جنوبی کشمیر کے مختلف علاقوں میں گزشتہ چند روز کے دوران پوست( خشخاش) کی فصلیں تباہ کرنے کی جو کارروائیاں ہوئی ہیں عوامی حلقوں میںاُنکا خیر مقدم کیا جا رہا ہے نیز یہ اُمید کی جارہی ہے کہ یہ کاروائی مشتے از خروارے کے اصول پر نہیں کی جائیگی بلکہ منشیات کی کاشت میں مصروف تمام عناصر کے خلاف منظم مہم چھیڑ نے میں کوئی پس وپیش نہیں کیا جائیگا۔ اس حوالے سے پولیس اور نارکوٹکس محکمہ پر کلیدی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، کیونکہ منشیات کے کاروبار نے جس وسیع پیمانے پر اپنے پر پھیلائے ہیں اس کے دبائو سے سارا سماج چُر مرارہا ہے اور نئی نسل کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگنے لگے ہیں۔کچھ برسوں سے جنوبی کشمیر کے کم و بیش سبھی اضلاع میں پوست اور بھنگ کی کاشت نہایت ہی منظم طریقےسے ترتیب کے ساتھ کئےجانے کی خبریں برابر آتی رہی ہیں لیکن متعلقہ حکام کی جانب سے ان سرگرمیوں کےخلاف جس منظم مہم کی ضرورت ہے، وہ دیکھنے کو نہیں ملتی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ فصلیں تیار ہونے تک انتظامیہ خواب خرگوش میں ہوتی ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ بعد اذاں کچھ کاروائیاں عمل میں لاکے انکی تشہیر بھی کی جاتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر فصلیں اُٹھائی جاتی ہیں اور انتظامیہ کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی ۔ حالیہ ایام میں جنوبی کشمیر کے مختلف علاقوں میں خشخاش کی کاشت کرنے کی خبریں تواتر کے ساتھ موصول ہو رہی تھیں لیکن اس دوران کہیں پر کسی قسم کی کاروائی دیکھنے میں نہیں ملی۔ ریاست کے دونوں بڑے شہروں سرینگر اور جموں کے علاوہ قصبہ جات میں بھی فی الوقت منشیات کے کالے کاروبار کی سرگرمیاں جس منظم پیمانے پر چلائی جارہی ہیں اُس شدت سے اسکے خلاف کاروائی کا عشر عشیر بھی کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ منشیات فروشوں کی گرفتاریوں کی اکا دُکا خبریں میڈیا کے توسط سے آتی رہتی ہیں لیکن شہروں اور قصبوں کے بازاروں میں جا بجا منشیات کی لت میں مبتلاء نوجوانوں کے غول در غول دکھائی دینا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے انتظامیہ کو ہمہ جہت پالیسی اختیار کرکے ایک جانب منشیات فروشوں کے خلاف شکنجہ کسنا چاہئے جبکہ دوسری جانب ان جان لیوا فصلوں کی کاشت کے ابتدائی ایام میں ہی محترک ہو کر انہیں تباہ کرنے کے ساتھ یہ فصلیں اُگانے والے کسانوں کو حلال فصلوں کی کاشت کی طرف راغب کرنا چاہئے وگرنہ صورتحال ویسی ہی رہنے کا خدشہ ہے جو پہلے تھی۔ ریاست میںسماج کو اندر ہی اندر سے دیمک کی طرح چاٹنے والے اس دھندے کے لئے کتنی مقدار میں زرعی اراضی استعمال ہورہی ہے اس کے متعلق مختلف محکموں کے پاس موجود اعداد وشمار نہ صرف متضاد ہیں بلکہ مشکوک بھی ہیں۔ محکمہ آبکاری کے ذرائع کا ماننا ہے کہ وادی میں کم ازکم 24ہزار کنال اراضی پر منشیات کی کاشت ہوتی ہے ، جس سے اربوں روپے مالیت کی مختلف منشیات تیار کی جاتی ہیں جبکہ محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق یہ رقبہ نصف سے بھی کم ہے۔ایسا کیوں ہے،اس بحث میں پڑے بغیر منشیات کے زیرکاشت اراضی کاحجم بذات خود ایک انتہائی تشویشناک امرہے کیونکہ بالآخر اس زمین سے اْگنے والا زہرصرفے کے لئے بالآخر سماج میں ہی راہ پاتاہے ، جس سے نسلوں کی نسلیں برباد ہوجاتی ہیں۔ آج دْنیا بھر میں نئی نسل کے اندر منشیات کے استعمال سے تباہی کی جو خوفناک صورتحال نظر آرہی ہے،اْس سے ساری اقوام متفکر ہیں اور اس کے انسداد کے لئے مختلف سر توڑ کوششیں کررہے ہیں ،لیکن یہ افسوس کا امرہے کہ ہماری ریاست میں اس حوالے سے نہ صرف حکومت بلکہ سماج کے اندر بھی انتہائی سطح پر بے حسی پائی جارہی ہے۔ یہ فصلیں کاشت کرنے اور ان کی پرورش وپرداخت کیلئے وہی محنت جو کہ ایک حلال فصل کے لئے ضرورت ہوتی ہے ، اْٹھائی جاتی ہے ، اْس دوران متعلقہ محکموں کی جانب سے کبھی عوام کو کسی قسم کی اطلاع فراہم نہیں کی جاتی۔ کیا یہ دانستہ عمل ہے یا پھر انتظامیہ اْسی وقت جاگتی ہے ،جب یہ حرام فصلیں لہلہانے لگتی ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے بھی غالباً متعلقہ محکموں سے یہ جواب طلب کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی ہے کہ ایک مکمل فصلی موسم کے دوران اس انسان دشمن کام کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی ؟ ۔اس وقت غذائی اجناس کے حوالے سے ریاست کو جس کمی کا سامناہے ماہرین کے مطابق اس مذکورہ رقبہ سے اس قدر اجناس حاصل کئے جاسکتے ہیں کہ یہ تفاوت دس فیصد تک کم ہوسکتاہے۔ کسی بھی مہذب قوم کے لئے یہ شایان شان نہیں کہ وہ حلال اجناس کی قلت کے ہوتے ہوئے حرام اجناس پیدا کرنے پر اپنی قوتیں صرف کرے، جس سے نہ صرف سماج کی بنیادیں کھوکھلی ہورہی ہیں ۔سماج کے اندر پنپنے والی بے شمار بیماریوں کا سبب اس دھندے سے حاصل ہونے والی غیر قانونی دولت ہے ، جو سماجی کو ایک نئی اور خطرناک طبقاتی کشمکش کی جانب دھکیل رہی ہے۔ اس خوفناک صورتحال پر فوراً جاگنے کی ضرورت ہے۔ محکمہ آبکاری اور پولیس کے پاس اْن علاقوں کا ریکارڈ موجود ہے ،جہاں منظم طریقے سے منشیات کی فصلیں تیار کی جاتی ہیں ،لہٰذا ایسا بندوبست کرنے کی ضرورت ہے کہ اس انسان دشمن حلقے کو منشیاتی فصلوں کی بوائی کا موقع ہی نہ ملے۔ اس حوالے سے انتظامی وسماجی سطح پر منظم تحریک چلانا ہماری اوّلین ترجیح ہونی چاہئے۔ اب جبکہ پوست کی کاشت کا موسم ختم ہوگیا اور بھنگ کی کاشت کا موسم شروع ہو رہا ہے لہٰذا اس میں کوتاہی برتنے کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ منشیات کی کاشت کرنے اور ان سے منشیات تیار کرنے والوں کے خلاف موسم کی ابتداء سے ہی سنگین اور متواتر کارروائی کرنے میں کوئی نرمی نہیں کی جانی چاہئے۔ جبھی کوئی مثبت نتیجہ حاصل ہونے کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔