ڈاکٹر عزیز حاجنی۔۔۔۔فن اور شخصیت خاکہ

طارق شبنم

علمہ ستی آدم بنان عالی شان
علمہ روس انسان چُھ اڈلیوک نوتوان
گاش علمک ناش ظُلماتن کران
علمہ روس انسان چُھ اڈلیوک نوتوان
علم کی عظمت کو بیان کرتے یہ اشعار وادی کشمیر کے خاک سے اٹھنے و الے ایک غیر معمولی قلم کے سپاہی مرحوم ڈاکٹر عزیز حاجنی کے کشمیری شعری مجموعے ’’اسہ چھے پُرن ہمساین تل‘‘میں موجود’علم ‘ عنوان سے لکھی گئی ایک نظم سے ماخوذ ہیں،جس میں انہوں نے دانشورانہ انداز میں علم کی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے عوام کے ذہنوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے ۔یہ اشعار اس بات کے مظہر ہیں کہ انہیں علم و ادب سے کس قدر عقیدت رہا ہے اور علم و ادب کی قندیل کو روشن رکھنے کے لئے آپ کس قدر فکر مند رہتے تھے ،جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ آپ نے نہ صرف ایک مست جوگی کی طرح علم و ادب کے گلشن کو شاداب و آباد رکھنے کے لئے تن من دھن سے اپنے آپ کو وقف کر دیا تھا بلکہ اپنی مادری زبان کی ترقی اور ترویج کے لئے ساری عمر ایک بے باک پہریدار کا رول بھی نبھاتے رہے ۔ آپ چونکہ بچپن سے ہی انتہائی قابل ،ذہین اور فظین تھے سو انہوں نے کم عمری میں ہی شعر تخلیق کرنا شروع کئے اور کبھی مڑ کر نہیں دیکھا اور نہ کبھی ہمت ہاری ۔انہوں نے کشمیری زبان کو اپنا اوڈھنا بچھونا بناکرکشمیری ادب کو اپنی بیش قیمتی تخلیقات سے مالا مال کر کے اپنا اور پورے کشمیر کا نام روشن کردیا ۔
ڈاکٹڑ عزیز حاجنی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ان پر کافی کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جارہا ہے ۔وہ ایک دانشوربہترین منتظم ، فن شناس شاعر ،ناقد،بہترین استاد اوربے با ک مقرراور اعلیٰ اخلاق کے مالک انتہائی نرم دل اور حلیم انسان تھے ۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کانہ صرف زمانہ معترف ہے بلکہ علمی و ادبی حلقوں میں انہیں کافی عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ،خاص طور پر بحیثیت شاعر ان کی ایک خاص پہچان ہے ۔ان کا اصلی نام عبدالعزیز پرے تھا لیکن ادبی وعلمی حلقوں میں عزیز حاجنی کے نام مشہور ہیں۔عزیز حاجنی کا جنم 7مارچ 1957ء کو شمالی کشمیر کے قصبہ حاجن میں ہوا ۔آپ کے والد کا نام محمد مقبول پرے تھا، جو پیشے سے زمیندار تھے ۔حاجنی نے ابتدائی تعلیم حاجن میں ہی حاصل کرلی اور گور منٹ ڈگری کالیج بمنہ سرینگر سے بی ۔اے پاس کیا جس کے بعد کشمیر یونیورسٹی سے کشمیری میں ایم ۔اے اور بعد ازاں پی ۔ایچ ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔انہیں کشمیر یونیورسٹی سے اولین گولڈ میڈلسٹ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے جب کہ انہوں نے 1976ء میںادبی مرکز کمراز کی جانب سے منعقد کئے گئے ریاسظی سطح کے مضمون نویسی کے مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کرلی ۔تعلیم سے فراغت حاصل کرنے کے بعد آپ نے ایک نجی سکول میں بحیثیت استاد اپنے کئیر یر کی شروعات کی لیکن جلد ہی محکمہ تعلیم میں استاد تعینات ہوئے اور پہلی پوسٹنگ کرگل میں ہوئی ۔ اس کے بعد آپ تیزی سے ترقی کے زینے طئے کرتے رہے اور کلیدی عہدوں ،جن میںسیکریٹری جموں کشمیر کلچرل اکادمی، ڈپٹی ڈائیرکٹر اکیڈمک بورڈ آف سکول ایجو کیشن ،ریسرچ آفیسر سٹیٹ انسٹچیوٹ آف ایجو کیشن سرینگر،او ایس ڈی ،کلچرل ایجو کیشن ،کاڈینیٹر شیخ العالم ؒچیر،کنوینئیر ناردرن ریجنل بورڈساہتیا اکاد می نئی دلی اور کنوینئیر کشمیر ایڈوائیزری بورڈ ساہتیہ اکیڈمی دلی وغیر قابل ذکر ہیں ،پر فایض رہ کرقابل فخر انتظامی خدمات انجام دیتے رہے۔کلچرل اکادمی کے کام کاج کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صحافی عمران یوسف کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے خود کہا ہے ۔
”The Academy’s publication programme was nearly defunct when i joined as secretary.Durang my tenure the Academy produced the highest number of publications.No doubt at the time of Mohammad Yousuf Teing many books were published too but he was seretary for nineteen years while I was there for around four years only and in those years worked hard to get better and better rssults and if we go for average,then during my period the Academy has published highest number of books”.(Aziz Hajni…..The man &The mission p.no 92)
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کے دور میں کلچرل اکادمی کی سرگرمیاں عروج پر تھی ،دیگر کلچرل پروگراموں کے ساتھ ساتھ تواتر کے ساتھ مختلف زبانوں میں کتب بھی شایع ہوتی تھیں اور قلم کاروں کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی تھی ۔ایک رپورٹ کے مطابق ان کے دور میں 2015ء سے 2018ء تک اکادمی نے مختلف زبانوں میں کثیر تعداد میں کتب شایع کی ۔دستیاب اعداد شمار کے مطابق اس دوران اکادمی نے کشمیری میں 35 ،اردو میں 15،گوجری میں22،پہاڑی میں27،لداخی میں 8،انگریزی میں 21، پنجابی میں43،ڈوگری میں 33اور ہندی میں 30شمارے شا یع کئے ہیں جن میں مشہور ادبی شخصیات کے حوالے سے خاص شمارے بھی شامل ہیں۔آپ تین مرتبہ جموں کشمیر کی سب سے بڑی اور فعال ادبی تنظیم ’’ادبی مرکز کمراز‘‘ کے صدر کی ذمہ داریاں بھی نبھا چکے ہیں جس دوران آپ نے مرکز کی سر گرمیوں نئی وصعت عطا کی ،علاوہ ازین آپ جن دیگر ادبی علمی اور لٹرری تنظیموں کے ممبر رہے ہیں ان میںساہتہ اکادمی نئی دہلی 2018ء تک،جنرل کونسل ساہتہ اکادمی 2018ء تک،ممبر ایکسپرٹ کمیٹی برائے فیلو شپ باپت ادبی خدمات منسٹری آف کلچر گور منٹ آف انڈیا ،ممبر ایکزیکیٹوبورڈ ساہتہ اکادمی ،ریفری برائے نوبل پرائیز باپت ادب ،ریفری برائے گیان پیٹھ ایوارڈبا پت کشمیری ادبا،لائیف ممبر انڈین انسٹی چیوٹ بر ائے پبلک ایڈ منسٹر یشن نئی دلی کے علاوہ کئی دیگر کمیٹیوں کے ممبر بھی رہے ہیں ۔
ڈاکٹر حاجنی نے قلم و قرطاس سے مضبوط رشتہ قائیم رکھتے ہوئے اپنے خون جگر سے دل چھو لینے والی تحریریں لکھیں ، دل کے تاروں کو چھیڑنے والے رسیلے نغمے تخلیق کرکے درجنوں کتب مصنف بنے جن میں ـ’’پنزہن ورین ہند کاشر ادب‘‘ ،’’پار زان‘‘ ،’’کاشر نات‘‘،’’کاشر عقیدتی ادب ‘‘،’’ہم کال کاشر شاعری‘‘ جس کا انگریزی، ہندی اور اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے ،’’انہ خانہ‘‘(تین اٰیڈیشن ) جس کا انگریزی، ہندی ،تامل،مراٹھی ،پنجابی اور کینڈی میں ترجمہ ہو چکا ہے،’’تہ پتہ آیہ دریاوس زبان ‘‘،’’مولوی صدیق اللہ حاجنی‘‘،’’میر غلام رسول نازکی‘‘ ،’’اسہ چھہ پرن ہمساین تل‘‘،’’وتستا کی سیر‘‘ ،اردو وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔اس کے علاوہ آپ نے ڈرامے اور سیریل میں تحریر کئے ہیں ۔ جب کہ آپ نے کئی کتابوں کے ترجمے بھی کئے ہیں جن میں وارث شاہ کا انگریزی سے کشمیرہ میں ترجمہ ، ڈاکٹر عبدالصمدکی تحریر کردہ اردو ناول دو گز زمین کا کشمیری میں ترجمہ ،ساہتہ اکادمی کی طرف سے شایع کردی منتخب دلت افسانوں کا کشمیری میں ترجمہ شامل ہیں۔
کشمیری زبان و ادب کے لئے گران قدر خدمات کے عوض انہیں وقت وقت پر ایوارڈوں اور اعزازات سے بھی نوا زا گیا ہے جن میں ساہتہ اکادمی ایوارڈ باپت بہترین ترجمہ نگار (کشمیری )2013ء، کتاب ’انہ خانہ‘ کے لئے ساہتہ اکادمی بیسٹ بک ایوارڈ 2015ء،خلعت شیخ العالم ایوارڑ،ہر موکھ کاشر مرکز کی طرف سے ہرموکھ ایوارڑ 2010ء ،ہندی کشمیری سنگم نئی دہلی کی طرف سے مہجور میموریکل ایوارڑ 2013ء ،دینا ناتھ ناد م میموریل ایوارڈ2014ء، نگینہ فائونڈیشن سرینگر کی طرف سے نگینہ ایوارڈ2018ء کے علاوہ درجنوں ایوارڑوں اور اعزازات سے نوازا گیا ہے ۔
مرحوم حاجنی نے شعر ادب کے ساتھ ساتھ صحافت میں بھی کافی خدمات انجام دی ہیں ،آپ نے کئی ریڈیو اور ٹیلیویژن کے خبروں کے شعبوں کے ساتھ وابستہ رہ کر ترجمہ نگار اور نیوز ریڈر کی خدمات انجام دیں ہیں جب کہ دور درشن سرینگر میں کئی مقبول پرگراموں کے اینکر بھی رہے ہیں ۔آپ نے کئی رسالوں کے لئے بحیثیت اٰیڈیٹر بھی کام کیا ہے جن میں علمدار (انگریزی ،کشمیری )مقبول عام کشمیری رسالہ ’’ وُولرک ملر ‘‘،ڈائیکٹریٹ آف سکول ایجوکیشن کی طرف سے نکلنے والے ’’ایجوکیشن نیوز‘‘،گورمنٹ ڈگری کالج بمنہ سے نکلنے والے ادبی رسالے ’’یمبرزل‘‘،ادبی مرکز کمراز کی جانب سے شایع ہونے والے ’’پرو‘‘،انگریزی میگزین ’’کشمیر انسا ئیٹ،ایڈیٹر انچیف ’’ گاشہ تارک ‘‘، کلچرل اکادمی کی طرف سے شایع ہونے والے ’’شیرازہ‘‘،ہمارا ادب‘‘ اور دیگر زبانوں کے رسالوں کے اٰیڈیٹر انچیف کے بطور بھی فرائیض انجام دئے ہیں۔
عزیز حاجنی نے ملک اور غیر ممالک جن میں کینیڈا،نیویارک،گوا،دہلی ،مدراس وغیر میں منعقد ہونے والے قومی اور بین الاقوامی سطح کے سیمناروں اور کانفرنسوں میں حصہ لے کر جموں کشمیر اور ملک کی نمائیندگی کی ہے ۔مرحوم کو ایک انٹر نیشنل کانفرنس میں شرکت کے لئے چین سے بھی دعوت نامہ موصول ہوا تھا جس میں وہ کچھ وجوہات کی بنا پر شرکت کرنے سے قاصر رہے ِ، غرض عزیز حاجنی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور ہر وقت متحرک رہتے تھے ۔اب اگر ان کی شاعری کی بات کریں تومیں ذاتی طور ان کی شاعری کو بہت پسند کرتا ہوں ،ان کا اندازبیان قدرے مختلف اور دلچسپ ہے، مختصرا ًمیں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں ان کی شاعری کا انداز ہی جدا گانہ ہے ،جس میں عوامی درد اور ذہنوں کو بیدار کرنے کا گہرا سبق جگہ جگہ نظر آتا ہے، ملاحظہ فرمائیں یہ اشعار :
سبقہ رستئے مدرسن منز اسہ تہ تھوی تو حاضری
مثلہ رستئے دفترن ہنز کس چھ پے، کینزھا دیو
ریشی ونکی رازن چھے کر مژ ملحدن مدتچ اپیل
اسی کرو دویہ خار ، تہی پھل مٹھ،روپے، کینژھا دیو۔۔۔(اسہ چھے پُرن ہمساین تل ص۔68)
عزیز حاجنی کی شاعری پر بات کرتے ہوئے کشمیری زبان کے مشہور ومعروف شاعر اور ادیب فاروق نازکی صاحب یوں رقم طراز ہیں، ترجمہ :
’’ عزیز حاجنی کی شاعری پیکر تراشی،خیال آفرینی اور اظہار کی وسعتوںکے اوصاف سے پُر ہے۔اس کے علاوہ تجربے کی گہرائی کا بڑا سہارا بھی ہے ،جو اس کو با اختیار اور پر وقار بناتا ہے ۔نظموں میں نئے طرز کی جدیدیت نظر آتی ہے۔ہمارا دور برقی آلات Electronic Gadgets)کی طرح پلک جھپکتے ہی رنگ بدلنے لگ گیاہے ،صبح جو آلہ (Gadger ) استمال کریں،شام تک وہ پرانا ہوتا ہے ۔رفتار کی یہ شور ہماری پہچان بنی ہے ۔پیچھے مڑکر دیکھنے کی کس کو فرست ہے۔حاجنی کے کلام میں وہی بے بسی دوٹوک انداز میں دکھائی دیتی ہے جو آج کی تیز رفتار زندگی کا سر نامہ ہے ‘‘۔(اسہ چھے پرن ہمساین تل ص۔ 24)
اسی طرح کشمیر کے ایک کہنہ مشق شاعر رفیق راز حاجنی صاحب کی شاعری پر کچھ اس طرح رقم طراز ہیں ،ترجمہ:
’’ایک خصوصیت جو حاجنی کو اپنے ہمعصر شعرا سے الگ دکھاتی ہے ،یہ ہے کہ وہ کتابوں کے مطالعے کے بلبوتے پر شعر نہیں لکھتا ہے ۔انہوں نے اپنی زمین کے ورق ورق کا مطالعہ کیا ہے ۔اسی لئے اپنے زمانے کا درد اس کی شاعری میں دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ اور عیاں ہے ۔اگر چہ وہ اپنے خارجی دنیا کا جائیزہ اپنی ذات کے حوالے سے لیتا ہے پھر بھی اس کی شاعری گواہی دیتی ہے کہ وہ اپنی ذات میں گم اور غائیب نہیں ہے اور نہ ہی اس سے بالکل لا تعلق ہے جو کچھ اس کے ارد گرد وقوع پزیر ہوتا ہے‘‘ ۔(اسہ چھے پرن ہمساین تل ص۔30 )
غرض عزیز حاجنی اپنے جذبات اور محسوسات کو خوبصورت الفاظ پہنا کر شاعری کے قالب میں ڈالے کے ہنر سے واقف تھے اور ایک مشن کے طور پر اس ہنر کی آبیاری کرتے تھے ۔اب دیکھئے حاجنی صاحب خود موجودہ دور کی شاعری سے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں ،آپ لکھتے ہیں ،ترجمہ :
دراصل جو وقت ہمارے حصے میں آیا ہے اس کا مزاج بازاری (Consumer oriented)ہے۔اب دوسرے تخلیق کاروں کے ساتھ ساتھ شاعر بھی وہی لکھتے ہیں جو بازار میں چلے وتشاول(Sensational)اور عریاں (Obscene) موضوعات تخلیق کار کے تخلیقی وجود(Creative Personality)اور تاجرانہ شخصیت(Commercial Being) کے درمیان تخلیق کے پھوٹتے وقت خلل پیدا ہوتی ہے اور آخر(سچ میں)تخلیقی طرز کا گلا گھونٹ کر بازار میں لاتے ہیںجسے خریدار مل جائیں،جسے پڑھ کر یا سن کر لوگ اپنی جبلی لذت اور اپنی مخصوس سیاسی ،مذہبی اور سماجی روش کے اظہار سمجھ کر چھلانگیں ماریں اور تالیاں بجائیں۔ایسے کتابوں اور فن پاروں کو لوگ خرید بھی لیتے ہیں مگر اصل میں یہ ہمارے وقت کا سنگین مسئلہ ہے ‘‘۔(اسہ چھے پرن ہمساین تل ص۔13)
دور حاضر کی شاعری کے تناظر میں حاجنی صاحب کے ان بیش قیمتی خیالات کی طرف توجہ دینے اور صحیح معنوں تخلیقی وجود کے روح کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ تخلیق کار کے ذہن پر تاجرانہ خیالات غالب ہونے سے تخلیق کے خون کے ساتھ ساتھ تخلیق کار کے جذبات کا جو خون ہوتا ہے اسے بچا جا سکے ۔ مرحوم عزیز حاجنی کے علمی ادبی اور کشمیری زبان کے تئیں بے لوث اور بے حساب خدمات کو دیکھتے ہوئے اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ مرحوم غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ایک مہم جو انسان تھے جو اپنے مشن کو بڑے انہماک سے آگے بڑھارہے تھے ،لیکن کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد12 ستمبر 1921ء آسمان علم و ادب کا یہ تابان ستارہ ڈوب گیا حاجنی صاحب اللہ کے اذن سے اپنے چاھنے والوں کو داغ مفارقت دے کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے ۔انااللہ و انا الیہ راجعون ۔
مرحوم عزیز حاجنی ،جو اپنی ہمہ گیر شخصیت اور دل چھو لینے والی تحریروں کی صورت میں تا دیر لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے ، کی شخصیت ، شاندار ادبی سفر اورکشمیری زبان کے تئیں بے لوث خدمات کے تمام پہلئوں کو اس مختصر سے مضموں میںضبط تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے مگریہ ایک خوش آئیند بات ہے کہ ادبی مرکز کمراز ،حلقہ ادب حاجن اور دیگر ادبی تنظیموںنے ان کے علمی و ادبی اور دیگر کارناموں کونمایاں کرنے کے لئے قابل قدر کام انجام دیاہے ۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اجتماعی طور پر مرحوم عزیز حاجنی کے فن اور شخصیت کے تمام پہلئوں کو نمایاں کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ کوششیں کی جائیں تاکہ نئی پود کو ان کے نا قابل فرامو ش علمی و ادبی خدمات سے روشناس کیا جا سکے جو ان کے لئے ایک بہترین خراج عقیدت ہوگا ۔آخر پر علم کی عظمت پر کہے ہوئے مرحوم کے کہے یہ خوب صورت اشعار۔
علمہ آگر پانہ رب العالمین
علمہ کئے پاغام پرتھ کانہہ دھرم ودین
علمہ کئے عرفان چھ پا غمبر ونان
علمہ روس انسان چھ اڈ لیوک نوتوان
مضمون نگار ولر اردو ادبی فورم بانڈی پورہ کے صدر ہیں
ای میل ۔ [email protected]