کشمیر میں مزاحمتی تحریک میں پچھلے چار مہینوں سے جو شدت آ،ئی اُس سے جہاں سماج کے دوسرے شعبے متاثر ہوئے، وہاں تعلیمی نظام بھی متاثر ہوا ۔ہر تعلیمی نظام کا ایک سالانہ کلینڈر ہوتا ہے جس کلینڈر کے تحت سال بھر میں مختلف تعلیمی مراحل طے ہوتے ہیں ۔ان مراحل کا تعلق تعین شدہ نصاب سے ہوتا ہے ۔مرحلہ وار نصاب کی تکمیل سے تعلیمی سال کے آواخر میں طلباء امتحانات کے لئے تیار ہوتے ہیں ۔کشمیر میں ظاہر ہے ایجی ٹیشن سے تعلیمی کلینڈر کے وہ مراحل طے نہیں ہو سکے جن سے تعین شدہ نصاب کی تکمیل اور امتحانات میں طلبا کی شمولیت ممکن ہو سکتی لیکن اس کے باوجود ریاستی محکمہ تعلیم کا اصرار ہے کہ طلباء امتحانات میں شامل ہو جائیں۔طلبا ء کی اکثریت کی امتحانات کے ضمن میں عدم تیاری کامعاملہ،حکومت کا امتحانات پراصرار ،ایجی ٹیشن میں طلبا ء کی جسمانی مضروبیتیں، ان کی گرفتاریاں ایسے کئی معاملات ہیں جواس وقت کشمیری سماج کو در پیش ہے ۔ اصولی طور ہمارا اجماع ہے کہ تمام طالب علم ہمارا مستقبل ہیں اور مستقبل کو محفوظ بنانے کی سعی ایک قومی فریضہ ہے ۔
ریاستی محکمہ تعلیم کی کوشش کہ جیسے تیسے طلباء امتحانات میں شامل ہو جائیں در اصل خلوص نیت پہ مبنی نہیں بلکہ مقصود یہ دکھانا ہے کہ ریاست میں حالات نارمل ہیں جب کہ کوئی عقل کا اندھا بھی کشمیر کو نارمل نہیں کہہ سکتا ۔حالات کو نارمل ظاہر کرنے کی سعیٔ نامشکور میں حکومت طلبا ء کے مستقبل سے کھیل رہی ہے اور امتحانات میں زیادہ سے زیادہ طلباء کی شمولیت کو ممکن بنانے کے لئے طرح طرح کی رعائتیں طلبا کو دی جا رہی ہیں۔ چناںچہ جہاں وزیر تعلیم طلبا کی مجبوریوں کو مد نظر رکھے بغیر سیاسی شطرنج بچھانے میں مصروف ہیں، وہیں ریاستی وزیر اعلیٰ نصاب میں نرمی برتنے کے مہرے کو آگے بڑھانے کی سعی میں مصروف ہیں ۔دہلی کے حکومتی ایوانوں سے بھی احکامات جاری ہو رہے ہیں کہ تعلیمی نظام کو فی الفور پٹری پہ لایا جائے اور ظاہر ہے دہلی کے احکامات کو بجا لانا ریاستی حکومت کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ وزیر اعظم نریند مودی کا یہ ماننا ہے کہ طلباء کے ہاتھ میں پتھر کے بجائے لیپ ٹاپ ہونا چاہیے، اس پند و نصائح میں بھی خلوص نیت کا کوئی عمل دخل نہیں ۔دہلی کے پند و نصائح میں خلوص ہوتا تو جہاں ہاتھوں میں کتاب اور لیپ ٹاپ کی بات ہوتی ، وہیں دہلی سے فورسز کو مزاحمتی جلسے جلوسوں یا گھروں میں گھس کر طالبعلموں کو نشانہ بنانے کی چھوٹ نہ ملتی ، معصوم بچوں اور بچیوں کی آنکھیں پیلٹ کا نشانہ بنانے سے پس وپیش ہوتا ، جب کہ یہ وہیں آنکھیں جن سے طلبا وہ کتابیں پڑھ سکتے۔رہی ایجی ٹیشن میں طلبا ء کی شمولیت کی بات ، پوچھا جا سکتا ہے کہ بھاجپا کا اگر یہ نظریہ ہے کہ سیاست میں طلباء کو شامل نہیں ہونا چاہیے تو بھاجپا کی طلبا شاخ اکھل بھارتیہ ودھیارتھی پریشد کا بھارت کے طول و عرض میں پھیلاؤ کس غرض سے کروایا جا رہا ہے؟ اس ودیارتھی پریشد سے بھاجپا سیاست کا اُتار چڑھاؤ جڑا ہے، لہٰذا اگر عام کشمیری طلبا ء اور نوجوانوں کو کشمیر کے سیاسی حل میں تاخیر اور اڑچنوں سے اپنا مستقبل مخدوش نظر آ رہا ہے تو ان کا گناہ کیا ہے ؟ کشمیری طلبا کی سیاست میں شمولیت ادنیٰ مسائل کی برآوری کے لئے نہیں بلکہ سیاسی حقوق کی باز یافت کیلئے ہے جب کہ دھیارتھی پریشد نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی و بھارت کی دوسری دانش گاہوں میںہندتوا ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے طلبا ء کی منتخبہ تنظیموں کا قافیہ تنگ کیا ہوا ہے اور تشدد کو بھی روا رکھا جارہاہے، ان جمہوریت مخالف سرگرمیوں کی اعلانیہ پشت پناہی بھاجپا کے زیر دست ریاستی اداروں سے ہورہی ہے۔اگر بھاجپا کیلئے پریشدکی کوئی بھی خلاف قانون حرکت چاہے وہ تشدد آمیز ہی کیوں نہ ہو، قوم پرستی کا اظہار ہے تو کشمیری طلباء کا حقِ حیات چھین کر لیپ ٹاپ کی باتیں کر نا خود میاں فصیحت و دیگراں نصیحت کے زمرے میں آتا ہے۔مرکزی حکومت کے تمام احکامات بجا لانے میں پی ڈی پی بے تاب نظر آ رہی ہے، خاص کر تعلیمی شعبے میں کہ جس سے کشمیر کا مستقبل وابستہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ طلبا ء اور تعلیمی نظام پہ ہمارے کرم فرما ریاستی اداروں کی توجہ مرکوز ہے اور دسوینا ور بارہویں کے امتحانات میں عجلت کا سبب بھی یہی ہے ۔ پی ڈی پی دہلی کے خاکوں میں رنگ بھرنے میں بھر پور معاونت دے رہی ہے کیونکہ عوامی ساکھ کے بجائے اس کے لئے دہلی سرکار کی پشت پناہی اس کا اثاثہ بنی ہوئی ہے ۔ صورت حال یہ ہے کہ پی ڈی پی نے بھاجپا کو حکومتی گٹھ بندھن کے روپ میں گلے لگا کر ہندتوا ایجنڈے کی بر آوری کیلئے سنگھ پریوار کو کشمیر گھاٹی میں راہداری فراہم کی ۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ بے جوڑ شادی ابھی ابتدائی مراحل میں ہی تھی کہ کشمیر میں تحریک مزاحمت نے ایسی شدت اختیار کی کہ پی ڈی پی کا وادی کشمیر میں جو بھی سیاسی بیس تھی وہ ڈھ گئی ، بالخصوص جنوبی کشمیر میں جسے پی ڈی پی نے اپنی سیاسی گڑھ بنایا تھا پی ڈی پی کے لئے ہزیمت کا مر کز بناہے ۔
اپنے انتخابی وعدوںکے برعکس پی ڈی پی نے بھاجپا کے ساتھ حکومتی گٹھ بندھن کر نے کے بعد سیاسی بے اعتباری کی بد ترین مثال قائم کی جس سے نوجواں نسل اور طلبا ء سماج کے دوسرے طبقات سے بڑھ کر بد گمان وبدظن ہو گئے، کیونکہ ان کو لگا کہ پی ڈی پی نے ان سے وشواس گھات کیا، پہلے بھاجپا کو ووٹ نہ دینے کی مسلسل صلاح دی پھر پارٹی اسی کے زلفوں کی ا سیر ہوگئی ۔ اتنا ہی نہیں اس کے سائے اور آشیر باد سے ریاستی تشدد کا شکار بھی بیشتر طلبا ء و نو جوان ہی بنے۔ چار ماہ طویل مزاحمتی تحریک میں یہی دیکھنے میںآیا جہاں کم و بیش سو جوانوں کو ابدی نیند سلادیا گیا ، وہاں ہزاروں نوجوان زخمی ہوئے ۔ان میں سب سے درد ناک وہ مجروحین ہیں جو اپنی بصارت کھو بیٹھے ہیں ۔ اسی پر بس نہ ہوابلکہ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان پابند سلال کئے گئے ۔ محبوسین میں سینکڑوں ایسے نوجوان ہیں جو پی ایس اے جیسی بد نام زمانہ تعزیر کی زد میں لائے گئے ۔ اس کالے قانون کی رو سے دو سال تک عدالتی توثیق کے بغیر حکومت کسی بھی شہری کو بنا کوئی وجہ بتائے بھی قیدمیں رکھنے کی مجاز ہوتی ہے ۔طلبا ء اورجواں نسل کا کسی بھی تحریک میں ہراول دستہ بننا کشمیر تک ہی محدود نہیں بلکہ تاریخ عالم اس حقیقت کی گواہ ہے کہ سیاسی تغیرات طلبا ء اور نوجوانوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہوتے ہیںْ اس لئے کسی بھی حکومتی نظام کا یہ سوچنا کہ اس کی خون ریزی، جیل اور زندان سے طلباء اور نو جوانوں پر روک لگانا ممکن ہے، محض خام خیالی اور طفل تسلی ہے ۔
تاریخی حقائق کی نقاب کشائی کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ کشمیر کے طلباء مسلٔہ کشمیر کے دائمی حل تک تعلیمی پیش رفت سے محروم رہیں یا امتحانات میں شریک نہ ہوں بلکہ ہر ذی حس کشمیری کی یہی خواہش ہے کہ سیاسی حقوق کے حصول کی جدوجہد حصول تعلیم وتدریس کے آڑے نہ آئے،نہ ہی امتحانات میں کسی قسم کا رخنہ در آئے ،البتہ طلبا کی مشکلات کو ریاستی اداروں کے کڑوے کسیلے عزائم کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا ۔ دیکھا یہ جا رہا ہے کہ نامساعد حالات کے چلتے طلباء کی مشکلات کو مد نظر رکھنا تو دور کی بات، ریاستی ادارے سیاسی حلوے مانڈے کی فکر میں طلباء کی مشکلات کی اَن دیکھی کر رہے ہیں۔ریاستی اداروں کا ہدف فقط حالات کو امتحانات کے وسیلے سے نارمل ثابت کرنے تک محدود ہے اور اس کے لئے نومبر کے وسط میں امتحانات لینے کی تیاریاں زور وشور سے کی جا رہی ہیں، یہ دیکھے بغیر کہ طلبہ نے مقرر شدہ نصاب کا تیسرا حصہ بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا ۔ سرکاری ادارے اس تلخ حقیقت کے باوجود دکھاوے کے امتحانات لینے پہ تلے ہیں کہ امتحان دینے والے کئی طالب علم مجروحین میں شامل ہیں اور کئی ایسے بھی ہیں جو پابند سلال ہیں ۔ ایسے حالات میں ا ن کا امتحانات میں شامل ہونا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے ۔ان حقائق کو نکارتے ہوئے امتحانات لینا حقوق انسانی کی صریحاََ خلاف ورزی ہے، گر چہ ایک ایسے سیاسی نظام سے حقوق انسانی کی پاسداری کی توقع رکھنا احمقوں کی دنیا میں رہنے کے متراوف ہے جو پُر امن مظاہرین اور احتجاجیوں کو اپنے سلب شدہ حقوق کی باز یابی کی آواز اٹھانے کی پاداش میں کوئی بھی حد پھلانگنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے۔
کشمیر میں آئے روز کے ناخوشگوار حالات میں ہر صورت میں نومبر میں امتحانات منعقد کروانے کی مہم جو ریاستی اداروں نے شروع کر رکھی ہے ،اُس میں زیادہ سے زیادہ طلبا کی شرکت کو یقینی بنانے کیلئے پہلے تو یہ کہا گیا کہ نصاب میں پچاس رعایت دی جائے گی یعنی پورے امتحان کے بجائے نصف امتحان لینے کی پیشکش کی گئی ۔ یہ امتحان نہ ہوا مذاق ہوا، اور جب وزیر تعلیم اور حکومتی ترجمان نعیم اختر کی پشت پناہی میں وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے طلبا ء کو بہلانے کیلئے نصاب میں رعایت دینے کی پیشکش کی تو سماج کے سنجیدہ حلقوں میں کئی سوال امتحانات کے ضمن میں اُبھر آئے۔ مثلاً سنجیدہ حلقوں نے محسوس کیا کہ تعلیمی نظام کو چرخانے کی ذمہ داری حکومت پہ عائد ہوتی ہے اور امتحانی عمل ایسے اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے جو ہمیشہ اور ہر صورت میں سیاسی مداخلت سے آزادہوں ۔ دنیا بھر میں امتحانات کیلئے الگ ادارے ہوتے ہیں جو حکومت کے تابع ِ فرمان نہیں بلکہ خود مختار ہوتے ہیںاور اس خود مختاری کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ امتحانات جیسا سنجیدہ عمل کسی بھی سیاسی قیل وقال سے مبرا رہیں۔اسی اصول کی تقلیدمیںہمارے ہاں بورڑ آف سکنڈری ایجوکیشن (Board of Secondary Education :BOSE) نامی ادارہ ہے ۔ امتحانات کب ہوں؟کیسے کنڈکٹ کئے جائیں ؟ کس قسم کا طریقہ کار اپنایا جائے ؟یہ ریاستی وزارت تعلیم کے اختیارات میں نہیں آتا بلکہ یہ بورڈ کے فرائض اور ذمہ داریوں ہوتی ہیں۔بورڈ آف سکنڈری ایجوکیشن کا اپنا ایک چیئرمین ہے، جو ظاہر ہے ماہر تعلیم ہونا چاہیے ۔ بورڈچیئرمین گو کہ وزارت تعلیم سے ہی نامزد کیا جاتا ہے لیکن اصولاََ وہ اور بورڈ کے دوسرے ممبران وزارتِ تعلیم کے کنٹرول سے ماوراء ہوتے ہیں ۔ جب امتحانی اداروں کی یہ قانونی نوعیت ہے کہ وہ سیاسی کنٹرول سے مبرا ہیں، تو پوچھا جا سکتا ہے کہ بورڈ آف سکنڈری ایجوکیشن کے بجائے ریاست کے سیاسی اداروں نے بورڈ سے پہلے ہی امتحانات کے ضمن میں اپنی رائے کیوں ظاہر کی ؟ یہ سچ ہے کہ بعد میں بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن نے بھی وہی کیا جو سیاسی اداروں کا فیصلہ رہا اور چیف منسٹر صاحبہ نے نصاب میں جورعایت کا وعدہ کیا تھا ،اس کی بر آوری ایک مختلف طریقے سے کی گئی۔امتحانی پرچوں میں چار طرح کے سوالات ہوتے ہیں:لانگ (لمبے) شارٹ (چھوٹے) ویری شارٹ ( بالکل چھوٹے) اور ابجکٹیو (Objective)ٹائپ۔ بورڈ کی طرف سے اعلان ہوا ہے کہ ہر قسم کے سوالات میں ایک لمبی چوائس ہوگی یعنی امتحانات کا یہا صل مقصد فوت ہوگا کہ ممتحن کی ذہنی صلاحیت اور فہم وادراک کی صحیح جانچ پڑتال ہو ۔
ریاست کے سیاسی اداروں کی یہ امتحانی قلا بازیاں ڈر ہے ہمارے عزیز طلباء کے گلے کا ہار نہ بن جائیں۔ پوراامتحان نہیں آدھا امتحان ہونا اور اس کے نتائج پہ ہمیشہ ایک سوالیہ بنا رہے گا۔جو طلبا ایک ایسے امتحان میں بیٹھیں جو شک کے دائرے میں رہے، کامیاب ہو کے کل کسی نہ کسی صورت میں ڈاکٹر اور انجیئر بن بھی جائیں تو خدشہ یہی رہے گا کہ کہیں یہ آدھے ڈاکٹر اور آدھے انجنیٔر نہ کہلائیں؟ بورڈ کے چیر مین ظہور ژاٹھ صاحب سماجی حلقوں میں ایک شریف النفس ماہر تعلیم مانے جاتے ہیں ۔سیاسی قلا بازی میں ڈوبے ہوئے اس امتحان کے دفاع میں اُنہوں نے یہ کہا کہ نومبر میں امتحانات کے بعد طلبا ء کو انٹرنس کی تیاری کیلئے کافی وقت ملے گا ۔چیئر مین صاحب کی یہ دلیل معقول ہے ، البتہ اِس دلیل کے بطن میں بھی کئی سوالات ہیں جن پر غور و فکر کرنے سے ہمارے تعلیمی نظام و امتحانات کا کھوکھلا پن ظاہر ہوتا ہے ۔ واقعی یہ گنجلک صورت حال کسی تازیانے سے کم نہیں!انٹرنس ایک سکریننگ ٹیسٹ ہوتاہے ۔ جو طلباء انٹرنس میں شامل ہوتے ہیں،ان کا انتخاب پیشہ ورانہ ڈگری کورسز مثلاً ایم بی بی ایس ،انجیئرنگ کورسز کے لئے ہوتاہے۔ تقریباََ بیسویں صدی کے سترکے دَہے تک ہائر سکنڈری10+2)جسے اُس سے پہلے آرٹس میں ایف اے(F.A)اور سائنس میں ایف اے سی(F.Sc) کہا جاتا تھا، کے نتائج کو با اعتبار مان کے ان ڈگری کورسز کیلئے طلباء کا انتخاب بغیر کسی انٹرنس کیبراہ راست ہوتا تھا جیسا کہ بعض ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں ہائر سکنڈری(10+2) جسے برطانوی تعلیمی نظام میں اے لیول (A Level) کہا جاتا ہے، کے نتائج کی بنیاد پر سلیکٹ طلباء کو ڈگری کورسز کیلئیلے جایا جاتا ہے ۔ یہ امتحانات با اعتبار ہوتے ہیں اور وہاں امتحانی ادارات کسی بھی سیاسی مداخلت سے کلی طور مبرا ہوتے ہیں لیکن ہمارے یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے ۔ بنابریں اور تباہیوں کے بین بین یہاں دن بدن سال بہ سال امتحانات اتنے بے اعتبار ہو کر رہ گئے ہیںکہ کچھ سال قبل میڈئکل انٹرنس میں پیر بیچنے کاسیکنڈل تک منظر عام آیا جس میں اس وقت بوپی چیئر میں مشتاق پیر اب بھی مقدمات میں ماخوذ ہے ۔امتحانات کے تقدس کی پامالی کی یہ گھمبیر صورت حال دن بدن سال بہ سال تعلیمی نظام میں سیاسی مداخلت بڑھنے کی وجہ سے پیش آرہی ہے۔تعلیمی اور امتحانی نظام میں سیاسی کھلاڑیوںکے دسترس اور رسائی سے جتنا دور رکھا جائے اتنا بہتر ہے مگر حالیہ مہینوں میں عوامی ایجی ٹیشن میں شدت آنے سے امتحانات کو جس انداز سے سیاسی ڈھال بنایا جارہاہے، وہ افسوس ناک ہے ۔ اسی جوے کا ایک داؤ نومبر کے امتحانات کا حتمی اعلان ہے ۔ اس کے دوسرے ہی دن یہ خبر آئی کہ جو نومبر میں امتحان نہ دینا چاہیں ،وہ مارچ میں امتحان دے سکتے ہیں، البتہ ایسے امیدواروں کو کسی قسم کی نصابی رعایت نہیں دی جائے گی یعنی یہ آدھے کے بجائے پورے امتحانات ہوں گے۔ ان ہردواعلانات سے معصوم بچے اور بچیاں ایک عجیب نفسیاتی کشمکش اور ذہنی تناؤ میں آگئے ۔ اس بیچ حکومتی ایوانوں میں حقائق سے دور بیٹھے حکام میں سے کسی ایک کو بھی یہ خیال نہیں آیا کہ مارچ میں امتحانات کے اعلان ثانوی سے نومبر کے امتحانات پہلے سے بھی زیادہ بے اعتبار ہو گئے ہیں۔
Feedback on: [email protected]
�������