Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

گلگت بلتستان

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 24, 2017 10:12 pm
Kashmir Uzma News Desk
Share
18 Min Read
SHARE
 گلگت بلتستان ان دنوں خبروں میں ہے ۔ بتایا جارہاہے کہ اسلام آباد اسے اپنا پانچواں صوبہ بنانے کے لئے پر تول رہاہے ۔ اس خطے  اگرکو ریاست کا حساس ترین علاقہ کہا جائے تومبالغہ نہ ہوگا۔ شمالی سرحد کی جغرافیائی ، فوجی اور سیاسی اہمیت پاک چین اقتصادی راہداری(سی پیک) سے گر چہ ہر گذرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے، البتہ ماضی میں بھی یہ سرحد کافی زیادہ حساس رہی ہے۔تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی میں شمالی سرحد کی اہمیت و افادیت واضح ہو جاتی ہے۔تاریخی دستاویزات میں اُن یاداشتوں و سفر ناموں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جو گوناگوں مورخین نے رقم فرمائی۔ اِن مورخین میں کرنل ڈیورنڈ و کیپٹن ینگ ہسبنڈ شامل ہیں جو ہندوستان میںبرطانوی راج کے مامور تھے ۔یہ وہ زمانہ تھا جب ایک اور معروف مورخ ایف نائٹ نے اپنی تصنیف کو وہ عنواں دیا جو شمالی سرحد کے بارے میں حرف عام بن گیا۔اِس کتاب کا عنواں ہے (Where Three Empires Meet) ۔یہ تین سلطنتیں برطانوی ہند،زار روس کی سلطنت جو ایشیائی مرکزی پہ حاوی ہو چکی تھی اور چینی سلطنت تھی جس کے کشمیر کی شمالی سرحد پہ ملنے سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ یہ سرحد کس درجہ اہم ہے۔ دیکھا جائے تو اس کی سوق الجیشی اہمیت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سی پیک (CPEC) کی راہ گذر بن گئی ہے۔
سی پیک چین کی سرمایہ کاری سے عصر حاضر کی ایک تاریخی حقیقت بنتی جا رہی ہے۔ایسا بھارتی خدشات سے صرفنظر کرتے ہوئے ہو رہا ہے لیکن اِسی کے ساتھ یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ چین گلگت بلتستان کی سیاسی حثیت کا ایک مستقل حل چاہتا ہے۔ظاہر ہے خط متارکے آر پار کے کشمیر کی سیاسی پوزیشن واضح نہیں ہے اور مسلہ کشمیر ابھی لائنحل ہے ۔گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کی ایک اکائی ہے بنابریں ریاست کی دیگر اکائیوں کی مانند اِس خطے کی بھی جو ریاست کی شمالی سرحد تشکیل دیتا ہے سیاسی حثیت واضح نہیں ہے۔ چین کے خدشات کو سمجھا جا سکتا ہے چونکہ کوئی بھی ملک کسی ایسے خطے میں سرمایہ کاری سے ہچکچائے گا جس کی سیاسی حثیت واضح نہ ہو۔ پاکستان چین کے خدشات سے کیسے نبٹے گا اِس بحث میں پڑنے سے پہلے ہمیں شمالی سرحد کے تاریخی پس منظر کو جانچنا ہو گا چونکہ کسی بھی فیصلے پہ پہنچنے سے پہلے پاکستان کو تاریخی پس منظر کو نظر میں رکھنا ہو گا۔ یہ سچ ہے کہ عصر حاضر کی سیاسی حقیقتیں بھی مد نظر رئیں گی البتہ کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل کے فیصلوں میں ماضی کی گئی گذری ہمیشہ ہی اثر انداز ہو تی ہے۔ ہمیں یہ بھی مد نظر رکھنا ہو گا کہ کشمیر کے شمالی سرحد میں گلگت بلتستان کے علاوہ لداخ بھی شامل ہے چناچہ یہ سرحد ہند و پاک کے مابین بٹی ہوئی ہے گرچہ در حال حاضر ہماری نظر میں گلگت بلتستان پر ہی توجہ مرکوز رہی گی۔     
گلگت اونچائیوں سے بہتے ہوئے دریائے سندھ کے شمال مغرب میں واقع ہے اور در اصل کئی جغرافیائی اکائیوں کا مجموع ہے ۔اِس کا مشرقی حصہ بلتستان کہلاتا ہے اور بلتستان کے وسط میں گلگت واقع ہے جس کے شمال میںہونزا ،نگر و پامیر کا کوہستانی سلسلہ ہے مغر ب میں چترال اور جنوب میں چیلاس کا علاقہ ہے جو اُسے وادی کشمیر سے استور سے گذرتے ہوئے راستے سے ملاتا ہے۔ اِن سب ہی اکائیوں کے اپنے اپنے راجہ تھے لیکن گلگت کے تارا خانی راجواڑے نے یہاں اپنی دھونس جما رکھی تھی لیکن بالتدریج اِس راجواڑے میں کمزوریاں پیدا ہوتی گئیں اور اندرونی خلفشار نے سیاسی رسہ کشی میںغوطہ زن ایک فریق کو 1842 ء میں لاہور کے خالصہ دربار کے کشمیرصوبے کے صوبیدار شیخ غلام محی الدین سے پناہ و کمک حاصل کرنے کی شہ دی۔کمک گوجرانوالہ کے کرنل نتے شاہ کی کمان میں دو سکھ پلاٹونوں پہ منتج ہوئی۔ خالصہ دربار کے مفادات کا خیال رکھنے کے بجائے نتے شاہ نے گلگت میں اپنی دھونس جمائی ۔گلگت راجواڑوں کے اپسی خلفشار نے نتے شاہ کو یہ موقعہ فراہم کیا۔  
 1846ء میں لاہور کے خالصہ دربار نے انگریزوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے اور 16 مارچ1846 کو بیع نامہ مرتسر کے وسیلے سے کشمیر گلاب سنگھ کو 75 لاکھ سکہ نانک شاہی کے بدلے عطا ہوا۔بیع نامہ کی دفعہ اول میں گلاب سنگھ کی تحویل میں جو علاقہ دیا گیا اُس کی تشریح یوں ہوئی ہے:’ انگریزی سرکار دیارکشمیرو ہزارہ اور جمع ملک کوہستانی جو دریائے راوی و سندھ کے بیچ میں ہزارہ کی جانب واقع ہے دریائے سندھ کے مشرق و دریائے راوی کے مغرب میں مع علاقہ چمبہ ما سوائے لاہول کے منجملہ ملک کہ سرکار لاہور نے انگریزی سرکار کو عہد نامہ کی دفعہ چہارم مرقومہ نو مارچ ۱۸۴۶؁ء تحویل و تسلیم کیا ،مہاراجہ گلاب سنگھ کو نسل در نسل و پشت در پشت اُن کی اصلی مرد ا ولادوں کو ہمیشہ کیلئے مستقل اختیار کے ساتھ عطا کیا گیا‘!
کئی تاریخ دانوں و سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں اِس میں گلگت شامل نہیں تھا جو کہ دریائے سندھ کے مشرق میں نہیں بلکہ شمال مغرب میں واقع ہوا ہے گلگت ہی کی مانند لداخ پر بھی اِس دفعہ کا اطلاق نہیں ہو سکتا بنابراینکہ لداخ دریائے راوی کے مغرب میں نہیں بلکہ شمال و شمال مشرق میں واقع ہوا ہے۔ کشمیر پہ لکھنے والے معروف مصنف قلم کار و تجزیہ نگار یہ مانتے ہیں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے منجملہ وسائل جن میں فوجی وسائل بھی شامل تھے جنوب ہندوستان سے شمال تک یعنی ساحل سمندر سے لے کر اُن علاقوں تک جہاں میدانی علاقہ ختم اور کوہ ہمالہ کی بلندیوں کا سلسلہ شروع ہو جا تا ہے اِس قدر کھنچے جا چکے تھے جہاں اِس لمبے سلسلے کی نگہداشت فرہنگیوں کے بس کی بات نہیں رہی لہذاگلاب سنگھ پہاڑی سلسلوں کی بلندیوں کا نگہباں مقرر ہوا۔ فرہنگیوں کو یہ اطمینان تھا کہ جب چاہیں اُسکی لگام کھنچ سکتے ہیں جیسا کہ بعد میں ہوا تب تک اُنہوں نے چالاک لومڑی [Wily Fox] (وہ نام جو فرہنگیوں نے گلاب سنگھ کو دیا تھا) ہمالیائی بلندیوں پہ دھوڑ لگانے کی کھلی اجازت دے رکھی تھی ۔
کرنل نتے شاہ نے اپنی وفاداری فوری بدلی اور خالصہ دربار کے بجائے گلاب سنگھ کو اھلاََ و سھلاََکہا۔1847 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے دو فوجی افسروں لیفٹنٹ اینگو و لیفٹنٹ ینگ کو حالات کا جائزہ لینے کیلئے گلگت بھیجا اور اُنہوں نے مہاراجہ گلاب سنگھ کے قبضے کو جائز قرار دیا بہ سبب اینکہ یہ علاقے پہلے ہی ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھے۔اگلی تین دہائیوں تک کی داستاں گلگت کے راجواڑوں ہونزا،یاسین،پونیال،داریل،چترال۔چیلاس و مرکزی راجواڑے گلگت خاص کے درمیان جنگ و جدل،معاہدات ہونے و ٹوٹنے ،ایک دوسرے کے راجواڑوں پہ دست درازی کی داستاں ہے جس میںڈوگرہ شاہی کا کردار مرکزی رہا ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی اقتدار سے بر طرفی پس از ایام غدر در سال 1858ء اور زمام اقتدا ر بطور مستقیم تخت برطانیہ پر فائض ملکہ وکٹوریہ کے ہاتھ میں آنے کے بعدگلگت میں کئی تغیرات رونما ہوئے جن کی فہرست بشرح زیر ہے:
(۱)  1876ء۔لارڑ لیٹن کے دور اقتدار میں جب کہ وہ وائسرائے ہند تھے کیپٹن بڈ لف کو آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی مقرر کیا گیاتاکہ وہ سفارتی مشن پر ہونزاروانہ ہو سکیں۔ گلگت کی منجملہ اکائیوں سے ہونزا پہ قبضہ جمانا و اُس قبضے کو بر قرار رکھنا مشکل ثابت ہو رہا تھا ثانیاَ َہونزا کے سرحد پار ممالک سے روابط تھے۔
(۲) 1877ء ۔کیپٹن بڈلف کوگلگت میں تاج برطانیہ کا پولٹیکل ایجنٹ بنایا گیا۔
(۳) 1880ء۔بغاوتوںو پسپائیوں نے برطانوی سرکار کو گلگت ایجنسی کے درجے میںکمی لانے پہ مجبور کیا۔
(۴)1889ء۔ کرنل ڈیورنڈ نے پامیر پہاڑی سلسلے میں روسی اقدامات کے بعد گلگت ایجنسی کو بحال کیا۔اُن کی کتاب 'Making of a Frontier' اُس زمانے کی روئیداد کی مکمل تفسیر ہے۔
 (۵) 1893ء۔کیپٹن ینگ ہسبنڈ کو پولیٹیکل آفیسر چترال مقرر کیا گیا۔
(۶) 1895ء۔چترال کو کئی جنگی مہمات کے بعد زیر کر لیا گیا تب تک ڈاکٹر رابرٹسن پولٹیکل ایجنٹ بن چکے تھے۔ چترال کے مہتر (راجہ کو چترال میں مہترکہا جاتا تھا) کوتحت سلطہ مہاراجہ جموں و کشمیرحاکم بنا یا گیاالبتہ چترال کو زیر نظر برٹش پولٹیکل ایجنٹ مالاکنڈ رکھا گیا اِس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ چترال مغرب میں صوبہ سرحد سے ملتا ہوا علاقہ ہے اور دِھیر و سوات بھی مالا کنڈ پولٹیکل ایجنٹ کے تحت نظر رہتے تھے۔ایسے میں چترال جو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا بتدریج ریاست سے جدا ہوا۔
(۷) 1935ء۔برطانوی راج نے گلگت کو مہاراجہ جموں و کشمیر سے 60 سال کے پٹے پہ حاصل کیاجو کہ ایک معاہدہ کے تحت ہوا ۔
1947ء میں جب ماؤنٹ بیٹن بر صغیر کی تقسیم کی پلان کو نئی شکل دی تو اُسی کے ساتھ اُنہوں نے گلگت کو مہاراجہ کو واپس کرنے کا اقدام کیا۔مہاراجہ ہری سنگھ نے برگیڈیر گھنسارا سنگھ کو گلگت وزارت کا چارج سنبھالنے کے لئے بھیجا البتہ گلگت سکاوٹس کے میجر براؤن کی کماں میں وہی تعینات ہوئے۔میجر براؤن کو یہ پتہ چلا کہ اُن کی فورس میںاکثریت مطلق گلگت کو ایک آزاد مملکت بنانا چاہتے ہیں۔میجر براؤن جوجون 1947ء کے بعد مہاراجہ کے ملازم بنے قانونی طور پر گھنسارا سنگھ کے ماتحت تھے۔ایک طرف حکم حاکم مرگ مفاجات اور دوسری جانب باغی فورس جو نہ صرف اپنے افسر میجر براؤن کی جان کے درپے ہو سکتی تھی بلکہ برگیڈیر گھنسارا سنگھ کی جان کے دشمن بھی بن سکتی تھی۔اِدھر سے پہاڑوں کے پار سرعت سے یہ خبر پہنچی کی ریاست کا الحاق ہندوستان سے ہوچکاہے ۔میجر براؤن نے برگیڈیر گھنسارا سنگھ کو راجاؤں و میروں کے ساتھ بات چیت کرنے کی تلقین کی تا کہ وہ اُن کی رائے ہندوستان سے الحاق کے بارے میں جان سکیں لیکن گھنسارا سنگھ نے اُن کی تلقین کا کوئی نوٹس نہیں لیا جس کے بعد میجر براؤن نے اُنہیں وارننگ دی کہ خونریزی سے نجات حاصل کرنے کیلئے شاید اُنہیں کچھ اقدامات کرنے پڑیں۔گلگت کے سارے حساس نکات پہ قابض ہونے کے علاوہ میجر براؤن نے ایک فوجی دستے کے وسیلے برگیڈیر گھنسارا سنگھ کو حراست میں لیا جسے حفاظتی حراست کا نام دیا گیا۔نومبر 1947ء  کے اوائل میں گلگت کے میروں و راجاؤں نے پاکستان سے الحاق کی حمایت کی۔16 نومبر کے روز کرنل اسلم نے میجر براؤن سے گلگت کا چارج لیا تب تک تقریباََ دو ہفتے میجر براؤن گلگت کا حاکم اعلی بنا رہا۔برگیڈیر گھنسارا سنگھ1949ء تک حراست میں رہے اور اُس کے بعد قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔برگیڈیر گھنسارا کی بدلی کرنل اسلم کے والدبرگیڈیر رحمت اللہ کے ساتھ ہوئی جو کہ مہاراجہ کی سٹیٹ فورس کے آفیسر تھے اور جنہیں قیدی بنایا گیا تھا۔جموں و کشمیر کی مسلم کانفرنس نے 1948ء کے کراچی سیشن میں گلگت بلتستان کو فیڈرل گورنمنٹ آف پاکستان کی تحویل میں دیا اور ایسے میں برطانوی راج کی مانند شمالی سرحد میں محلی سرکار کے بجائے پاکستان کی براہ راست نظر رہی جبکہ پاکستانی انتظامیہ کشمیر میں ایک محلی سرکار وجود میں آئی۔ایسا شمالی سرحد کی حساس صورت حال کے پیش نظر ہوا۔شمالی سرحد میں لداخ بھارت کے حصے میں آیا ۔حالانکہ لداخ ریاست جموں و کشمیر کی سرکار کے تحت نظر ہے لیکن بھاری فوجی کمین گاہ ہونے کے سبب وہاں دہلی کی نظر بنی رہی ہے۔
شمالی سرحد کے آر پار سیاچن میں ہند و پاک کی افواج 18,000فٹ کی بلندی پہ آمنے سامنے کھڑی ہیں چونکہ خط متارکہ (LoC) کے شمالی ترین نکتے سے پرے خط متارکہ کی حد بندی کے بارے میں ہند و پاک کے نظریات کے بارے میں تضاد ہے۔سیاچن گلیشر سے کچھ ہی دور ایک اور متنازعہ سرحد چین و بھارت کے بیچ قائم ہے ۔یہاں خط متارکہ کو لائن آف کنٹرول کے بجائے لائن آف اکچول کنٹرول (LOAC) کہا جاتا ہے۔روس گر چہ پہلے کی مانند ایشائی مرکزی پہ مسلط نہیں لیکن ایشیا کے اِس خطے میں روسی اثر رسوخ قائم ہے چونکہ مدت طویل تک ایشیائی مرکزی پہ روس کا نہ صرف سیاسی کنٹرول رہا بلکہ ثقافت و لسانی غلبہ بھی قائم رہا چناچہ رشید،رشیدوف و ایاز،ایازوف بن گیا۔ روسی سیاسی و فوجی تجزیہ کاروں کے حالیہ مقالات میں ایشیا اور روس کو ملاکے ایک ایسی سیاسی و اقتصادی راہرو کو تشکیل دئے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں جسے یورشین بلاک کا نام دیا جا رہا ہے۔اتفاقاََ یہ نقشہ چین کے اوبار (one road one block–OBOR) نظریے سے میل کھاتا ہے ۔اوبار 65ممالک کو سڑک،ریل ، فائبر اوپٹک مواصلاتی رابطے اور انرجی پائپ لائن سے ملانے کا منصوبہ ہے جو بر اعظم ہائے ایشیا،افریقہ اور یورپ کے مابین تجارتی روابط بڑھانے کی بین الملی کوشش ہے جسے دنیا اُس تجارتی نظام کے مد مقابل ایک متوازی رابطے کا نام دے رہی ہے جو پچھلی کئی صدیوں سے اہل مغرب نے قائم کیا ہوا ہے۔سی پیک( CPEC ) اوبار(OBOR) کی اہم ترین راہرو ہے۔
چین سی پیک میں اپنی سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کیلئے گلگت بلتستان کی سیاسی حیثیت واضح کرنے کا خواہش مند ہے ۔پاکستان کے سامنے جہاں اقتصادی فروغ کیلئے چین کی سرمایہ کاری ایک امر مہم ہے، وہیں کشمیری مزاحمتی رہنماؤں کے وہ بیانات بھی قابل غور ہیں جن میں گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی کوشش کو کشمیر کاز کے منافی قرار دیا گیا ہے ۔2009ء میں گلگت بلتستان کی ایک منتخب اسمبلی وجود میں آئی ہے جو کئی مبصرین کی رائے میں آئندہ کیلئے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی راہ ہموار کرنے کا پہلا ٹھوس قدم تھا۔ کشمیر میں اس مبینہ منصوبے کی مخالفت اس لئے ہو رہی ہے کیونکہ خدشہ یہ محسوس کیا جاررہا ہے کہ بھارت کو بھی یہ شہ ملی گی کہ وہ بھی اپنے  زیرانتظام کشمیر میں ایسے ہی اقدامات کر بیٹھے ۔ پاکستان کیلئے یہ واقعی ایک لمحۂ فکریہ ہے، بقول کسے اسلام آباد کے لئے یہ معاملہ ’’ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن‘‘ یعنی نہ آگے چلنے کی جگہ ہے نہ رُکنے کی گنجائش ۔ مستقبل قریب میں لگتا یہی ہے کہ کشمیر کی شمالی سرحد شاہ سرخیوں میں رہے گی اور ممکنہ طور وہ تاریخ دہرائی جائے جس میں جلی حروف سے لکھا ہے کہ شمالی سرحد کشمیر کا حساس ترین خطہ ہے ۔
Feedback on: [email protected]   
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں آج عید الاضحیٰ جوش خروش سے منائی جارہی ہے
برصغیر
کشمیر سے کنیا کماری تک اب محض ایک نعرہ نہیں بلکہ حقیقت ہے: منوج سنہا
تازہ ترین
وزیر اعظم نریندر مودی نے کٹرا سے سری نگر وندے بھارت ایکسپریس کو جھنڈی دکھا کر روانہ کیا
تازہ ترین
جموں و کشمیر: وزیر اعظم نریندرمودی نے دنیا کے سب سے اونچے ‘چناب ریل پل’ کا افتتاح کیا
تازہ ترین

Related

کالممضامین

آدابِ فرزندی اور ہماری نوجوان نسل غور طلب

June 5, 2025
کالممضامین

عیدایک رسم نہیں جینے کا پیغام ہے فکر و فہم

June 5, 2025
کالممضامین

یوم ِعرفہ ۔بخشش اور انعامات کا دن‎ فہم و فراست

June 5, 2025
کالممضامین

حجتہ الوداع۔ حقوق انسانی کاپہلا منشور فکر انگیز

June 5, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?