Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

سیرت پر صورت کو ہی ترجیح کیوں؟

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: July 16, 2020 3:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
9 Min Read
SHARE
مہمانوں کے آنے میں بہت کم وقت رہ گیا تھا اور وہ آج بھی ہمیشہ کی طرح دیوار پر لگے شیشے میں خود کو ہر زاویے سے دیکھ رہی تھی، وہ کبھی آئینے کے قریب جاتی ہے تو کبھی دور، کبھی بال کھولتی ہے تو کبھی باندھتی ہے کبھی مسکراتی ہے تو کبھی ایک دم سنجیدہ ہوجاتی ہے۔یہ سب کرتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی کہ وہ واقعی بہت عام سی ہے،کاش اللہ تعالی نے مجھے بھی تھوڑا خوبصورت بنایا ہوتا ! یہ سوچتے ہوئے نہ جانے کتنے آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر زمیں میں جذب ہوگئے تھے۔
آج بھی تیار ہوتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی کہ آخر کب تک !اماں کے چہرے پر آج بھی ہمیشہ کی طرح پریشانی اور غصے کے ملے جھلے تاثرات تھے، اماں کا بھی کیا قصور ہے۔ قصور تو میرا ہے ،اگر میں بھی خوبصورت ہوتی تو آج یہ سب نہ ہوتا! مہمانوں کے سامنے چائے کی ٹرے رکھتے ہی اس کے آگے اْن سوالات کی برسات کردی جاتی ہے جن کے جوابات وہ ہمیشہ سے ہی بڑی روانی کے ساتھ دیتی آئی تھی لیکن افسوس پاس پھر بھی نہیں ہوتی تھی۔
رات گئے فون کی گھنٹی بجتی ہے ،اماں کے چہرے پر ایک کے بعد ایک رنگ آتا دیکھ کر وہ سمجھ گئی تھی کہ لڑکے والوں نے منع کردیا ہے۔ وہ آج بھی مستردکردی گئی تھی !صرف اس لیے کہ وہ ایک عام شکل و صورت کی گھرداری میں ماہر پڑھی لکھی لڑکی تھی۔مگر افسوس وہ خوبصورت نہیں تھی! آج بھی ہمیشہ کی طر ح اسے اور اماں کو رات بھر تکیہ بھگونا تھا!یہ وہ کہانی ہے جو آج ہمیں اپنے سو کالڈ تعلیم یافتہ معاشرے کے ہر گھر میں رونما ہوتی نظر آتی ہے۔ 
آپ کاتعلق چاہے کسی بھی کلاس سے ہو اگر آپ بیٹی والے ہیں تو آپ کو بھی اس کہانی کا کردار بننا پڑے گا۔کہتے ہیں بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں لیکن درحقیقت صرف اپنی بیٹی ہی اپنی ہوتی ہے۔ہمارے معاشرے کی یہی تو روایت ہے کہ اپنی بیٹی جان سے پیاری اور دوسرے کی بیٹی کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں ! آپ کسی کی بیٹی میں دس دس خامیاں نکالو اور بدلے میں اس بدی کا بدلا نیکی تصور کرو، یہ سراسر بیوقوفی ہے۔ 
ہم جس معاشرے اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں وہاں یہی روایت ہے کہ جتنا جلدی ہوسکے بیٹیوں کو اپنے گھر کا کر دینا چاہیے،کیوں کہ ان کا اصل گھر سسرال ہوتا ہے۔کہتے ہیں عورت ہر طرح کی تکلیف برداشت کر لیتی ہے۔صنفِ نازک کا لقب پانے والی عورت زندگی کے کئی معاملوں میں مرد سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ لیکن عورت تکلیف تو برداشت کرلیتی ہے ، ذلت نہیں!اور کرے بھی کیوں جب اللہ نے اسے اتنی عزت دی ہے کہ اسے ماں کا درجہ دیا اور اس کے قدموں تلے جنت رکھی ہے تو ہم کیوں اس کی عزتِ نفس مجروح کرنے میں لگے ہوئے ہیں؟ 
ہم آج کس مذہب کی اقدار لے کر چل رہے ہیں۔ جہاں ماں باپ کو اپنی بیٹی کو اس کے گھر کا کرنے کے لیے سجا سنوار کر ہر طرح کی چھوٹی اور اونچی سوچ رکھنے والے لوگوں کے آگے پیش کرنا پڑتا ہے۔چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ وہ مہم ہے، جس کا حصہ بننا آج کے دور کی ضرورت بن گیا ہے۔ لیکن یہ آنے والے کونسی شیطانی صفات کے مالک ہوتے ہیں ، ان کی انسانیت ، شرافت اور غیرت اس وقت کہاں چلی جاتی ہے جب یہ لڑکی کے گھر آنے سے قبل یا بعد میں ان کے والدین سے الٹے سیدھے سوالات پو چھتے ہیں۔
لڑکی گوری ہے یا کالی ؟ چھوٹی ہے یا لمبی ؟ موٹی ہے یا پتلی ؟لڑکیوں کو گھر آنے سے پہلے ہی اس قدر خود اذیتی کا شکار کر دیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کے آگے آنے میں عار محسوس کر تی ہیں ، گھبراتی ہیں ، کانپتی ہے لیکن ان سب سے لڑکے والوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ، وہ آتے ہیں کھاتے ہیں، گھورتے ہیں اور چلے جاتے ہیں !اور بعض اوقات تو جواب دینا بھی گوارہ نہیں کرتے اور یہاں لڑکی اور والدین آس لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اکثر اوقات ایک لطیفہ نظر سے گزرتا ہے کہ خود کا بیٹا چاہے جیسا بھی ہو لیکن بہو چاند کا ٹکڑا چاہیے ! کہتے ہیں کہ لڑکے کی صرف جاب ، پیسہ اور گھر دیکھا جاتا ہے اس کی شکل و صورت نہیں۔تو کوئی یہ بھی بتادے کہ پھر ہم لڑکیوں کا کیا قصور ہے ؟ ہمارا رنگ ، صحت، اور صورت سب کچھ کیوں د یکھا جاتا ہے۔
ہماری سیرت ،گھرداری سلیقہ اور اخلاق کیوں نہیں دیکھا جاتا؟ کیوں ہمارے معاشرے میں ہر معاملے میں عورت کو مرد سے کمتر اور پیچھے رکھا جاتا ہے ؟اس میں سارا قصور ہماری سوچ کا ہے۔ ہم نے اپنے ذہنوں میں یہ سوچ فٹ کر لی ہے کہ عورت برداشت کرتی ہے۔ ہماری اسی سوچ اور عمل نے لڑکیوں سے ان کی زندگی کا اہم فیصلہ کرنے کا حق چھین لیا ہے۔لڑکے ہزار نخرنے دکھائیں اور لڑکیا ں ریجیکٹ کرتے پھریں لیکن ہمارے پاس کئی لوگوں کے آگے ریجیکٹ ہونے کے بعد یہ آپشن ہی نہیں رہتا کہ ہم ناں کر سکیں !ہم لڑکیا ں اپنے ماں باپ کی پر یشانیوں سے اور خود سے جنگ لڑتے لڑتے اس قدر تھک جاتی ہیں کہ بالآخر ہم اپنی پسند پر ماں باپ کی پسند کو تر جیح دے دیتی ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ ہمارے معاشرے میں یہ گھر گھر جا کر ،کھا پی کر اور تنقید کر کے گھر کی عزت لانے کا رواج کہاں سے آیا ہے۔لیکن میں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ اس امر کو فوری طور پر درستی کی ضرورت ہے اور یہ اْسی وقت ممکن ہے جب ہماری سوچ تبدیل ہوگی۔
اگر لڑکے والے لڑکی کے گھر مس یونیورس تلاش کرنے کے بجائے بہو تلاش کرنے کی نیت سے جائیں اور یہ سوچ لیں کہ اگر آج وہ کسی کی بیٹی پر تنقید کریں گے تو کل کو ان کی بیٹی بھی اس چیز کا نشانہ بن سکتی ہے تو مجھے یقین ہے کہ یہ سوچ ان کی پس ماندہ سوچ کو اتنا اونچا تو کر ہی دے گی کہ وہ کسی بھی لڑکی کو اس کے گہرے رنگ، عام شکل و صورت اور موٹاپے کی بنیاد پر ریجیکٹ کرنے سے پہلے دس بار ضرور سو چیں گے ! خوبصورتی ہی سب کچھ نہیں ہوتی ہے اصل میں انسان کو اچھے اخلاق کردار اور سیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہمیں اپنی سوچ کو بدلنے کی اشدضرورت ہے۔ساتھ ہی اس معاملے میں لڑکیوں کو بھی چائیے کہ وہ خود کو کسی سے بھی کمتر نہ سمجھیں اور لوگوں کی فضول باتوں کو دل سے لگا کر بیٹھنے کے بجائے خود کو موٹیویٹ کرتی رہیں۔ اس کے علاوہ ما ں باپ کو بھی شادی کے معاملے میں دیر سویر اور بار بار ریجیکٹ ہونے پر اپنی بیٹیوں کو یا اْن کے نصیب کو قصور وار نہیں ٹھہرانا چاہیے۔
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

صحت سہولیات کی جانچ کیلئے ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کاپونچھ دورہ تعمیراتی منصوبوں اور فلیگ شپ پروگراموں کی پیش رفت کا جائزہ لیا
پیر پنچال
پولیس نے لاپتہ شخص کو بازیاب کر کے اہل خانہ سے ملایا
پیر پنچال
آرمی کمانڈر کا پیر پنجال رینج کا دورہ، سیکورٹی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا آپریشنل برتری کیلئے جارحانہ حکمت عملی وہمہ وقت تیاری کو ضروری قرار دیا
پیر پنچال
سندر بنی میں سڑک حادثہ، دکاندار جاں بحق،تحقیقات شروع
پیر پنچال

Related

گوشہ خواتین

دلہنیںایک جیسی دِکھتی ہیں کیوں؟ دورِ جدید

July 10, 2025
گوشہ خواتین

نکاح اور منگنی کے بدلتے رنگ ڈھنگ رفتارِ زمانہ

July 10, 2025
گوشہ خواتین

اچھی بیوی! | گھر کے تحفظ اور وقار کا ذریعہ دہلیز

July 10, 2025
گوشہ خواتین

بہو کی سوچ اور سسرال کا کردار؟ گھر گرہستی

July 10, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?