معاشرے نے تسلیم کیا ہے۔
اُسے شادی کی جانب مائیل کرنے کیلئے کچھ خیرخواہوں اور دوستوں نے بیوی شیلا کے بارے میں تعریفوں کے پُل باندھ دیئے تھے۔ اُس سے کہا گیا کہ شیلا نہایت سلیقہ شعار ہے۔ پڑھی لکھی ہونے کے باوجود سادگی کا پیکر ہے۔ گھر کا سارا کام کام خود سنبھال سکتی ہے۔ شادی کے بعد سارا گھر سنبھال لے گی۔ ایسی لڑکی جس گھر میں جائے گی سُورگ بن جائیگا۔ اُسے تو اس حد تک کہا گیا تھا کہ شیلا جیسی بہو ملنے کیلئے اچھے نصیب ہونے چاہئیں۔ وزیر چند اور رُکمنی دیوی نے جیون میں ضرور کچھ پُنیہ کئے ہیں جو بُہو کیلئے شیلا جیسا رشتہ آرہا ہے۔
راج نے جب شیلا سے شادی کیلئے حامی بھری تھی تو اُس کے ذہن میں سوائے اِس کے کہ یہ ایک دنیاوی رسم ہے اور اسے ماں باپ کی خوشنودی کے لئے نبھانا ضروری ہے اور کچھ نہ تھا۔ وہ چاہتا تو حسبِ عادت اس رشتے کیلئے پھر سے انکار کردیتا لیکن اُس نے بوڑھے ماں باپ کا دل دُکھانا مناسب نہیں سمجھا اور بس حامی بھر لی۔ ویسے بھی وہ رسومات نبھانے کا عادی بن چکا تھا کیونکہ اُسے یقین ہوچکا تھا کہ زندگی رسومات نبھانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جینا بھی ایک رسم ہے، ہنسنا، رونا، گانا، شادی کرنا یہاں تک کہ مرنا بھی رسم بن کے رہ گیا ہے۔ شاید شادی کے لئے ہاں کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اب تنہائی سے گھبرا اُٹھا تھا۔
گھر ہو یا دوستوں کی محفل، وہ اپنے آپ کو ہمیشہ تنہا محسوس کرتا تھا حالانکہ گھر میں کئی لوگ تھے جیسے پتا جی، ماتاجی، بہن بھاونا مگر پھر بھی وہ اکیلا پَن کیوں محسوس کرتا تھا؟ اُس نے کئی بار یہ سوال اپنے آپ سے پوچھا لیکن ذہن کوئی جواب نہیں دے پایا۔ لوگ بھیڑ سے گھبرا اُٹھتے ہیں، شور و غل سے دور بھاگتے ہیں لیکن وہ شاید اُن سے مختلف تھا، الگ تھا۔ وہ ایسے میں دور نہیں بھاگتا تھا مگر لوگوں کے جم غفیر میں بھی اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرتا تھا۔ اُس نے کئی بار کوشش کی کہ وہ اس اکیلے پن کے خول سے باہر نکل آئے، اس مصنوعی لبادے کو اُتار پھینکے مگر وہ جانے انجانے میں ان زنجیروں میں جکڑ کے رہ گیاتھا۔
ویسے بچپن ہی سے خاموش اور کھویا کھویا رہنا راج کی عادت تھی۔ وہ ہم جماعت اور دوستوں کی محفل میں بیٹھتا ضرور تھا، اُن کی باتیں سُنتا تھا لیکن اُسے ہمیشہ محسوس ہوا تھا کہ وہ سب ایک ہی لائین پہ سوچتے ہیں، جیسے سب ایک ہی راستے کے مسافر ہوں، جیسے سب کی ایک ہی منزل ہے۔ اُن کے موضوعِ گفتگو سیکس، فلمز، مذہب، سیاست، اقتصادیات کے سوا کچھ نہ ہوتے تھے۔ وہ کبھی بھی انسانی زندگی یا انسانوں کی ذہنی کیفیت، دنیاوی رسم و رواج یا سوسائٹی کے دقیانوسی اصولوں کے بارے میں بات نہیں کرتے تھے۔ گو وہ بھی کبھی کبھی اُن کی بحث میں ایک آدھ بات کرنے پر مجبور ہوجاتا تھا مگر اُسے اکثر محسوس ہوتا تھا کہ اُس کے راستے اِن لوگوں سے الگ ہیں۔
راج نے یونیورسٹی سے پولیٹکل سائنس میں ایم اے کرنے کے بعد سٹیٹ ایڈمنسٹریٹو سروس کا امتحان بھی پاس کرلیا تھا اور وہ انڈر سکریٹری کے عہدے پر تعینات ہوگیا تھا۔
شروع شروع میں راج کو لگا کہ شائد یہی اُس کی منزل ہے مگر وہ ایک بار پھر اُسی مایوسی کا شکار ہوگیا۔ دفتری کام کے باوجود احساسِ تنہائی نے اُس کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
اصل میں یہ تنہائی کا معاملہ بھی محض ایک احساس ہے ورنہ اگر غور سے سوچا جائے تو کوئی بھی شخص دنیا میں اکیلا نہیں ہے۔ ہر کسی کے ذہن میں ہر وقت خیالات کا لامنتہائی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ آپ کسی ایک خیال کو ذہن سے جھٹک دیں تو دوسرا خیال آدھمکتا ہے۔ یہ خیالات کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ ذہن کو قابو کئے رکھتے ہیں چاہے وہ یادوں کی صورت میں ہوں یا پھر کسی اور شکل میں، کبھی اقتصادی مسائل کی شکل میں تو کبھی سماجی مسائل کی صورت میں یا پھر دیگر چھوٹے چھوٹے انگنت مسائل کے طورپہ، غرضیکہ آپکا ذہن کبھی خالی نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ نیند میں بھی خواب ذہن کو جکڑے رکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں اکیلے پن کا تصور ہی فوت ہوجاتا ہے۔
ایسا لگتا ہے راج کا اکیلا پن شائد مجازی کمی کا احساس تھا ورنہ اُس کے پاس بھی خیالات کی کمی نہیں تھی۔
راج کی زندگی کا المیہ یہی تھا کہ اُسے ایک ایسی منزل کی تلاش تھی جس کا راستہ وہ ابھی تلاش نہیں کر پایا تھا اور شائد یہی وجہ تھی کہ وہ نئی تبدیلی کو قبول کر لیتا تھا، ہر نئے راستے پہ چل نکلتا تھا۔ اِس جستجو نے اُس میں احتجاج کی قوّت کو سلب کردیا تھا۔ شائد یہی ایک وجہ تھی کہ جب اُس سے شادی کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس نئی تبدیلی کے لئے تیار ہوگیا تھا۔ اُس نے شادی کو بھی ایک نیا تجربہ، ایک تبدیلی ، ایک موڑ سمجھ کے ہاں کردی تھی۔
شیلا گھر میں آئی تو کچھ دنوں تک ماحول میں تبدیل آگئی۔ چاہتے ہوئے بھی وہ اپنے دل کی کیفیت شیلا پہ ظاہر نہیں کرپایا۔ کچھ دنوں بعد اُسے لگا کہ یہ نیا موڑ بھی اُسے راس نہیں آیا۔ وہ پھر سے کھویا کھویا رہنے لگا۔ شروع شروع میں شیلا نے راج کی اس حالت کو شک کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کردیا مگر کچھ عرصے بعد اِسے راج کی عادت سمجھ کے قبول کرلیا۔ اُس نے کئی بار راج کی اِس خاموشی، کھوئے پن اور بے چینی کی وجہ جاننا چاہی لیکن کوئی تسلّی بخش جواب نہیں ملا۔
اب راج کو یہ فکر بھی لاحق ہونے لگی تھی کہ اُس کے اس رویئے اور عادات سے شیلا پریشان رہنے لگی ہے۔ اب وہ اپنے آپ کو شیلا کی نظروں میں مجرم سمجھنے لگا تھا۔ اُس نے دل کو لاکھ سمجھایا، اپنے ذہن کو تیار کیا کہ وہ شیلا کے حقوق کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ اُسے ہر وہ چیز مہیا کرے گا جس کی وہ مستحق ہے۔ بیوی شیلا اُس کی اس بناوٹ کو بھانپ گئی لیکن کچھ کہہ نہ سکی۔ ایسے بے چاری کر بھی کیا سکتی تھی کیونکہ اُسے پتی کا روگ ہی معلوم نہیں تھا۔
راج ایک قابل اور محنتی آفیسر تھا۔ دفتر اور محکمے میں سب اُسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے کیونکہ اُس نے اپنی پریشانی یا حالت کو کبھی بھی اپنے دفتری معاملات میں حائل ہونے نہیں دیاتھا لیکن پھر بھی اپنے روگ کو اپنے آفس والوں اور محکمے کے ملازمین کی نظروں سے بچا کے نہ رکھ سکا تھا۔ لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے تھے اور شکوک میں مبتلا تھے۔ کوئی کہتا تھا کہ راج صاحب کی اپنی بیوی سے نہیں بنتی، کوئی کہتا تھا کہ وہ گھریلو پریشانیوں میں جکڑا ہو اہے۔ کچھ تو یہاں تک بھی کہتے تھے کہ راج صاحب کسی دوسری عورت کے عشق میں مبتلا ہیں اور اُن کی شادی اُن کی مرضی کے خلاف ہوئی ہے۔
اُس کے دفتر ساتھیوں، آفسیروں اور دوستوں نے کئی بار اُس سے اُسکے کھوئے پن اور خاموشی کی وجہ جاننا چاہی لیکن اُس نے انہیں ہمیشہ ٹال دیا۔ وہ اپنے بارے میں اُڑائی گئی افواہوں کو سُنتا تو دل ہی دل میں لوگوں کی باتوں پر ہنس دیتا۔ وہ سوچتا کہ لوگوں کی سمجھ بھی عجیب ہے بھلا انسان کے خاموش رہنے کی وجہ صرف عشق، گھریلو مسائل یا دنیاوی جھگڑے ہی ہیں؟ بغیر کسی فکر، پریشانی یا غم کے بھی کبھی کبھی انسان کا جی خاموش رہنے کیلئے اصرار کرتا ہے۔ خاموشی بھی تو اپنے آپ سے بات کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اُسے ایسا غلط سوچنے والوں کی تنگ نظری پہ ترس آتا تھا۔
راج کو اس بات کا بھی دُکھ تھاکہ اُس کے قریب ترین ساتھی اور بچپن کے دوست بھی اُس کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ جبکہ کچھ نے اُس کے اِس راز کو جاننے کیلئے طرح طرح کی ترکیبیں سوچیں، پکنک پروگرام بنائے مگر راج یا تو ایسے ہنگاموں سے گریزکرتا تھا یا پھر محض رسماً ساتھ ہولیتا تھا۔ کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ وہ کسی نہ کسی بہانے پنکنک ادھوری چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔
کچھ عرصہ بعد جب ایک رات وہ حسبِ معمول دیر سے گھر لوٹا تو اُس نے شیلا کو درد سے کراہتے پایا۔ اُس نے وجہ پوچھی لیکن اُسے کوئی جواب نہیں ملا کیونکہ اُس کے رُوکھے پن سے اب شیلا بھی اُکتا چکی تھی۔ وہ تو اب راج سے کچھ کہناہی فضول سمجھتی تھی کیونکہ اُسے اب اپنت پتی سے کسی ہمدردی کی کوئی اُمید نہیں تھی۔ ایسے حالات میں اُس نے مزید اصرار نہیں کیا مگر جب شیلا کی حالت ابتر ہونے لگی تو راج نے نیچے جاکے ماں کو جگایا اور اُسے شیلا کی تکلیف کے بارے میں بتایا۔ ماں دوڑی دوڑی شیلا کے پاس آئی اور بُہو نے جونہی ماں کو دیکھا تو وہ پُھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔ ماں نے شیلا کو گلے لگایا اور دلاسہ دیا۔
فوراً لیڈی ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ ڈاکٹر اور اُس کے ساتھ آئی ہوئی نرس شیلا کے پاس بیٹھے رہے اور وہ درد سے کراہتی رہی۔راج کمرے سے باہر جاکے اوپر کوٹھے پہ بیٹھ کر تاروں بھرے آسمان کو دیکھا رہا۔ اُسے اب معلوم ہوچکا تھا کہ شیلا کا بچہ ہونے والا ہے اور وہ باپ بننے والا ہے۔
اگلی صبح وہ گھر والوں کو بتائے بنا اور بچے کی پیدائش کا انتظار کئے بنا ہی گھر سے نکل پڑا۔ اِدھر اُدھر وقت گذارنے کے بعد ٹھیک آفس ٹائم پہ دفتر جاپہنچا۔ دفتر داخل ہوتے ہی گھر سے اطلاع آگئی کہ اُس کے ہاں بچہ پیدا ہو اہے اور وہ ایک لڑکے کا باپ بن گیا ہے۔ دفتر کے لوگ دوڑے دوڑے اُس کے کمرے میں آن پہنچے اور سب نے مبارکباد دی اور ساتھ ہی مِٹھائی کی فرمائش کی۔ کچھ چاپلوس قسم کے ملازمین پہلے ہی سے مٹھائی کے ڈبے لے کے آن پہنچے تھے جو بعد میں سب دفتر والوں میں بانٹی گئی۔
دفتر میں بیٹھنے کے بعد اُس کا دل کسی کام میں نہیں لگ رہا تھا۔ ایک انجانی سی کشش اُسے گھر کی طرف کھینچ رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ چُھٹی لیکر گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
گھر پہنچتے ہی وہ جونہی اپنے کمرے میں داخل ہوا تو اُس نے شیلا کو اپنے بستر میں پلنگ پہ دراز دیکھا، پاس ہی اُس کی ماں بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر اور نرس جاچکے تھے۔ اُسے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ اُسی کا بچہ ہے۔ کچھ لمحوں کیلئے راج خاموش کھڑا رہا۔ کسی نے اُس سے کچھ کہا نہیں۔ اچانک ایک انجان سی کشش نے راج کے دل و دماغ میں عجیب سا سماں پیدا کردیا اور وہ بے خودی کے عالم میں پالنے کی جانب لپکا۔ اُس نے فوراً بچے کو اپنی گود میں اُٹھالیا اور بے ساختگی میں فرطِ مسرت سے اُسے چُومنے لگا۔ آج اُسے پہلی بار خون کی کوشش کا احساس ہوا تھا۔ بچے نے آنکھیں کھولیں جیسے اُس سے کہہ رہا ہو ’’پاپا آپ کہاں تھے؟‘‘ ۔ راج کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب راج نے کسی بچے کو گود میں اُٹھایا ہویا چُوما ہو۔
راج نے بچے کو واپس پالنے میں رکھ دیا اور خود پاس ہی رکھی کُرسی پہ بیٹھ گیا اور ٹکٹکی باندھے بچے کو دیکھتا رہا۔ آج اُسے عجیب سی کیفیت کا احساس ہورہا تھا اور لگ رہا تھا جیسے اُس کی تنہائی کابُت ایک معصوم پیار کی تپش سے پگھلنے لگا ہے۔
اُس کے اِس رویے اور تبدیلی پہ ماں اور شیلا حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھیں۔

���
سرپوش، اولڈ ائرپورٹ روڑ، رالپورہ، سرینگر
موبائل نمبر؛9419011881

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
عمر عبداللہ کی ’’آئی اے ٹی او‘‘وفد کے ساتھ ملاقات
تازہ ترین
ایرانی فوج کے سربراہ شادمانی کی موت: اسرائیل
بین الاقوامی
کشمیر کی سیاحت کو سپورٹ کرنا ہماری ذمہ داری ہے:آئی اے ٹی او
تازہ ترین
ایران نے اسرائیل پر اب تک 700 ڈرون حملے کئے
بین الاقوامی

Related

ادب نامافسانے

قربانی کہانی

June 14, 2025
ادب نامافسانے

آخری تمنا افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

قربانی کے بعد افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

افواہوں کا سناٹا افسانہ

June 14, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?