مما کیا ہوا ،آپ کیوں رو رہی ہیں؟سفوان نے ڈرڈر کے اپنی ماںسے پوچھا۔
کچھ نہیں تم اپنا کام کرو۔ جبینہ نے اپنے بیٹے سے کہا۔
جبینہ اپنے بیٹے سفوان سے کبھی اچھے لہجے بات نہیں کرتی تھی۔جب کبھی وہ بازار جاتی، کھا نا بناتی یا کسی محفل میں جانے کے لئے تیار ہوتی تو سفوان کی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگتے۔وہ آٹھ سال کا تھا اور اس کی بہن بارہ سال کی۔جبینہ کا رویہ دن بہ دن بگڑتاہی جا رہا تھا۔وہ اپنے بچوں کے ساتھ برے طریقے سے پیش آتی تھی۔ اس کی ماں جاجو ہمیشہ اسے سمجھاتی لیکن وہ کچھ سمجھنے کو تیار ہی نہیں تھی۔
سفوان:۔نانی! مما مجھے ہر روز مارتی ہے۔میں اب ان سے ڈر نے لگا ہوں،وہ بہت گندی ہیں۔
جاجو:۔ایسا نہ کہو،مما تھک جاتی ہے اور پھر دن بھر سلائی بھی کرتی ہے۔اس نے اپنے نواسے کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔
وہ سلائی کا کام کرتی تھی اور اپنے دونوں بچوں کو پڑھاتی تھیں۔جبینہ اپنی ماں کی اکلوتی بیٹی تھی اس لیے شادی کے بعد وہ اپنی ما ں کے ساتھ ہی رہتی تھیں۔دونوں بچوں کی دیکھ بال جاجو ہی کرتی تھیں۔
جاجو:۔ کیا کر رہی ہو تم،بچوں کے ساتھ ایسا سلوک کرنا گناہ ہے۔ان کو تم کیوں مارتی ہو؟ان معصوموں کا کیا قصور ہے؟
جبینہ:۔ دور لے جاؤ انہیں میری نظروں سے، نفرت ہے مجھے اِن سے۔
جاجو:۔تو مار ڈالو ان کو، روز روز مارنے سے تو اچھا ہے ایک ہی بار ختم کر دو۔
ایک روز صاحبہ نے اپنی ماں سے کہا۔۔۔مما آپ کو کیا شکایت ہے ہم سے،سفوان تو بہت چھوٹا ہے۔ آپ اس کو بہت مارتی ہو دو، چار تھپڑ تو لگا ہی لیتی ہو۔
جبینہ:۔ تمہاری زبان کچھ زیادہ ہی تیز ہوتی جا رہی ہے۔اپنے ہی باپ کے پاس جاناتھا یہاں کیوں بیٹھی ہو۔جبینہ غصے میں دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
جبینہ:۔ماں دیکھ رہی ہو صاحبہ اب میرے سامنے زبان لڑانے لگی ہے۔
جاجو:۔دیکھ بیٹا یہ بچے تمہارے بھی تو ہے،ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ان کو ابھی نہیں پتا کہ ان کے باپ نے کیا کیا ہے۔
جبینہ:۔امی جب جب میں ان کو دیکھتی ہوں مجھے وہ یاد آتا ہے،مجھے نفرت ہے اس شخص سے۔
جاجو:۔ میں کیا کہہ سکتی ہوں بیٹا ،یہ تمہاراہی فیصلہ تو تھا اس سے شادی کرنے کا۔
جبینہ کو ان کے باپ بلال سے بہت محبت تھی اور وہ بھی محبتوں کے بے شمار دعوے کرتا تھا۔مگر سفوان ابھی اُسکی کوکھ میں ہی تھا کہ بلال نے دوسری شادی کرلی۔ جب سے پھر جبینہ ہر انداز میں بگڑ گئی۔
جبینہ:۔ماں وہ میرے ساتھ ہوتے ہوئے بھی میرا نہ تھا،میں بات کرنے کو ترستی رہتی اور وہ کسی اور کی آواز کی مٹھاس کا مزہ چکھتا رہا۔ میری محبت کے ساتھ اتنی بڑ ی خیانت کی اُس نے ۔ میں نے آپ لوگوں کی اجاز ت کے بنا بلال سے بھاگ کے شادی کی ۔میںنے ابا اور آپ کا سر شرم سے جھکا دیا، مجھے اللہ کبھی معاف نہیں کریگا۔میں جانتی ہوں ماں آپ کا دل بہت دکھا ہوگا ،آج میں اسی کی سزا بھگت رہی ہوں۔میں معافی کے لائق بھی نہیں۔ وہ روتے ہوئے اپنی ماں کے گلے لگ گئی۔
کسی کا دل توڑنااتنا آسان نہیں ہوتا۔بد دعا صرف الفاظ نہیں ہوتے، جب آپ کسی کو دکھ دیتے ہیں تو اس کی آہ بھی بد دعا بن جاتی ہے۔ضروری نہیں کہ وہ شخص منہ سے ہی بد دعا دے بلکہ جب بھی وہ آپ کی وجہ سے اللہ کے سامنے روئے گا تو بہت مہنگا پڑے گا۔خاموشی سے بڑی کوئی بد دعا نہیں ہوتی۔جب بندہ بولتا ہے تو قدرت خاموش رہتی ہے اور جب بندہ خاموش رہتا ہے تو قدرت انتقام لیتی ہے اور اس کا انتقام بہت عبرتناک ہوتا ہے۔جاجو کا دل ٹوٹ چکا تھا۔ اس کی نم آنکھیں اس کے لیے بد دعا بن گئی تھی۔آج بھی وہ اپنے اس غلط فیصلے پر بہت شرمندہ ہے۔
نہ چاہا تھا برا میں نے،نہ میں نے بد دعا دی تھی
فقط نمناک آنکھوں سے فلک کی سمت دیکھا تھا
���
محلہ توحید گنج بارہمولہ
ای میل۔[email protected]