بیسویں صدی کے عظیم قائد و رہنما اور سب سے بڑھ کر بانی انقلاب ِ اسلامی ایران، مرحوم و مغفور حضرت آیت اللہ عظمیٰ سید روح اللہ خمینیؒ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ کے ولولہ انگیز اور روحانی قیادت میں جو تاریخ ساز انقلاب اسلامی فروری ۱۹۷۹ء کو سر زمین ایران میں رونما ہوا۔ وہ اپنی مثال آپ ہے۔آپ ؒ کے تاریخ ساز انقلاب سے قبل ایران میں پہلوی شہنشاہیت کے نام سے مطلق العنان حکومت قائم تھی۔ اِس آمرانہ ، ظالمانہ، جابرانہ اور غیر جمہوری حکومت کا خاتمہ اِمام خمینیؒ کے والہانہ سربراہی اور روحانی قیادت میں ۱۹۷۹ء میں تکمیل کو پہنچا۔
آج کے جمہوری اِسلامی ایران کا اِنقلاب دوسرے ملکوں کے تاریخی انقلاب سے با لکل مختلف انقلاب تھا۔فریڈتالی اپنی کتاب ’’ ڈکٹیٹر شپ اینڈ ڈیولیپمنٹ (Dictatorship and Development) ‘‘ میں تحریر کرتی ہیں کہ اس انقلاب کو تین وجوہ کی بناء پر دیگر انقلاب سے مختلف تصور کیا جاتا ہے:
۱:۔ انقلابی جدوجہد کے دوران اس تحریک کے زیر اہتمام جو مظاہرے ہوئے ان میں کئی مرتبہ بیس بیس لاکھ سے زیادہ افراد نے شرکت کی۔ اتنی بڑی تعداد میں آج تک دنیا کے کسی ملک میں مظاہرین کا اجتماع نہیں ہوا۔
۲:۔ دنیا میں پہلی بار ایک ایسی فوج کو کسی بیرونی جارحیت سے ٹکرا کر کمزور بھی نہیں ہوئی تھی اور جو ایرانی شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کے زیر کمان ہمیشہ سے ترو تازہ تھی، مسلسل اور منظم عوامی عمل نے شکست فاش دیدی۔
۳:۔ یہ انقلاب ایک ایسے ملک میں بر پا ہوا جو اپنے مسائل کے باوجود دنیا کے بہت سے ملکوں کے نسبت زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ آج تک جن ممالک میں انقلاب آئے وہ اتنی ترقی یافتہ نہ تھے۔ مثال کے طور پر روس ۱۹۱۷ء میں، چین ۱۹۴۹ء ویت نام میں۱۹۷۵ئاور کیوبا میں ۱۹۵۹ء اتنے ترقی یافتہ نہ تھے۔ ان سب ممالک میاں محنت کشوں کی بھی بڑی تعداد آباد تھی۔ مگر اس کے باوجود ایران کی آبادی شہری ہے۔ مزدوروں کی تعداد صرف تین لاکھ ہے۔ ایک ایسے ملک میں انقلابِ اسلامی کی آمد نے وقت بہت سے رائج الوقت تصورات بدل دئے۔
پاکستان کے ایک معزز عالم دین اور مجلس ِوحدت مسلمین صوبہ سندھ کے جنرل سیکریٹری مولانا مقصود علی ڈومکی کے مطابق ـــــ’’ اِمام خمینیؒ نے عصرِ حاضر کی انسانیت کو خواب غفلت سے بیدار کر دیا اور انہیں شیطان بزرگ امریکہ اور طاغوت کے مقابل کھڑا ہونے کا حوصلہ دیا اور جمہوری اسلامی امام خمینی ؒ کا وہ عظیم شاہکار ہے جو عوام کی ظاقت سی جمہوری اصولوں پو مبنی الٰہی نظام ہے۔ مغربی جمہوریت اقوامِ عالم کے لئے ایک سراب ہے کیونکہ یہ مغربی جمہوریت ہی ہے جس نے انسانیت کو بش اور ٹرمپ جیسے قاتل و ظالم تحفے میں دئے ہیں،انہوں نے مغربی جمہوری نظام کو اقوامِ عالم کی بربادی اور تباہی کا ذمہ دارقراد دیتے ہوئے کہا کہ مغربی جمہوریت انسانیت کے کسی درد کی دوا نہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ قرآن و سنت پرمبنی وہ پاکیزہ نظامہے جو عصر حا ضرکی پریشان انسانیت کو عزت، عظمت اور سر بلندی عطا کر سکتا ہے۔ ‘‘
اپنے مثالی انقلاب کی تقدیر ساز کامیابی کے سلسلے میں اپنی تحریر کردہ تصنیف میں امام خمینی ؒ رقم طراز ہیں ’’ ہم تمام اسلامی ممالک کو اپنا سمجھتے ہیں، تمام اسلامی ممالک اپنی اپنی جہت پر ہیں، ہماری یہ خواہش ہے کہ تمام قوتوں اور اسلامی ملکوں میں ایسا ہی انقلاب بر پا ہو جائے اور قرآن و سنت ِ رسولؐ کی تعلیمات کے مطابق حکومتیں قائم ہو جائیں۔ ہمارے انقلاب صادر کرنے کا مطلب و مقصد یہ ہے کہ تمام قومیں بالخصوص امتِ مسلمہ بیدار ہو جائے اور خود کو مشکلات اور غلامی سے نجات دلائیں۔ ‘‘ ایک اور جگہ امام خمینیؒ فرماتے ہیں ’’ اسلام ایسا مکمل دین ہے جس میں احکامِ الٰہی سیاست سے تعلق رکھتے ہیں‘‘ یہ بات درست ہے کہ سیاست ، مذہبی رہنماؤں کے لئے شجر ممنوعہ نہیں ہے اسلام، رسولِ اکرم ؐ اور قرآن و سنت کے عظیم کردار کی جھلک اس میں دکھائی دیتی ہے کیونکہ اسلام میں سیاست کو دین سے جدا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا امام خمینیؒ نے اسلامی نظریے کے عین مطابق سماجی اور سیاسی پہلوؤں کی یکجہتی پر زور دیا اور ایک ایسے تصور ، حکمت و فلسفے کی بنیاد ڈال دی، جس کو ’’ولایت فقیہ‘‘ کہا جاتا ہے یعنی فقیہ کی حاکمیت یا ان لوگوں کی حاکمیت جو فقہ کے حوالے سے معاشرے کی حفاظت کریں گے۔ اس حاکمیت کا اصلی مقصد معاشرے میں اسلامی، سماجی، اجتماعی، سیاسی، اور اقتصادی نظام کی تشکیل ہے۔ دین اور سیاست کے باہمی تعلق پر زور دیتے ہوئے امام خمینیؒ فرماتے ہیں ’’ میں پوچھتا ہوں کہ کیا نبی کریمؐ کے عہدِ مبارک میں دین سیاست سے علیحدہ تھا۔؟ یا اس زمانے میں کچھ ماہرین دین اور کچھ ماہرینِ سایست تھے؟ یاکیا خلفائے ثلاثہ ؓکے زمانے میں کیا؟ کیا حضرتِ علیؑ کے زمانے میں سیاست دین سے علیحدہ تھی؟ کیا اس مبارک زمانے میں دین کا ڈھانچہ الگ اور سیاست کا الگ تھا؟‘‘
آپؒ فرماتے ہیں ’’ شہنشاہی نظام اسلام، حکومت اور اسلام کے سیاسی نظام میں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ اسلام نے ملوکیت اور شخصی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ وہیں کمیو نزم جیسے نظام کی بھی کوئی گنجائش نہیں ، جو غیر طبقاتی ،غیر ریاستی اور غیر خدائی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے۔‘‘ کمیونزم کو جابرانہ نظام قرار دیتے ہوئے آپ ؒ کہتے ہیں ’’ وہ جو کمیونسٹ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ، سب سے زیادہ ظالم اور سب سے بڑھ کر ڈکٹیٹر اور اپنی قوم کو زنجیروں میں جھکڑے ہوئے ہیں۔ ان ملکوں میں کسی کو آزادی میسر نہیں ہے۔ ‘‘ کمیونزم کے مطلق سابق سوویت یونین کے صدر مسٹر گوربا چوف کے نام اپنے خط میں امام خمینیؒ نے درست اور بجا طور پر تحریر فرمایا ہے ’’ سب پر یہ بات واضح اور روشن ہے کہ اب کچھ عرصے کے بعد کمیونزم کو دنیا کی سیاسی تاریخ کے عجائب گھروں میں تلاش کرنا پڑے گا ،اس لئے کہ اب تک مارکس ازم انسان کی حقیقی ضروریاتِ زندگی میں سے کسی ضرورت کا مثبت جواب نہیں دے سکا ہے۔‘‘
المختصر اسلام اپنی جگہ مکمل اور جامع سیاسی اور معاشرتی نظام ہے۔ اس مسئلے پر گفتگوںکرتے ہوئے معروف و مشہور اطالوی خاتون صحافی فلاسی سے اپنے انٹرویو میں مرحوم و مغفور امام خمینیؒ فرماتے ہیں:’’ لفظِ اسلام جمہوریت یا اس قسم کے کسی دوسریپیوند کا محتاج نہیں ہے، مختصراً اسلام ہر چیز ہے اور اس میں سب کچھ شامل ہے۔یہ بات ہمارے لئے افسوس ناک ہوگی اگر ہم اسلام کے ساتھ کوئی اور لفظ استعمال کریں یہ لفظ (اسلام) خود ہی کامل ہے جب کہ لفظ جمہوریت جسے( اہلِ مغرب ) بہت قیمتی تصور کرتے ہیں اور جو آپ کو پیارا لگتا ہے، کسی مخصوص معنی و مفہوم کا حامل نہیں۔ ارسطو کی جمہوریت ایک چیز ہے اور سویت جمہوریت دوسری چیز، جب کہ سرمایہ داروں کی جمہوریت ایک اور مختلف چیز ہے۔‘‘
’’ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اسلام اپنی جگہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے۔ جمہوریت کی طرح اس کے مختلف مفاہیم مراد نہیں لئے جا سکتے ۔ اسلام میں اللہ تعالیٰ کے اقتدار اعلیٰ کے ساتھ خلافت کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس بارے میں مرحوم امام خمینی ؒ فرماتے ہیں ۔ ’’ اسلام میں خلافت ہی ولایت ہے۔ خلیفہ محض واضع قانون یا مبلغ قانونی نہیں ہوتا بلکہ خلیفہ کے ہاتھ میں وہ طاقت و اختیار ہوتا ہے جس سے وہ ملک میں قانون نافظ کرتا ہے اور اس حکومت کے قیام اور اس میں نافظ کرنے والے اداروں کی تشکیل و تنطیم کی اہمیت واضع ہو جاتی ہے، جس میں ولایت فقیہ کا عقیدہ جزو ایمان ہے۔‘‘ آگے چل کر امام خمینیؒ فرماتے ہیں ’’ اسلام نہ صرف مظلوم و ستم رسیدہ عوام کو محروم کر دینے والی بے حساب و کتاب ظالمانہ سرمایہ داری کا مخالف ہے بلکہ کتاب و سنت میں پوری تاکید کے ساتھ اس کی مذمت بھی کرتا ہے اور اسے سماجی انصاف کے خلاف تصور کرتا ہے۔‘‘
’’اسلامی نظام میں اگرچہ سرمایہ داری کی مخالفت کی گئی ہے لیکن انفرادی ملکیت کو تحفظ دیا گیا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں کمیو نزم میں بھی ملکیت کے خاتمے اور اجتماعی ریاستی ملکیت پر زور دیا جاتا ہے لیکن اسلامی نظام حکومت میں اس قسم کے نظام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام معتدل نظام ہے جو ملکیت کا حق کو تسلیم کرتا ہے اور اس کا احترام کرتا ہے لیکن ملکیت کے با وجود میں آنے کے اسباب اور اس کے استعمال میں محدودیت کا قائل ہے۔ اگر اس پر واقعی اورصحیح طریقے سے عمل کیا جائے تو صحت مند ، معیشت کے پہیے حرکت میں آجائیں گے اور سماجی انصاف جو ایک مسلمہ نظام کا لازمہ ہے ، وجود میں آجائے گا، نجی ملکیت کے تحفظ اور سرمایہ کی گردش کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے امام خمینی ؒ ارکانِ حکومت سے یہ ارشاد کرتے ہیں:’’ خدا وند متعال کے احکام کے آگے سر تسلیم خم رکھنے اور ظالم و لٹیرے سرمایہ دار بلاک یا متحد کمیونسٹ اشتراک کی بلاک دونوں کے کھوکھلے پروپیگنڈے سے متاثر نہ ہو جائے۔ اسلامی حدود کے اندر جائز سرمایوں یا ملکیت کا احترام کیجئے اور ملت کو اطمنان دلائے تاکہ تعمیری سرگرمیاں اور سرمائے حرکت میں آجائیں اور ملک و حکوت کو خود کفیل اور چھوٹی بڑی سنعتوں سے مالا مال کریں۔‘‘
اس مختصر بحث سے یہی کچھ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام کے نظام سیاست و حکومت میں کسی سیاسی مخصوص سیاسی نظام کے اعتبار کرنے پر زور نہیں دیا گیا ۔ یہ در اصل ایک ایسا نظام ہے جس میں ریاست اسلامی جمہوریہ ہوتی ہے۔اسلامی ریاست کا سربراہ منتخب ہوتا ہے اور اقتدارِ اعلیٰ کا سرچشمہ خدای تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے، عوام کے ووٹوں( اصطلاحاًبیعت ) سے منتخب شخص (سربراہ ملک) اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ اسلامی ریاست کے سربراہ اور ارکان کے لئے ضروری ہے کہ مخصوص صلاحیتوں کے حامل ہوں، اور اپنے مقصد میں مخلص ہوں اور ملک و قوم کے مفاد کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔ صدر جمہوریہ اور پارلیمنٹ کے اراکین اس طبقے سے تعلق رکھتے ہوںجنہوں نے معاشرے کے محروموں اور مستضعفوں کی محرومیت کومحسوس کیا ہو ، ان کی فلاح و بہبود کا خیال ہو وہ سرمایہ دار ، جاگیر دار ، یا عیش و عشرت اور لذت میں غرق طبقے سے تعلق نہ رکھتے ہوں کیونکہ ایسے لوگ بھوکوں اور غریبوں کی محرومیت اور ان کے رنج و الم کی تلخی محسوس نہیں کر سکتے۔‘‘
یہاں یہ قابل ذکر ہے کہ جب فروری ۱۹۷۹ء میں انقلابِ اسلامی ایران کامیابی کے ساتھ ہمکنار ہوا تو بانی انقلاب اسلامی امام خمینیؒ نے اولین فرصت میں عوام سے رجوع کرکے ایران میں ریفرنڈم کروا دیا تاکہ ملک ایران میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام ہو۔ %۹۸ آراء یا ووٹ اسلامیہ جمہوریہ نظام ِ حکومت کے حق میں آئیں۔ اس طرح مملکت ایران ملوکیت اور بادشاہیت سے نکل کر جمہوری اِسلامی ایران قرار پایا۔ اس کے فوراً بعد صدارتی اور پارلیمنٹ یا مجلس کے انتخابات شیڈول کے مطابق عمل میں لائے گئے ۔ آج تقریباً ۳۸ سال گذر نے پربھی اسلامی جمہوریہ ایران میں صدر اور مجلس یعنی پارلیمنٹ کے انتخابات نہایت خوش اسلوبی اور پر امن طریقے سے عمل میں لائے جاتے ہیں ۔واضح رہے ۱۹۷۹ء کے تاریخ ساز انقلاب اسلامی ایران کے فوراً بعد ستمبر ۱۹۸۱ء میں امریکہ ، برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی ایماء پر عراق کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران پر جنگ مسلط کر دیا گیا اور یہ مسلط کردہ تباہ کن اور خونریز جنگ پورے آٹھ سال تک جاری رہا، نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ چند ممالک اس وقت بھی اس بے نظیر و تاریخ ساز انقلاب اسلامی ایران کو درہم برہم کرنے کی مذموم سازشوں میں ملوث ہورہے ہیں۔ قبل ا زیں آٹھ سالہ جنگ میں دونوں ایران و عراق میں لاکھوں مسلمان جان بحق ہوئے اور اربوں ڈالروں کا زبردست مالی نقصان ہوا۔
بانی انقلاب اسلامی ایران امام خمینیؒ ہمیشہ عالمی صہنونیت اور طاغوتی قوتوں کے خلاف مسلم اتحاد و اتفاق کی دعوت دیتے رہے۔ آج بھی ایران ڈنکے کی چوٹ پر عالمی صہونیت یعنی اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنی حمیت و غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مظلومین و مستعضفین کے حق میں آواز بلند کرتا ہے۔ ایران کا اصولی موقف ہے کہ کلمہ توحید کا برملا اور پورے یقین و اعتماد کے ساتھ اظہار کرنا اللہ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے راستہ پر پوری طرح عمل کرنا، اتحاد و اتفاق و یکجہتی کی شاہراہ پر پورے استقامت اور خلوص کے ساتھ گامزن ہونا ، عقلِ سلیم ،علم و حلیم علم و بردباری سے دشمنانِ اسلام کا بھر پور مقابلہ کرنا اور ان کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح صف و آراء ہونا، یہ سب ملت اسلامیہ کے واسطے وقت کی اہم ضرورتیں ہیں۔ موجودہ رہبرِ معظم جمہوری اسلامی یران کے سب سے اعلیٰ ترین اور معزز شخصیت حضرت آیت اللہ العظمیٰ و مرجع تقلید سید علی ا لحسینی خامنٰہ ای مد ظلہ العالی او ررئیس جمہوریہ اسلامیہ ایران ڈاکٹر جناب حسن روحانی صاحب کو دل کی گہرائیوں سے جمہوری اسلامی ایران کی چالیس ویں سالگرہ کے موقع پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہوں کی جمہوریہ اسلامیہ ایران دن دگنی رات چوگنی ترقی و خوشحالی کے منازل پار کرے اور اسلامی ممالک کے ما بین برادرانہ ومحبانہ روابط و تعلقات روز بروز بڑھ جائیں اور اللہ تعالیٰ مسلمانان ِ عالم کو سب سے بڑی نعمت یعنی اتحاد و اتفاق سے نوازے ۔ دعا ہے کہ شاعرِ مشرق علامہ اقبال ؒ کا یہ خواب پورا ہو جائے .
تہران گر ہو عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض لی تقدیر بدل جائے
………………………
رابطہ :منور آباد سرینگر کشمیر حال (وہاب پورہ بڈگام) cell: 9906574725
فون نمبر 9906574725