اذان ومؤذن کی فضیلت واہمیت۔قرآن مجیدواحادیث طیبہ میںآذان کاذکر موجود ہے اور تا ریخ میں بھی کئی عبرت ناک ودلچسپ واقعات ہیں، امام زہری فر ماتے ہیں کی قر آن مجیدکی یہ آیت مبار کہ آذان کی اہمیت وفضیلت بیان کر تی ہے۔تر جمہ:اس سے اچھی بات کس کی جو اللہ کی مخلوق کو نیکی کیطرف بلائے اور نیک کام کرے اور یہ کہے کہ میں مسلمانوںمیں ہوں۔(کنزالایمان) اس آیت میں اول حضور پر نور ﷺ مراد ہیںآپ کے صد قے صحابۂ کرامؓ ، اولیاء کرامؒ، علماء کرام ،جو تبلیغ کریں اور موذن وتکبیر کہنے والے اور ہر وہ مومن جو اللہ کی مخلوق کو نیکی کیطرف بلائے۔معلوم ہوا رب ا لعزت کو اس کی بولی بڑی پیا ری معلوم ہو تی ہے جو دعوت خیر دے،اللہ تعا لیٰ کا وہ محبوب بند ہ ہے۔چنانچہ مؤذن کو اس فہرست میں اولFIRSTبتا یا گیا ہے جو اذان دیتے ہیں بھلائی (عبادت )کی طرف بلاتے ہیں اورخود بھی اللہ کی عبادت کر تے ہیں۔ مسلم شریف میںہے قیامت کے دن موذن سب سے زیادہ لمبی گردنوں والے ہوں گے۔سنن میںہے امام ضا من ہے اور موذن امانت دار ہے، اللہ تعالیٰ اماموںکو راہ راست دکھائے اور موذنوں کو بخشے۔ آمین ۔حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں اذان دینے والوں کا حصہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک جہاد کرنے والوں کے حصے کے برا بر ہے۔اذان واقا مت کے درمیان ان کی وہ حالت ہے جیسے کوئی جہاد میں راہِ اللہ میں اپنے خون میں لوٹ پوٹ رہا ہو۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر میں مو ذن ہوں تو پھر مجھے حج وعمرہ اورجہاد کی اتنی زیادہ پر واہ نہیں رہتی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے تین بار موذن کی بخشش کی دعا مانگی، اس پر میں نے کہا حضور ﷺ آپ نے اپنی دعا میں ہمیں یاد نہ فر مایا حالانکہ ہم اذان کہنے پر تلو اریں تان لیتے ہیں ۔آپ ﷺ نے فر مایا ہاں! لیکن اے عمر! ایسا زمانہ بھی آنے والا ہے کہ موذن غریب مسکین لو گوں تک رہ جائے گا،سنو!عمر جن لو گوں کا گوشت پوشت جہنم پر حرام ہے ان میں موذ ن ہیں۔ اذان کے مخا لف کا عبرت نا ک انجام۔۔۔ تفسیر نور العرفان میں ہے امام سُدی رحمۃاللہ علیہ فر ماتے ہیں: کہ مدینہ منو رہ میں ایک عیسا ئی رہتا تھا جب موذن اذان دیتا تو معاذ اللہ کیا کیا نہ بکتا۔ اللہ کی شان کہ اس کا خادم ایک رات آگ بجھا نا بھول گیا گھر والے سب سو گئے آگ میں شعلہ اٹھا اور وہ نصرانی(عیسائی)اور پورے گھر والے جل گئے۔ اذان سے دشمنی رکھنے والے آج بھی مو جود ہیں طرح طرح کی بکواس کر تے رہتے ہیں ۔اللہ کے عذاب سے وہ بچ نہیں سکتے ، چاہے وہ سونو نگم ہو یااس کا مددگار جاویداختر۔
اوپر مذکورہ آیت سے اذان کاثبوت ہے اور حدیث ملا حظہ فر مائیں۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں اس آیت میں موذن کی تعریف ہے اس کا حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃِ کہنا اللہ کی طرف بلا ناہے،حضرت عکر مہ اورابن عمر رضی اللہ عنہمافر ماتے ہیں یہ آیت کریمہ موذن کے بارے میںاتری اورآیتیںبھی قرآن مجیدمیںآذان ومؤذن کی فضیلت پر شاہد ہیں۔ سورہ مائدہ۵،آیت۵۸،سورہ جمہ۶۲،آیت۹، وغیرہ وغیرہ۔
اذان کی ابتدا۔۔ابتدا ئے اسلام میں نماز کے لئے بلانے کا کو ئی خاص طریقہ متعین نہیں تھا۔جب مسلمان زیادہ ہو گئے تو مشورہ ہوا کہ ایسی چیز کے ذریعہ نماز کے وقت کا اعلان ہو جسے سب لوگ سمجھ لیں۔ کچھ لو گوں نے ذکر کیاکہ آ گ روشن کی جائے یا نر سنگا کے ذریعہ اعلان کریں۔امیرالمو منین حضرت عمر فاروق اعظم اور عبداللہ بن زید بن عبدرَبّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کواذان خواب میں تعلیم ہوئی، حضور ﷺ نے فر مایا ’’یہ خواب سچ ہے حق ہے‘‘اور عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے فر مایا:’’جائو بلال کو تلقین کرو،وہ اذان کہیں کہ وہ تم سے زیا دہ بلند آواز ہیں۔‘‘(۱) اس حدیث کو ابو دائود وتر مذی و ابن ما جہ ودار می نے روایت کیا ہے۔ رسو ل اللہ ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم فر مایا:کہو اذان کے وقت کانوں میں انگلیاں کر لوکہ اس سبب آواز بلند ہوگی‘‘(بخاری،حدیث ۶۰۶) اس حدیث کو ابن ماجہ نے عبدالر حمن بن سعد رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے سنن ابو دائود، کتا ب الصلاۃ با ب کیف الاذان،حدیث۴۹۹، ابن ما جہ حدیث۷۱۰ِصحیح مسلم،حدیث۳۸۷،بہارشریعت ج۳،ص۴۵۸)
تاریخ کی اہمیت:علامہ ڈاکٹر اقبال نے کہا ہے’’ جس طرح زندگی میں حافظہMEMORY کی زبر دست اہمیت ہے ،حافظہ(یاد داشت) اگر کم ہو جائے یا بالکل ختم ہو جا ئے تو اس کی زندگی اس کے لیے بے معنٰی ہوجائے گی۔اسی طرح ایک قوم یا ملت کی زند گی میں تاریخ کی زبردست اہمیت ہے کیوں کہ اگر اس کی تاریخ گم ہو جائے گی یا گمنا می میں چلی جائے گی،دفن ہو جائے گی تو اس قوم کی زندگی بھی بے معنیٰ ہو کر رہ جائے گی۔تاریخ کے اوراق میں بہت سے واقعات درج ہیںایک عبرت ناک اور دلچسپ جوش ایما نی سے لبر یز واقعہ مطالعہ فر مائیں۔ مسلما نوںنے اذا ن اللہ کی آ وازکو کس طرح جان کی قر بان دے کر بھی بلند کیا۔ تا ریخی طوراذان اعلان تو حید اَللّٰہُ اَکْبَرُاَللّٰہُ اَکْبَرُ لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہ۔ پیر محمدمحذومی لکھتے ہیں دنیا ئے اسلام کی تا ریخ کی وہ اذان جس کو ۲۲ ؍شہا دتوں کا شرف حاصل ہوا 13جولائی1931ء شہدائے اذان(کشمیر) کا پس منظر 29اپریل1931ء کے دن سے شروع ہوتا ہے جب جموں کے میونسپل باغ میںعید الاضحی کی نماز ادا کرنے کے لیے جمع مسلما نوں کو نماز ادا کر نے سے منع کردیا گیا۔امام مفتی محمداسحاق نقشبند ی عید کا خطبہ پڑھ رہے تھے کہ کھیم چند نامی ڈوگرہ پو لیس کے ایک اہل کار نے انھیں خطبہ دینے اور مسلمانوں کو نماز ادا کرنے سے دیا۔ کشمیر بھر کے مسلمان اس بلا وجہ اور کھلی زیا دتی اور اپنی مذ ہبی آزادی پر سنگین حملے پر مشتعل ہو گئے 25جون1931ء کو شری نگر میں توحید کے متوالوںنے ڈوگرا راج اور اس کے ظلم وستم کے واقعات کے خلاف مظا ہرہ کیا اور بہت بڑا جلسہ منعقد ہواجس میں عبد ا لقدیر نا می تو حید کا متوالا ایک نو جوان اپنی جگہ سے اٹھا اور بلندآ واز میں ایک ولولہ انگیز تقریر کی اور کہا کہ’’ اب ڈوگرہ راج کا سورج غروب ہو نے کو ہے۔( کشمیرکے) توحید کے متوالے مسلمانوں کے لیے عمل کا وقت آچکا ہے اور اب وہ کسی صو رت میں بھی ڈوگرا راج کی اسلام اور مسلمان دشمنی کے واقعات کو بر داشت نہیں کریں گے‘‘ ڈوگرا راج کے اہلکا روں نے عبدا لقدیر نا می اس نوجوان کو اسی شام گرفتار کر لیا اور اس پر ڈوگرا راج کے خلاف بغا وت کا مقد مہ درج کر لیا گیا۔ عوام کے غم وغصہ کے خوف سے ڈوگرہ راج نے جیل کے اندر ہی مقد مہ کی کار وائی کا فیصلہ کر لیا جب کہ مسلما نوں کا مطا لبہ تھا کہ عبد القد یر کا مقد مہ کھلی عدا لت میں چلا یا جا ئے تاکہ وہ بھی مقدمہ کی سماعت میں شریک ہو سکیں۔ 13 جو لائی1931ء کا دن آیا عبدالقد یر کے مقد مہ کی کار راوئی سری نگر کی مر کزی جیل کے اندر جاری تھی جب کہ جو لائی کی گر می کی پر واہ نہ کر تے ہوئے بھی جیل کے باہر لا کھوں مسلمان اس کار روائی کو دیکھنے کی غرض سے جمع تھے اور مطالبہ کر رہے کہ مقد مہ کی کارروائی کھلی عدالت میں کی جائے۔ اسی دوران ظہر کی نماز کاوقت ہو گیا شمع تو حید کے ان متوالوں نے نماز ظہر ادا کرنے کے لیے اپنی صفیںدرست کر نا شروع کر دیں۔حاضرین میں ایک توحید کا متوالا اذان دینے کے لئے کھڑا ہوا،ابھی اللہ اکبر کی صدا فضا میں گونجی ہی تھی کہ اس کے ساتھ گولی چلنے کی آواز بھی سنا ئی دی۔موذن کو گو لی مار دی گئی تھی،شمع توحید کے پہلے پر وانے(کشمیری) کو شہادت کا درجہ مل چکا تھا مگر شمع تو حید کے متوالے(کشمیری) اس اذان کا نا مکمل کیسے رہنے دیتے؟ حاضرین میں سے شمع توحید کا دوسرا متوا لا آگے بڑ ھا تاکہ باقی اذان مکمل کرے تو اللہ اکبرکی دوسری صدا کے سا تھ ہی دوسری گولی نے اس مو ذن کو بھی خون میں لت پت کر دیا مگر توحید کے متوالے اس جوشیلے ہجوم میں سے کسی کو یہ قبول نہ تھا کہ انہوں نے جس نماز کی نیت کی ہے اس کی اذان پوری نہ ہو پائے۔ اس طرح یکے بعد دیگر اذان کے کلمات اداہوتے رہے ،آوازہ ٔ توحید بلند ہو تی رہی اور شمع توحید کے متوا لے بایئیس کشمیری موذنین یکے بعد دیگرے جام شہادت نوش کرتے رہے۔ تا ریخ اسلام کی اس یاد گار اور انو کھی اذان کو مکمل کرنے کے لیے ۲۲ ؍بائیس مسلما نوں نے اپنے خون کی قر بانی پیش کی اور اپنے عزم سے یہ ثابت کر دیا کہ اعلان توحید یعنی اذان کو کوئی بند نہیں کر سکتا ،یہ ایمان والوں کے لیے سر مایہ ٔ حیات ہے۔ان شہد ائے کرام کی تد فین میں لا کھوں لاکھ کا مجمع تھا نماز جنازہ پڑ ھانے والے پیر محمد افضل محذری نقش بندی، میرواعظ مولانا محمدیوسف،مو لا نا عبدا لقد وس، ،خصو صی واعظین کرام حاجی اسداللہ درال، خواجہ احمد وغیرہ وغیرہ ہوامیں پھول اڑاتے نعت پڑ ھتے، نظم پڑ ھتے ؎
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لا نے کیلئے
باد لو ہٹ جائو دیدو راہ جانے کیلئے
پڑھتے پڑ ھا تے جاکر شہداء کی تد فین فرما ئی۔ یہ ایمان افروز داستان بہت لمبی ہے ( تفصیل سے پرھنے کے لیے 13 جولائی کشمیر عظمیٰ کا شمارہ پڑھیں)۔اذان اللہ کے بندوں کو فلاح یعنی بھلا ئی،نیکی،نجات،سلامتی کی طرف بلانے کا پیغام ہے، پو رے دن میں پانچ بارمیں مشکل سے10منٹ ہی لگتے ہیں، افسوس اذان کی یہ آوازیں ان لو گوں پر بڑی گراں گزر تی ہیں،جواس ملک میں اسلام اور مسلمانوں سے ہمیشہ سے دشمنی رکھتے ہیں۔اسی لیے جب کب مسجدوں سے لائوڈسپیکر اُتار نے کی بات کر تے ہیں، بیمار ذہن کے لوگ اپنی خوا ہش کو پو را کرنے کے لیے عدالتوں میں کیس درج کئے ہیںNATIONAL GREEN TRIBUNALمیں حال ہی میں ایک عر ضی داخل کی گئی ہے، این جی ٹی کے چیئرمین جسٹس سوتنتر کمار نے دہلی سرکار اوردہلی پالوشن کنٹرول کمیٹی کوحکم دیاہے کہ ضا بطوں کے خلاف ورزی کرنے والوں پر سخت کار روائی کی جائے۔ اس عرضی کا نپٹارہ کر تے ہوئے ٹریبو نل نے مسجدوں کی جانچ کا حکم دیا ہے کہ وہاں سے تیز آواز تو نہیں آرہی ہے۔ غیر سر کاری تنظیم اکھنڈ بھارت مور چا نے کئی جگہ کیس دائر کئے ہیں ان کا مقصد مسلما نوں کو پریشان کر ناہے،مسلمان تو پریشان ہیں لیکن یا د رکھیں یہ اللہ اکبر کی صدا تا قیامت بند نہیں ہو گی یہ قدرتی نظا م صبح قیامت تک چلتا رہے گا ۔بہت پیاری بات ڈاکٹر علامہ اقبال نے فرمائی ہے ؎
یہ نغمہ فصلِ گل ولالہ کا نہیںپابند
بہار ہوکہ خزاں،لا الہٰ الااللہ
خو دی کاسرِنہاںلا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ،فساں لا الہ الااللہ
یہ دوراپنے برا ہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لا الہ الااللہ
کیا ہے تونے متاع غرور کا سودا
فریب سود وزیاں،لاا لہ الا للہ
یہ ما ل و دولت دنیا،یہ رشتہ وپیوند
بتاں وہم و گماں،لا ا لہ الا للہ
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زنا ری
نہ ہے زماں نہ مکاں،لا الہ الااللہ
اگرچہ بت ہیں جما عت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں،لا ا لہ الا اللہ
اعلان توحید آذان ہمیشہ بلند ہو تے رہے گی،اذان پکار نے والے موذن وامام کی بہت فضیلتیں ہیں۔ مسلما نوں کو چاہیے کی وہ اللہ کے گھریعنی مسجد کا احترام کریں اور امام و موذن کا احترام کریں اور ان کا خاص خیال رکھیں وہ بھی ہما رے معاشرے کا حصہ ہیں اور ہم پر ان کی خبر گیری رکھنا اسلامی واخلا قی فریضہ ہے ۔امام مؤذن کی ذمہ داری سے لے کربچے کی پیدا ئش کے بعداذان اقا مت سے لے کر نکاح، گھر میں بیماری سے لے کر جنا زہ تک، کفن دفن سے لے کر ایصال ثواب تک ہر ہر قدم پر امام ومؤذن اپنی ذمہ داری نبھا تے ہیں۔ہمارادینی و اخلا قی فریضہ ہے کی ہم بھی ان کے سکھ دکھ میں قدم قدم پر ساتھ دیں ذرا نظریں اُٹھا کر دیکھیں ۔دنیا کے ہر شعبے میں لو گوں کی کیا تنخواہیں ہیں، یہاں تک مز دوروں کی مز دوری کتنی ہے ما ہانہ کتنی آ مد نی ہے لیکن افسو س صد افسوس آج امام وموذن مسجد کے خد مت گزاروں کی تنخو ا ہیں انتہا ئی کم ہیں، الا ما شا ء اللہ۔ اس حوالے سے ہر جگہ برا ہی حال ہے۔ قوم یہ سمجھتی ہے امام و موذن کو قومِ موسیٰ علیہ السلام کی طرح من وسلویٰ اتر تا ہے جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ٍانگر یزوں نے اپنے دور اقتدار میں جان بو جھ کر امام مسجد کی تنخواہ،خاکروب کے برا بر مقر ر کرکے اسلام سے بیزا ری کاثبوت دیا تھا۔انگریز تو چلے گئے لیکن اب ہم مسلمان ہو کر بھی اپنے امام ومؤذن کو ان کا حقیقی مقام دینے کو تیار نہیں۔ مسلما نوں کو اما موں ، مؤذنوں کو معقول اور معاشی حالات کو مدنظر رکھ کر تنخواہ دینی چا ہیے اور ریٹا ئر ہونے یا معذور ہونے پر معقول پینشن دینی چا ہیے تا کہ امام اور مؤذن جومسلم معا شرے کا با وقار عہدہ اور ذمہ دارحصہ ہوتے ہیں ، انہیں بھی معا شرے میں عزت اور وقار سے زندہ رہنے کا حق ملے۔ یہ حق ہر امام وخطیب اور ہر موذن کو حاصل ہو نا چا ہئے، مسجد کے ذمہ داران و اہل محلہ اس طرف سنجید گی سے سو چیں اور عمل کریں ور نہ اللہ کے یہاں پکڑ ہو گی ۔ اللہ ہم سب کو عمل کر نے کی تو فیق دے آمین ثم آمین۔
رابطہ :خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ
اسلام نگر ، جمشیدپور(جھارکھنڈ)پن ۸۳۱۰۲۰
Email:[email protected],
Mob.:09279996221