پیاز ،لہسن اور شلوٹ کی کاشت کاری ! لہسن اور شلوٹ کی فصل نومبر میں لگائی جاتی ہے

سہیل بشیر کار

دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا گھر ہوگا جہاں پیاز نہیں کھایا جاتا ہو۔شاید ہی کوئی فرد ہوگا جو پیازاور لہسن کا استعمال نہ کرتا ہو۔پیاز کا استعمال زمانہ قدیم سے کیا جاتا آرہا ہے۔پیاز کی کاشت اور استعمال کی تاریخ 7000 سال پرانی ہے۔پیاز پوری دنیا میں کاشت کیا جاتا ہے اور بطور سبزی پکایا جاتا ہے حتی کہ چٹنی کی صورت اسے بغیر پکائے بھی کھایا جاتا ہے۔پیاز کا حیاتیاتی نام Allium cepa ہے،پیاز میں معدنی اجزاءمثلاً کیلشیم ، لوہا اور فاسفورس کے علاوہ پروٹین اور وٹامن سی بھی پائے جاتے ہیں ۔طبی لحاظ سے بھی اسے غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پیاز کھانے سے صحت پر متعدد مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جن میں سر فہر ست کولیسٹرول کی سطح کا متوازن ہونا ہے۔ماہرین غذائیت کے مطابق فاسفورس سے بھر پور پیاز کے 100 گرام میں 40 کیلوریز ، 89 فیصد پانی، 1.1 گرام پروٹین ، 9.3 گرام کاربن ، 4.2 گرام شوگر ، 1.7 گرام فائبر اور 0.1 گرام فیٹ پایا جاتا ہے ۔منرلز اور وٹامنز کے اعتبار سے پیاز میں وٹامن سی ، اینٹی آکسیڈنٹ جز پائے جاتے ہیں جو کہ جلد اور بالوں کے لیے نہایت مفید ہیں۔فولیٹ یعنی وٹامن B9 کی موجودگی سے میٹابالزم تیز، اور نئے خلیوں کو بننے میں مدد ملتی ہے، وٹامن بی9 کے سبب پیاز حاملہ خواتین کے لیے نہایت موزوں غذا ہے۔وٹامن B6 کی موجودگی خون میں لال خلیوں کی افزائش بہتر بناتی ہے اور کارکردگی بڑ ھاتی ہے۔انسانی جسم کے لیے بنیادی منرل پوٹاشیم کے سبب بلڈ پریشر متوازن ہوتا ہے اور دل کی صحت بہتر بناتا ہے ۔کولیسٹرول کی سطح متوازن رکھتا ہے، اینٹی بیکٹیریل خصوصیات پائے جانے کے سبب اس کے استعمال سے کئی بیماریوں اور وائرل انفیکشن سے بچا جا سکتا ہے۔
کشمیر میں ماہ اپریل، مئی میں پودے کے اوپری حصے خشک ہوکر نیچے مرجھا جاتے ہیں اور زیرِزمین بلب کی بیرونی تہہ خشک اور آسانی سے ٹوٹنے والی بن جاتی ہے، جس کے بعد خشک پیاز استعمال اور ذخیرہ کیے جاتے ہیں۔پیاز کی بہتر پیداوار کے حصول کیلئے پیاز کو بڑھوتری کے دوران سرد اور مرطوب آب وہوا کی ضرورت ہو تی ہے، جس کےلئے درجہ حرارت 13 تا 20 ڈگری سنٹی گریڈ بہتر سمجھا جاتا ہے۔لیکن گنڈھیاں بننے کے عمل کے دوران درجہ حرارت 16 تا25 ڈگر ی سنٹی گریڈ درکار ہے۔
کشمیر میں اگر کوئی پیاز کا بیچ لگانا چاہے تو اسے 15 اگست سے ستمبر تک بیج لگانا چاہیے، چونکہ ہر ایک کو اچھے بیج کی پہچان نہیں ہے اور پیاز کی پنیری تیار کرنا آسان بھی نہیں لہٰذا بہتر یہ ہے کہ محکمہ زراعت یا کسی قابل اعتماد گروور سے پنیری حاصل کی جائے۔کشمیر میں عموماً جو پنیری لگائی جاتی ہے وہ لوکل بیج سے تیار کی جاتی ہے، بہت زیادہ کھاد دے کر اس کو بڑا کیا جاتا ہے، لیکن پیاز جب تیار ہوتا ہے تو اس کا سائز بھی چھوٹا ہوتا ہے اور شلف لائف بھی کم ہوتی ہے، بہتر یہ ہے کہ Hybrid seed سے بنی ہوئی پنیری کا استعمال کیا جائے، محکمہ زراعت کے پاس ہر ضلع میں Hybrid seed کی پنیری ملتی ہے، گزشتہ کئی سالوں میں red colar کی پنیری محکمہ نے دستیاب رکھی ہے، اس پنیری سے حاصل ہونے والا پیاز کا سائز بھی بڑا ہوتا ہے اور شلف لائف بھی بہت اچھی ہوتی ہے۔کشمیر میں پنیری لگانے کا وقت اکتوبر سے نومبر تک ہے ۔ زمین کو اچھے سے تیار کیجئے، کم سے کم تین بار زمین جوتیے پنیری کی کھیت میں منتقلی کیلئے کاشت سے پہلے 10 سے 15 ٹن گوبر کی گلی سڑی کھاد فی کنال کے حساب سے ڈالیں، کیمیائی کھاد کے استعمال سے پہلے مٹی کی جانچ کروائے، اور جو سفارشات دی گئی ہے ان پر مکمل عمل کیجئے، کھاد اسی کے مطابق دیجئے، پیاز کی کاشت 20تا 25 سنٹی میٹر کے فاصلے پر قطاروں میں کریں اور پودے سے پودے کا فاصلہ 15 سینٹی میٹر رکھیں،ایک کنال میں یوریا 13 کلو، ڈی اے پی 7.5 کلو اور 5 کلو ایم او پی کیمیائی کھاد استعمال کیجئے، یوریا آدھا اور ڈی اے پی اور ایم او پی پورا پنیری لگانے سے پہلے دیجئے، اور باقی یوریا دو اور split ڈورز میں دیجئے. زمین کو نرم رکھنے کےلئے ہر ہفتہ آبپاشی کی ضرورت ہو تی ہے۔فصل کو پہلے 7 یا 8 دن کے وقفے سے پانی دیں. اس کے بعد آبپاشی کا وقفہ بڑھایا جا سکتا ہے۔پیاز کی بہتر پیداوار حاصل کرنے کےلئے ضروری ہے کہ گھاس کی بروقت روک تھام کی جائے اس لئے ضروری ہے کہ weed کو تلف کے لئے مناسب وقت پر گوڈائی کی جائے۔weed کی مکمل تلفی کے لئے چار گوڈیاں درکار ہیں۔جو ماہانہ وقفے سے کریں۔
جب پیاز کی فصل کے پتے 70 فیصد تک گردن کے قریب ایک طرف جھک جائیں تو فصل برداشت کے قابل ہو جاتی ہے۔باقی ماندہ پیاز کے پتوں کو گردن کے قریب ایک طرف جھکادیں۔برداشت شدہ پیاز کو کھیت کے قریب کھلی جگہ پر بکھیر دیں اور جب پتے اچھی طرح خشک ہو جائیں تو دو سنٹی میٹر گردن چھوڑ کر پتے کاٹ دیں اور پیاز کو ہموار اور خشک جگہ پر ذخیرہ کرلیں۔ہر آٹھ دس دن بعد الٹ پلٹ کریں اور خراب پیاز ذخیرہ سے نکالتے رہیں۔فصل کی بہتر نگہداشت سے پیاز کی پیداوار 10 تا 12 ٹن فی ایکڑ حاصل کی جاسکتی ہے۔
لہسن (garlic) سائنسی نام:ایلیم سیٹیوُم/Allium sativum) پیاز خاندان کی ایک جنس ہے۔ زمانہ قدیم سے انسان لہسن کا استعمال کرتا آیا ہے، رومن، مصری، ایرانی، یہود عرب اور دنیا کی تمام اقوام نے لہسن کے فوائد پر گفتگو کی ہے، لہسن جہاں کھانوں میں ذائقے اور لذت کے لیے استعمال ہوتا ہے وہی لہسن چربی کے ذخیرے کو کم کرنے اور وزن گھٹانے میں مفید ہے۔ لہسن میں مانع تکسید اجزا پائے جاتے ہیں جو بیکٹیریا کا خاتمہ کرتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق لہسن معدے کے رس کو تحریک دے کر ہاضم غذا کا کردار بھی ادا کرتا ہے اور بھوک میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ خون میں کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے میں بھی مؤثر ہے۔ خون کو پتلا کرکے خون میں تھکے بننے کے خطرے کوبھی کم کرتا ہے۔لہسن غذائیت سے بھرپور ہے لیکن اس میں بہت کم کیلوری ہے۔
کیلوری در کیلوری ، لہسن ناقابل یقین حد تک متناسب ہے.ایک جوے (3 گرام) کچے لہسن پر مشتمل ہے (5 ٹرسٹڈ ماخذ)مینگنیز: یومیہ ویلیو کا 2 فیصد(ڈی وی)
وٹامن بی 6: ڈی وی کا2فیصد، وٹامن سی: ڈی وی کا 1فیصد،سیلینیم: ڈی وی کا1فیصدفائبر: 0.06 گرام۔
مناسب مقدار میں کیلشیم ، کاپر ، پوٹاشیم ، فاسفورس ، آئرن اور وٹامن بی 1، یہ 4.5 کیلوری ، 0.2 گرام پروٹین اور 1 گرام کاربس کے ساتھ آتا ہے۔لہسن میں مختلف دیگر غذائی اجزاء کی مقدار بھی شامل ہوتی ہے۔ دراصل ، اس میں آپ کی ضرورت والی ہر چیز کا تھوڑا سا حصہ ہوتا ہے، لہسن اگرچہ موسم سرما کی فصل ہے لیکن یہ ان علاقوں میں زیادہ کاشت ہوتی ہے جہاں موسم گرما اور سرما کا درجہ حرارت معتدل ہو۔ لمبے دن اور معتدل درجہ حرارت (20تا25ڈگری سینٹی گریڈ ) پوتھیوں کی نشوونما کے لیے بہترین ہیں، لہسن کی کاشت کے لیے پوتھیاں (پھلی) بطور بیج استعمال کی جاتی ہیں۔اچھی پیدوار کے لیے اچھی بیج بہت ہی اہم ہے، عموماً قطاروں میں کی جاتی ہے اور قطار سے قطار کا فاصلہ 30سینٹی میٹر یعنی ایک فٹ جب کہ پودے سے پودے کا فاصلہ 10سینٹی میٹر یعنی 4 انچ رکھیں۔ کاشت کے وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کہ پوتھیاں (پھلیاں) نہ تو بہت گہری لگائیں اور نہ ہی بہت اوپر کاشت کریں ۔ کاشت کے بعد فوراً پانی لگائیں، کشمیر میں لہسن نومبر کے مہینے میں لگایا جاتا ہے، لہسن لگانے سے پہلے ایک کنال زمین میں 10 سے 15 ٹن گوبر کھاد، 8 کلو یوریا، 5 کلو ڈی اے پی اور 5 کلو ایم او پی استعمال کیجئے، یوریا آدھا جبکہ ڈی اے پی اور ایم او پی پورا پنیری لگانے سے پہلے دیجئے، اور باقی یوریا دو اور split ڈورز میں دیجئےگوڈائی 2 سے تین ماہ بعد کیجئے، weed کو اکھاڑے، اور سنچائی ضرورت پڑنے پر دے، پہلا پانی بجائی کے فوراً بعد دینا چاہیے۔جب جب پودوں کے پتے زردی مائل ہونا شروع ہوجائیں اور زمین پر گرنے لگیں تو اس کا مطلب ہے کہ لہسن برداشت کے قابل ہو گیا ہے۔ فصل پکنے سے 10 دن پہلے پانی دینا بند کر دیں۔ فصل کی دیر سے برداشت لہسن کی پوتھی اور (بلب) کو خراب کر سکتی ہے۔ایک بات کا خاص خیال رکھیں کہ جہاں لہسن لگا ہو وہاں پانی جمع نہ ہو جائے، لہسن لگانے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کا مارکیٹ available ہے اور ریٹ بھی اچھی ملتی ہے. سب سے اہم اس کی شلیف لائف بھی اچھی ہے۔
شلوٹ SALLOTS : شلوٹ پیاز کی ایک نباتاتی قسم ہے۔
سلیٹ اور سادہ پیاز کے درمیان بنیادی فرق ان کامیٹھا ذائقہ ہے، 2010 تک، شلوٹ کو ایک الگ پرجاتی، Allium ascalonicum کے طور پر درجہ بند کیا گیا تھا. باہر سے، ایک مٹھی ایک چھوٹا سا میزبان ریڈ پیاز کی طرح لگ رہا ہے، لیکن ایک بار جب آپ اسے چھڑکاتے ہیں، تو آپ دیکھیں گے کہ بجتی بجائے،سوگرام پیازمیں9.38گرام کاربوہائڈریٹ ، 1.1گرام پروٹین اور 0.1گرام چربی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں 1.7گرام ڈائٹری فائبراور 23ملی گرام کیلشم بھی پایاجاتاہے۔ اس کے مقابلے میں سوگرام شیلوٹ میں 16.8گرام کاربوہائڈریٹ ، 2.5گرام پروٹین اور 0.1گرام چربی پائی جاتی ہے۔ ویٹمن اورمنرلزکی تعداد اس میں کافی زیادہ ہوتی ہے ۔روایتی پیازکے مقابلے میںاگردیکھاجائے تو شیلوٹ میںپروٹین،فائبر اورمائکرونیوٹرینٹ جیسے کہ کیلشم،آئرن، میگنیشم، پھاسفورس، پوٹاشیم شیم،زنک،کاپر ،فولاد ، وائٹمن بی،اے اور سی زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ مزیدبرآں Alliumکی قبیل سے تعلق رکھنے والے شیلوٹ اور دیگرسبزیاں بہت سے اینٹی آکسیڈنٹ سے لیس ہوتی ہیں،جن کے بہت سارے طبی فوائد ہیں۔ ان میں سے ایک نہایت ہی اہم آکسیڈنٹ allicinہوتاہے جوتب خارج ہوناشروع ہوتاہے جب شیلوٹ کوکاٹا یا کوٹاجاتاہے۔کشمیر میں اس کو پران کہتے ہیں،کشمیری شلوٹ کی قیمت بھی اچھی ہے. آجکل مارکیٹ میں یہ چار سو روپے کے حساب سے بک جاتی ہے ۔چھوٹے گدھے کے بلب میں دو سے تین انفرادی لونگ پڑے ہیں اور بڑے میوے چھ لونگوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ہر لونگ ایک طرف فلیٹ ہے اور دوسرا گول ہوتا ہے۔باہر سے، ایک مٹھی ایک چھوٹا سا میزبان ریڈ پیاز کی طرح لگ رہا ہے، لیکن ایک بار جب آپ اسے چھڑکاتے ہیں، تو آپ دیکھیں گے کہ بجتی بجائے، یہ لہسن کی طرح لبنان میں تقسیم ہوتا ہے،شلوٹ کو بھی لہسن کی طرح اور اسی موسم میں اگایا جاتا ہے، کشمیر میں اکثر شلوٹ اگانے کے لیے ایک شلوٹ کو بطور بیج کے استعمال کیا جاتا ہے جس سے کئی شلوٹ نکلتے ہیں، لیکن بہتر یہ ہے کہ بیج سے اگایا جائے۔اس کا سائز بھی بڑا ہوتا ہے اور قیمت بھی مناسب ملتی ہے،اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ مٹی moist رہے لیکن پانی جمع نہ رہے، شلوٹ اگانے کا وہی طریقہ ہے جو لہسن کا ہے، کشمیر میں شلوٹ کی قیمت بھی اچھی ہے لہٰذا منافع بخش کاروبار کے لیے یہ مفید ہے۔شلوٹ عام طور پر 100 سے 120 دن میں تیار ہوتا ہے۔
)رابطہ۔ 9906653927)