نہلے پہ دہلا افسانہ

جاوید شبیر

ظاہرہ کا تعلق ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تھا۔ باپ نصیر الدین کی کریانے کی بہت بڑی دوکان تھی جو نہ صرف پورے علاقے میں مشہور تھی بلکہ خُوب چلتی تھی۔ ظاہرہ دو بہنوں اور ایک بھائی میں سب سے چھوٹی تھی۔ بڑی بہن کی شادی ہوچکی تھی اور وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ سسرال میں رہتی تھی۔ بھائی اکبر گو اُس سے بڑا تھا مگر ابھی تک غیر شادی شدہ تھا اور باپ کے ساتھ دوکان پر ہی بیٹھتا تھا۔
بھائی اکبر کیلئے کئی گھرانوں سے رشتے آرہے تھے لیکن گھر والوں کو ابھی تک کوئی بھی رشتہ موزوں نظر نہیں آرہا تھا۔ دراصل ہمارے معاشرے میں آسودہ حال اور کھاتے پیتے گھرانوں کا یہ المیہ ہے کہ بچوں کی شادی کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی ناپ تول کی جاتی ہے ۔ کبھی خاندان برابر کا نہیں، کبھی معاشی حالت کمزور ہے، کبھی رہنے کی جگہ معمولی ہے، کبھی گھر بدنام محلے میں ہے، کبھی گھر میں افرادِ خانہ کی تعداد بہت زیادہ ہے، کبھی لڑکے یا لڑکی کی عُمر زیادہ ہے، تعلیم کم ہے، لڑکا یا لڑکی برسرِ روزگار نہیں اور اگر ہیں تو نوکری سرکاری نہیں وغیرہ وغیرہ۔ غرضیکہ رشتوں کو پرکھنے میں بیسیوں عیب ڈھونڈے جاتے ہیں۔ رشتے ٹالنے میں کبھی گھر والوں کی خواہشات یا ضرورتیں بدلتی جاتی ہیں تو کبھی قریبی رشتے داروں کے پیمانے۔ جن گھرانوں میں لڑکا یا لڑکی ماں باپ کی خواہشات کا احترام کرنے والے ہوں وہاں عام طور پر اُن کی پسند کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔

 

اکبر کی شادی کا معاملہ بھی کچھ زیادہ ہی پیچیدہ تھا کیونکہ اُس کی اپنی کوئی پسند (Choice)نہیں تھی اور فیصلہ بہن ظاہرہ کے ہاتھ میں تھا۔ شائد ان ہی وجوہات کی بنا پر اکبر کی شادی ابھی تک طے نہیں ہو پائی تھی۔
نصیرالدین کا گھرانہ یوں تو ان پڑھ تھا مگر خواہشات بہت تھیں۔ اکبر محض چھٹی جماعت تک پڑھا تھا مگر گھر والوں اور خاص طور پر بہن ظاہرہ نے اُس کا دماغ آسمان پر چڑھا کر رکھا تھا۔ پورے گھرانے میں صرف ظاہرہ ہی پڑھی لکھی تھی۔ وہ کالج میں بارہویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ گھر میں وہ سب کی باس تھی۔ ماں، باپ اور بھائی سب اُس کے سامنے دبے رہتے تھے۔ گھر کے ہر مسئلے کا فیصلہ اُسی کے ہاتھ میں تھا۔ وہ دن کو رات کہے اور رات کو دن، بھلا کسی کی کیا مجال کہ اُس کے فیصلے کو کوئی ٹال سکے۔ باپ نصیر الدین نے ہر معاملے میں ظاہرہ کو خُوب ڈھیل دے رکھی تھی۔ اُسے کوئی بھی کسی بات پہ ٹوک نہیں سکتا تھا۔ ایسی صورتحال نے اُسے کسی حد تک خودسر، ڈھیٹ اور گُستاخ بنا دیاتھا۔ اس لئے وہ جو چاہتی تھی وہ کچھ کیا جاتا تھا۔

 

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اکثر گھرانے، خاندان، محلے یا علاقے کے لوگ یا سوسائٹی کچھ چیزوں سے مرعُوب ہوجاتے ہیں۔ جیسے، رُتبہ، دولت، اعلیٰ تعلیم وغیرہ وغیرہ اور جب کسی نے ان کا غلط استعمال کیا تو وہ وقتی طور پر کامیاب ہوجاتا ہے۔ یہاں بھی جب ظاہرہ نے دیکھاکہ گھر کے سبھی افراد اُس کی تعلیم سے مرعُوب ہیں تو اُس نے بھی اس کا بھر پور فائدہ اُٹھانا شروع کردیا۔

 

بھائی اکبر کی چونکہ اپنی کوئی پسند یا رائے نہیں تھی اس لئے کافی تگ و دور کے بعد بہن نے گھر اور لڑکی پسند کرلئے۔ اب بھلا ظاہرہ کی پسند سے کسے انکار ہوسکتا تھا۔ سب نے اُس کی ہاں میں ہاں ملا دی اور اکبر کی شادی ہوگئی۔ بُہو گھر آگئی۔ شروع شروع میں سب بے حد خوش تھے۔ بہو کو سب گھر والے بڑے ہی اچھے لگے اور اُسے خاص طور پر نند ظاہرہ کچھ زیادہ ہی خوش مزاج اور ملنسار لگی۔
ظاہرہ ماشاء اللہ گریجویٹ ہوچکی تھی۔ اُس کے اختیارات نہ صرف مزید مستحکم ہوگئے تھے بلکہ وسیع بھی ہوچکے تھے۔ اکبر کی شادی کے بعد کچھ دیر تک حالات خوشگوار رہے مگر بہو کو اب نند کی ضرورت سے زیاد دخل اندازی کَھلنے لگی تھی مگر حالات کے پیش نظر وہ سب کچھ سہے جارہی تھی۔

 

کچھ عرصہ بعد ظاہرہ کی بھی شادی اُس کی مرضی کے مطابق ہوگئی۔ بھابی انیسہ خوش تھی کہ اب نند کا گھر میں دخل ختم ہوجائیگا مگر انیسہ کی یہ خوشی محض عارضی ثابت ہوئی کیونکہ ظاہرہ سسرال تو گئی مگر اُس نے اپنے میکے کی حکومت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا بلکہ اپنی دخل اندازی برقرار رکھی۔ حد تو یہ تھی کہ ماں باپ اور بھائی اب بھی ہر کام میں اُس سے مشورہ لیتے تھے۔

 

ظاہرہ کا خاوند ایک سرکاری آفیسر تھا اور نہایت شریف انسان تھا۔ وہ اپنی بیوی کو اکثر سمجھاتا تھا کہ شادی کے بعد اُس کا اپنے میکے والوں کے معاملات میں دخل دینا ٹھیک نہیں مگر ظاہرہ اپنی عادت سے مجبور تھی۔ اصل میں اس کے لئے سسرال میں حاکمیت چلانے کے مواقع کم تھے کیونکہ خاوند ہارون ماں باپ کا اکلوتا بیٹھا تھا اور والدہ انتقال کرچکی تھی۔ ہارون کے والد ظفر صاحب ریٹائرڈ سرکاری آفیسر تھے اور ضعیف ہوچکے تھے۔ وہ گھر کے معاملات میں بالکل دخل نہیں دیتے تھے اس لئے بہو ظاہرہ نے اپنے اثر و رسوخ اور حکمرانی کو میکے سے الگ ہونے نہیں دیا۔
وہاں میکے میں بھابی انیسہ اپنی نند کی دخل اندازی اور رویے سے پریشان تھی مگر کچھ کر نہیں سکتی تھی کیونکہ اُس نے اب دیکھ لیا تھا کہ سارا گھر ظاہرہ کے اشاروں پہ چلتا ہے کیونکہ ماں باپ نے اس کی شادی کے بعد بھی اُسے دخل اندازی کے پورے حقوق دے رکھ تھے۔
وقت گزرتا گیا مگر حالات جوں کے توں رہے۔ مگر یہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کچھ مسائل کا حل انسان کی دسترس سے باہر ہوجاتا ہے تو قدرت ضرور کچھ راستے نکال دیتی ہے۔ کچھ عرصے بعد انیسہ کے ساس اور سُسر چند ہی دنوں میں یکے بعد دیگرے شہر میں پھیلے ہوئے وبائی مرض کا شکار ہوکے اللہ کو پیارے ہوگئے اور ظاہرہ ماں باپ کے سہارے سے محروم ہوگئی۔ بس پھر کیا تھا ساس اور سُسر کے مرتے ہی انیسہ نے گھر کا نظم و نسق پوری طرح سے سنبھال لیا اور نند ظاہرہ کی دخل اندازی کو دھیرے دھیرے محدود کردیا۔ بھائی اکبر، جو پہلے ہی سے بہن کی دخل اندازی سے عاجز آچکا تھا، نے بھی اپنی بیوی انیسہ کا ہی ساتھ دیا۔

 

ظاہرہ کے اب اپنے بچے بھی بڑے ہوچکے تھے۔ لڑکی ملیحہ آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی اور بیٹا عامر پانچویں کلاس میں تھا۔ سُسر ظفر صاحب انتقال کر چکے تھے۔ خاوند ہارون سرکاری نوکری میں بڑے عہدے پہ فائز تھے۔ خود ظاہرہ ایک سرکاری سکول کی ہیڈ مسٹریس تھی۔ دونوں میاں بیوی اب خوش تھے۔

 

وقت کا پہیہ تیزی سے گھوم رہا تھا۔ دن مہینوں اور مہینے سالوں میں بدل رہے تھے۔ ملیحہ نے گریجویشن مکمل کرلی اور ماں باپ نے اُس کی شادی کردی اور وہ اپنے خاوند کے ساتھ ملک سے باہر چلی گئی۔ بیٹے عامر نے کے اے ایس پاس کرلیا اور وہ اب محکمہ سوشل ویلفیئر میں بحیثیت انڈر سکریٹری کام کررہا تھا۔ ظاہرہ اور ہارون صاحب ملامت سے سُبکدوش ہوچکے تھے۔ اب دونوں عامر کی شادی کے لئے کوشاں تھے۔ اپنی بیوی کی خصوصیات کو جانتے ہوئے ہارون نے بیٹے کی شادی کا معاملہ اپنی بیوی پہ چھوڑ دیا تھا۔

 

کافی کوشش اور تلاش کے بعد عامر کی شادی زارا سے طے پائی۔زارا ایک متوسط گھرانے کی لڑکی تھی۔ پولیٹکل سائنس میں ایم فل کرنے کے بعد اب یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کررہی تھی۔

 

شادی کے بعد زارا روز صبح خاوند کے ساتھ نکل جاتی تھی اور شام کو یونیورسٹی سے واپس لوٹتی تھی ۔ شروع شروع میں تو ساس ظاہرہ خاموشی سے سب کچھ سہتی رہی۔ آخر اُس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور اُس سے رہا نہیں گیا اور اُس نے بہو سے کہہ دیا کہ ’’بیٹا گھر کے لئے بھی کچھ وقت نکال لیا کرو میں بھلا اس عمر میں کتنا کچھ کرسکتی ہوں؟ کچن اور دوسرے کاموں میں تھوڑا بہت ہاتھ تم بھی بٹا دیتیں تو اچھا تھا۔‘‘
’’میرے پاس وقت نہیں ہے اماں جی میں ریسرچ سکالر ہوں۔ کچن اور گھر کے کاموں کے لئے نوکر رکھ لیجئے۔ میں تو فی الحال گھر کا کوئی بھی کام نہیں کرسکتی۔‘‘ زارا نے ساس کو دو ٹوک جواب دے دیا۔

 

’’نوکر ہی رکھنا ہوتا تو پھر بھلا بیٹے کی شادی ابھی کیوں کرتی؟‘‘ ظاہرہ نے غصے میں کہا۔
’’یہ بات اپنے بیٹے سے کہو۔ میں گھر کی بہو ہوں نوکرانی نہیں۔‘‘ یہ کہہ کے زارا پیر پٹختے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئی۔
ظاہرہ سر پکڑ کے بیٹھ گئی۔ اُسے اپنی جوانی کے دن یاد آگئے مگر اب وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ وقت نے پلٹا مار دیا تھا۔ پانسہ پلٹ گیا تھا۔ اُس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اُس کی لائی ہوئی بہو نہلے پر دہلا ثابت ہوگی اور اسقدر گُستاخ اور منہ پھٹ ہوگی۔ وہ بوڑھی شیرنی کی طرح تھک ہار کر بیٹھ گئی۔ اُسے اب احساس ہو چلا تھا کہ ڈھلتی عُمر نے اب اُس میں وہ رمق باقی نہیں رکھی ہے ورنہ بہو کی کیا مجال تھی کہ اُس کے سامنے یوں زبان چلاتی۔ غصے کی جگہ اب بے بسی اور مجبوری نے لے لی تھی۔ وہ اپنا دکھڑا ہارون کے سامنے بھی تو بیان نہیں کرسکتی تھی۔
یہ نوک جھونک اور سوال و جواب بہو کے ساتھ اب روز کا معمول بن چکے تھے۔ زارا تو پرندے کی طرح اپنے پروں پر پانی کا قطرہ بھی ٹھہرنے نہیں دیتی تھی۔ ساس نے جونہی کچھ کہا تو اُس نے پٹاخ سے جواب دیدیا۔ ظاہرہ کو اب کچھ کچھ احساس ہورہا تھا کہ یہ سب اُسے شائد اپنے کرموں کی سزا مل رہی ہے اور وہ اب اپنی بھوگی ہوئی سچائی جھیل رہی ہے۔

 

عامر اس روز کی چک چک سے تنگ آچکا تھا اور ہارون صاحب تو جیسے کچھ سنتے ہی نہیں تھے اور نہ کچھ دیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔وہ شائد دل ہی دل میں خوش تھے کہ کوئی تو ہے جس نے ظاہرہ کو یہ سمجھا دیا ہے کہ گُستاخی اور بدکلامی کیا ہوتی ہے۔ اُنہیں دُکھ تھا تو صرف اس بات کا تھا کہ کاش یہ سب کچھ تب ہوتا جب ظاہرہ زخمی شیرنی کی طرح ہر کسی پہ جھپٹ پڑی تھی۔
���
اولڈ ائرپورٹ روڑ، رالپورہ سرینگر
موبائل نمبر؛941911881