ہمارے والدین اور ہماری ذمہ داریاں

ہارون ابن رشید۔ ہندوارہ

 

بلا شبہ ہمارے والدین ہمارے ہیرو ہیں۔ اس روئے زمین پر کوئی بھی اتنا وفادار نہیں جتنا ماں باپ اپنے بچوں کے لیے ہوتے ہیں۔ وہ ہر ممکن اپنی اولاد کو کچھ نہ کچھ دینےکوشش کرتے ہیں اور کبھی واپسی کا مطالبہ نہیں کرتے ہیں،اور اس طرح بچوں کے لئےاپنے والدین غیر مشروط اور اٹل محبت کی بہترین مثال ہیں۔
ہنری وارڈ بیچر نے بالکل درست کہا ہے، ’’ہم والدین کی محبت کو اس وقت تک نہیں جان سکتے جب تک کہ ہم خود والدین نہ بن جائیں۔‘‘ والدین ہر ایک کے لیے نایاب خزانہ ہوتے ہیں۔پہلا لفظ جو ہم بچپن میں بولتے ہیں وہ ہمیں ہمارے والدین نے ہی سکھایا ہوتا ہے۔وہ اس وقت تک انتظار کرتے ہیں جب تک کہ ہم نگل نہ لیں اور لقمہ ختم کر لیں۔ہمارا ہاتھ پکڑنا، ہمارے لئے ہر مشکل کا سامنا کرنا ، راتوں کی نیندیں قربان کرنا اور محبت و شفقت سےہماری دیکھ بھال کرنا،پال پوس کر پروان چڑھانا ، اچھا اور اعلیٰ انسان بنانا اور پھر بیرون دنیا کا سامنا کرنے کے لئے تیار کرنا والدین کا ہی مرہوں منت ہوتا ہے۔
درحقیقت والدین ہی وہ نعمت ہے جو بچوںکی ذہنی، جسمانی اور مالی مسائل سے نمٹنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ وہ زندگی کی جدوجہد سکھاتے ہیں اور مصائب و مشکلات سے لڑنے کی طاقت دیتے ہیں۔ انہوں نے زندگی میں جن میٹھی اور کڑوی چیزوں کا تجربہ کیاہوتا ہے، وہ ہمیں زندگی میں آنے والے حالات کے بارے میں خبردار کرتے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب انہیں ہماری پرواہ نہیں ہوتی۔ جب ہم ٹھیک نہیں ہوتے تو وہ ڈر جاتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک نے دیکھا ہوگا کہ اگر ہم گھر میں دیر سے آتے ہیں تو ہمارے والدین پریشان ہو جاتے ہیں۔ والدین بچوں کی زندگی آرام دہ بنانے کے لیے اپنی طرز زندگی کو تبدیل کرتے ہیں، خاص طور پر ایک ماں جو بچے کی پیدائش کے بعد بہت سی جسمانی تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔ایک ماں اپنے بچوں کے لیے اپنی خوبصورتی اور صحت کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہوتی ہے جبکہ باپ خاندان کا کمانے والا ہوتا ہے جو اپنے بچوں کی تمام تر خواہشات پوری کرنے کی ہرممکن کوشش کرتا رہتا ہے۔گویا جب وہ جوان ہوتے ہیں تو ہمارے ساتھ خصوصی سلوک کرتے ہیں۔اور اسی امید میں ہوتے ہیں کہ جب ہمارے بچے جوان ہوں گے تو ہمارے ساتھ بھی خصوصی سلوک کریں گے۔مگر زمانے کی رفتار دیکھ ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ جیسے والدین اور بچوں کا رشتہ بدل گیا ہے۔ آج کل والدین خاندان کی واحد اتھارٹی نہیں ہیں۔ جوں جوں وہ بوڑھے ہونے لگتے ہیں، بچے ان کوبوجھ سمجھتے ہیں۔یہ وہ مرحلہ ہے جہاں انہیں مدد کی ضرورت ہوتی ہےاور اُن کی اولاد ہی ان کی واحد امید ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں بچوں کی پرورش، پیار اور شفقت میں گزاری ہوتی ہے اور بدلے میں ان کے ساتھ آخری دَم تک ساتھ رہنے کی خواہش ہوتی ہے۔ لیکن بیشتر والدین کے لئے یہ توقع حقیقت سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اس مادیت پرست دنیا میں والدین بڑھاپے کو پہنچتے ہی نظر انداز کیے جاتے ہیں۔انہیں اپنے اولاد کی طرف سے ہراسانی کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ ان کے گھروں سے بھی نکال دیا جاتا ہے جو کہ ایک شرمناک فعل ہے۔ان کے اخراجات ان کے بچے برداشت کرنے سے ہچکچاتے رہتے ہیں اور مختلف حیلے بہانوں سے تنگ کرتے رہتے ہیں۔یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ ایک بیٹا شادی کے بعد اپنی بیوی کے لیے نیا گھر خریدتا ہے۔ والدین کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور طویل عرصے تک انہیں تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے ،انہیں در در بھٹکنے پر مجبور کیا جاتا ہے اورخود خوش رہنے کا بہانہ کرتے ہیں۔بچوں کو والدین کی وہ کوششیں یاد ہی نہیںرہتیں جو انہوں نے اولاد کی خوشی اور بھلائی کے لئے کی ہوتی ہیں۔ بہت سے ممالک میں والدین گھر چھوڑنے پر اس لئےمجبور ہیں کہ اُنہیں اپنے بچوں نے بے سہارا چھوڑ دیا ہوتا ہےاور ان کے پاس بھیک مانگنے یا اولڈ ایج ہوم جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے۔ کچھ سفاک قسم کی اولاد نے اپنے کا قتل بھی کردیا ہے۔ہمارے معاشرے میں بھی ایسے لا تعداد گھرانے ہیں جہاں آج کل والدین اور بچے ایک دوسرے سے بات چیت تک نہیں کرتے۔بچے ان کے ساتھ بدتمیزی اور بے عزتی سے پیش آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بچے اعلیٰ قابلیت رکھتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ زیادہ سمجھدار ہیں۔ بچوں کو اپنے والدین کی تعریف کرنی چاہیے۔ کتاب مقدس میں بھی والدین کو بڑا درجہ دیا گیا ہے۔ یہ قیمتی رشتہ محبت اور احترام کے اظہار کا متقاضی ہے۔ جو اپنے والدین کی بے عزتی کرے گا، اللہ اُسے ضرورسزا دے گا۔ آپ موجودہ وقت میں اپنے والدین کے ساتھ جو کرتے ہیں، وہ آپ کے والدین بننے کے بعد آپ کے پاس واپس آئے گا۔
والدین اپنی پوری زندگی اپنے بچوں کی پرورش کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ وہ ان کی زبان، ان کی ضروریات کو سمجھتے ہیں جب بچہ بول بھی نہیں سکتا۔ وہ اپنے بچوں کو محفوظ اور خوشگوار مستقبل فراہم کرنے کی خاطر اپنی ضروریات، خواب اور خواہشات کو قربان کر دیتے ہیں۔ اوربچے بدلے میں ان کے ساتھ بے عزتی کے ساتھ پیش آتے ہیں،اُن کی نافرمانی کرکے اُنہیں کوئی اہمیت نہیں دیتے ہیں تو یہ سب سے بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔ یہ کبھی نہ بھولیں کہ والدین سب سے قیمتی تحفہ اور اولاد کے لیے اللہ کا سایہ ہیں۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور تمہارے ربّ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ اور یہ کہ تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ اگر آپ کی زندگی میں ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے بے عزتی کی بات نہ کہو اور نہ ہی ان پر چیخوبلکہ عزت کے ساتھ مخاطب ہوجائو۔ (قرآن 17:23)
اپنے والدین کو خوش کرنے کا ایک طریقہ ان کے احکامات کو سننا اور ان پر عمل کرنا ہے۔ ہمیں ان چیزوں سے دور رہنا چاہیے جن سے وہ ہمیں دور رہنے کے لیے کہتے ہیں، اس لیے وہ ہمیں صرف ہماری بھلائی کے لیے منع کرتے ہیں، اپنے مفاد کے لیے نہیں۔
آج کل والدین کو درپیش سب سے بڑے مسائل تنہائی کی ہے۔بچے اُن کے ساتھ بات چیت نہیں کرتے بلکہ انہیں مارتے پیٹتے بھی ہیں۔افسوس صد افسوس۔ہم اپنے والدین کو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم ان کے ساتھ وقت نہیں گزارتے۔ اپنے والدین سے محبت کرو، جیسا کہ وہ بچپن میں آپ سے محبت کرتے تھے۔ آپ کو کانٹا چبھتا ہے تو اُن کا دل چیر جاتا تھا۔ تصور کریں کہ آپ ماں، باپ ہیں اور سوچیں کہ آپ اپنے بچے سے کیا توقع رکھیں گے،جو توقع آپ اپنے بچوں سے کرتے ہیںایسے ہی توقعات کے تحت اپنے والدین کے ساتھ پیش آئیں۔
ہمیں والدین کی ہر حال میں قدر کرنی چاہیے اور ہمیشہ ان کو خوش رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور ہمیں اپنے کرتوتوں پر پچھتانا پڑےاور پھر خالی ہاتھ رہ جائیں۔ ہم سب کچھ واپس حاصل کر سکتے ہیں یا والدین کے علاوہ اس دنیا میں کسی بھی چیز کا متبادل تلاش کر سکتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر نیک اولاد جو اپنے والدین پر رحم اور شفقت کی نگاہ ڈالے گا، اُسے اس کی ہر نظر کے بدلے ایک مقبول حج کے برابر اجر دیا جائے گا۔
اس لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم والدین کا احترام کریں، ان کی صحت کا خیال رکھیں، ان کی رائے اور فیصلوں کی قدر کریں اور ان کا سہارا بنیں۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے والدین کے ساتھ صحت مندانہ تعلق قائم رکھنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے جس طرح انہوں نے جب ہمارا خیال رکھا اُسی طرح ہم بھی اُن کا خیال رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے والدین کو صحت و تندرستی والی لمبی عمر عطا فرمائے۔ آمین
[email protected]