ٹھاکُر کی گائے افسانہ

پروفیسر محمد اسداللہ وانی

میںکافی عرصہ کے بعدکل شام اپنے آبائی گائوں آیا تھا ۔اگلی صبح جب ہم ناشتہ کر رہے تھے توکسی نے میرے بڑے بھائی سے کہا کہ اُن سے ملنے کے لیے فوجی آیا ہواہے ۔بھائی نے اُسے بیٹھک میںبیٹھنے کے لیے کہا اورا پنا ناشتہ ختم کر کے وہ اس سے ملنے چلے گئے۔ جب وہ اسے فارغ کرکے واپس آئے توبیٹھک سے نکلتے وقت میں نے فوجی کی ایک جھلک دیکھ کراُسے پہچان لیا کہ یہ تو میرا چچا زاد بھائی ہے جو فوج سے وظیفہ یاب ہوکر آیا ہے ۔آج سے پچاس برس پہلے ہم آٹھویں جماعت میں ایک ساتھ پڑھتے تھے۔

میں نے بھائی سے فوجی کے آنے کی وجہ پوچھی تو بھائی نے کہا کہ چند روزپہلے اُس کے پالتو کتے نے گائوں کے بڑے ٹھاکر کی گائے کوکاٹا ہے ۔ ٹھاکرکا شبہ ہے کہ کتا پاگل ہے جب کہ فوجی کااِصرا ر ہے کہ کتا پاگل نہیں ٹھیک ہے ۔کافی بحث وتکرار ہوئی مگر ٹھاکر نے فوجی کی ایک نہ مانی ۔اُس نے گائے کھونٹے سے کھولی اور اُسے فوجی کے آنگن میں جا کرباندھ آیااور گائے کی قیمت ادا کرنے کا تقاضاکیا ۔ اس تنازع پرگائوں کے لوگوں کی پنچایت ہوئی اورایک پنچایت نامہ بنایا گیاجس میںیہ فیصلہ کیا گیاکہ فوجی ٹھاکر کوگائے کی قیمت تیس ہزارروپے ادا کرے گا۔ پنچوں کے فیصلے کو فوجی نے چاروناچارمان لیا۔اب یہ اس سلسلے میں مجھ سے کچھ روپے ادھار مانگنے آیا تھا۔

میں نے پنچوں کے فیصلے سے متعجب ہوکربھائی صاحب سے پوچھا۔

بھائی صاحب!پنچایت میںیہ کیسا فیصلہ کیا گیاہے ؟آپ نے اس میں دخل کیوںنہیں دیا ؟آپ بھی اس گائوں کے ایک سر کردہ شخص ہیں اور پنچایت میں بھی موجود رہے ہونگے۔پنچایت کے لوگوں کو اس تنازع کا فیصلہ اینمل ہسبنڈری کے ڈاکٹر پر چھوڑنا چاہیے تھا ۔ وہ کتے اور گائے دونوں کا معاینہ کرتا اور فریقین اُس کی ہدایت پر عمل کرتے۔ڈاکٹر کی فیس، گائے کے علاج کے اخراجات اورچند دن گائے کے دودھ کا استعمال نہ کرنے کی قیمت فوجی کے ذمہ ڈالی جاتی۔ہاںاگر گائے مرجاتی تو اُس  صورت میں فوجی سے گائے کی قیمت وصولی جاتی۔میں نے ایک ہی سانس میں یہ ساری باتیں بھائی صاحب سے کہہ دیں ۔

ہاں،ہاں بھائی! آپ کی بات درست ہے۔ میں بھی پنچایت میں موجود تھا ۔میں نے بھی یہی رائے دی تھی مگرمیرا مشورہ کسی نے مانا ہی نہیں ۔تنازع دراصل گائے اورگائوں کی دو برادریوں کے مابین تھاجس میںکتا محض ایک بہانہ بن گیا۔اس لیے حالات کوفرقہ وارانہ رنگت دینے سے بچانے کے لیے پنچایت کا فیصلہ تسلیم کیا گیا ۔

بھائی صاحب ! یہ حقیقت سے کوسوں دور جہالت کا فیصلہ ہے ،میں نے کہا۔

وہ جمعہ کادن تھااس لیے نماز کی ادائیگی کے لیے میں بھی جامع مسجد گیا۔نمازکے بعد مجھے تقریباًگائوں کے سبھی لوگوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ملاقاتیوں میں ہمارے گائوں کاسرکردہ شخص بھی تھاجو رشتے میں میرا چچا لگتا تھا ۔ان کی یاداشت بلا کی تیز تھی ۔ وہ ا پنے لڑکپن،جوانی اوربڑھاپے کے سارے واقعات اور حالات ایسے بیان کرتے تھے جیسے کوئی فلم کا سین چل رہا ہو۔ملک کی تقسیم اور سیاسی اتھل پتھل کے وہ شکار بھی تھے اور عینی گواہ بھی۔انہیں سبھی گائوں والوںکے شجرہ ہائے نسب از برتھے ۔انہیں اُن کی فہم و فراست ، دور اندیشی اور مجموعی طور پر سوجھ بوجھ کے لیے سبھی گائوںوالے صدر کہتے تھے لیکن میں اُنھیںصدر چچا کہتاتھا۔اپنے گائوں سے متعلق کوئی بھی معلومات حاصل کرنے کے لیے ہفتہ عشرہ میںایک دوبارمیری اُن سے  فون پر بات ہوتی تھی ۔

مسجد کے صحن میں بہت سے لوگوں کے بعد جب میں نے اُن سے معانقہ اورمصافحہ کیاتو خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد باتوں باتوں میں میں نے اُن سے پوچھا۔

چچا ! یہ فوجی کے کتے اور ٹھاکرکی گائے کا آپ نے کیسا فیصلہ کیا ہے ؟ فوجی بے چارے کو خواہ مخواہ اتنی بھاری رقم ادا کرنی پڑے گی۔

بیٹا !یہ گائوں کی ساری برادری کا مشترکہ فیصلہ ہے کہ گائے زندہ رہے یا مرے ،فوجی ٹھاکر کوتیس ہزا روپے ادا کرے گا ۔ صدر نے جواب دیا۔

نہیں چچا نہیں ،یہ فیصلہ آپ نے غلط کیا ہے ،میں نے صدر چچا کو بات قدرے سمجھاتے ہوئے کہا۔

چچا ! کسی بات کا فیصلہ کرتے وقت بڑی باتوں کو دھیان میں رکھنا چاہیے۔ اب یہ پرانا زمانہ نہیں رہابلکہ اب تو سائنس اور ٹکنالوجی کا زمانہ ہے۔اگر فوجی کا کتا سچ مچ بائولا ہوتا تو نہ صرف اُس کا بلکہ گائے کابھی مکمل علاج ہوسکتا تھا ۔ بائولا پن اب کوئی بیماری نہیں ہے ۔اس کا اب کامیاب علاج میسّر ہے۔چچا!میرے خیال میں آپ نے فیصلہ کرنے میںجلد بازی سے کام لیا ہے ۔اس لیے آپ کو اس سلسلے میں  صرف معاملے اور مسئلے کے منفی پہلوؤں کو ہی مدّ نظر نہیںرکھناچاہیے تھابلکہ جدید دور کی ایجادات اور برکات سے مستفید ہونے اوراُن کے مثبت اور دوررس نتا ئج پر بھی غور کرنا چاہیے تھا۔پنچوں کو چاہیے تھا کہ کتے اور گائے کا کم ازکم ایک بارڈاکٹر سے ملاحظہ تو کروایا ہوتا ۔آپ نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا اوراندھے اعتماد میں خواہ مخواہ فوجی کو قرض دار بنا دیا۔

ہاں بیٹا! آپ کی یہ باتیں توٹھیک ہیں مگر برادری تو برادری ہے نا ،اس کے پنچوں کا فیصلہ تو ماننا ہی پڑتا ہے ۔صدر چچا نے کہا ۔

چچا!اگر برادری کے اس فیصلے کو آپ درست مانتے ہیں توپھر آپ سب برادری کواللہ کا شکرگزارہونا چاہیے کہ آپ ایک بڑی آزمائش سے بچ گئے ۔میں نے کہا

نہ جانے بیٹا!کس بات کے لیے شکرگزارہونا چاہیے اور آزمائش کیسی ؟صدر چچا نے پوچھا

چچا! اس بات کے لیے کہ فوجی کے کتے نے صرف ٹھاکر کی گائے کو کاٹا تھا ،اگراُس نے ٹھاکر کی بیوی یا بیٹی کو کا ٹا ہوتا تو۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟

میں نے استفہامیہ انداز میں کہا۔

میری یہ باتیں سن کرچچا سمیت سبھی لوگ میری جانب حیرت سے تکنے لگے ا ورمیں گھر کی طرف چل دیا ۔

 

���

جموں، موبائل نمبر؛9419194261