Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

ہماری زبان

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 22, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
8 Min Read
SHARE
کسی بدیشی ملک جیسے اٹلی،روس ،چین ،جاپان ،فرانس وغیرہ میں پیشہ ورانہ یا ہائر ایجوکیشن میں تب تک داخلہ پکا نہیں ہوجاتا جب تک آپ اُس ملک کی مروجہ مادری زبان میں ڈپلومہ نہ لیں گے یا کم از کم اُس زبان میں کام چلائو مہارت حاصل نہیں کریں گے ۔ہمارے یہاں بھی ریجنل پیشہ وارانہ ادارے ہیں ،یہاں ملیشیا ،ایران ،فلسطین ، افریقہ وغیرہ ممالک سے کئی طلباء و طالبات نے تعلیم حاصل کی ہے مگر یہاں پر ایسی کوئی قدغن کسی پر بھی نہ لگی ۔یہ دُرست ہے کہ ہمارا میڈیم یا ذریعہ تعلیم ؤ تربیت کشمیری یا اُردو نہیں ہے مگر اوپر مذکورہ ملکوں میں بھی طب،قانون ،معیشت،تاریخ وغیرہ کی تعلیم ٹھیٹ اُن کی اپنی زبان میں تو نہیں دی جاتی ۔ریاستی سطح پر ایسا تو کسی جگہ ممکن ہے مگر ملکی سطح پر ایسا ممکن نہیں ہے۔
وادیٔ کشمیر کی ایک رِیت یہ رہی ہے کہ جس طرف ایک جاتا یا دوڑتا ہے دوسرے بھی بغیر جانے بوجھے اُس کی تقلید یا دیکھا دیکھی کرتے ہیں۔آپ کو یاد ہوگا جب چھت پر اینٹنا کھڑا کرنے کا زمانہ تھا تو کسی ضرورت مند نے سائیکل کی رِم پر اینٹنا کھڑا کیا ۔ بس پھر کیا تھا ہر طرف چھتوں پر سائیکل کے رِموں والی اینٹنا کی بہاریں نظر آنے لگیں ، اسی طرح ٹرانسپورٹ بزنس کی طرف ایک کے بعد دوسرے نے دوڑ لگائی۔نتیجہ یہ ہوا کہ اب انسانوں کی جگہ سڑکوں پر دوڑتے ،بھاگتے ،پُھرکتے اور بل کھاتے واہن ہی ہر طرف نظر آتے ہیں ۔یہ دُرست ہے کہ آبادی بڑھنے کے ساتھ ہی ضرورت ’’ایجاد کی ماں‘‘بن جاتی ہے مگر اُس کے لئے انتظامات ، قاعدے قانون اور آنے جانے کے راستے بھی ویسے ہی ہونے چاہیں۔گھنٹوں کا ٹریفک جام ضرورت میں نہیں بلکہ ایجاد میں آتا ہے بلکہ یہ اُلٹے بانس بریلی والی بات ہوجاتی ہے۔ہسپتالوں کی ایمبولنس گاڑیاں جب پانچ قطار والے ٹریفک جام میںآجاتی ہیں توکچھ دیر تک چوں چوں پوں پوں کرنے کے بعد وہ بھی خاموش ہوجاتی ہیںکیونکہ تب تک اسٹریچر پر پڑا مریض دم توڑ چکا ہوتا ہے اور حاملہ خاتون یا تو آزاد ہوچکی ہوتی ہے یا اُس کی روح ہی پیٹ میںبچے کے ساتھ قفس عنصری سے پرواز کرچکی ہوتی ہے اور عین اسی طرح اووَر ایج (over age)ہونے والا نوجوان چیختا ہے   ؎
 حیران ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
ایسا ہی ا سکولوں کے ساتھ بھی ہوا ۔جن اشخاص کا ایجوکیشن کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں تھا، انہوں نے بھی سکول کھولے ،نظر میں قوم کی بیداری نہیں بلکہ مالی فائدے تھے ۔موجودہ وقتوں میں ہر گلی محلے میں ایک نہیں انیک ا سکول موجود ہیں، ان سکولوں میں وہ اسکول بھی ہیں، جو ورکنگ کلاس والدین کے لئے رحمت ثابت ہوئے ہیں کیونکہ ایسے پلے سکولوں میں دو سال کی عمر سے ہی بچوں کا داخلہ ہوجاتا ہے ۔اسی وجہ سے رشتوں پر تلواریں پڑنے لگی ہیں ،کیونکہ جب پالن پوشن ،فیڈر ،کھان پان ،پیشاب پاخانہ کرایہ کے لوگ ہی کرتے اور کراتے ہیں تو اُس صورت میں رشتوں کی اہمیت پر ضرب پڑتی ہے اور ماں کی ممتا ،پتا کا پیار و دُلار کا تصور ہی عنقا ہوجاتا ہے ۔بقول حضرت اکبر الہ آبادی مرحوم   ؎
 طفل میں بُو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی 
 دودھ  تو ڈبے کا ہے  تعلیم ہے سرکار کی 
اُن دنوں سرکاری تعلیم سے مراد انگریز کے قایم کردہ اسکول تھے اور آج اس سے کریچ اور پلے سکول مراد ہے ۔اپنے یہاں تو صورت حال زیادہ ہی دگرگوں ہے کیونکہ یہاں سب کچھ ہی غیر کا ہے ۔اپنوں کی اپنی دنیا ہے ،ہر کچھ مشینی انداز سے ہونے لگا ہے ۔ میٹھے سپنے سجتے تو ہیں مگر نیندیں مستعار ہیں ۔اپنا بوجھ دوسرے کے کندھے پر ڈال تو دیا مگر اُس کے محافظت کی کوئی گارنٹی نہیں ہے ۔اب صورت حال یہ ہے کہ ان انگلش میڈیم سکولوں جو اکثر پلے سکول سے لے کر بارہویں جماعت تک(جو بچے کا ہر لحاظ سے ذہنی،جسمانی اور شعوری بالیدگی کا زمانہ ہوتا ہے)ہوتے ہیں، کی سوچ یہ ہے کہ کشمیری زبان بولنے والے طالب علم غیر مہذب (un-cultured)رہ جائے گا یا کہلائے گا ، آگے نہیں بڑھے گا ،اس لئے صرف ایک بانگڑو بولی(کیونکہ وہ اُردو ،ہندی ،پنجابی ، کشمیری ،کوئی بھی مکمل زبان نہیں ہوتی )میں ہر ایک کا م کرو ، اُٹھو ،بیٹھو ،کھائو،پیو ،بولو،بلکہ سوچو بھی ،کی سیکھ اُسے دی جاتی ہے ۔اس بم بارٹمنٹ سے اُردو ،ہندی کے ساتھ ساتھ ہماری اپنی مادری زبان بھی متاثر ہوکے رہ گئی ہے ۔کشمیری جن لوگوں کی مادری زبان ہے، وہ اس بارے میں آگاہ (conscious)ہوں نہ ہوں مگر حق یہ بھی ہے کہ ایک بڑے میٹھے انداز کے ساتھ کشمیری زبان روبہ زوال ہورہی ہے ۔حق بات تو یہ بھی ہے کہ رہی سہی کسر ہماری مادی تبدیلی اور ترقی یافتہ زندگی نے پوری کردی ہے ،کیونکہ جب ہم نے خود اپنی تہذیبی وراثت کے ساتھ کھلواڑ کیا تو ہماری مادری زبان کے ساتھ خود بخود کھلواڑ ہوگیا ۔ ہم نے اُن تمام چیزوں کو بلکہ عملیات (practices)کو خیر باد کہہ دیا جو ہماری مادری زبان کے فروغ اور زندہ رہنے میں ممدو معاون ثابت ہوتی تھی۔ 
میرے کہنے کا یہ ہر گز مطلب نہیں ہے کہ زمانے میں ہر اعتبار سے آگے بڑھنا اور ترقی کرنا گناہ ہے اور ترقی یافتہ ہوکر ترقی یافتہ زمانے کے ساتھ دوش بدوش کھڑا ہونا تبرا ہے ۔نہیں، بلکہ آپ ضرور بہ ضرور موجودہ ترقی یافتہ زمانے کے فیوض و برکات سے مستفید ہوتے رہئے ،مگر اپنی تہذیبی اور تمدنی وراثت کو ہاتھ سے جانے دینا یا اُس کی طرف توجہ نہ دینا التفات نہ کرنا دانش مندی نہیں ہے ۔اپنی زبان کو فراموش نہ کریں یا کم از کم اسے کم ترنہ سمجھیں ۔ماں اپنی آغوش میں لے کر جس زبان میں لوری دے کر ہمیں میٹھے میٹھے سپنوں کی دنیا میں لے کر آتی تھی اور جس نے گھٹنوں کے بل کھڑا کرکے چلنا سکھایا بلکہ دادی نانی اماں نے جس زبان میںچھوٹی چھوٹی کہانیاں سناکر ہمیں زندگی کی اولین سوجھ بوجھ دی ،کیا وہ زبان ناقص ،ناکارہ یا کم تر ہوسکتی ہے ؟یا اُس کے بولنے ،برتنے سے ہم غیر متمدن بن سکتے ہیں؟مادری زبان ایک انسان کے لئے ماں کی آغوش اور ذاتی پہچان ہے ۔(جاری ہے۔۔۔۔۔) 
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
 موبائل نمبر:-9419475995 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں آج عید الاضحیٰ جوش خروش سے منائی جارہی ہے
برصغیر
کشمیر سے کنیا کماری تک اب محض ایک نعرہ نہیں بلکہ حقیقت ہے: منوج سنہا
تازہ ترین
وزیر اعظم نریندر مودی نے کٹرا سے سری نگر وندے بھارت ایکسپریس کو جھنڈی دکھا کر روانہ کیا
تازہ ترین
جموں و کشمیر: وزیر اعظم نریندرمودی نے دنیا کے سب سے اونچے ‘چناب ریل پل’ کا افتتاح کیا
تازہ ترین

Related

کالممضامین

آدابِ فرزندی اور ہماری نوجوان نسل غور طلب

June 5, 2025
کالممضامین

عیدایک رسم نہیں جینے کا پیغام ہے فکر و فہم

June 5, 2025
کالممضامین

یوم ِعرفہ ۔بخشش اور انعامات کا دن‎ فہم و فراست

June 5, 2025
کالممضامین

حجتہ الوداع۔ حقوق انسانی کاپہلا منشور فکر انگیز

June 5, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?