Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

فقیرنی کہانی

Mir Ajaz
Last updated: July 3, 2022 12:20 am
Mir Ajaz
Share
6 Min Read
SHARE

خوشنویس میر مشتاق

دو کمروں پر مُشتمل بوسیدہ گھر۔ گھر کی چھت پہ مکڑی کے جالے ۔ درودیوار بھی پھٹے ہوئے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے پچھلے کئی سالوں سے گھر کی کسی نےمرمت نہیں کی۔ جہاں جان اور کھانے کے لالے پڑے ہوئےہوں۔ وہاں گھر کی مرمت کون کرے گا؟
ہاں ! گھر میں کوئی دوسرا فرد ہوتا تو شاید ضرور کر لیتا۔ گھر میں کوئی کمانے والا بھی نہیں ہے۔ فقط اللہ کا واحد سہارا ہے۔ اور کسی کا سہارا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
میلے کچیلے کپڑوں میں ملبُوس ایسا لگ رہا ہے جیسے دُنیا جہاں کے سارے مسائل کو اپنے دامن میں سمیٹے لیے پھرتی ہو۔
کون کیا کررہا ہے۔؟
کیا پہن رہا ہے اور کیا کھا رہا ہے ؟
ہر وقت لوگوں کی فکر لاحق رہتی ہے۔
خُلوت ہو یا جلوت ہر وقت کچھ نہ کچھ بڑبڑا رہتی ہے۔ زبان کی اتنی تیز کہ ہر وقت چر چر کرتی رہتی ہے۔ بینائی کم ہوتے ہوئے بھی دُور سے ہی اندازہ لگا لیتی ہے کہ کون آرہا ہے ؟ اور کون جا رہا ہے۔ ؟ حافظہ اتنا اچھا جب کسی سے کوئی بات سُنتی تو وہ بات انہیں ہمیشہ کیلئے ازبر ہو جاتی۔ تاریخ کی اتنی پکّی کہ آئیندہ آنے والے دنوں کی گنتی بھی جھٹ سے کر لیتی۔
یہاں اچھے اچھوں کو رات کا کھانا ٹھیک طرح سے یاد نہیں رہتا۔ ایک تو یہ ہے جو عمر رسیدہ ہوتے ہوئے بھی پچھلے کئی مہینوں تو کیا سالوں کی خبر فورا سُنا لیتی ۔ پتہ نہیں یہ اتنا سب کچھ کیسے کرلیتی ہے۔ جب آس پاس کوئی نہیں ہوتا تو دل کی بھڑا س نکالنے کیلئے درودیوار سے باتیں کر لیتی ہے۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ کہتی رہتی ہے۔
باہر برآمدے میں بیٹھی دونوں ہاتھ ماتھے پہ لگائے سرگُوشی کے انداز میں ایسے کہہ رہی تھی جیسے سامنے سے کوئی سُن رہا ہو۔۔۔۔۔۔
“ہائے ! میری کم بختی ۔
میرا کیا بنے گا۔
میں اکیلی عورت کہاں کہاں پہنچو”۔۔۔!!!
ایک تو فلاں شخص ہے جس کے تین چار بیٹے ہیں، وہ بھی ہٹے کٹے اور تندرُست۔ چاروں بیٹے اچھا خاصا کما لیتے ہیں۔ خود کی بھی اچھی خاصی تنخواہ ہے۔ کسی چیز کی کمی بھی نہیں ہے۔ پرسوں ہی دو بیٹوں کی شادی تھی۔ مجال ہے کسی سے کھانے تک کا پوچھا ہو۔ غیر تو غیر ہے، محال ہے اپنی سگی بہن کو بھی کھانے کے لئے پوچھا ہو۔ ایسے ہی کوئی بڑا آدمی نہیں بنتا۔۔۔۔
سُنا ہے لڑکی والوں کی طرف سے اچھا خاصا جہیز بھی ملا ہے۔ ورنہ ! اُنہیں کس چیز کی کمی تھی جو اب لڑکی والوں کو بھی لُوٹ لیا ہے۔ اُن سے تو آج تک کسی غریب کا بھلا نہ ہو سکا میری کیا مدد کرے گا۔ یہاں سب لوگ ایسے ہی ہیں کوئی کسی غریب کا بھلا نہیں چاہتا۔
میں کیا کروں؟
کہاں جاؤں ؟
میرا اللہ کے سوا کون ہے ؟ جو میرا خیال کرے گا۔”
مجھے تو پچھلے کئی مہینوں سے راشن بھی نہیں مل رہا ہے۔ میں منشی کے پاس گئی تو تھی لیکن وہ کچھ ” فنگر پرنٹ ” کا کہہ رہا تھا۔ پتہ نہیں یہ ” فنگر پرنٹ “کون سے نئی بھلا ہے جس کے بِنا راشن ملنا بھی دُشوار ہو گیا۔ بیڑہ غرق ہو ایسی حکومت کا جو غریب کی مجبوری کو نہیں سمجھ سکتی۔ آج بھی راشن ایک پڑوسی سے مانگ کر لائی تھی۔ اُس میں بھی آدھا کسی فقیر کو دے دیا۔
بار بار کسی سے تو نہیں مانگا جاتا۔ یہاں امیر کبیر لوگوں کے پاس چار چار “راشن کارڈ” ہیں حالانکہ اُنہیں “راشن کارڈ ” کی اُتنی ضرورت تو نہیں ہوتی ہے جتنی کسی مجبور اور قلاش کو ہوتی ہے۔ یہی لوگ راشن اسٹور پر لمبی لمبی قطاروں میں ایسے پڑے ہوتے ہیں جیسے صدیوں سے بھوکے پیاسے پڑے ہو۔ اگر میرا اپنا راشن کارڈ ہوتا ۔ تو شاید مجھے یوں کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے پڑتے ۔ اور نہ ہی میں لوگوں کے احسان تلے ہوں دبی رہتی۔
یہاں تو لوگ بظاہر نیک اور سخی معلوم ہوتے ہیں لیکن اندر سے یہ لوگ اُتنے ہی ڈھیٹ اور خود سر ہوتے ہیں۔ اپنے سوا کسی کا بھلا نہیں چاہتے۔ یہاں انسانیت کا جنازہ کب کا اُٹھ گیا ہے ۔ابنِ آدم اپنی نام نہادی کی خاطر دکھاوے کی ہمدردیاں بانٹتے پھر رہا ہے جبکہ بات اس کے برعکس ہے۔ یہ سب تماشہ دیکھ کر آسمان بھی گریہ کُناں ہے کہ کس قدر ابنِ آدم سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی خاموشی سے غریب کا تماشائی بن بیٹھا ہے۔ اُسےشاید ! اس بات کا عِلم نہیں ہے کہ آج جس کا وہ تماشائی بن بیٹھا ہے کل وہ خود تماشہ بن جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
���
ایسو ( اننت ناگ)،[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
امریکہ کا ایران کے جوہری ری ایکٹر کو بنکر بسٹر بم سے تباہ کرنے پر غور
برصغیر
جو غزہ میں کیا وہ ہی ایران میں بھی کرینگے: اسرائیلی فوجی ترجمان کی دھمکی
برصغیر
ٹرمپ کا ایران سے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان، معاہدہ قبول کرنے کا مشورہ
برصغیر
امرناتھ یاترا کے لیے بھگوتی نگر بیس کیمپ مکمل طور پر تیار: ڈی سی جموں
تازہ ترین

Related

ادب نامافسانے

قربانی کہانی

June 14, 2025
ادب نامافسانے

آخری تمنا افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

قربانی کے بعد افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

افواہوں کا سناٹا افسانہ

June 14, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?