ڈمی کہانی

جبیں نازاں

ستمبر کی شام ہے ۔برسات کا موسم رخصت ہونے والاہے – موسم سرما کی آمد ہے – یوں تو ستمبرخزاں کا موسم کہلاتا ہے- لیکن مجھے یہ موسم, بہار کے موسم سےزیادہ حسین لگتا ہے – عینو ڈرائنگ روم میں بیٹھی کھڑکی سے نظر آرہے باہر کے مناظر دیکھ کر سوچ رہی تھی – تبھی اس کا شوہر ڈرائنگ روم میں داخل ہوا اور ہ ہیپی میرج ڈے ٹو یو ‘ کہتے ہوئے اس کے سامنے ایک گفٹ پیکٹ رکھ دی –
شادی کی پہلی سالگرہ عینو کو بالکل یاد نہیں ، عینو ذرا جھجھکی اس بھول اور غفلت پہ ، پھر کہا
“یومِ ثقافت کی قائل نہیں ہوں میں ”
شوہرصبور عینو کے بغل میں بیٹھا- عینو گفٹ پیکٹ کھولنے لگی- صبور نے پینٹ کی بائیں جیب سے موبائل نکالا اور اسے اپ ڈیٹ کرنے لگا –
عینو نے پیکٹ کھولی -دیکھا بنگلہ دیشی کارٹن بنارسی ساڑھی ہے- عینو کا موڈ آف ہوگیا – اسے باز گشت سنائی دینے لگی – اس کا دماغ جھنجھنا اٹھا –
” ماں ! مجھے برگنڈی رنگ بالکل پسند نہیں ، آپ کو کون سا رنگ پسند ہے ؟”
“جس وقت جو رنگ آنکھوں کو بھا جائے ”
ماں شبنم نے اپنی پسند بتاکر کسی ایک رنگ کو محبوب نہ بنانے کی تلقین کرڈالی۔
“یہ بھی کوئی رنگ ہوا ؟ کوئی پسند ہوئی؟- آپ اپنے پسند کے کپڑے پہنتی ہی کب ہیں ؟ ڈیڈ نے جو رنگ لاکر آپ کے سر پہ پٹک دیا ۔۔اسے آپ نے آنکھوں سے لگا لیا اور تن پر لپیٹ لیا۔
“ماں !آپ عورت نہیں’ ڈمی‘ ہو اور پاپا شاپ کیپر ،جسے آپ مالک و مختار کہتی نہیں تھکتیں۔
عینو نے پیکٹ ویسے ہی بند کی صوفے سے اٹھی ، موبائل میز پہ تقریباً پھینکتے ہوئے رکھا۔
اس کی نظروں کے سامنے ماضی کا منظر آکر ٹھہر گیا –
ماں کے پہلو میں بیٹھی ہوئی تھی ، نہ جانے کون سادن تھا شام کاوقت تھا، دائیں زانو پہ اپنا بایاں زانو چڑھاتے ہوئی بولی تھی ۔
” ماں !سچ مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے – جب آپ کو دیکھتی ہوں ”
“یار ! یہ کوئی زندگی ہے ”
ماں کے گلے میں اپنی بانہیں ڈال کر جھولتی ہوئی بولی ۔
لفظ ‘یار ‘سن کر ماں ناراض ہوئیں۔
“عینو یہ کیا بدتمیزی ہے ؟ جاہل طبقوں کی زباں استعمال کررہی ہو ماں کے لیے -وہ نیچ طبقہ بازاری زبان استعمال کرنا اپنی روشن خیالی سمجھتا ہے- اور خود کو فیشن پرست کہتے نہیں تھکتے ہماری تہذیب میں لڑکیوں کو یہ زباں زیب نہیں دیتی- ”
عینو ماں کی ناراضی پہ خجل ہونے کی بجائے بھڑک گئی –
تڑاک کھڑی ہوئی ایک مکا دیوار پہ مارتے ہوئے کہا ۔۔
میں آپ کی معاشرے میں فٹ نہیں ہوسکتی ماں؟ جہاں زباں بھی صنفی خانوں میں تقسیم کردی گئی ہو-
مجھے ‘ڈمی نہیں بننا ۔۔۔وہ کہتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔
ڈرائنگ روم میں گئی لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گئی اوروڈیوگیم پب جی ‘ کھیلنے لگی – کالج کے دوست وویک ، شبھم اور انکیتا کے ساتھ ۔”عینو! ” صبور نے صدا دی۔عینو یادوں کی دنیا سے باہر نکلی سامنے کلاک پر نظر ڈالی 4 بج چکے ہیں ۔۔چائے کا وقت ہوگیا- آج قلچہ اور چائے پہ ٹرخانا مناسب نہیں – ایک تو مجھے شادی کی تاریخ یاد نہیں رہی – تیسری لاپروائی یہ دقیانوس برداشت نہیں کرسکتا- مبارکباد نہ دینا دوسراقصور تھا ۔ یار مجھے یہ شوہر بیوی کے چونچلے اچھے نہیں لگتے ۔۔اسے جو پسند ہے وہ کرے۔۔مجھے اپنی مرضی سے جینے دو یار!
خود سے باتیں کرتی ہوئی باور چی خانے میں آئی۔
ہمیں کچھ خاص بنانا پڑے گا- نہ صرف چائے کیلئے گھر کا روایتی کوئی خاص پکوان ،بلکہ ڈنر بھی کچھ خاص ۔۔۔- لیکن بناؤں کیا؟ وہ کھڑی سوچ رہی تھی ۔ تبھی صبورنزدیک کھڑا ہوا۔
‘کیا کررہی ہو؟
‘سوچ رہی ہوں کیا بناؤں؟ ‘
چھوڑو !رہنے دو پھٹا پھٹ تیار ہوجاؤ! آج ڈزنی لینڈ گھوم آتے ہیں ۔۔ کیب کا آرڈر دے چکا ہوں ۔دس منٹ میں آجائے گا- ڈنر کسی ریسٹورنٹ میں کر لیں گے- کیا ہر وقت کچن میں گھسی رہتی ہو۔
کھانا بنانے کی الجھن دورہوئی – وہ کچن سے بیڈ روم میں آکر بیٹھی – سوچنے لگی کیا پہنوں؟ جب سے شادی ہوئی ،میں نے جینس اور ٹاپ پہننا بالکل چھوڑ دیا – آج وہی پہنو ں گی- وہ اٹھی اور وارڈ روب کی جانب بڑھی ۔۔تبھی صبور نے کہا۔۔عینی آج سنہرے رنگ کا وہ سینٹون اسٹیٹ پاجامہ پہننا اور بلیک لانگ کرتی(جمپر) ۔۔اچھا لگتا ہے تم پر ۔
عینو نے اپنی پسند ترک کی اور صبور کی پسند کو ترجیح دی ، یہ سوچتی ہوئی کہ شوہر اور بیوی کا رشتہ بھی عجیب ہوتا ہے ، جہاں بیوی کو اپنی پسند ناپسند تیاگ کر جینا پڑتا ہے- اس صبور کے بچے کو سنہرے اور بلیک کے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا – کاش اسے پتہ ہوتا کہ بیویوں کے سنہرے خواب کی تعبیر بلیک ہوا کرتی ہے ۔۔۔اب ان رنگوں سے الجھن ہونے لگی ہے مجھے ۔۔۔وہ مجھے خواب کے تعبیر آمیز رنگ میں ڈوبا ہوا دیکھنا چاہتا ہے -شرارتاً ۔۔۔۔۔
آج آخری بار پہن رہی ہوں یہ رنگ۔ آج کے بعد کہہ کر دیکھے صبور لنگور ۔ صبوراسے بالکل پسند نہیں تھا ۔ اس نے والدین کی لاج رکھ لی تھی ،
وہ احتجاجاً پیر پٹختی ہوئی کمرے سے نکل گئی ۔
صبور عینو کے ردعمل کو سمجھنے سے قاصر تھا کہ میں نے ایسا کیا کہہ دیا جو عینو کا رویہ ایک دم بدل گیا ۔۔۔تعریف ہی تو کی تھی –
صبور اس کے پیچھے پیچھے آیا۔۔ تمھیں جو پسند ہو پہنو۔
عینو چیخ پڑی ۔۔۔
مجھے پاگل کردو گے ؟ اپنی پسند اپنا فیصلہ مجھ پر مسلط کیوں کرتے ہو؟؟ میں نے جب فیصلہ کرلیا کہ وہی پہنوگی جو تم نے حکم دیا ہے – ابھی ایک حکم کی تعمیل نہیں ہوئی کہ دوسرا حکم۔۔۔۔”
یار ہم عورتوں کی تقدیر ایسی کیوں بنائی ؟ عینو گھر کی چھت دیکھتی ہوئی خدا سے شکوہ سنج تھی ۔۔یار تو نے مجھے پیدا ہی کیوں کیا ؟ اگر پیدا ہی کیا تو ایسے دقیانوسی معاشرے میں کیوں پیدا کیا ؟ پہلے والدین کی مرضی مجھ پہ چلتی رہی ، پھر معاشرےکی روایت کی حکمرانی ۔۔۔اب یہ شوہر بنام آقا و مولا کی ۔۔۔۔
عینو اسٹول(تپائی نما) پہ اس طرح بیٹھی کہ جیسے نہ جانے کتنے کام کرنے کے بعد تھک چکی ہو ۔
صبور نے صدا دی
‘ یار جلدی کرو !تمہیں تیار ہونے میں ویسے بھی اچھا خاصا وقت لگ جاتا ہے – ‘
غصہ سے بھری بیٹھی عینو نے ضبط کا گھونٹ پیتے ہوئے اپنی نمناک آنکھیں اسٹال (مفلر نما دوپٹہ )میں خشک کیں۔ اٹھی وارڈ روب کے تیسرے خانے سے کپڑوں کی تہہ سے صبور کی پسند کے کپڑے کھینچ کر نکالے ۔اس رنگ سے اب وحشت سی ہونے لگی ہے مجھے، ہر طبقے کی لڑکیاں اور عورتیں بس اس رنگ پہ مرمٹتی ہیں ۔جسے دیکھو بس گولڈن اور بلیک رنگ میں ملبوس ۔دنیا میں جیسے کوئی اور رنگ ہے ہی نہیں ۔ سنہرا پاجامہ اور بلیک کرتی(جمپر) ، یہ فیشن ڈیزائنر میرے سامنے آجائے تو تکا بوٹی کر ڈالوں اس کی۔۔ ہمارے خواب کی یہ درگت جو پیروں پہ ڈال دیا گیا ۔۔اور “سیاہ تعبیر” کو سینے اور گلے سے چپکادیا گیا ۔۔ کم بخت سادہ لوح فیشن کی دلدادہ عورتیں اس گھناؤنے مذاق کوکہاں سمجھ پا رہی ہیں ؟ کب تک بھولی بنی رہیں گی؟؟ اور خود پہ ظلم برداشت کرتی رہیں گی ہنس ہنس کر؟؟خواتین فلاح وبہبود کی تنظیم بھی” عقل کی کوری”ہے –
عینو کپڑا تھامے حمام میں گئی اور غسل کرنے لگی ۔۔غسل کرتی ہوئی سوچے جارہی تھی ، یار یہ کوئی زندگی ہے ؟ اپنی مرضی سے نہ کھا سکتے ہیں نہ پہن سکتے ہیں ، نہ سو سکتے ہیںاور نہ جاگ سکتے ہیں ۔۔عینو جسم پہ dove صابن لگارہی تھی
کم بخت صبور مروجہ اشیا کا شوق رکھتا ہے – کیا اچھا ہے کیا برا اسے مطلب ہی نہیں – dove صابن کی بو مجھے بالکل پسند نہیں تھی – اس قدر چکنائی کہ اسے ختم کرنے کے لیے دو مگ کی بجائے چار مگ پانی بہانا پڑتا ہے ، پانی کا ضیاع مجھے نہایت گراں گزرتا ہے ، صابن تو بس دو ہی ہیں -انٹر نیشنل’ لکس‘ (lux )یا پھرpears، لکس صابن کے اشتہار جب بچپن میں ٹیلی ویژن پہ پرینکا چوپڑا، کٹرینہ کیف کو اشتہار کرتی ہوئی دیکھتی ۔۔تو سوچتی لکس صابن ہی انھیں خوبصورت بناتا ہے ، کیوں نہ میں بھی’ لکس‘ لگاکر ‘مادھوری ڈیکشت اور مدھو بالا جیسی خوب صورت بن جاؤں ؟ اور پھر ڈیڈ سے لکس صابن کی فرمائش کر ڈالی تھی ، ڈیڈکھلکھلا کر ہنسے تھے ۔بیٹا تو ابھی چھوٹی ہے جب بڑی ہوجائے گی ‘لکس ہی لاؤں گا تیرے لئے ۔۔لیکن تو ‘مدھو پاڈو کیوں نہیں بننا چاہتی ؟ مدھو بالا کیوں؟ ؟
کیوں کہ مدھو بالا” انار کی کلی ہے ڈیڈ!”
ڈیڈ نے مجھے گود اٹھالیا تھا اورپیار کرتے ہوئے ماں کی طرف شرارت سے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
“دیکھو!میری بیٹی کی پسند ۔۔۔۔۔”
ماں نے جواب دیا تھا-
“کیوں کہ یہ آپ کی بیٹی ہے میری نہیں ۔۔۔”
اب اپنی نادانی کو یاد کرتی ہوں تو مجھے ہنسی آتی ہے- اس کے ہونٹ پہ مسکراہٹ رینگ گئی- اس سے پہلے کہ مسکراہٹ ہنسی کی شکل لیتی اسے فوراً خیال آیا کہ اگر کوئی مجھے اس کیفیت میں دیکھ لے پاگل تصور کرے گا کہ میں اپنے آپ کیوں ہنس رہی ہوں ،اس لئے مسکراہٹ کو دبانے کی کوشش کی ۔ارے دھت میں غسل خا نے میں ہوں ، یہاں تو مجھے میرے کا ندھے کے فرشتے بھی نہیں دیکھ سکتے، چلو ہنس لو تھوڑا ۔۔۔عورت کے ہنسنے اور رونے کے لیے سب سے اچھی جگہ یہی ہے – عینو نے جیسے ہی یہ بات سوچی اس کی مسکراہٹ غائب ہوگئی ، اور سنجیدگی طاری ہوگئی-
لیکن ڈیڈ مما کے لیے لکس نہیں، pears صابن لایا کرتے تھے
پیرس کی خوشبو آہ ۔۔۔اس کی چکنائی ایسی کہ جسم پہ چپکتی ہی نہیں ۔۔لیکن جسم میں صابن لگاتے ہوئے نہ جانے کتنی بار ہاتھ سے پھسل جاتا ہے – لڑکیوں کے خواب کی مانند یہ خصوصیت صرف pears میں موجود ہے – کمپنی نے خصوصی طور پہ عورتوں کی زندگی کو مدنظر رکھتےہوئے بنایا ہےشاید ۔
عینو حمام سے نکلی تولیہ سر پہ لپیٹتی ہوئی ، قد آدم آئینہ کے سامنے کھڑی ہوئی – ” بیوٹی بکس” نکالا ، اس میں سے باڈی لوشن نکالتے ہوئے خود کو غور سے آئینہ میں دیکھا- واقعی میں مما جیسی ہوں۔ آنکھیں ، ناک، ہونٹ، چہرہ سب کچھ تو مما جیسے ہیں ۔۔مما کی زیراکس کاپی تبھی تو ڈیڈ اور دیگر لوگ کہا کرتے ہیں ، یعنی کہ مما کا دوسرا جنم ۔(۔ہندو دھرم کے مطابق )۔۔میں نہیں، میں تو ڈیڈ کی خواہش (جسے ہوس کی اولاد بھی کہا جاسکتا ہے ) مما کی ضرورت کی شکل میں موجود ہوں – جسے والدین کا خواب کہنا مناسب ہے – والدین نے اپنے خواب کو اپنی مرضی سے سجایا سنوارا۔۔ مجھے کیا کھانا ہے کیا پہننا ہے ، کیا پڑھنا ہے ، کیا سوچنا ہے ، کیا دیکھنا ہے ، کس سے ملنا ہے اور کس سے نہیں ۔۔۔۔سب کچھ تو میرے والدین نے طے کیاتھا ، گویا کہ میں ڈمی نہیں روبوٹ ہوں ۔گویا کہ پیدا ہی نہیں ہوئی ، اور اب شوہر اور شوہر کے بعد۔۔۔؟ یہ خیال آتے ہی اس کے دماغ نے اکسایا دل نے دماغ کا ساتھ دیا اوریہ بغاوت پہ آمادہ ہوئی، یکایک اس کی سوچ بدل گئی اور اس نےفیصلہ کیا میں آج ریسٹورینٹ نہیں جاؤں گی – صبور کا دل ٹوٹتا ہے تو ٹوٹے ۔۔میرا دل صبح سے شام تک نہ جانے کتنی بار ٹوٹتا ہے ۔
عینو نے بیوٹی بکس بند کیا آئینہ کے سامنے سے ہٹی اورسیدھے خوابگاہ میں گئی، تکیہ دور پھینکا اور چادر تان کے سو گئی ۔
تھوڑی دیر بعد صبور ڈھونڈتا صدائیں دیتا خوابگاہ میں آیا۔ عینو کو دراز دیکھ کر آپے سے باہر ہوگیا ۔۔۔چادر کھینچ کر عینو کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا ۔۔
“بد تمیزعورت !!یہ کیا ڈراما ہے ؟”
اس کے رخسار پہ ایک طمانچہ رسید کردیا ۔۔عینو کا دماغ جھنجھنا اٹھا،
اس نے چیختے ہوئے کہا ۔۔مارو گے؟ مجھے مارو گے؟؟ مجھے نہیں مار سکتے ۔ میں جیتی جاگتی انسان نہیں ہوں ، میں’ ڈمی‘ ہوں۔
بیوقوف ! تومجھے مارتا ہے!؟”
عینو ہذیانی کیفیت میں ہنستی ہو ئی اس کے قریب جاکر بولی
‘ میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں ۔۔۔ میں عندلیب ۔۔۔۔میں عندلیب گلشن نا آفریدہ۔۔۔۔
عینواٹھی، زوروں سے اپنا سر دیوار سے ٹکرادیا۔
صبور کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔
���
نئی دہلی
[email protected]