ڈیجیٹل جُوا معاشرے کی تباہی کا ایک اور ذریعہ!

بلال احمد پرے
آج کل دُنیا کے اکثر لوگ (خاص کر اُمتِ مسلمہ) مادیت پرستی کی شکار ہو چکی ہے اور ایسے لوگوں میں حلال و حرام کی کمائی میں تمیز کرنے کی بصیرت بھی اب قریب قریب ختم ہو چکی ہے۔ اسلامی تعلیمات نے فقر و فاقہ میں رہنے کی ترغیب نہیں دی ہے بلکہ حلال کمائی سے بہتر زندگی گزارنے کی حوصلہ افزائی کی ہے، اور اس سے خیر و فضل جیسے مبارک الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے ۔
لوگوں میں عموماً اور لاعلم مسلمانوں میں خصوصاً عام طور پر یہ خیال پروان چڑھ رہا ہے کہ دنیا اور دنیا کی دولت بہت بُری شئے ہے اور اسلام حصولِ دولت اور زر و زمین جمع کرنے کے خلاف ہے ۔ چنانچہ اکثر لوگ اسی طرح کی سوچ رکھتے ہیں ۔ جس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ مسلمان دن بہ دن کمزور اور نادار ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ افلاس اس پر مسلط ہو رہا ہے، قرض بڑھتا جا رہا ہے اور اغیار سونے چاندی میں کھیلتے نظر آتے ہیں ۔مسلمانوں کا وہ طبقہ جو دیندار یا روحانیت کا علمبردار کہلاتا ہے، وہ تو یہی کہتا ہے کہ مسلمان دنیوی ترقی نہیں کر سکتے نہ ہی کرنی چاہئے ۔ جبکہ اللہ کے آخری نبی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انصارِ مدینہ جو زمین دار تھے کو کاشت کاری کی ترغیب دلائی اور مہاجرین جو تجارت پیشہ تھے کو تجارت پر توجہ دلائی ۔ تاکہ اُمتِ مسلمہ کو تجارت، زراعت و دست کاری کی ترغیب ملے اور وہ فارغ البال ہو ۔ تاریخ اسلامی کو دیکھا جائے تو متعدد دولت مند صحابہ کبارؓ کے تذکرے ملتے ہیں ۔ جن میں حضرات ابوبکرؓ، عمر و عثمانؓ، زبیر، طلحہ، عبدالرحمٰن ابن عوف انس سمیت کئی دیگر اصحابؓ قابل ذکر ہیں ۔ اسی طرح امہات المومنین میں حضرت خدیجہ، عائشہ، زینب، صفیہ، ام سلمہ رضی اللہ عنھم قابل ذکر ہیں ۔ تابعین اور علماء و اولیاء کرام میں سے بھی ایک اچھی تعداد اہل ثروت کی موجود رہی ہے۔
 ان کے ایمان افروز تذکرے سے آج کے مسلمانوں کو یہی پیغام ملتا ہے کہ دولت کمانا، اس سے بچا کر رکھنا اور پھر اس سے صحیح جگہ و صحیح وقت پر صرف کرنا سیکھا جائے ۔ شریعت مطہرہ نے حلال کمائی پر بہت زیادہ زور دیا ہے، حتیٰ کہ قرآن کریم میں عبادت کا حکم دینے سے پہلے حلال رزق کھانے (المؤمنون؛51) کا حکم فرمایا گیا ہے ۔ جب کہ حرام کمائی سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے جیسے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان کوئی پرواہ نہیں کرے گا کہ جو مال اس نے حاصل کیا ہے، وہ حلال سے ہے یا حرام سے ہے‘‘ ۔ (البخاری؛ 2059)
چنانچہ اِنہیں حرام کمائی کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ آج کل ڈیجیٹل جُوا بازی بھی ہے ۔ جس کے زمرے میں ڈریم۔11‘‘یا اس طرح کی دیگر شیطانی کھیلیں آجاتی ہیں ۔ شریعتِ اسلامیہ کے ضابطے اور قانون کی روشنی میں اس طرح کے اطلاق اور ویب سائٹس یا کمپنیوں کا استعمال کرنا ناجائز اور ان سے حاصل ہونے والا رقم سراسر حرام ہے ۔ کیونکہ موجودہ دور کا ڈیجیٹل جُوا پرانے طرز کے جُوا کی ہی ایک نئی شکل ہے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ جب کوئی شخص اس کھیل میں کوئی بری رقم جیت لیتا ہے توبعض پرنٹ و الیکٹرانک اور سوشل میڈیا اس خبر کو اس انداز میں تشہیر کرتا ہےجیسے اس نے کوئی ایسا کارنامہ انجام دیا ہو،جو کہ دوسروں کے لئے قابل تقلید ہے۔ گویااس غیر شرعی فعل  کی طرف ایک کھلی دعوت دی جاتی ہے ۔ جس سے بے خبر اور دور رہنے والوں کی توجہ بھی اس ڈیجیٹل جُوا کی طرف مبذول کرائی جاتی ہے ۔ یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہم دین ِ اسلام سے کس قدر دور ہو کر حرام کاموں کو بھی صحیح ٹھہرانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
قرآن مجید نے اس طرح کی غیر شرعی فعل کے لئے ’’میسر‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے ۔ جو کہ یسر یا یسار سے ماخوذ ہے اور سہولت و آسانی کے معنی میں مستعمل ہے ۔ ہر وہ کھیل جس میں آسانی و سہولت سے کچھ حاصل ہونے یا کھونے کی توقع ہو ،اُس سے میسر کہتے ہیں ۔ میسر دو طرح کا ہوتا ہے ، ایک میسر اللہو یعنی مقاصد زندگی سے غافل کر دینے والا کھیل اور دوسرا میسر قمار جسے عرف عام میں جُوا کہا جاتا ہے ،جس میں کھیلنے والے کے لئے نفع و نقصان یا جیتنے اور ہارنے کا خطرہ رہتا ہے ۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کا مبارک ارشاد ہے کہ ’’اے ایمان والو! شراب اور جُوا اور بُت اور پانسے یہ سب ناپاک شیطانی کام ہی ہیں، تو اِن سے بچو تاکہ تم مکمل کامیابی حاصل کرلو ۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے درمیان دشمنی، عداوت، بغض اور کینہ ڈالے اور تمہیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے روکے ، تو بتاؤ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے ؟‘‘ ۔ (المائدہ؛ 90 تا 91)
اسی کے تناظر میں ایک مشہور حدیث مبارک ہے کہ قیامت کے روز ایک شخص کے پاؤں اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گے یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں پوچھ لیا جائے ۔ ان میں سے ایک سوال اس کے مال کے بارے میں کہ ’’ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں کہاں خرچ کیا‘‘ ہوگا ۔ (سنن ترمذی)
اکثر لوگ موجودہ دور کی ڈیجیٹل جُوا بازی کو صحیح ٹھہرا رہے ہیں اور یہی موقف پیش کرتے ہیں کہ رشوت ستانی، سود، چوری و دیگر غیر شرعی کاموں سے یہی بہتر ہے کہ جُوا بازی سے خوب پیسہ کمایا جائے ۔ حالانکہ یہ کہنا غلط ہے اور اس طرح کی سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ راقم الحروف کا یہ کہنا مقصد نہیں ہے کہ جوا کے بغیر جتنے دیگر بے ایمانی کے طریقوں سے مال کمایا جائے وہ سب صحیح ٹھہرایا جائے ۔ بلکہ یہ سب حرام کام ہے اور رب العالمین کو سخت ناپسند ہے ۔ لہٰذا ان سب سے فوراً اجتناب کرنا چاہئے ۔
اللہ تعالیٰ نے جوئے کے متعلق بھی قرآن کریم میں وہی ارشاد فرمایا ہے جو شراب کے متعلق فرمایا ہے ۔ کہ اس میں کچھ منافع بھی ہیں، مگر نفع سے اس کا نقصان و ضرر (البقرہ۔ 219) زیادہ ہے ۔ فائدہ یہ ہے کہ جیت جائے تو بیٹھے بٹھائے ایک فقیر، بدحال آدمی ایک ہی دن میں مالدار و سرمایہ دار بن جاتا ہے ۔ جب کہ دیگر شرکت کرنے والے فقیر بن جاتے ہیں جو بعض اوقات منشیات میں لت پت ہوجاتے ہیں اور خودکشی بھی کر بیٹھتے ہیں ۔ اس کھیل کے ذریعے ایک کی دولت سلب ہو کر دوسرے کے پاس پہنچ جاتی ہے ۔ اس لیے یہ مجموعی حیثیت سے آپسی عداوت، بغض، کینہ، دشمنی، قوم کی تباہی اور انسانی اخلاق کی موت ہے ۔
خلاصہ کلام یہی ہے کہ جس کام سے ایک شخص کروڑ پتی بن جائے اور کروڑوں لوگ فقیر بن جائے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ یہ میسر کے زمرے میں آجاتی ہے اور دیگر ایسے تمام غیر شرعی کاموں و حرام کمائی سے بھی پرہیز کرنا چاہئے تاکہ ہماری زندگی اللہ رب العالمین کے احکامات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقے کے مطابق گزر بسر ہو جائیں اور اپنے محبوب پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے اسی دُعا ’’الٰہی! میں دولت کے تکبر سے اور محتاجی کی ذلت سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘ پہ اکتفا کیا جائے ۔
(ہاری پاری گام ترال،رابطہ۔ 9858109109)