Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

سماوار کہانی

Mir Ajaz
Last updated: July 24, 2022 1:43 am
Mir Ajaz
Share
15 Min Read
SHARE

شبنم بنت رشید

وادی یمبرزل کے کسی گاؤں یا شہر میں منگنی یا شادی بیاہ کی تقریب میں، مہندی مایوں ہو یا ولیمہ یا نکاح کی مجلس، حج عمرہ پر جانے یا واپس آنے کا مبارک دن ہو یا لاڑلی بیٹی کے کان چھیدنے کا فنکشن۔ نذر و نیاز ہو یا زمین داری سے جُڑا کوئی خاص دن۔ تعزیت کی محفل ہو یا عیادت کا سلسلہ۔ ہال ہو یا پنڈال۔ موسم گرم ہو یا سرد ہر حال میں مہمانوں کی آمد اور شرکت پر انکے ادب اور احترام ، استقبال اور خوشی کا اظہار کرنے کے لئے میزبان کی طرف سے ایک چاندی کے فوارے کی طرح اپنی ایک مخصوص جگہ پر چینی کی خوبصورت پیالیوں اور یہاں کی رواتی روٹیوں کے ساتھ اپنے اندر دہکتے ہوئے انگارے لیے ہوئے کہیں سادہ تو کہیں منقش تانبے کا سماوار کہیں گلابی نمکین چائے۔ تو کہیں زعفرانی قہوے کی خوشبو سے فضا کو معطر کر کر کے اپنی اہمیت اور شان خود بیان کر رہی ہوتی ہے۔

یہاں کی دلہن چاہے ہائی کلاس سے تعلق رکھتی ہو یا کسی سفید پوش گھرانے سے اُسے تو شادی کے ابتدائی سات دنوں میں میکے کی طرف سے سستے مہنگے کی پرواہ کئے بغیر کچھ لوازمات کے ساتھ یہی سماوار پہلے تحفے میں دینے کی روایت ہے۔ اسے بھی تو سسرال میں بے صبری سے اس اہم اور منفرد تحفے کا انتظار ہوتا ہے۔ اصل میں اس روایت کے اندر دو خاندانوں کے جڑنے اور دلہا دلہن کے مستقبل میں خوشگوار اور کامیاب ازدواجی زندگی کی خواہش کا پیغام ہوتا ہے۔ سماوار کسے کہتے ہیں؟ اسکی بناوٹ کیسی ہے؟ اسکے سرخی مائل رنگ کو کیسے چاندی جیسے رنگ میں بدل دیا جاتا ہے؟ اس سے تو یہاں کا بچہ بچہ واقف ہے۔ رہی اس کی قیمت کی بات تو عام تانبے کی نسبت سماوار کے تانبے کی قیمت کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔ جتنا زیادہ وزن اتنی ہی زیادہ قیمت ۔ ہر جگہ کرایئے پہ دستیاب ہونے کے باوجود یمبرزل وادی کے ہر چھوٹے بڑے گھر میں موجود ہوتا ہے ۔کاروبار، روزگار اور روایات کے علاوہ یہاں قابل رشک مہمان نوازی اور سماوار کے درمیان کافی پرانا اور گہرا رشتہ ہے جس کا گواہ یہاں کا کاریگر، دوکاندار، خریدار، میزبان، مہمان اور سماوار ہی نہیں بلکہ ہمارا ماضی اور آج کا وقت بھی ہے۔ مگر وقت نہ ایک جیسا رہتا ہے اور نا ہی کبھی ٹھہرتا ہے۔ وقت کب، کیوں، کیسے اور کس وقت بدل جائے اس سے تو بنی آدم بالکل بے خبر ہے۔ کسی کے لیے یہ وقت کٹھن ہوتا ہے اور کسی کے لیے آسان اور مہربان۔ کبھی کبھی وقت انسان سے بڑے بڑے مشکل امتحان لے لے کر آگے بڑھتا ہے مگر وقت کے پاس ہی ہر مشکل کا حل ہوتا ہے اور وقت کے پاس ہی ہر زخم کا مرہم بھی ملتا ہے۔ اسے بھی تو اس مشکل وقت پر پیسوں کی سخت ضرورت تھی۔ وہ پیسوں کا انتظام کہاں سے کرے؟ اسکی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا تھا۔

محمد سلطان کا نام کافی مشہور تھا ۔ اسکی کافی عزت تھی۔ شاید اس لیے کہ وہ ایک اچھا انسان تھا یا پھر اس لئے کہ وہ ایک بہترین ہنر مند کاریگر تھا۔ بچپن سے ہنرمند ہاتھوں سےشاہ زمان کے کارخانے پر تانبے کی جاذب نظر چیزوں کے علاوہ چھوٹے بڑے سماوار گھڑتا تھا، جن کے بدلے شاہ زمان یہاں اور باہر کے کسی بڑے شہر میں اپنے شوروم پر فروخت کر کے خریداروں سے موٹی موٹی رقمیں وصولتا تھا۔ مگر محمد سلطان چند ہزار روپیوں کے عوض ایک ہی ڈگر پر خاموشی سے زندگی گزار رہا تھا.ساتھ ساتھ اپنی بیٹی کے مقدر سے بے خبر بڑے دھیان سے اُسکی تربیت اور پروش بھی کر رہا تھا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ حج پر جائے، اپنے اہل وعیال کو دنیا کی سیر کرائے۔ انکے دامن میں آسمان سے خوشیوں کے تارے لا لا کر بھر دے مگر عمر بھر اسکی کوئی بھی خواہش پوری نہ ہوئی۔ محمد سلطان نے زندگی بھر لوگوں کی فرمائش پر مختلف سائز کے بے شمار سماوار بنائے۔ مگر اب کی بار اسکی اپنی لاڑلی بیٹی کی باری آئی تو اس نے پیچھے مڑ کر اپنی بیتی زندگی پر ایک نظر ڈالی جو بالکل لاحاصل گزر چکی تھی۔ سامنے دیکھا تو مہنگائی ایک کالے بدصورت دیو کی طرح کھڑی تھی۔ پھر بھی اپنے ہاتھ پائوں مار کر اپنے مقدور سے بڑھ کر خرچ کرکے خوشی خوشی اپنی بیٹی کو گھر سے رخصت کیا۔

نیلوفر کا سسرال ایک اچھا اور کھاتا پیتا گھرانہ تھا۔ شاہانہ طرز پر گھر ہونے کے ساتھ ساتھ نیلوفر کا کشادہ کمرہ بھی بڑی نفاست سے سجایا گیا تھا۔ آج نہ جانے کیوں بیڈ پر بیٹھ کر نیلوفر نے اپنے کمرے کا بغور مشاہدہ کیا۔کمرے کے ماربل کے فرش پر ایک طرف خوبصورت قالین اور ایک طرف صوفہ۔ ایک دیوار کے ساتھ مہنگا ڈریسنگ ٹیبل اور دوسری دیوار کے ساتھ بڑا سا وارڑ روب جس کے بغل میں ایک شاندارشوالماری جس پر پہلے سے ہی تانبے، پیتل، لکڑی اور کانچ کی چھوٹی چھوٹی چیزیں سجائی ہوئی تھیں۔ کمرے کے ایک کونے میں ایک خوبصورت بھاری سیاہ اور سنہری گلدان اور دوسرے کارنر میں نیلوفر کے اَبا کے ہاتھوں سے بنایا گیا تانبے کا قد آور، منکش، نقرئی سماوار جس کو کارنر کے ٹیبل پر سجانے کا مشورہ ناصر نے دیا تھا کیونکہ ناصر چینی، مٹی اور تانبے سے بنی ہر چیز کا بڑا زبردست شوقین تھا۔ خاص کر یہ سماوار تو اسے بہت پسند تھا۔

شادی کے ابتدائی کئی سال سکون اور آرام سے گزرے۔ نہ کوئی غم اور نا ہی کوئی پریشانی۔ ہر طرف خوشیوں کا اُجالا تھا۔ نیلوفر کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ آنے والا وقت اسکے ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل کھیلنے والا ہے۔ نہ جانے کب، کیسے، کس وقت ناصر کو آوارگی کا روگ لگ گیا۔ سب سے پہلے اپنی عزت اور کاروبار کا ہی دیوالیہ نکال دیا۔ پھر نشے کی حالت میں گھر آنا شروع کر دیا۔ نشہ تو نشہ ہوتا ہے کچھ دیر بعد اتر ہی جاتا ہے۔ پھر وہ ایک اچھے انسان، اچھے شوہر، اچھے باپ کے تمام طور طریقے بالائے طاق رکھ کر پورے ہوش و حواس میں نیلوفر کے گہنوں پر ہاتھ مارنے لگا۔ جس کی وجہ سے گھر کے اندر ایک ان دیکھا خوف کا ماحول طاری ہونے لگا۔ نہ بڑوں کا لحاظ نہ عزت کا خیال نہ ہی اہل وعیال کے فرائض کا احساس۔ ماں باپ نا اہل بیٹے کی کرتوت دیکھ کر قبروں میں چلے گئے۔ دور ونزدیک کے رشتہ داروں نے ترکتعلقات کر کے نیلوفر کو مشکل اور اہم وقت پر دکھ کے پہاڑ پر اکیلے چھوڑ دیا۔ مگر وہ تو تھی ایک با ہوش لڑکی۔ چاہتی تو خود کو اور اپنی بیٹی کو اس ماحول سے نکال کر دور کہیں چلی جاتی۔ لیکن میکے چلے جانا تو دور کی بات وہاں بزرگ والدین کو بتانا بھی مناسب نہ سمجھا۔ اس لئے گھر یا گور، گھر کو ہی چننا پڑا۔ لیکن گھر کے اندر ناصر نے اسے زندہ درگور تو کردیا مگر اسے جی تے جی دفن ہونا قبول نہ تھا۔ دوسری طرف ایک آوارہ انسان کے ساتھ رہنا بھی آسان نہ تھا۔ دل کو مضبوط کرکے غموں سے سمجھوتا کرکے اسی زندگی کو اپنایا۔ آج وہ نامور کاریگر کی بیٹی اور اچھے گھر کی بہو ہی نہیں بلکہ خودار ماں بن کر اجنبی راستوں پر اپنی ننھی بیٹی کو گود میں لے کر اپنی عزت نفس اور کردار کا احساس لیے کام کرنے نکل پڑی۔ یہ سلسلہ کافی عرصے چلتا رہا اور وقت بھی وقت کی رفتار سے چلتا رہا۔ آخرکار پاگل پن کی ڈگر پرلا کر ناصر کو دوستوں نے اپنی دوستی سے بے دخل کر ہی دیا۔ پہلے ناصر کی بری عادتوں نے اور اب اسکے کالے پیلے چہرے، ہلکے کمزور بدن اور بگڑی دماغی حالت نے نیلوفر کے وجود کو کھوکھلا تو کر دیا پھر بھی اس نے دل میں فیصلہ کرلیا کہ پیسوں کا انتظام ہوتے ہی اس کا مکمل علاج کرائونگی۔ مگر دوسری طرف ان دونوں کی بیٹی ندا تعلیم اور عمر کے زینے طے کر تی گئ۔ اس سال بیٹی کو دسویں جماعت تک پہنچاتے پہنچاتے نیلوفر نےاطمینان کی سانس تو لے لی مگر اچھے نمبرات لا کر نداڈڑاکٹر بننے کے خواب دیکھنے لگی۔ نیلوفر جانتی تھی کہ حالات اور ماحول خوابوں پر بندشیں نہیں لگا سکتے مگر خواب دیکھنا انکے لئے آسان نہ تھا۔ کیوں کہ ندا کے خواب کا مطلب ہی تو مشکل مہنگی پڑھائی تھا جو نیلوفر کے لیے نہ مذاق تھا اور نا ہی آسان ورنہ نیلوفر اپنی ذہین بیٹی کے خوبصورت خواب کو نظرانداز کرنے کا خواب میں بھی کہاں سوچ سکتی۔

ندا نے خود ہی خاموشی سے سرکاری گرلز سکول میں داخلہ لے لیا اور دن رات محنت کرنے لگی۔ ابھی نیلوفر شوہر کی حالت دیکھ دیکھ کر ویسے ہی پریشان ہورہی تھی کہ اسکول کی ایک ہمدرد ٹیچر نے اس کو اسکول بلاکر کہا مجھے تمہیں مشورہ دینے کا کوئی حق نہیں مگر ندا کی محنت اور لگن دیکھ کر لگتا ہے کہ اس کا مستقبل تاب ناک ہوسکتا ہے مگر اس کے لیے سرکاری اسکول کی پڑھائی کافی نہیں۔ اس کے لیے پرائیویٹ ٹیوشن کی بے حد ضرورت ہے۔ اگر ممکن ہو سکے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیلوفر ٹیچر کی طرف بے چارگی اور بے بسی سے دیکھتی رہی۔ کوئی جواب دئیے بغیر گھر آکے خوب روئی۔ بس ایک بات سمجھ آئی کہ حالات سے مقابلہ کرنے کے باوجود حالات ہی انسان کو بے بس اور عاجز کر دیتے ہیں۔ سر پر چھت کے سوا ان ماں بیٹی کا کوئی آسرا نہ تھا۔ رشتوں کا خون تو بہت پہلے ہی سفید ہوچکا تھا۔ مگر ماں تو ماں ہوتی ہے۔ ہمدرد اور حوصلے والی ماں نصیب والوں کو ملتی ہے۔ نیلوفر نے اپنے آنسوں صاف کئے، اُٹھی اور الماری کھول کر اپنے زیورات کے ڈبوں کو ٹٹولنے لگی۔ مگر وہاں کچھ بھی نہ ملا کیونکہ بہت پہلے زیورات پہ تو ناصر اپنے ہاتھ صاف کرچکا تھا جس کی سزا وہ آج نیلوفر کے قدموں میں تڑپ تڑپ کر بھگت رہا تھا۔ بے بس ماں کو دیکھ کر ندا نے نیلوفر سے کہا ماں ڈاکٹر بننا یا نہ بننا مقدر کی بات ہے۔ آپ کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مجھ پر یقین کرلو میں خوب محنت کروں گی۔ اندر ہی اندر نیلوفر اپنی بیٹی کے مستقبل کے لئے اپنی جان بھی قربان کرنے کے لئے تیار ہوئی۔ اسلئے پریشان حال بت کی طرح کافی دیر بیٹھی رہی۔ اپنے ہاتھوں سے ہی اپنے چہرے کو رگڑنے لگی۔ اچانک اس کا ہاتھ اپنے کان کی طرف گیا تو اس کی جان میں جان آئی۔ کانوں میں پہنی دونوں بالیاں نکال لیں جو نہ جانے کیسے ناصر کی نظروں سے بچ کر آج تک موجود تھیں۔ انہیں فروخت کرکے ندا کو ٹیوشن جانے کے لیے راضی تو کر لیا مگر اس کے باپ کو اللہ کے بھروسے کیسے چھوڑ سکتی تھی۔ وہ جیسا بھی تھا، تھا تو انکا اپنا۔ کسی اپنے کی جان بچانے کے لیے گھر کی کوئی انمول چیز تو کیا جان تک بیچنے کی روایت بھی تو دنیا میں آج تک چلتی آرہی ہے۔ اس روایت کو پال کر نیلوفر بیتے دنوں کو واپس تو نہیں لا سکتی مگر اسے اپنا ایک اہم فرض نبھانا بھی تو مقصود تھا۔ وہ بالکل ٹوٹ گئی۔ شدید پریشانی کے عالم میں ادھر اُدھر اپنی نظریں دوڑائیں تو اسکی نظر سامنے کارنر میں ٹیبل پر رکھے اَبا کے ہاتھوں سے بنے سماوار پر پڑی۔ وقت اور حالات کی کافی دھول مٹی کی ایک پرت اس سماوار پر ہونے کے باوجود وہ ثقافت کا ، روایت کا خوشحالی کے موسم میں سخاوت کا، محبت کا اور بے بسی کے موسم میں اُمیدوں کا مجسمہ وہ نقرئی سماوار ایک شہکار لگ رہا تھا۔ سب شہکاروں میں الگ اور اعلی شہکار۔ ایک شہکار ہی تو ہوتا ہے یمبرزل وادی کا سماوار۔

���

پہلگام اننت ناگ
موبائل نمبر؛9419038028

 

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
امرناتھ یاترا :2025مرکزی داخلہ سکریٹری کا دورۂ سری نگر، سیکورٹی انتظامات کا لیا جائزہ
تازہ ترین
ایران سے کشمیری طلباء کی واپسی کے لیے کوششیں جاری: آغا روح اللہ
برصغیر
اینٹی کرپشن بیورو نے آمدنی سے زائداثاثےبنانے کے الزام میں کپواڑہ میں پٹواری کے خلاف مقدمہ درج کر لیا
تازہ ترین
پہلگام حملے کے بعد احتیاطی طور بند کی گئیں کئی پارکوں کو دوبارہ کھول دیا گیا
برصغیر

Related

ادب نامافسانے

قربانی کہانی

June 14, 2025
ادب نامافسانے

آخری تمنا افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

قربانی کے بعد افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

افواہوں کا سناٹا افسانہ

June 14, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?