نیا رواج افسانہ

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی

’’شکیلہ!…اری …او شکیلہ…سُنتی ہو!میرے دوست بحر عدل کے بڑے بیٹے سبزار احمد کی شادی کا دعوت نامہ آیا ہے ۔اُس نے مجھے فون بھی کیا تھا۔دعوت نامے پر مع اہل وعیال لکھا ہے یعنی ہم سب کو اُس نے اپنے بیٹے کی شادی پہ بُلایا ہے‘‘
فصاحت احمد کی باتیں سُن کر اُن کی بیوی شکیلہ اختر، ڈرائنگ روم میں جانے ہی والی تھی ،فوراً رُک گئی۔ اُس نے شادی کا دعوت نامہ دیکھا ،بڑے خوب صورت ڈیزائن میں چکنے موٹے کاغذ پر لڑکے اور لڑکی کے نام ،مہندی رات ،دعوت ولیمہ اور زماں ومکاں سب درج تھا۔اُس نے فصاحت احمد کو کہا
’’اُنھوں نے ہمیں شادی کا دعوت نامہ بھیجا ہے تو جانا پڑے گا اور تمول بھی اچھا خاصا دینا پڑے گا‘‘۔
فصاحت احمد نے حیرت سے بیوی کا چہرہ تکا ۔پھر اُس سے پوچھنے لگے
’’اچھا خاصا تمول دینے کا مطلب میں نہیں سمجھا ،آخر تم کتنا تمول دلانا چاہتی ہو؟‘‘
بیوی نے کہا
’’کم از کم پانچ ہزار ایک روپیہ لفافے میں ڈال دینا‘‘۔
فصاحت احمد نے حیرت سے پوچھا
’’پانچ ہزار ایک روپیہ تمول! یہ تم کیا کہہ رہی ہو ۔مجھے کیا اپنے دوست بحر عدل کا کوئی قرض چکانا ہے ۔میں ایک ہزار ایک روپیہ تمول دینا چاہتا ہوں۔میں تحصیلدار کے آفس کا ایک معمولی کلرک ہوں ۔میری اتنی اوقات نہیں ہے کہ پانچ ہزار ایک روپیہ تمول دوں‘‘
فصاحت احمد کی باتیں سُن کر اُن کی بیوی شکیلہ اختر کے ماتھے پر شکنیں سی اُبھر آئیں ،اُس نے کہا
’’ایک ہزار ایک روپیہ تمول دیتے ہوئے کیا اچھا لگے گا؟پھر بھی اکیس سو ایک روپیہ لفافے میں ڈال دینا‘‘
فصاحت احمد نے بادل ناخواستہ کہہ دیا
’’ہاں ٹھیک ہے اتنا ہی ڈال دوں گا‘‘یہ کہنے کے بعد وہ جھنجھلاتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے ۔وہ نرم خوب صورت بستر پر دراز ہوگئے ۔اسی دوران میں اُنھیں دیہات میں گزارے دن یاد آنے لگے کہ جب وہ بچپن ،لڑکپن اور جوانی کی منزلوں میں تھے ۔وہ بڑے چاؤ سے شادیوں میں جاتے تھے ۔اُس زمانے میں بھی شادیوں میں تمول دیا اور لیا جاتا تھا۔برات واپس آنے کے بعد دوسرے دن دعوت ولیمہ ہوتی ۔ایک آدمی کو تمول لکھنے کے لیے چار پائی پر بٹھایا جا تا پھراُسے کاپی پین سونپا جاتا ۔وہ تمول لکھتا ۔لکیر دار کاپی پہ چار کالم بنائے جاتے ۔سب سے پہلے نمبر شمار،پھر تمول دینے والے کانام ، اُس کے بعد سابقہ رقم اور پھر موجودہ رقم لکھی جاتی تھی ۔حسب توفیق پانچ روپے سے لے کر پچاس روپے تک لوگ تمول دیتے ۔گھر میں تمول والی کاپی بڑی احتیاط کے ساتھ سنبھالی جاتی تھی ۔تمول دینے کے بعد لوگ شادیوں میں کھانا کھاتے تھے ۔فصاحت احمد کو یہ سب بہت معیوب معلوم ہوتا تھا۔وہ دل ہی دل میں سوچتے یہ کیسا رواج ہے شادی میں پیسہ دو اور کھاناکھالو!دیہات سے نکل کر جب وہ ملازمت کے سلسلے میں شہری زندگی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے تو اُنھیں دیہاتی اور شہری زندگی میں زمین وآسمان کا فرق معلوم ہوا ۔اُس زمانے میں دیہاتی لوگوں کا رہن سہن ،بود وباش اور طرز زندگی نہایت سیدھا سادہ اور شریفانہ ہوا کرتاتھا،جب کہ شہری زندگی میں اُنھیں ظاہرداری،نمود ونمائش ،خود غرضی اور تاجرانہ ذہنیت کے حامل لوگ نظر آرہے تھے ۔ وہ اس بات پر حیران تھے کہ شادیوں اور خوشی کی تقریبات میں تحفے تحائف دیے جائیں تو کسی حد تک ٹھیک ہے لیکن ہزاروں روپے لفافے میں ڈال کر کسی صاحب ثروت کی شادی میں دے کے آجانا بڑی حیرت کی بات ہے !اُنھیں یہ باتیں سوچتے ہوئے ذ ہنی کوفت سی محسوس ہورہی تھی ۔اچانک اُنھیں یہ بھی احساس ہوا کہ جب ہم کسی رشتے دار یا دوست کی خیر پرسی کے لیے اسپتال میں جاتے ہیں تو روپے والا لفافہ ساتھ نہیں لے جاتے ،خالی ہاتھ جاتے ہیں ۔اُس کی بیماری اور صحت کا حال معلوم کرتے ہیں ۔وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہوتا ہے ۔اُسے اس نازک مرحلے پر مالی معاونت کی ضرورت ہوتی ہے ،لیکن ہم اُسے زبانی سہارے دے کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آتے ہیں ۔شادیوں میں ہم لوگ پانی کی طرح پیسہ خرچتے ہیں ۔مختلف طرح کی بھونڈی رسموں اور رواجوں کوعقیدے کے طور پر اپناتے ہیں لیکن بے سہارا اور محتاج لوگوں کی مدد نہیں کرتے ۔یہ تمام باتیں فصاحت احمد کو مایوس کررہی تھیں کہ اچانک اُن کے دماغ میں یہ بھی سوال پیدا ہوا کہ شادیوں میں تمول دینے کی کوئی شرعی جوازیت ہے بھی یا نہیں ؟کیا شریعت میں یہ جائز ہے یا لوگوں نے یہ اپنی مرضی سے ایک رواج قائم کیا ہے ؟اُنھوں نے بستر پر لیٹے لیٹے مفتی انور حسین کوفون کیا ۔دعا وسلام کے بعد فصاحت احمد نے کہا
’’مفتی صاحب ! مجھے ایک سوال نے پریشان کر رکھا ہے ۔اس سلسلے میں میری رہنمائی فرمائیں ‘‘
مفتی صاحب نے پوچھا
’’ کیاسوال ہے؟‘‘
’’جناب سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں شادیوں میں تمول دینے کا رواج ہے ۔ہم لوگ جب کسی کی شادی میں جاتے ہیں توایک خوب صورت رنگین لفافے میں ہزار،دو ہزار ،پانچ ہزار بلکہ دس ہزار روپے تک اُس میں ڈال کے دُلہے کے باپ کو دینے کے بعد کھانا کھاکر واپس گھر آتے ہیں ۔مفتی صاحب! شرعی اعتبار سے مجھے یہ بتایے کہ یہ جائز ہے یا ناجائز ؟‘‘
مفتی انور حسین نے دو ٹوک جواب دیا۔کہنے لگے
’’یہ ناجائز ہے‘‘
فصاحت احمد کو مفتی صاحب کا جواب سُن کر تھوڑی سی تسلّی ہوئی پھر کہنے لگے
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ تمول دینے کا رواج لوگوں نے سوشل سیٹ اپ کو برقرار رکھنے کے لیے جاری کیا ہے ۔مفتی صاحب! اسی حوالے سے آپ سے یہ بات بھی جاننا چاہتا ہوں کہ سماجی میل جول کو قائم رکھنے کے لیے اس رواج کو اپنانے کی کوئی گنجائش نکلتی ہے ؟‘‘
مفتی صاحب نے کہا
’’ سُنیے! شریعت میں اس کی کوئی بھی گنجائش نہیں نکلتی ہے۔البتہ خوشی کے موقعے پر اگر کوئی تحفہ تحائف دیتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے‘‘
فصاحت احمد ایک عملی انسان تھے ۔وہ باتیں کم اور کام زیادہ کرنے پر یقین رکھتے تھے ۔وہ سوچتے سوچتے اس نتیجے پر پہنچے کہ خوشی اور غمی انسانی زندگی کے دو ایسے دائرے ہیں جن سے آدمی راہ، فرار حاصل نہیں کرسکتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں بے سہارا اور مفلوک الحال لوگوں کی بھاری تعداد ہے۔لنگڑے ،لُولے ،اپاہج اور بیماروں کے قریب جاکر اُن کا حال معلوم کرنے کوئی نہیں جاتا ہے۔مندروں اور مسجدوں کے باہر بھیک مانگنے والے کھڑے رہتے ہیں ۔اُنھیں ہم پانچ روپے بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں ،لیکن اپنے بچّوں کے یوم پیدائش منانے پر ہم بے دریغ ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں ۔ہمارے گھروں کی الماریوں میں پہننے کے کپڑوں کے ڈھیر پڑے رہتے ہیں لیکن کسی ننگے ،بھوکے کو کپڑے پہنانا کار خیر نہیں سمجھتے ہیں ۔کہیں ہمارے ضمیر مردہ تو نہیں ہوچکے ہیں ،کیونکہ جب ضمیر مردہ ہوجاتے ہیں تو آدمی اس زمین پہ زندہ لاش کی مانند رہ جاتے ہیں ۔اسی صادق اور مخلصانہ جذبے نے فصاحت احمد کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اُنھوں نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ایک تنظیم ’’تنظیم محتاجاں‘‘کے نام سے قائم کی ۔اس تنظیم میں اُنھوں نے اپنے گہرے دوستوں چین سنگھ ،ایشور چند ،مجاز الحق اور دیگر اپنے ہم خیال وہم مزاج ساتھیوں کو ممبرشپ میں شامل کیا ۔ایک روز جب فصاحت احمد کی صدارت میں’’ تنظیم محتاجاں‘‘ کی میٹنگ ہوئی تو اُنھوں نے اس تنظیم کا منشور میٹنگ میں تمام ممبران اور شرکاء کے سامنے رکھا ۔منشور میں چند اہم باتوں کو عملی جامہ پہنانے پر خاص زور دیا گیا تھا۔پہلی بات یہ کہ ہر پندرہ دن کے بعد ایک روز ’’تنظیم محتاجاں‘‘کی میٹنگ ہوا کرے گی ۔دوسری بات یہ کہ ہر دس دن کے بعد تنظیم کے ممبران اپنے شہر کے اسپتالوں اورچوک چوراہوں پر جاکر بیمار اور محتاج لوگوں کو روٹی ،کپڑے اور پھل وغیرہ تقسیم کیا کریں گے۔
پہلی میٹنگ کے بعد جب فصاحت احمد اور اُن کے ساتھیوں نے روٹی،پُرانے کپڑے اور پھل خرید کر شہر کے مختلف مقامات پر بے بس وبے سہارا، لنگڑے، لُولے ،اپاہج اور بیمار لوگوں میں تقسیم کیے تو اُنھیں ایسا کرنے سے روحانی سکون حاصل ہوا ۔فصاحت احمد نے جب سڑک کے کنارے ایک اندھے کوڑھی کو اپنے ہاتھ سے روٹی اور پھل کھلایا تو اُس معذور کے چہرے پر کھوئی ہوئی رنگت اور مسرت لوٹ آئی ۔فصاحت احمد کو یوں محسوس ہوا کہ جیسے اُنھوں نے پہلی بار زندگی میں کوئی نیک کام کیا ہو۔چند مہینوں میں ’’تنظیم محتاجاں ‘‘کے ساتھ سینکڑوں افراد جُڑتے چلے گئے ۔یہ سب دیکھ کر فصاحت احمد کو جہاں خوشی محسوس ہورہی تھی تو وہیں اُنھیں کسی شاعر کا یہ شعر یاد آرہا تھا کہ ؎
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

���
سابق صدر شعبہ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری( جموں وکشمیر)
موبائل نمبر؛7889952532