ہم جنت بے نظیر کشمیرکے اس عظیم پارک ،جس کی شہرت سن کراسے دیکھنے آئے تھے، میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں ہمارے جیسے سینکڑوں افراد سیر وتفریح میں مگن تھے۔ محکمہ سیاحت نے ناظرین کی تفریح کی خاطرکئی انتظامات کررکھے تھے۔ ہم بھی پارک کی خوبصورتی اور قدرتی مناظر کے حسن سے لطف اندوز ہونے لگے کہ اچانک ایک بزرگ شخص ہمارے سامنے آکر مخاطب ہوئے۔ ’’لگتا ہے آپ لوگ پہلی باراس پارک میں آئے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں، میں اپنے ان دوستوں کو یہ پارک دکھانے لایا ہوں۔۔۔یہ تینوں دوست ممبئی سے آئے ہیں۔۔۔۔ان کی خواہش تھی کہ کشمیر کے کسی تفریحی مقام کو دیکھا جائے۔‘‘
’’بہت خوب!۔۔۔۔۔لیکن آپ تو یہیں کشمیر کے لگتے ہیں۔‘‘
’’جی ہاں۔۔۔۔تلگام سے ہوں۔‘‘
’’آپ بھی پہلی بار آئے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں۔۔۔۔مجھے افسوس ہے کہ میں پہلے کیوں نہیں آیا۔‘‘
’’او کے ۔۔۔آپ سے اور آپ کے دوستوں سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔۔۔ آپ کے یہ دوست اب ہمارے مہمان ہیں۔‘‘
اس شخص کی باتوں میں اپنائیت کی حلاوت محسوس ہورہی تھی۔ہم اس کی شخصیت اور گفتگو سے کافی متاثر ہورہے تھے۔
’’کیا آپ لوگوں کو اس پارک کی اہمیت اورخصوصیت کے بارے میں کچھ معلوم ہے؟‘‘ بزرگ شخص نے سوال کیا۔
’’نہیں!‘‘ میں نے جواب دیا۔میرے تینوں دوست خاموش تھے۔
’’ٹھیک۔۔۔تو چلو میرے ساتھ۔۔۔۔میں آپ لوگوں کو اس پارک کے بارے میں کچھ خاص باتیں بتاتا ہوں۔۔۔۔‘‘
ہم چاروں اس شخص کے پیچھے چلنے لگے۔وہ بتانے لگا۔’’اس پارک میں اکثر بڑے بڑے سلیبریٹیز (Celebrities)آتے ہیں۔۔۔۔ملک کے کئی نامور لیڈر بھی آچکے ہیں۔۔۔۔یہاں کئی فلموں کی شوٹنگ بھی ہوچکی ہے۔‘‘
تھوڑی دور جانے کے بعد ،جہاں آس پاس کوئی نہ تھا اس نے مجھ سے میرا موبائل فون طلب کیا۔ میں نے اطمینان سے اپنا موبائل فون اس کے حوالے کر دیا ۔ اس نے ہمیں ایک ساتھ کھڑے ہونے کو کہاتاکہ وہ ہماری تصویریں لے سکے۔
’’جناب !۔۔۔رہنے دیجئے ۔۔۔۔تصویر لینی ہوگی تو ہم خود کھینچ لیں گے۔‘‘
’’نہیں نہیں۔۔۔۔میں ایسی تصویریں کھینچوں گا جیسی بہت سارے فلم اسٹاروں نے اس جگہ کھینچی ہیں۔‘‘
ہم اس بزرگ شخص کے مزیدگرویدہ ہوگئے ۔ ہم چاروں ایک قطار میں کھڑے ہوگیے تواس نے ہماری کئی تصویریں لیں۔چاروں کی مشترکہ بھی اور علیحدہ علیحدہ بھی۔پھر اس نے مسکراتے ہوئے میرا موبائل فون واپس کر دیا۔میں موبائل میں اپنی اور اپنے دوستوں کی تصویریں دیکھنے لگا اور اس سے باتیں کرنے لگا ۔
’’جناب ! آپ نے تو بہت خوبصورت تصویریں کھینچی ہیں۔۔۔۔بالکل کسی ماہر فوٹو گرافر کی طرح۔۔۔۔پس منظر میں سر سبز پہاڑ کے عکس نے تو تصویر میں جان ڈال دی ہے۔۔۔۔واہ وا کیا کہنے !‘‘
وہ شخص میری باتوں سے بہت خوش دکھائی دے رہا تھا۔ پھر میںنے باری باری اپنا موبائل فون اپنے تینوںدوستوں کے حوالے کردیا تاکہ وہ بھی اپنی تصویروں سے لطف اندوز ہوسکیں۔ ان تینوںنے بھی بزرگ شخص کی تصویر کشی کی تعریف کی۔باتیں کرتے کرتے ہم ایسی جگہ آگئے جہاں کچھ لوگ دری بچھا کراپنے ساتھ لایا ہوا کھاناکھارہے تھے کیونکہ پارک کے اندر پکنک منانا ممنوع تھا۔ہم اس بزرگ شخص کا شکریہ ادا کرکے آگے بڑھنے لگے۔
اچانک وہ کہنے لگا۔’’ ارے کہاں جارہے ہو؟۔۔۔۔خالی شکریہ کہنے سے کام نہیں چلے گا۔۔۔۔ اس پارک میں تصویر کھینچنے کے پیسے لگتے ہیں۔۔۔۔میں اس باغ کا چیف گارڈنر ہوں۔۔۔۔ نکالو تم چاروں دو سو دو سو !‘‘لہجے میں سختی تھی،بالکل پولیس والوں کی طرح۔
اس کا یہ روپ دیکھ کر ہم چاروں سکتے میں آگئے۔ میں نے غصے میں کہا۔’’ٹھگنے کا ایک بالکل نیا طریقہ ایجاد کیا ہے آپ نے ۔۔۔۔ہم نے کب تصویر یںکھینچی ہیں جو آپ کو پیسے دیں؟‘‘
چیف گارڈنرماننے کو تیار نہیں تھا۔ وہ بضد تھا کہ پیسے لے کر رہے گا اور میں بھی اُڑگیا کہ ایک پیسہ نہیں دوں گا۔میرے دوست گم سم تھے۔وہ غریب الوطن تھے، اس لیے وہ کچھ بولنا مناسب نہیں سمجھ رہے تھے۔ ہماری حجّت دیکھ کر کئی لوگ وہاں جمع ہوگئے۔
ایک شخص نے کہا۔’’ہاں، ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے پارک کے اندر تصویر لینا ممنوع ہے۔۔۔۔ تصویرلینے پر جرمانہ لگے گا۔‘‘
میںنے اس سے کہا۔’’ جب ہم تصویر کھینچیں گے تب نا؟‘‘
’’جی ہاں!‘‘
’’تو ان سے پوچھئے ،میں نے یا میرے ان ساتھیوں نے تصویر کھینچی ہے؟‘‘میں نے ان صاحب سے کہا۔پھر خود ہی چیف گارڈنر سے پوچھا۔’’کیوں ہم نے تصویر کھینچی ہے؟‘‘
ظاہر ہے کہ ہم نے تو نہیں لی تھیںتصویریں۔یہ غلطی تو اسی نے کی تھی تو وہ کیا جواب دیتا ۔اگرمیں سب سے سامنے بتادیتا کہ تصویریں تو چیف گارڈنر نے ہی کھینچی ہیں تو یہ ثابت ہوجاتا کہ میرے موبائل سے تصویریں لی گئی ہیں۔اب کون یقین کرتا کہ میں جھوٹ نہیںکہہ رہا ہوں۔
چیف گارڈنر نے جواب دینے کی بجائے جھنجھلا کر کہا۔’’لائیے اپناموبائل دیجئے۔۔۔۔ابھی دکھاتا ہوں۔‘‘
میں نے اپنا موبائل فون اس کے حوالے کردیا۔وہ بہت دیر تک میرے موبائل پر وہ تصویریں تلا ش کرتا رہا۔اب اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔لو گ سمجھ گئے کہ چیف گارڈنر کا الزام درست نہیں ہے۔ وہ اسے بُرا بھلا کہنے لگے کہ خواہ مخواہ نئے لوگوں کو پریشان کرتا ہے۔ چیف گارڈنر نے شرمندہ ہوکر میرا موبائل فون واپس کردیا اور حیرت سے مجھے دیکھنے لگا۔
میںنے اپنا موبائل فون واپس لے کر اس سے کہا۔’’ اس طرح ٹھگی کرکے تم اپنی عاقبت کیوں خراب کرتے ہو؟۔۔۔۔اگر تمہاری شکایت ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کو کردوں تو۔۔۔‘‘
میری اس دھمکی پر وہ تھوڑا بدحواس ہوگیا اور مجھ سے’’ معافی چاہتا ہوں‘‘ کہہ کرجلدی سے ایک طرف چلا گیا۔
پھر ہم چاروں دوست کافی دیر تک سیروتفریح کرنے کے بعد پارک سے باہر آگئے۔ایک دوست نے حیرت سے پوچھا۔’’یار خالد! وہ ساری تصویریں کیا ہوگئیں؟‘‘
میں نے ہنستے ہوئے بتایا۔’’دراصل اس کی اس فریب کاری کے متعلق میرے ایک مقامی دوست نے مجھے پہلے ہی بتادیا تھا۔۔۔۔جو لوگ پارک انتظامیہ کی ہدایت کے مطابق تصویریںنہیں لیتے ان کو یہ شخص اسی طرح تصویریں کھینچ کر بے وقوف بناتا ہے۔۔۔۔اگر اسے پیسے نہ دو تو ضابطے کے مطابق ہزار روپئے جرمانہ کے طور پر بھرنا پڑے گا۔ باہری لوگ اس طرح کے جھمیلے سے بچنے کے لیے اس کا مطالبہ مان لیتے ہیںاور سو دوسو روپئے دے کر جان چھڑا لیتے ہیں۔۔۔۔اس طرح دن بھر میں اچھی خاصی کمائی ہوجاتی ہے۔۔۔۔ دراصل میںنے اس سے باتوں باتوں کے درمیان ساری تصویریں ڈیلیٹ کردی تھیں۔‘‘
ایک دوست نے کہا۔’’لیکن یار ، واقعی تصویریںبہت خوب صورت آئی تھیں۔۔۔۔وہ یاد گار تصویریں ہوتیںہم چاروں کی ۔‘‘
میںنے کہا۔’’افسوس کیوں کرتے ہو۔۔۔۔گھر پہنچ کر وہ تصویریں تم سب کو پوسٹ کردوں گا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ تینوں نے حیرانی سے ایک ساتھ پوچھا۔
’’حیران نہ ہوں۔۔۔۔ میں نے ان کوڈیلیٹ کرنے سے پہلے اپنے ای میل میں سیو کرلیا تھا۔۔۔۔وہ بڈھا خود کو بہت چالا ک سمجھتا ہے۔‘‘
’’یار خالد ، تم تو سیر کے سواسیر نکلے۔‘‘ایک دوست نے کہا۔
اور ہم چاروں دوست ایک ساتھ قہقہہ لگانے لگے۔
���
پٹن، کشمیر،موبائل نمبر؛09797711122