کسی نے کیاخوب کہاہے کہ ’’بے جرمی سے دشت میں ہزار ٹکڑے ہوئے ‘‘بے جرمی کی پاداش میں لگے زخم ایسے گہرے ہوتے ہیں کہ جن کی بخیہ گری ممکن ہی نہیں۔بے تقصیروں کوقیدمیں بندکرنے کے فلسفے سے یہ بات الم نشرح ہوجاتی ہے کہ قیدی بنائے جانے والے کے لئے یہ ہرگزضروری نہیں کہ وہ جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد ہی اس شرف سے بہرہ مند ہو، بلکہ نفس امارہ میں پائے جانے والے تعصب اورپھر تعصبانہ بنیاد پرکسی خود ساختہ اور مصنوعی فوقیت و برتری پرست گروہ کی تخلیق کردہ انا کی بنا پر کسی دوسرے رنگ، نسل یا ذات سے تعلق تعارف اورشناخت رکھنے پر اس کا نصیب زندان کی اونچی دیواروں کو تکنا ہی بن جاتا ہے ۔ چاہے12برس کی طویل مدت بھی گذرجائے لیکن زندگی کی بارہ بہاریں اس کی جیل میں ہی کٹ جائیں گی اوران بارہ بہاروں میں سربہ فلک اونچائیوں کو تکنے کے سوا،اس کے کوئی خواب ہیں اور نہ خواہشات کیوںکہ اسے اس کے زریں خواب اوردلکش خواہشات کی پوٹلی کو قبرجیسے عقوبت خانوں میں پٹخ دینے پرمجبورکیاجاتاہے۔آنکھوں میں بے پناہ ذہانت کی چمک لئے ہوئے سری نگر کے دو رہا شدہ محبوسین محمد حسین فاضلی اورمحمدرفیق شاہ اپنے زریں خواب اوردلکش خواہشات کی پوٹلی قبرجیسے عقوبت خانوں میں پٹخ دینے پرمجبورکئے جانے کی ان ہزاروں مثالوں میں سے ایک ہے کہ جوجرم بے گناہی کی سالہاسال سزاکاٹ کرواپس گھرتولوٹے ہیں لیکن ان کی زندگی اجڑگئی ۔ تہاڑ کے جس قیدخانے میں ان دونوں کی جوانی کی بارہ بہاریں ضائع ہوئیں ،وہ اس قید خانے کی تاریخ کی روح فرساتاریخ کامحض ایک اقتباس ہے۔یہ کیس دیگرکیسوں کی طرح جہاں پولیس کی لاقانونیت کے بارے میں سوسائٹی کو واضح کرتی ہے، وہیں اس سے مترشح ہوتا ہے کہ کس طرح پیروجوان کشمیری مسلمان ہونا ناقبال معافی جرم ٹھہرچکاہے ۔سری نگرہائی کورٹ بارکے صدر میاں عبد القیوم ،حقوق البشرکی مقامی تنظیم اور(APDP)کے صدرپرویزامروزکے دفاترمیں فائلیں اٹی پڑی ہیں کہ جن میں درج ہے کہ کشمیرکے کتنے فاضلی ،کتنے رفیق اورطارق ایسے ہیں کہ جوبے جرمی کی سزاکاٹ رہے ہیں !!!!!!!!
چندبرس قبل کشمیرمیں واردہونے والے ایک فرنگی وفد کے ریمارکس کے مطابق کشمیرویسے بھی ایک وسیع رقبے پرپھیلاہوا خوبصورت قید خانہ ہے۔ ایک ایساقیدخانہ کہ جس کے طول و عرض میں پھیلے بڑے بڑے قبرستان ،پہاڑی سلسلے، ندی نالے ،خوبصورت وادیاں،رت بدلنے والے موسم ،سرسبزمیدان ، بہتے دریا، امید کی فصلِ بہار سے لہلہاتے کھیت،عزت اور آبرو کے چور آبگینوں اور ظلم کی تاریکیوں میں ڈوبی انسانی بستیاں ، مگر اس امیدپرزندہ ہیں کہ آج نہیں توکل ان کی رت بدلنے والی ہے ۔یقینا جواب آئے گا اور قیدیوں کی رہائی کا سامان لائے گا۔یہ ایک ایسا قید خانہ ہے کہ جس کی باگ وڈور سنبھالنے اور قیدیوں کی سزا برقرار رکھنے کیلئے ہر چھ سال بعدایک نئی ظالم انتظامیہ لوگوں کے سروں پرمسلط کی جاتی ہے۔اس قیدخانے کی عجب کہانی یہ ہے کہ جب یہاں انتظامیہ بدل جاتی ہے تو اس قید خانے میں تعذیب کاایک نیاسلسلہ برپا ہوتاہے۔اس قیدی میں کئی پورے کے پور اجڑچکے ہیں، کئی آنکھیں بے نور اور کئی گودیں بے رونق ہوچکی ہیںاوراس کی بے رونقی اور پژمردگی میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔ اس وسیع وعریض قیدخانہ کشمیرسے صبح وشام ایک سریلی آوازسنائی دے رہی ہے ؎
قیدی ہو کر قفس کو چمن کہنے والا
اپنے غم کدے کو گھرجاننے والا
سلاخوں کے پیچھے سزا کاٹنے والا
پیدائشی مظلوم لقب پانے والا
نسل در نسل قید پانے والا
کیساسادہ مزاج ہے اورکیسا بھولا بالا
محمد حسین فاضلی اورمحمدرفیق شاہ کو16 ؍فروری 2017کودہلی کی پٹیالہ ہائوس کورٹ نے29اکتوبر2005کوہندوئوں کے مشہورتہواردیوالی کے موقع پر دہلی میں ہونے والے سلسلہ واربم دھماکوں کے الزام سے بری کر دیا ہے۔وہ گذشتہ بارہ برس سے تہاڑ جیل میں پابندسلاسل تھے، اگرچہ دونوں کے اقرباء کوان کے جیل سے رہا ہونے کی خوش ہیںکہ وہ اس سزاسے بچ گئے کہ جوافضل گوروکوخامخواہ میں ملی،ان کے اہل خانہ اوراقرباء کی خوشی اپنی جگہ درست ہے لیکن فاضلی اوررفیق یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ انہیں کس جرم بے گناہی کی پاداش میں جیل میں 12 ؍برس تک مقید رکھاگیاتھا؟محمدرفیق شاہ اس وقت 22؍برس کے تھے کہ جب انہیں بے جرمی کی پاداش میں گرفتارکرکے تہاڑ جیل پہنچایادیاگیااب ان کی عمر34؍برس ہے ۔عین یہی صورتحال محمدحسین فاضلی کی بھی ہے 21نومبر2005میں جب اسے کو گرفتارکیاگیاتواس وقت ان کی عمر31برس تھی جب کہ اب ان کی عمر43برس کی ہوچکی ہے ۔
بھارت سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامے ہندوستان ٹائمزکے مطابق فاضلی اوررفیق دونوں کی کہانی ایک جیسی ہے ۔دونوں سے کہاگیاکہ چند منٹ کی پوچھ گچھ کے بہانے دونوں کوبھارتی فورسز نے اپنے گھروں سے یہ کہہ کر گرفتار کیا تھا کہ چند منٹ کی پوچھ گچھ کے بعدانہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ دونوں سے یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ انہیں کیوں گرفتار کیا گیا اورانہیں کہاں لے جایا جا رہا ہے۔ کئی دنوں کے بعد ایک صحافی سے انہیںپتہ چلا کہ وہ دلی میں ہیں۔گذشتہ 12 ؍برس میںان کے والدین کبھی اپنے بیٹوں کو ملنے نہیں جا سکے کیوں کہ وہ دلی آنے جانے کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔تاہم دونوں کے اہل خانہ کو اس بات کی خوشی ہے کہ انہوں نے مرنے سے پہلے اپنے بیٹوں کوپھر دیکھ لیا، بس ان کا یہ ایک خواب تھا کی مرنے سے قبل وہ اپنے بیٹوں کو دیکھ لیںاوران کایہ خواب شرمندہ ٔتعبیر ہوا ۔ دونوں کے عزیزواقرباء کاکہناتھا کہ انہیں خدا پر بھروسہ تھا کہ انصاف کی جیت ہو گی اوران کے لخت ہائے جگربے جرمی کی صعوبتوں سے ضروررہائی پائیں گے کیونکہ انہیں صرف اس لئے گرفتار کیا گیا تھا کیونکہ وہ کشمیری ہیں۔محمدحسین ،رفیق شاہ اورطارق ڈار کاکیس جس میں فاضلی اوررفیق کی جھوٹے الزمات سے بریت ہوئی ، ان بے جرمی قیدیوں کے بے حدوحساب کیسوں میں سے ایک تھا کہ جس میںکسی بے جرم قیدی نے اپنی برات کے بعدموقع ملاکہ انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح پولیس معصوم لوگوں کو گرفتار کرتی ہے۔نیزگرفتاری ، پولیس کسٹڈی کے حالات ، جیل کی سرگزشت کشمیری عوام کے ساتھ ساتھ بھارت کے انسان دوستوں کو بیدار بھی کرتی ہے۔
دہلی بم دھماکوں کے جھوٹے الزام میں 12؍سال بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں قید رہنے والے محمد حسین فاضلی باعزت بری ہونے کے بعد سری نگر پہنچ گئے،توبھارتی میڈیا بھی دہشت گردی کے جھوٹے کیس میں 12؍سال بعد باعزت بری ہونے پر ان کے پیچھے سری نگر پہنچے۔بھارت کے نجی چینل انڈیا ٹی وی کے مطابق محمد حسین نے مختلف عقوبت خانوں اور تہاڑ جیل میں اپنے ساتھ ہونے والے دلدوز اور وحشت نا ک سلوک کی ایسی خوفناک کہانی بتائی اور ایسے شرمناک انکشاف کئے کہ صحافیوں کی آنکھوں سے بھی آنسوچھلک پڑیں۔ محمد حسین فاضلی کا کہنا تھاکہ نومبر 2005 ء کی رات کافی سرد تھی،جب وہ مسجد سے نماز پڑھ کر گھر واپس آ رہے تھے کہ اسی دوران فورسز اور پولیس نے انہیں گرفتار کر تے ہوئے کہا کہ دہلی بم دھماکوں کے سلسلے میں پوچھ گچھ کرنی ہے،یہ کہ کر وہ انہیں اپنے ساتھ دہلی لے گئے اورپھران پرقیامتیں ڈھائیں۔ان کاکہناتھاکہ انہیں اور ان کے ساتھ گرفتار ہونے والے محمد رفیق شاہ کو کورٹ دہلی لے جانے سے قبل ہی مبتلائے اذیت بنادیاگیااور جیسے ہی وہ دہلی پہنچے، توانہیں لودھی کالونی میں واقع ٹارچر سیل میںلے جایا گیا،ایک بینچ سے ان کے ہاتھ باندھ دئے گئے اور اس پر لیٹنے کیلئے کہا گیا، اس کے بعد 2داروغے ان کے پائوں پر کھڑے ہو گئے اور ایک ان کی پیٹ پر چڑھ گیا،اسی کے ساتھ تعذیب کازہرناک سلسلہ شروع ہوگیا۔محمد حسین فاضلی کا کہنا تھا کہ وہ کون ساتشدد کا طریقہ تھا جو ان پر نہیں آزمایا گیا۔
تعذیب میں مبتلا رکھنے پران پرمسلط کئے جانے والے اہلکاروںنے 200 سادہ کاغذوں پر انہیں دستخط کرنے کے لئے بارباردبائوڈالا،لیکن جب وہ انکارکرتے رہے توسزااتنی سخت اورشدیدتھی کہ جیسے وہ قیامت کی گھڑی ہوتی تھی۔ تعذیب میں مبتلا رکھنے پران پرمسلط کئے جانے والے اہلکار ان سے اقبالیہ بیانات دلوانے اور سادے کاغذات پران کے دستخط ثبت کرانے کے جتن کرتے رہے لیکن ان کی یہ کوششیں کہ کیسے ثبوت اکھٹا کئے جائیں اور کس طرح جبری طورپراقبالیہ بیان لیاجائے اکارت ہوئیں اور سارے حربوں کے باوجودسادے کاغذوں پروہ ان سے دستخط نہ لے سکے ۔ان کاکہناتھاکہ 50 دن کے ریمانڈ ختم ہونے پر انہیں تہاڑ جیل بھیج دیا گیا،ریمانڈ کی مدت ختم ہونے پر جب شام کو کورٹ لے جایا جا رہا تھا ، توانہیں دھمکی دی گئی کہ تعذیب خانے کی کوئی جملہ کارروائی جج کے سامنے نہ بتائی جائے، جج کے سامنے کچھ بولنے کی ہمت کی ، تو اس سے بھی برا حشر ہوگا۔
واضح رہے کہ پولیس نے گوکہ محمدحسین ،رفیق احمدشاہ اورطارق احمدڈارتینوںکی الگ الگ ایف آئی آر درج کی تھی، تاہم عدالت نے بعد میں تینوں دھماکوں کے معاملے کو ایک ساتھ ملا دیا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران 250سے زائد گواہیاں پیش ہوئیںلیکن پولیس ان کے خلاف الزام ثابت کرنے میں مکمل طورپرناکام رہی ہے۔دہلی کی پٹیالہ ہائوس کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج رتیش سنگھ نے استغاثہ اور دفاع کے دلائل سننے کے بعد16فروری 2017کو کیس کافیصلہ سناتے ہوئے محمد رفیق شاہ اور محمدحسین فاضلی کو بر ی کردیاجب کہ طارق احمد ڈار کو دس سال قید کی سزا سنائی ۔یہ کیس دیگرکیسوں کی طرح جہاں پولیس کی لاقانونیت کے بارے میں سوسائٹی کو گہرہی نیندسے جگاتی ہے، وہیںاس سے یہ امرمترشح ہوتا ہے کہ کس طرح کشمیری مسلمان ہونا انڈیا میں اول نمبر کاجرم ٹھہرایا جاچکاہے ۔ اگر حقیقت کو ذرا وسعت نگاہ سے دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ کشمیر ی نوجوانوں کو جیلوں اور زندان خانوں میں برسوں سڑادینے کی ریاستی پالیسی کا لب لبا ب یہی ہے کہ اہل کشمیر کو مرعوبیت اور خوف زدگی کے ہتھیاروں سے اتنا گھائل کیا جائے کہ وہ نہ صرف نفسیاتی پسپائی اختیار کریں بلکہ ان کو کڑی سزائیں دے دے کر کشمیر کا ز کا راستہ ہمیشہ کے لئے کھوٹا کیا جائے اور ان کی مشکلات زیادہ سے زیادہ بڑھا کر انہیں اس من تو شدی حماقت آمیز یک چشمی فیصلے کا بدلہ چکایا جائے جو کشمیر کی تاریخ میں شیخ عبداللہ کا’’ احسان‘‘ ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اس لایعنی فیصلے نے آج تک ہزارہا کشمیری نوجوانوں کو کہیں اُچک لیا ، کہیں انہیں موت کی گھاٹ اتار دیا ، کہیں انہیں ذلت وخواری اور بدنامی کا ہار پہنایا، کہیں انہیں مختلف جبری قوانین کے بل پر پس دیوارِ زنداں کر کے انتقام کی بھٹیاں سلگا دیں۔ اسی پر بس نہ ہو ا بلکہ ہزاروں کشمیری محبوسین کو زیر حراست پُر اسرا طور غائب کر دیا گیا۔ یہ گرفتار شدگاں کہاں گئے ، کیا انہیں زمین نگل گئی یا ہو اتحلیل کر گئی، اس بارے میں کوئی متاثرہ کنبہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ چنانچہ آج کی تاریخ میں ایسی ہزاروں نیم بیوائیں ہمارے درمیان میں موجود ہیں جن کے شوہر مفقود الخبرہیں، جن کونہ مردہ قرار دایا جاسکتا ہے اور نہ زندہ ، اسی گومگواور تذبذب کی حالت سے دوچار نیم بیوائیں اور ان کے کنبے مر مر کرجی رہے ہیں ۔ ان کے بچے اور بچیاں، اہل خانہ ایک مسلسل کرب اور ذہنی عذاب کو جھیل رہے ہیں اور موت سے بدتر زندگی میں ان کا کوئی پرسان ِ حال نہیں ۔ حکام کے پاس ان مظلومین کے نالوں ،فریادوں ، آہوں اور اشکوں کا کوئی جواب نہیں ، عدالتیں انہیں تاریخ پہ تاریخ کی سولی چڑھاتی جارہی ہیں۔ متاثرہ لوگ جب پولیس اور فورسز حکام سے اپنی فریادیں لے کر جاتے تو جواب سوائے اس کے کچھ نہیں ملتاہمیں کیاپتہ کون کہاں ہے، ہم نے اس نام کے کسی شخص کو نہیں پکڑا، ہم جانتے ہیں کہ یہ الزامات ہمیں بدنام کر نے کی جھوٹی مہم ہے وغیرہ وغیرہ۔ ادھر بے نام قبروں کے روز مرہ انکشافات متاثرہ کنبوں کی نیندیں اچاٹ جاتی ہیں ۔ اس ساری ناگفتہ بہ سرگزشت کے درمیان رفیق احمد شاہ ا ور محمد حسین فاضلی کی رہائیاں یقیناً ان کے خانوادوں کے لئے مژدہ جانفزاء ہیں مگر ساتھ ہی یہ اس بات پر بھی مہر تصدیق ثبت کر تی ہیں کہ کشمیری محبوسین محض جرم بے گناہی کی پاداش میں سالہاسال تک جرم بے گناہی کی پادش میں جیل اور عقوبت خانوں کی نذر کئے جاتے ہیں ، جب کہ ان میں سے بعض افضل گورو کی طرح عدل کے خم خانے میں اجتماعی ضمیر کی تسکین کے نام پر صلیب چڑھائے جاتے ہیں جب کہ سید عبدالرحمن گیلانی، رفیق احمد شاہ اور محمد حسین فاضلی کو پابند سلاسل کرنے کی جوازیت پر پولیس کی من گھڑت کہانیوں کا پردہ فاش ہوجاتاہے ۔ اس سارے فساد کی جڑ وہ ایک فسادی فیصلہ ہے جسے سنتالیس میں وقت کے قد بلند قائد نے ہوس اقتدار میں لے کر اپنے چھوٹے اور حقیر مفاد کی آبیاری کی۔