حکومت کی طرف سے ریاست بھر میں سکولوں کا درجہ بڑھانے کے اقدامات کئے جارہے ہیں جس پر جہاں کچھ علاقوں میں جشن منایاجارہارہے وہیں نظرانداز کئے گئے علاقوں کے لوگ سراپا احتجاج ہیں۔خاص طور پر خطہ پیر پنچال کے اضلاع راجوری اور پونچھ میں پچھلے کچھ روز سے احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔اس سلسلے میں منڈی کے ساتھرہ ،مینڈھر کے پٹھانہ تیر ،سرنکوٹ کے سیڑھی خواجہ ، راجوری کے پلمہ اور دیگر علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں مقامی لوگوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کرنے کا انتباہ دیاہے۔ان کا الزام ہے کہ یہ اقدام سیاسی بنیادوں پر قائم کئے جارہے ہیں اور مستحق علاقوں کو نظرانداز کردیاگیاہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ پہاڑی علاقوں میں ایک ہائر اسکینڈری سکول سے دوسرے ہائراسکینڈری سکول کے درمیان میلوں کا فاصلہ ہوتاہے اور اسی طرح سے دور دور تک ہائی سکول بھی نہیں ملتے۔ایسے حالات میں طلباکو پہلے تو ہائی سکول اور پھراس کے بعدہائراسکینڈری سکول کی تعلیم کیلئے گھنٹوں پیدل سفر طے کرناپڑتاہے۔اگرچہ حالیہ کچھ برسوں سے کئی تحصیل صدر مقامات پر کالجوں اور دیگر علاقوں میں ہائراسکینڈری سکول کھولنے کے قیام سے بہت بڑی تعداد میں طلباکی مشکلات کاازالہ ہواہے تاہم اب بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں مزید ہائراسکینڈری سکولوں کی ضرورت ہے۔اگر یہاں مینڈھر کے پٹھانہ تیر علاقے کی ہی بات کی جائے تو یہ علاقہ ایک پہاڑی پر واقع ہے جہاں کے طلباکو ہائی سکول کے بعد کی تعلیم کیلئے یاتو چھترال یا پھرمینڈھر جاناپڑتاہے جو پٹھانہ تیر سے لیکر شاہستار شریف تک کے طلباکیلئے آسان نہیں ہے۔اسی طرح سے دیگر پہاڑی اور دشوار گزار علاقوں کے طلبا کو بھی حصول تعلیم میں مشکلات کاسامناکرناپڑتاہے اور ان کا زیادہ تر وقت سکول آنے اور جانے میں بیت جاتاہے لہٰذا وہ اس مسابقتی دور میں شہری اور قصبہ جاتی طلبہ کیساتھ تعلیمی میدان میں مقابلہ کرنے کے قابل نہیں بن پاتے،جنہیں اچھی خاصی تعلیمی سہولیات میسر ہیں۔بے شک حکومت تعلیمی شعبے کو ترجیح دے رہی ہے اور دور افتادہ اور پہاڑی علاقوں میں کئی نئے اداروں کا قیام عمل میں لایاگیاہے تاہم لوگوں کی شکایت ہے کہ یہ ادارے منصفانہ بنیادوں پر قائم نہیں ہوئے اورنہ ہی ان کے قیام کے وقت آبادی ،محل وقوع اور جغرافیائی خدو خال کے حقائق کو مد نظر رکھاگیا۔وہ یہ الزام دے رہے ہیں کہ کئی مستحق علاقے نظرانداز کرکے ایسے مقامات پر بھی یہ ادارے قائم ہوئے ہیں جہاں ان کی اتنی زیادہ ضرورت نہیں سمجھی جارہی تھی۔جیساکہ ہر زمانے میں تعلیم کو ہرشعبے پر فوقیت دی گئی ہے ،ریاست جموں وکشمیر میں بھی اس شعبے کو بہر صورت سب سے زیادہ اہمیت ملنی چاہئے جس کیلئے ضروری ہے کہ طلباکو بنیادی ڈھانچہ فراہم ہو اور اداروں کے قیام کے ساتھ ساتھ ان میں بنیادی سہولیات جیسے پانی و بجلی کی فراہمی ،طلباکے بیٹھنے کیلئے عمارت کا انتظام اور ہر ایک سکول میں بیت الخلاکی تعمیر کو یقینی بنایاجاناچاہئے۔ساتھ ہی ضرورت کے مطابق نظرانداز کئے گئے علاقوں میں نئے تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں تاکہ دور دراز اور پہاڑی اضلاع کے طلباکو بھی مقامی سطح پر تعلیم حاصل کرنے کا موقعہ مل سکے اور انہیں زیادہ تر وقت سکول آنے اور جانے میں نہیں بلکہ درس و تدریس پر صرف ہوسکے۔خاص طور پر پہاڑی اور دور درازخطوں خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب کو ترجیح دی جائے اورسکولوں کے قیام کے وقت انصاف کے سبھی تقاضے پورے کئے جائیں۔