کتاب:’’سائنسی جنگل کہانی‘‘کا مطالعہ ادب َاطفال

انگبین عُروج
محترمہ تسنیم جعفری کی ادبِ اطفال کے مختلف موضوعات پر فی الوقت بائیس سے زائد کُتب منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔آپ مختلف اصناف پر طبع آزمائی کرتے ہوئے ہر عمر کے قاری بالخصوص نوجوانوں اور بچوں کی مثبت طور پر ذہن سازی کرتی ہیں۔آپ کی تحاریر خواہ وہ مضامین کی شکل میں ہوں،کہانیاں ہوں،سفرنامے ہوں یا پھر سائنس فکشن ناول کی صورت میں ہوں، اپنے دامن میں میں بہت سے اصلاحی اسباق اور مثبت پیغامات لیے ہوتی ہیں۔ادبِ اطفال کے لیے تخلیق کی گئیں آپ کی بیشتر کتب ماحولیاتی آلودگی کے اسباب اور ان کے تدارک کے لیے عملی اقدامات کی طرف توجہ مبذول کراتی ہیں۔آپ کو بلاشبہ یہ اندازہ ہے کہ آج کے بچے دورِ جدید کے برقی آلات اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی دلچسپی کا سامان پیدا کر رہے ہیں،انہیں کتب بینی پر کِیسے اور کیوں کر آمادہ کیا سکتا ہے؟
زیرِ مطالعہ کتاب ’’سائنسی جنگل کہانی‘‘ ادبِ اطفال میں ایک دلچسپ و خوبصورت اضافہ ہے۔یہ کتاب پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام شائع ہوئی ہے۔کتاب کا سرورق نہایت خوش نما رنگوں کے امتزاج کے ساتھ جنگل کی خوشنمائی،آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی ہریالی اور جنگل کے جانوروں کی ہنستی مسکراتی شوخ و چنچل تصاویر سے مُزیّن ہے۔جوں ہی پہلی کہانی نظروں سے گزری،پھر دوسری،تیسری تب ہمیں شدید خوش گوار حیرت سے دوچار ہونا پڑا کہ ہر کہانی اپنے اندر ایک دلچسپ سائنسی پہلو کا احاطہ کرتی نظر آتی ہے۔ اس کتاب میں جنگل کے جانوروں کی ذہانت اور شرارتوں کو نہ صرف نئے رنگ و آہنگ کے امتزاج کے ساتھ پیش کیا گیا ہے بلکہ ہر کہانی میں بچوں کی دل چسپی کو برقرار رکھنے اور ذہنی استعداد و صلاحیت کو بڑھانے کے لیے کوئی نہ کوئی سائنسی پہلو بھی اجاگر کیا ہے۔ہر کہانی کا سبق اور مثبت پیغام تو اپنی جگہ ہے ہی منفرد،ساتھ ہی بچوں کے لیے سائنسی پہلوؤں پر غور و فکر اور انہیں نہایت سہل انداز میں سمجھنے کا نادر موقع بھی اس کتاب سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔اکثر نونہالوں کو سائنس کے مختلف نظریات کو سمجھنا  پیچیدہ محسوس ہوتا ہے، لیکن اس کتاب میں شامل دلچسپ کہانیاں پڑھتے ہوئے وہی سائنسی نظریات بِنا کسی کوشش اور محنت کے نونہالوں کے ذہن میں گھر کرتے جاتے ہیں اور انہیں باآسانی اَزبر ہو جاتے ہیں۔
سائنسی جنگل کہانی کی ورق گردانی کے دوران میں نے محسوس کیا کہ یہ کتاب محض بچوں یا نوجوانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ بڑوں کے لیے بھی یکساں دچسپی اور اہم سائنسی معلومات سے استفادہ حاصل کرنے کا باعث ہے۔وہ تمام سائنسی نظریات جو ہم نے زمانۂ طالب علمی میں پڑھ اور سن رکھے تھے اور جو ہماری یاد داشت سے تقریباً مِٹ چکے تھے،یقین جانیں اس کتاب کی پیاری کہانیاں پڑھتے ہوئے وہ تمام معلومات ذہن کے پردے پر تازہ ہو گئیں۔
کہانی کے شوخ،چنچل اور چلبلے کرداروں کے منفرد نام اور ان کی شرارتیں آپ کو آپ کے بچپن میں واپس لے جائیں گی۔چالاک اور موقع پرست آنٹی لومڑی،شرارتی بھولو بندر،پیارا ننھا بھالو، عقل مند ڈاکٹر اُلّو،نرس بندریا،رحم دل شیر بادشاہ،ننھی گلہری،ننھا گوشی،زرفو،مِس ہرن،سراغ رساں مُخبر کالو کوّا اور بہت سے دوسرے ننھے مُنّے ساتھی جانور جو ہمہ وقت اچھلتے کودتے ہر طرف اپنی شرارتوں سے جنگل میں منگل تو کرتے ہی ہیں،ساتھ ہی ساتھ آپ کو بھی اُس پُرسکون اور ہرے بھرے خوب صورت جنگل کی سیر بھی کرواتے ہیں۔کہانیوں میں سبق آموز اور اصلاحی کہاوتوں اور موقع بَر محل ضرب الامثال کا استعمال بچوں کو اپنی زبان اُردو کی شائستگی اور خوبصورتی سے روشناس کرائیں گے،ساتھ ہی بڑے بھی کتاب بینی کے دوران اُردو زبان کی ایسی لذّت اور چاشنی محسوس کریں گے کہ دل باغ باغ ہو جائے گا۔
مچھلیاں اور مینڈک پانی کے اندر ہی سانس لے سکتے ہیں۔ان کے پھیپھڑے نہیں ہوتے،جِن میں ہوا جمع رہتی ہے جبکہ مچھلیاں اپنے گلپھڑوں سے اور مینڈک اپنی کھال سے سانس لیتے ہیں۔اسی طرح کچھوے پانی اور خشکی دونوں جگہ سانس لے سکتے ہیں لیکن پانی سے دور جا کر یہ زندہ نہیں رہ سکتے ہیں۔
ایک اور جگہ مصنفہ قارئین معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ کوئل اپنے ہی انڈے سینے کی صلاحیت سے محروم ہوتی ہے،وہ اپنے انڈوں کو کوے کے گھونسلے میں رکھا کرتی ہے اور کوے کے انڈوں کو وہ پہلے ہی کھا جاتی ہے۔اب جو کوا(مؤنث) کوئل کے انڈوں کو دیکھتی ہے تو انہیں اپنے ہی انڈے سمجھ کر سیتی جاتی ہے۔حتٰی کہ ان انڈوں میں سے کوئل کے کالے کالے ننھے منے بچے نکل آتے ہیں اور مزے کی بات یہ کہ وہ انہیں اپنے ہی بچے گردانتی ہے۔کیا آپ کو قدرت کی اس حِکمت کے بارے میں معلوم تھا؟
اسی طرح کتاب میں شامل ہر کہانی میں جنگل کے باسیوں کا آپس میں پیار،محبت سے ساتھ مل جُل کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
کہانی ہی کہانی میں تسنیم جعفری صاحبہ بچوں کے ننھے ذہنوں میں پانی اُبال کر پینے کی افادیت اور گندا پانی پینے سے ہونے والی بیماریوں کی آگاہی دیتی ہیں۔
اسی طرح مزے مزے کی سبق آموز کہانیاں آگے بڑھتی ہیں اور کتاب میں آپ کی دلچسپی بھی اسی رفتار سے بڑھتی جاتی ہے۔ لومڑی اپنی لالچ و حِرص زدہ طبیعت سے مجبور ہو کر چٹ پٹے کھانوں کی لالچ میں جنگل چھوڑ کر شہر پہنچ جاتی ہیں اور وہاں انہیں ایک بڑے سے بنگلے کے شکاری کتوں سے وہ ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے کہ ان کی جان کے لالے ہی پڑ جاتے ہیں۔زخمی لومڑی ہانپتے کانپتے جنگل واپسی کی راہ لیتی ہیں۔محترمہ تسنیم جعفری کی بیشتر کتب کی طرح اس کتاب کی کہانیوں سے بھی آپ کی قدرت سے بھرپور محبت چھلکتی محسوس ہوتی ہے اور ماحولیاتی آلودگی کے متعلق آپ فکر و تشویش میں مبتلا نظر آتی ہیں۔جنگل میں بڑھتی گندگی اور کوڑے کرکٹ کا ڈھیر،جا بجا پھیلتی بیماریاں،جھیل ہو تالاب ہو یا جوہڑ سب کا پانی غلاظت کے باعث گدلا اور بدبودار ہو کر مچھروں کی افزائش کا گڑھ بن جانا،آلودگی کے سبب آبی حیات کی بقا و سلامتی کو درپیش خطرات اور جنگل کی قدرتی خوبصورتی کا مسلسل زائل ہونا یہ سب علامات کس طرح جنگل میں رہنے والے جانوروں پر اثرانداز ہوتے ہیں اور تمام جانور مل جل کر کس طرح اپنی عقل مند حکمتِ عملی کی بدولت بڑے چھوٹے سب ہی جانور سارے جنگل کی صفائی و ستھرائی کا اہتمام کرتے ہیں اور اپنے مَسکن کی ہریالی و شادابی کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
الغرض کہ اس کتاب ’’سائنسی جنگل کہانی‘‘ کو تبصرے میں بیان کرنا مجھ ناتواں کے بس کی بات نہیں۔اس کتاب کی اہمیت اور مقصدیت کو بیان کرنے کی سعیِ لاحاصل ضرور کی ہے جو یقینی طور پر اس کتاب کا حق ہے۔ یہ محض کہانیوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ہم سب کے لیے بہت سی اہم سائنسی معلومات کا ذخیرہ لیے ہوئے،حکمتِ خداوندی کا احاطہ کرتی ہوئی اور اِس دنیا کو امن و آتشی سے بھرپور اتحاد و یگانگت کے ساتھ اپنے اور دوسرے جانداروں کے رہنے کے لیے ایک خوبصورت اور پُر فضا و پرسکون مقام بنانے کا بہترین پیغام لیے ہوئے ایک بے حد منفرد کتاب ہے۔