ہمارے بچے اور ہماری ذمہ داریاں

بچے پھولوں کی طرح نازک ہوتے ہیں۔ ان کی نہ صرف رکھوالی و آبیاری بلکہ ان کی تربیت بھی بہت خاص توجہ کی طالب ہے۔جس کی مکمل ذمہ داری ماں اور باپ دونوں پر عائد ہوتی ہے چونکہ اکثر باپ زیادہ تر گھر سے باہر ہوتے ہیں، اس لئے بچے کی پرداخت ،شخصیت اور اس کے کردار کی تعمیرو تزمین میں اہم کردار ماں کا ہوتا ہے۔چنانچہ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے لیکن آج کل جس وقت بچے کو ماں کی گود کی ضرورت ہوتی ہے، اُس وقت اکثرمائیں دو تین سال عمر کے بچوں کو اُستانیوں کی گود میں ڈال دیتی ہیں۔غور طلب بات ہے کہ جب ایک ماں اپنے دو یا تین بچوں کو سنبھال نہیں سکتی تو ایک ٹیچر بیس پچیس بچوں کو کیسے سنبھال سکتی ہے۔ حالانکہ بچوں کی معصومیت کا یہی تو وہ دور ہوتا ہے جب بچے علمیت یا علمی اثرات فوراً قبول کرتے ہیںکیونکہ ان کے معصوم ذہن کورے کاغذ کی طرح ہوتے ہیں اور یہی علمیت یا مخفی اثرات آخر تک ان کی شخصیت کے ہر پہلو سے جھلکتے ہیں۔

 

موجودہ دور کی مصروف مائیں جب اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ٹی وی میں کارٹون لگا کر خود اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہیں تو بچوں کے معصوم ذہنوں میں کارٹون کریکٹر ایسے سوار ہو جاتے ہیں کہ وہ انسانوں کے بجائے کارٹون کرداروں کو ہی آئیڈیا لائز کرنے لگتے ہیں اور ان جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔مہنگی ترین درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود آج کے بچوں کو پیچھے رہنے کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ والدین بچوں کو صرف ٹیوشن دلوانے کے چکر میں اسے رٹ طوطا بنا دیتے ہیں ۔ جس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بچہ سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے اور صرف پوزیشن لانا چاہتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ صرف اسکول اور ٹیوشن پر انحصار نہ کریں بلکہ ان کی پڑھائی پر خود بھی توجہ دیں، اسکول کے پورے دن کے حالات بچے کی زبانی خود سنیںاور وقتاً ًفوقتاً بچے کے اسکول میں چکر لگائیں۔ اُس کی پڑھائی کے بارے میں آگاہ رہیں کہ وہ کن بچوں میں اُٹھ بیٹھ رہا ہے، سب پر نظر رکھیں۔دوسری وجہ والدین کی حد سے زیادہ مصروفیت ہے، جس کے باعث بچے نظر انداز ہو رہے ہیں، والدین کے پاس اتنی فرصت ہی نہیں کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزار سکیں،اُن کے ساتھ اپنی خوشیاں بانٹیں،حقیقی پیار و محبت کا احساس دلائیں، بجائے اس کے کہ وہ اُنہیں ٹی وی،موبائل اور نیٹ کا استعمال کروا کر سمجھتے ہیں کہ ان کے تمام جہاںکی خوشیاں بٹور رہے ہیں۔مگر انھیں اس بات کا ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ اُن کے بچے جدید سہولتوں کے سیلاب میں بہہ کر نہ صرف اپنے والدین بلکہ اپنی اصل زندگی، اپنے دین اور اخلاقیات سے دور ہو رہے ہیں۔والدین اس بات کو بھی فراموش کرچکے ہیںکہ بچوں کو با کردار ،دین دار اور باعزت فرد بنانے کے لئے اُن میں مطالعے کا شوق پیدا کریںاور اُنہیں اصلاحی اور دلچسپ کہانیوں پر مبنی کتابوں کی طرف بھی مائل کریں۔ ہمارے یہاں کے معاشرے میںیہ بھی دیکھنے اور سُننے میں آتا ہے کہ زیادہ تر والدین’’ کھلاؤ سونے کا نوالا اور دیکھو شیر کی نظر سے‘‘ کے مقولے پر عمل کرکے اپنے بچے کو مارشل انداز میں خوفناک نظروں سے دیکھتے ہیں کہ بچے ساری زندگی ڈری سہمی زندگی گزار دیتے ہیں اور والدین کو پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ ان کا بچہ آخر چاہتا کیا ہے، کیونکہ غضب ناک نظروں کے سامنے بچے اپنی چاہت کا اظہار نہیں کرپاتے ہیں۔اس طرح جب والدین ہی اپنے معصوم اور کمسن بچوں سے اُن کے دِل کی باتیں نہیں سنیں گے تو بچہ گھر سے باہر دلچسپی کے مواقع ڈھونڈتا رہتا ہے،اور اُنہیں گھر سے باہر جہا ں کہیں بھی دوستانہ ،ہمدردانہ یانرمی کا ماحول ملتا ہے ،وہ وہاں اپنی باتیں بانٹنے لگ جاتے ہیں اور یہ بات بعض اوقات خطرناک بھی ثابت ہوتی ہے، خاص طور پر لڑکیوں کیلئے۔اس صورت حال سے بچنے کے لئے ماں کا کردار زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ وہ اپنی بچیوں سے دوستانہ رویہ رکھیں اور ان کی ہر بات سنیں اور سمجھیں۔ بچوں کوخوفناک نظر نہیں بلکہ ایک شفقت بھری نظر چاہیے۔ جب بچوں اور والدین میں دوستی کا تعلق ہوگا تو ایسا بچہ زیادہ پُر اعتماد ہو گا، بہ نسبت اُس بچے کہ جس کے دل میں اپنے والدین کے لئے ایسا خوف اور دہشت بیٹھی ہو ئی ہو کہ جیسے اس کے والدین نہیں، پولیس والے ہوں۔ گھر میں والدین اور اسکول میں ٹیچر کی سختی سے بچے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ اپنے بچوں کو محبت، شفقت اور اپنا وقت دے کر انھیں معاشرے کا خود اعتماد، باشعور، باصلاحیت اور کامیاب فرد بنائیں۔