Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

جامِ حیات

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 13, 2022 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
27 Min Read
SHARE
اگر چہ وہ ذر یا پیسوں کے معاملے میں پیچھے ہی تھے لیکن اوپر والے نے انہیں صحت کی دولت سے مالا مال کررکھا تھا ۔ ہاں اپنا نان نفقہ ان کو میسر ضرور تھا اور اس میں وہ اکثر کمی بھی نہ کرتے ۔ 
میمونہ بھی حیدر کی طرح ایک غریب گھرانے سے تھی لیکن شاہجہان پور میں اس کے والد کا بول بالا تھا ۔ہر کسی کے معاملے میں ٹانگ اڑانا کوئی سلطان جُو سے سیکھے ۔مسئلہ سلجھے یا نا سلجھے ،سلطان جُو اپنی دال ضروگلاتا تھا ۔اس کے سر پر شیر کی جلد سے بنی قراقلی سلطان جو کو کسی نواب سے کم چال نہیں بخشتی تھی ۔ہاں اس کے منہ میں اگلے چار دانتوں کا فقدان ،جو جوانی میں ہی ستار جو کی وجہ سے سوئے دار چڑھے تھے ،اس کو ہمیشہ شرمندگی کا احساس دلاتا رہا ۔ہاں! نسوار وہ ہمیشہ کرتا رہا،۔جس کی وجہ سے اس کے باقی ماندہ دانتوں نے بھی کالا لباس اوڑھا تھا ۔
حیدر کے والد غفار جو پریتم پور کے مانے جانے قصائی ۔تھے اسی وجہ سے ان کو اپنے علاقے کا بچہ بچہ غفار قصائی  کے نام سے جانتا تھا ۔وہ تھے بھی قصائی کی چال کے ۔اسکی مونچوں کا وہ تائو،لال داڑھی اور  ہاتھ میں تیز تلوار نما ٹوکہ ۔پھر کسی کی کیا مجال کہ وہ غفار قصائی کو دوسری بات بول سکے ۔ میں نے بھی ایک بار ان سے بات کرنے کی جرأت کی تھی پھر کیا تھا میں اپنے پیروں کی چپل بھی وہیں چھوڑ آیا ،گوشت کی تو بات ہی نہیں ۔ اور گھر پہنچنے سے پہلے میں نے نو رولی کی درگا ہ پر ۱۱۱ روپے کا نذرانہ چڑھایا ۔۔۔جان بچی سو لاکھوں پائے !!!
ساون ہو یا جاڑے کا موسم اس کی دکان کبھی بند ہی نہیں ہوتی اور آس پاس کے سبھی علاقو ں کے لوگوں کی یہاں آکے حاجت روائی ہوتی ۔۔۔ 
مجھے آج بھی حیدر اور میمونہ کی شادی شام کے کھانے کی طرح یاد ہے ۔ ۔۔۔۔ 
ستاروں نے رات کی تاریکی سے مقابلہ کرتے کرتے اپنی پہچان بنانی شروع ہی کی تھی کہ ایک پچیس فٹ لمبی بس نے پریتم پور کے چکی محلہ میں اپنا بسیرا ڈال دیا ۔کاغذی مالائوں سے شیشے بھی چھُپے تھے۔عطر کی خوشبو تو دور سے ہی محسوس ہوتی تھی۔ دلہن کی طرح سجی بس وہاں سے گذرنے والے  ہر فردکی توجہ اپنی اور کھینچتی تھی ۔ڈرائیور نے پتلون اور قمیض کی استری  سے حالت  ہی بدل ڈالی تھی۔ شائد وہ اُسکی شادی کا جوڑا تھا۔اور اب شادی بیاہ کی دعوتوں کے لئے مخصوص ہوا تھا۔قمیض قدرے چھوٹی ہوئی تھی اور پتلون  تنگ۔ڈرایئور صاحب ہو بہو راجستھانی لگ رہے تھے۔اُس نے آج تازہ شیو بھی کی تھی۔ ہاں تازہ شیو۔۔۔ اور چٹ پٹے ۔۔مگر سوکھے  گالوں پہ اپنے داہنے ہاتھ کو بار بار پھیر تا ہوا شائد اپنی  جوانی کے سفر میں گُم تھا۔ بائیں ہاتھ میں جلتی سگریٹ  کے دھویں میں ڈرائیور صاحب کی ہر پریشانی اُچھلتی نظر آرہی تھی۔۔۔
میں حیدر کے پیچھے پیچھے،چھُپتے چُھپتے اپنی کم عمری کے باعث بس کی اور چل دیا۔ شائد اس ڈر سے کہ کہیں میری کم سنی مجھ سے یہ دُلہے کی دعوت چھین نہ لے۔ میں اگلی سیٹ پہ بیٹھا ہی تھا کہ ڈرائیور نے میری طرف اپنی تیش بھری نگاہیں اُٹھائی؛ جیسے کہ اُس کی جورو کو مائکے بھیجنے کے پیچھے  سب سے اہم کردار میرا ہی تھا!!! ڈرائیور کی بے رُخی کو دیکھ میں بھی ہراساں ہوا۔ اُس دن تو میں جورو لفظ کے معنی  سے بھی ناداں تھا۔ ہاں میرے من کی دیواروں کو دلہن کے گھر کے لذیذ پکوان ، مٹھائی کی وہ برسات جس میں ہر کسی دلہے کو بھگوتے ہیں اور ہلدی والے دودھ کے خیالات کھٹکھٹا رہے تھے۔میں نے بھی ڈرائیور کے مزاج کی اور لاتعلقی جتائی۔۔۔ ظاہری ہی سہی۔۔۔۔لیکن من ہی من اُس کی مونچھوں کا وہ تاو میرے سکونِ قلب کو تار تار کر رہا تھا۔۔۔وہ اپنے ہونٹوں کو دانتوں تلے دباتے ہوئے ایک لمبی ہارن کے ساتھ گاڑی  چلانے میں محو ہوگیا۔۔۔
میری اندرونی پرواز نہ جانے مجھے کہاں کہاں سیر کرواتی رہی۔۔۔ میں اس ڈر میں اپنی سیٹ پہ بے سکوں تھا کہ ابھی یہ گاڑی کی بریک پہ اپنی مونچھوں کا سارا تاو اُتارے گا اور مجھے گھسیٹ کر نیچے پھینکے گا۔۔اس ڈر سے مرے گردوں میں چڑ چڑا پن محسوس ہونے لگا۔۔ ہاں میرے پیشیاب کی نالی بھی بھر آئی۔  لیکن میری کیا مجال کہ میں اپنی بے سکونی کا اظہار کر سکوں اور میں برداشت کی ڈور کو ہی تھامے رہا۔۔۔اسکے علاوہ چارہ بھی کیا تھا؟بس میں تقریباََ تیس مرد و زن تھے لیکن نہ جانے اس منحوس کو مجھ سے ہی رنجش کیوں؟؟؟سوچتے سوچتے میری آنکھ لگ گئی۔۔۔۔
رات کے برابر ساڑھے گیارہ بج چکے تھے۔جب میری روح میرے سست جسم میں بس کی ایک لمبی ہارن سے واپس منتقل ہو گئی۔ ہاںپریتم پور کی پرواز۔۔۔میرا مطلب دلہے کی گاڑی۔۔۔۔ٹھیک میمونہ کے گھر شاہجہاں پور پہنچ چکی تھی اور ڈرائیورنے یہ کہتے ہوئے گاڑی بندھ کر لی:
’’ چلو بھائی چلو دلہن کا گھر آگیا۔ سمیٹو اپنا سامان اور اُتر جائو۔ ہاں دلہے کو ذرا سنبھال کے اتاریو‘‘ 
اُس کے بعد اُس بے رحم نے میری اور اپنی گھمنڈی آنکھوں کو پھیرا۔ شاید مجھے بیچ راستے نیچے نہ اتارنے کا احسان مجھ پہ جتا رہا تھا!!! لیکن اب مجھے اُس کی فکر کم مگر نیچے اترنے کی زیادہ تھی!!! میں اپنی نیم کھُلی آنکھوں سے مٹھائی کی بارشوں کو تلاشتا رہا۔ لیکن وہاں کے وہ سر پھرے لڑکے؛ بے شرم  !!!شام سے ہی اس بارش میں بھیگنے کی تاک میں مورچہ سنبھالے ہوئے تھے۔ میرا مطلب مٹھائی کی بارش!!!بے رحموں  نے میری پسلیوں میں اچار ڈال دیا۔
 ’’ ارے کمینو۔۔۔ ذرا تو شرم کرو میں دلہے کے ساتھ آیا ہوا باراتی ہوں۔ کم سے کم میری تو عزت کرو‘‘ 
من ہی من میں گنگناتا رہا جیسے کہ خالق کی بنائی ہوئی ساری شرم کا خریدار واحد میں ہی تھا!!!!
اچانک میرے وجود میں طفلگی کے وہ سارے خصائل  رونما ہوگئے جن کو پریتم پور کی ہوا نے ایک انوکھا انداز بخشا تھا۔۔۔ پھر کیا تھا، میں نے  یا شاہ  کر کے دودھ کے گلاس پر ہاتھ مارا، ہاں جو ساجہ نے صبح سے اُن بد ذات سرپھروں سے بچا کے رکھا تھا۔۔۔ہاں ساجہ حیدر کی ساس ۔۔جس کے چہرے کی جُھریوں میں شاہجہاں پور کا ماضی چھپا تھا۔۔ جس کی آنکھوں میں وہاں کے پانی کی شفافیت قیدتھی،  جس کے ہونٹوں سے محبت ، اخوت اور شفقت  کے راز چھلکتے تھے۔۔۔ جس کے ہاتھوں کی لکیروں میں بزرگوں کے سائے کی ٹھنڈک محسوس ہوتی تھی۔ حیدر کے سامنے وہ صرف ایک کمزور جسم نہیں تھا لیکن زندگی کی ایک ضخیم کتاب تھی۔۔۔ایک ضخیم کتاب۔۔۔۔
گلاس کے کناروں کو ابھی میرے تشنہ ہونٹ چھونے ہی والے تھے کہ  ایک سرپھرا مار خورُکتے کی مانند میرے اوپر جھپٹا اور پھر کیا تھا گلاس اور دودھ کا ملن ٹوٹ گیا  اور یوں دودھ کی ملاقات حیدر کے کوٹ سے ایسی ہوئی کہ پورے آنگن میں سنسنی پھیل گئی۔۔۔
’’ارے بھائی دُولہے کے کپڑے خراب ہوگئے۔ ارے بد بختو تم نے کیا کبھی کچھ کھایا ہی نہیں ہے‘ ‘
 ایک ہٹے کٹے آدمی نے  بھیڑ میںسے چلاتے ہوئے کہا ۔۔۔ اور اُن سرپھروں کو ایسے بھگایا جیسے کہ کتوں کو بھگا رہا ہو۔۔۔ شکر ہے میں بچ گیا۔۔ باراتی کے نام سہارے ہی سہی۔ 
انداز بیان سے تو دلہن کے ماما جی لگ رہے تھے۔۔دولہے کے ساتھی اُس کا کوٹ صاف کرتے ہوئے شامیانے کے اندر چلے گئے۔ میں بھی توبہ کرتے کرتے ایک کونے میں سمٹ گیا۔ اُس منحوس ڈرائیور کی نظروں سے اوجھل۔۔۔جس کا خوف مری روح میں اب تک رواں دواں تھا۔۔۔۔ضیافتوں کی تاک میں!!!!
بس کی ایک لمبی ہارن میرے گوشئہ سماعت سے ٹکرائی ۔ اس وقت تقریباََ پونے دو بج چکے تھے۔ ۔رات کے۔۔ باراتیوں نے سلطان جُو کے سکون و قرار کو تھیلیوں میں سمیٹتے ہوئے بس کی اوررُخ کیا۔ بے چارہ سلطان جو!!! مجھے ایسا لگا جیسے کہ وہ ہم سب سے ناراض ہے۔اُس کے چہرے سے تو مایوسی صاف چھلکتی تھی۔ لیکن میں اُس کے اندرونی حالات سے نا واقف تھا ۔۔۔میرے بچپنے کی وجہ سے!!!! وہ کچھ قدم بارات کے پیچھے پیچھے ہی چلا۔۔ لیکن پھر  ایک بڑے چنار نما  درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔۔۔ شائد وہ اخروٹ کا درخت تھا۔ 
میمونہ تھی بھی سلطان جو کی چہیتی۔ آخر چھہ بیٹوں کے بعد وہ جنی تھی۔ وہ اُس سے بے حد پیار کرتا تھا۔۔۔۔ اور وہ بھی۔۔۔ڈرائیور کے برداشت کا دائرہ اب تنگ ہوچکا تھا۔ ہر کوئی بس میں داخل ہونے کی جلدی میں تھا۔ حالانکہ میں دروازے کے قریب ہی تھا لیکن مجھے بس کے اندر جانے کی باری ہی نہیں مل رہی تھی۔۔۔۔یوں مانئے میری چاہ بھی نہیں تھی ابھی جانے کی۔ کیونکہ میری معصوم نظریں اخروٹ کے درخت کی طرف تھی جس کے بیج سلطان جُو اپنی مایوسی میں جل رہا تھا۔۔۔مجھے اس سے اسکی مایوسی کا راز جاننا تھا ۔۔۔لیکن وہ بدذات۔۔۔۔ڈرائیور ۔۔۔پتا نہیں حیدر کو کہاں سے ملا۔۔۔۔اور یوں   پیں پیں۔۔۔پیں پیں کے شور وغُل نے سلطان جو کے آنگن سناٹا پھیلا دیا۔۔۔
 قریباََ چار سال بعد بڑی منتوں اور آرزئوں کے چلتے حیدر کے گھر ایک لڑکے نے جنم لیا۔ہاں امجد ماہِ نو کی مانند حیدر کے گھر وارد ہوا۔۔۔
 گلاب جیسا چہرہ ، ہونٹ ہو بہو میمونہ جیسے، ہرنی آنکھیں ، لیکن چہرہ نہ تو حیدر سے ملتا تھا اور نا ہی میمونہ سے ۔۔۔ ہاں بالوں سے تو ہو بہو حیدر ہی تھا وہ۔۔۔ آج سلطان جو نے اپنی مایوسی کے  لباس کو بھی اتارا تھا ۔۔ وہ خوش تھا ۔۔بالکل خوش ۔۔۔ اور مجھے بھی شادی کے دن اسکی مایوسی کے راز کی واقفیت ہونے لگی تھی۔۔۔ کیونکہ وقت نے مری سوچ سے پردے جو اُٹھائے تھے۔۔۔
حیدر نے اب کمپنی جا نا شروع کیا تھا۔ ہاں اب دہاڑی سے کام چلانا مشکل تھا۔ امجد کی پرورش میں کوئی کسر نہ رہ پائے۔۔۔ میاں بیوی کا صرف یہی ایک سپنا تھا۔ میمونہ بھی گھر گرہستی کے خرچے میں بچا بچا کر امجد کے لئے ہی رکھتی تھی۔۔۔ وہ تھا بھی اکلوتا ۔۔۔آنکھ کا تارا۔۔۔
کمپنی میں آج گاندھی جینتی کی چھُٹی تھی۔ حیدر گھر کے کاموں میں ہی مصروف تھا۔ سہ پہر کے ہوتے حیدر اب اندر چلا گیا ۔۔۔ شائد تھک گیا تھا۔ ابھی اُس کی آنکھ پہ آنکھ لگی ہی تھی ؛
’’ اجی سنتے ہو‘‘  میمونہ بڑی سنجیدگی سے حیدر کی اور مخاطب ہو گئی۔
’’امجد اب پورے پانچ سال کا ہو گیا ہے۔ اس کی پڑھائی کا تمہیں کچھ خیال ہے بھی کہ نہیں‘‘
میمونہ کی باتوں نے حیدر کو سپنوں کی اس دنیا سے کھینچ کے واپس لایا اور وہ مسکراتے ہوئے ؛
’’ ارے میمونہ ابھی تو یہ چھوٹا ہی ہے بے چارہ۔ کیوں بچپنے میں ہی اس کے کاندھوں پر بستہ چڑھانے کی پڑی ہے‘‘
حیدر کے منہ سے یہ الفاظ نکلنے کی دیر تھی کہ میمونہ کی حالت ایسی ہو گئی جیسے کہ کسی نے اُس سے اس کے گردوں کی مانگ کی ہو۔۔۔ اور تیش میں آکر چائے کی پیالی حیدر کے سامنے رکھی اور بجلی کی طرح واپس چولہے کی اور چل دی۔۔۔
’’ارے میمونہ؛ تم بھی نا!! بچوں کی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہوجاتی ہو۔۔۔ مجھے بھی خیال ہے امجد کا۔۔۔میں تو اُس کی خاطر اپنا پسینہ بہا رہا ہوں۔۔۔ہاں اپنی ہڈیوں کی توانائی۔۔۔ نہیں نہیں میں تو اُس کی خاطر اپنے جگر کا خون بہا رہا ہوں ۔ مجھے تو اُس کو پڑھا لکھا کر۔۔۔۔۔‘‘ کہتے ہوئے حیدر خوابوں کے ایک صحرا میں کھو گیا۔۔۔
’’ لو جی، میں اب ٹھہری بچی!!! اچھا بابا؛ ٹھیک ہے ۔۔۔ٹھیک ہے۔۔ مجھے تو اب بات کرنے کا  کوئی حق ہی نہیں ۔ میں تو اب چپ ہی رہا کروں گی۔ ہاں بالکل چُپ۔۔نہیں نہیں امجد کے معاملے میں میں چُپ نہیں رہوں گی۔۔۔ ہاں میں چپ نہیں رہوں گی۔۔۔ہرگز نہیں۔۔۔‘‘ کہتے ہوئے میمونہ نے چولہے پر سے گرما گرم چائے کے پتیلے کو اتارنے کی کوشش ہی کی تھی کہ وہ ٹھاک کرکے نیچے گر گیا اور میمونہ کے ساتھ ساتھ حیدر کے خوابوں کے صحرا کو بھی  سمندر کر گیا۔۔۔
’’ اُف۔اُف۔اُف۔ اُف۔۔۔نہ جانے کن سوچوں میں پڑی رہتی ہو۔ کسی دن تم۔۔ تم کسی دن کچھ انہونی ضرور کر بیٹھو گی ۔ پھر نہ خواب رہینگے اورنہ ان کی تعبیر۔۔۔‘‘
حیدر بڑے تاو میں آکر شیر کی طرح دھاڑتا گیا۔جیسے کوئی کوہ ِہمالہ بسم ہوا ہو۔۔۔اور میمونہ شیر سے ہارے گیدڑ کی مانند کونے میں سمٹ گئی اور ترچھی نظروں سے چولہے کی اور دیکھتی رہی۔ جو اب تک جل ہی رہاتھا۔حیدر کی طرح۔۔۔اور ۔اپنے دوپٹے سے قہقہوں کو روکتی رہی۔۔۔
اب امجد کا داخلہ ایک انگریزی اسکول میں ہو ہی گیا۔ داخلے کی خوشی میں میمونہ ایسی جھُوم اٹھی جیسے کہ اُس کی تقرری کسی قومی سروس میںہوئی ہو۔ وہ روز وقتِ  مقررہ سے پہلے امجد کو تیار کرکے اسٹاپ پر اسکول کی بس کا عید کے چاند کی طرح انتظار کرتی رہتی۔ اور یوں یہ سفر امجد کی پانچویں جماعت تک چلتا رہا۔۔۔
زندگی کا پہہیہ تیزی سے چلتا گیا ۔ حیدر اپنا خون پسینہ ایک کرنے کے بعد ہی امجد کی پڑھائی کے اخراجات کی بھرپائی بڑی مشکل سے کرتا رہا۔ دونوں میاں بیوی اپنی خواہشوں کو قربان کرکے اپنی اولاد کی خاطر راہ ہموار کرتے گئے۔اب وہ اپنی خواہشوں اور سکون کو امجد میں ہی تلاشتے رہے۔۔۔امجد کی خاطر میمونہ تو اپنے گہنے تک فروخت کرنے  کو تیار تھی۔ ہاں وہی گہنے جو سلطان جو نے  بیم باغ کا سیب والا بغیچہ فروخت کر کے خریدے تھے۔ اور حیدر کی دی ہوئی سونے کی چین بھی۔۔۔۔یہ سب اس کے لئے کچھ معنی نہیں رکھتے۔۔۔ میاں بیوی حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔۔ خود کے لئے نا سہی ؛ امجد کے لئے۔۔۔ہاں امجد جس میں حیدر اور میمونہ کے سارے خواب قید تھے۔۔
امجد پڑھائی میں بہت تیز تھا۔ غفار جو کے خاندان میں انگریزی اسکول جانے والا پہلا بچہ۔ اور ہاں دسویں پاس پہلا فرد۔۔۔ اور وہ بھی انگریزی اسکول سے۔۔۔
اب امجد کو اپنا علاحدہ کمرہ بھی مل چکا تھا۔ اُس کی پڑھائی میں کوئی خلل پڑے، یہ حیدر کو برداشت نہیں۔ امجد کو بھی اب تنہائی ہی پسند ہے۔ شائد اس لئے نہیں کہ امی ابو کے ساتھ اس کو پڑھائی میں دقت آتی ہے بلکہ اس لئے کہ اس کو اب اپنا الگ  ساتھی ملا تھا۔ ہاں اس کو سگریٹ نوشی کی لت لگی تھی۔نشہ اب اس کا محبوب بنا تھا اس نے امجد کو بری طرح جکڑا تھا۔ اُس کے حواس قید ہو چکے تھے۔ ہاں ایک نا کھلنے والی زنجیر نے امجد کو اپنے سینے سے لگا لیا تھا۔ وہ اب عشق میں مبتلا تھا۔۔امی ابو کی محبت میں نہیں ۔۔۔،نشے کی محبت میں!!!جس پر وہ اپنے والد کی خون پسینے کی کمائی لُٹا رہا تھا ۔ جس کی خاطر اس نے میمونہ کے تمام خوابوں کو ریزہ ریزہ کیا تھا۔ جس کے لئے اس نے اپنے خاندان کی عزت تک دائو پر لگائی تھی۔اُسے اب ایسے جام کی لت پڑی تھی۔ جو اُس کے لئے اب جامِ حیات ہے۔ ایک ایسا جام، جس کے بنا اس کو زندگی کا ایک پل بھی قیامت کے مہینوں کے برابر ہوتا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ امجد کے رویئے میں بھی تبدیلی آنے لگی۔ بارہویں میں امجد ناکام ہوا۔ لوگ حیدر کے زخموں پر نمک چھڑکنے لگے۔وہ امجد جس نے ابھی تک اپنے ابو کے سامنے اُف تک نہ کی تھی؛ زبردستی پیسے کی مانگ کرنے لگا۔ کرتا بھی کیا بے چارہ، نشے نے اُس کے حیا کے پردوں کو جلا کر خاک کیا تھا۔وہ اب وہ امجد نہ تھا بلکہ نشے نے اُس کے وہ سارے خصائل ہی جذب کر لئے تھے جو اُس کو وراثت میں ملے تھے۔ حیدر کو بھی اب امجد کی کرتوت کی بھنک سی لگنے لگی تھی۔ وہ اب اکثر پیسوں کے لئے منع ہی کرتا تھا۔لیکن میمونہ۔۔۔میمونہ کو اپنی ممتا کی تڑپ برداشت نہ ہوتی۔۔۔اور وہ امجد کو پیسہ دینے کے لئے مجبور ہوجاتی۔۔۔
نشے کی ہوس میں اب امجد اپنے والدین کے وہ سبھی خواب بھول چکا تھا، جو انہوںنے امجد کے جنم کے سے وقت بُنے تھے۔وہ ساری خواہشیں جن کی خاطر حیدر اور میمونہ نے اپنی تمام خواہشوں کو قربان کیا تھا۔ امجد نے اُن کی تمام امیدوں کو تار تار کرکے رکھ دیا۔ہاں وہ سب کچھ بھول چکا تھا۔۔۔ نہیں نہیں!!! وہ کچھ نہیں بھولا تھا۔ بے چارے کے سپنوں کو سماج کے کسی سودا گر نے کب کا بیج ڈالا تھا۔ اس کو سماج کے بے رحم بازی گروں نے قید کیا تھا۔۔۔ہاں روحانی قید ۔۔۔نہیں نہیں ایک تڑپانے والی قید۔۔۔جہاںوہ دن میں ہزار بار مرتا تھا۔۔۔  جہاں وہ ہر روز اپنے آپ کو کوستا رہتا تھا۔۔ صرف وہی نہیں اس کے جیسے ہزاروں امجد۔۔۔ نہیں نہیں لاکھوں امجداس زنداں میں قید تھے۔وہ باہر نکلنا چاہتا ہے لیکن انسانی خون کے سودا گر اُس کو اندر دھکیل رہے ہیں۔ صرف اس کو ہی نہیں ، اُن سبھی کو۔۔۔وہ بے بس ہیں ۔۔۔ اور لاچار بھی۔۔۔
امجد اس زہر کی لپیٹ میں آنے والے ہر نئی  معصوم جان کو روکنا چاہتا ہے۔ وہ اس زہر کو سماج سے اُکھاڑنا چاہتا ہے۔لیکن یہ زہر اس کے بدن میں پھیل چکا ہے۔۔۔ان سب کے بدن میں۔۔ہاں یہ ان سب کے لہو میں رواں دواں ہے۔ یہ سماج میں اچھوت کی طرح رہ رہے ہیں ۔ یہ زندہ لاشوں کی طرح چل رہے ہیں، کھا رہے ہیں، پی رہے ہیں۔ ان کی کوئی رہبری نہیں کرتا۔کوئی ان کے پاس سے گذرتا بھی نہیں ۔۔یہ تو اچھوت ہیں اچھوت۔۔۔
 آج وہ پورے چار روز بعد اپنے گھر واپس آیا ہے۔ میمونہ نے ابھی اُس کی پرچھائی ہی دیکھی تھی کہ وہ کھُلی باہیں لے کر سامنے پہنچی اور امجد کو ایسے گلے لگایا جیسے کہ یہ اُن کا آخری ملن ہو۔۔۔امجد  بھی ایک بے جان شئے کی مانند آنسوں بہاتا رہا۔۔حیدر کی طبیعت بھی آج ٹھیک نہیں تھی، تھکاوٹ سے یا بیٹے کی جُدائی میں یہ خالقِ کائنات کے علاوہ بس وہ ہی جانے۔۔
 امجد کو دیکھتے ہی حیدر کی جاں میںجان آگئی،
’’ارے بیٹے تم میری جان لے کر ہی رہو گے ۔ اتنے دن۔۔۔اتنے دن تم نے سوچا بھی کہ ہم پر کیا بیتی ہوگی ۔ تمہاری ماں۔۔۔تمہاری ماں ۔۔۔‘‘ کہتے ہوئے حیدر کی آنکھوں سے آنسوئو ں کا سمندر اُمڈ آیا اور میمونہ بے تاب ہوگئی۔۔۔
امی ابو کی حالت امجد کی برداشت سے باہر ہونے لگی۔ وہ جلدی سے اپنے کمرے میں چلا گیا ۔ یہ وہی کمرہ تھا جو حیدر نے اس کو پڑھائی کی خاطر دیا تھا۔ کمرے میں امجد کو اپنے ماں باپ کی سختیاں کوستی رہیں جو انہوںنے امجد کی خاطر اُٹھائی تھیں ۔ وہ اس دلدل سے نکلنا چاہتا ہے۔۔۔ اُس مایاوی جال سے جو قوم کے سوداگروں نے بچھا کر رکھا تھا۔۔وہ اس پیڑ کو اُکھاڑنا چاہتا ہے۔۔۔ مگر وہ بے بس ہے۔۔ ہاں بے بس۔۔۔ اُس کے ہاتھ میں کچھ نہیں۔۔۔ وہ کچھ نہیں کرسکتا۔۔۔ وہ انسان کے پردے میں چھُپے درندوں کو بے نقاب نہیں کرسکتا ۔۔۔ وہ ان کے مایا جال سے ہر کسی کو نکالنا چاہتا ہے۔ لیکن۔۔لیکن ۔۔وہ بے بس ہے۔۔ بے بس۔۔۔
امجد اب زندگی سے تنگ آچکا ہے۔ اُسے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی ہے۔۔۔اسے سماج سے نفرت ہونے لگی ہے۔۔۔اسے سماج کے ٹھیکیداروں سے نفرت ہونے لگی ہے۔۔۔اسے گمنڈی ملائوں سے نفرت ہو گئی ہے۔ اسے اب انسانیت کے خدائوں سے نفرت ہے۔۔۔ وہ قوم کے رہنمائوں  سے پوچھنا چاہتا ہے؟؟؟کہ کب تک ۔۔۔آخر کب تک وہ اس دلدل میں رہے گا؟؟؟ہاں وہ جینا چاہتا ہے۔۔۔ مگر آزاد۔۔۔ نشے کی قید سے باہر۔۔۔ وہ وہاں سے نکلنا چاہتا ہے؛ جہاں اسکا ضمیر اسکو کوستا رہتا ہے۔۔۔جہاں اس کی روز موت ہوتی ہے۔۔۔ہاں ہر روز کئی بار۔۔۔ وہ یہ سوچتے ہوئے چِلاتا ہے۔۔۔ چیختا ہے۔۔۔لیکن اُسے بچانے کون آئے گا۔۔۔کوئی نہیں۔۔۔سماج کے سوداگروں نے توسماج کو ہی خریدکر رکھا ہے۔۔۔انہوںنے ضمیروں کو خریدا ہے۔۔۔’’وہ سب کو خریدیں گے۔۔۔وہ سب کو تباہ کریں گے۔۔۔ کوئی نہیں بچے گا۔۔کون بچائے گا؟؟؟ہماری معصوم نسلیں، گناہوں سے پاک فرشتے سب کے سب ۔۔۔ ہاں سب کے سب اس جال میں پھنسیں گے۔۔۔‘‘
   اُس نے ایک بڑا انجیکشن لگایا۔۔۔ہاں تقریباََ دس ملی لیٹر۔۔۔وہ تھرتھرانے لگا، تھر تھراتے تھرتھراتے گڑگڑانے لگا اور گڑ گڑاتے گڑگڑاتے خالقِ کائینات سے بھی شکوے کرتا رہا اور یوں اپنی ناکام روح اُس کو سونپتا گیا۔۔۔
بے چارہ حیدر اب وہ حیدر نہیں رہا۔جس نے اپنے ساتھ پچیس فٹ لمبی بس میں باراتیوں کو اپنی شادی میں شاہجہاں پور لیا تھا۔اور مجھے بھی۔۔۔ وہ اپنے لختِ جگر کا وقار بچاتے بچاتے اپنا وقار کھو بیٹھا۔۔ وہ سماج کی غلطیوں کا شکار ہوگیا۔اور سماجی غیر ذمہ داری نے اُسے دیوانہ کردیا۔ وہ ہر کسی سے لڑتا، جھگڑتا، وہ سب کو بے نقاب کرتا لیکن اُس میں اب وہ ہمت ہی نہیں ۔۔۔ہاں کمپنی جانے کے لئے بھی نہیں۔۔۔
آج میں نے حیدر کو اپنے محلے کی مسجد کے دروازے کی بغل میں یہ الفاظ دہراتے ہوئے دیکھا؛
’’میں اکیلا نہیں تم سب ذمہ دار ہو ،میرے امجد کی موت کے!!!ہاں اُن فرشتوں کی بربادی کے۔۔۔صرف میں نہیں ۔۔۔تم سب ۔۔۔ہاں نمازی بھی۔۔تم سب کو اُس کے حضور جواب دینا ہوگا۔۔۔ہم سب کو۔۔۔۔‘‘ اور اتنے میںمسجد کے اسپیکر سے اللہ اکبر ۔۔۔اللہ اکبر کی آوازیں گونجنے لگی۔۔۔اور یوں عشاء کی اذان کے ساتھ ہی حیدر کی آواز بھی دب گئی۔۔۔ اندھیری رات میں۔۔۔ ہاں کالی رات میں!!!!
���
برنٹی اننت ناگ کشمیر 
موبائل نمبر؛9906705778
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مہو سے ولو تک سڑک رابطہ نہ ہونے سے ہزاروں لوگوں کو مشکلات کا سامنا لوگوں کی ہسپتال ، پلوں اور حفاظتی بنڈوں کی تعمیر اور راشن سٹور کو فعال بنانے کی حکام سے اپیل
خطہ چناب
نوشہرہ کے جنگلات میں بھیانک آگ | درخت سڑک پر گرنے سے آمد و رفت معطل
پیر پنچال
جموں میں 4بین ریاستی منشیات فروش گرفتار
جموں
ڈوبا پارک بانہال میں کھاه رائٹرس ایسو سی ایشن کا محفل مشاعرہ ممبر اسمبلی کے ہاتھوں کھاہ زبان کی دو کتابوں کی رسم رونمائی اور ویب سائٹ لانچ
خطہ چناب

Related

ادب نامافسانے

قربانی کہانی

June 14, 2025
ادب نامافسانے

آخری تمنا افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

قربانی کے بعد افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

افواہوں کا سناٹا افسانہ

June 14, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?