نگینہ انٹرنیشنل کا جنوری تا جون 2022 شمارہ ایک نظر

ایس معشوق احمد

کوئی بھی رسالہ اپنے عہد کے تخلیقی سفر کا ترجمان ہوتا ہے۔اس سے اپنے عہد کے ممتاز اہل قلم کی نگارشات سے قارئین نہ صرف مستفید ہوتے ہیں بلکہ انہیں ادبی رحجانات و میلانات کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ادبی دنیا میں ایسے رسائل کی کمی نہیں جن کی چمک دمک بہت جلد معدوم ہوئی لیکن جن رسائل نے آب و تاب کے ساتھ کہنہ مشق ادیبوں کی تحریریں قارئین تک پہنچائیں اور نئے لکھنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ان میں بلاشبہ نگینہ انٹرنیشنل کا بھی شمار ہوتا ہے۔ نگینہ انٹرنیشنل نے ہمیشہ ادب پر طاری جمود کو توڑنے کی سعی کی ہے اور بامعنی ادبی سرگرمیوں کو بحال کیا ہے۔اس نے ممتاز ادیبوں کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کو چھپنے کا موقع دیا۔اس کے گزشتہ شمارے پڑھ کر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اس نے ایک نسل کی میراث کو آنے والی نسلوں کے سپرد کیا ہے۔
نگینہ کے تازہ جنوری تا جون 2022 شمارے کو ہم گیارہ حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔کسی بھی کارخیر کی شروعات جب خدا اور اس کے رسول ؐ کے ذکر سے کیا جاتا ہے تو اس کام کی کامیابی کے سو فیصد امکانات ہوتے ہیں۔ پہلے حصے میں اداریہ ’’بات میں سے بات‘‘کے بعد خدا کی بڑائی دو حمدوں میں بیان ہوئی ہے۔میرے مصطفیؐ کے عنوان سے رسول اکرم ؐعقیدت کا اظہار کیا گیا ہے اور مزید تین نعت پاک کے بعد ایک غزل شامل کی گئی ہے۔ حصہ دوم میں دو مرحومین کو یاد کیا گیا ہے۔سونان اطہر جاوید نے ’’کاش یہ افسانے کی موت نہ ہو ‘‘کے عنوان سے بشری رحمن سے جڑی یادوں اور کارناموں کا تذکرہ کیا ہے اور خلیق الزماں نصرت نے مضمون ’’ابراہیم اشک اردو شاعری کا شہسوار ‘‘ میں ابراہیم اشک کی شاعری کے مختلف گوشوں کو موضوع بنایا ہے۔ان دو مضامین کے بعد مرحوم سید ذی شان فاضل کا افسانہ ” ٹیک آف ” کو شامل کیا گیا ہے۔
نگینہ انٹرنیشنل کی یہ روایت رہی ہے کہ یہ رسالہ کسی شاعر یا ادیب کا گوشہ شائع کرتا ہے جس میں اہل قلم اس فنکار کی حالات زندگی ، کارناموں اور اس کی تخلیقات میں پنہاں خوبیوں کو اجاگر کرتے ہیں۔اس سے قارئین نہ صرف اس فنکار کے ادبی کارناموں سے واقف ہوتے ہیں بلکہ اس کے نمونہ کلام سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اسی روایت کے تحت اس شمارے کا حصہ سوم وادی کے معروف شاعر رفیق راز کی فکر وفن کا احاطہ کرتا ہے۔اس میں رفیق راز کی شاعری اور اس کے فکر و فن کے متعلق سات مضامین شامل ہیں۔پہلے تین مضامین / تاثرات مختصر ہیں جن میں حامدی کشمیری کا مختصر مضمون ” رفیق راز لفظ کا ادا شناس ” میں حامدی کشمیری نے رفیق راز کو لفظ کا ادا شناس شاعر مانا ہے۔اس کے بعد ” جدید غزل کی معتبر آواز۔ رفیق راز ” میں شمس الرحمن فاروقی نے رفیق راز کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کا شمار ان شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے غزل کے روایتی بند کو توڑنے اور غزل کو نئی توانائی عطا کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ محمد یوسف ٹینگ نے ’’رفیق راز۔ شہر شرر کا ساربان ‘‘میں رفیق راز کے رسالہ شب خوں میں کشمیر سے تعلق رکھنے والے شاعروں میں سب سے زیادہ چھپنے کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی رفیق راز کے شعری مجموعے پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔اس مضمون میں انہار اور مشراق کا بھی ذکر آیا ہے۔گوشہ رفیق راز کا سب سے بہترین مضمون ’’رفیق راز طلسمات کا در کھولنے والا شاعر ‘‘ڈاکٹر نذیر آزاد کے قلم سے نکلا ہے۔اس مضمون میں رفیق راز کی فنی خوبیوں کا ذکر مثالوں کے ساتھ کیا گیا ہے اور ان خوبیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جو اس کی شاعری کا خاصا ہے۔رفیق راز کے یہاں کس طرح کے الفاظ ملتے ہیں اس پر بھی بحث ہوئی ہے۔ایک مثال ملاحظہ فرمائیں۔
رفیق راز کی انفرادیت کیا اور کیونکر ہے ؟ اس سوال کا جواب رئیس الدین رئیس نے ’’ رفیق راز۔ نئی غزل اور نئی فکر کے منفرد شاعر‘‘ والے مضمون میں دیا ہے۔ اس مضمون میں رفیق راز کے شعری مجموعے انہار پر گفتگو ہوئی ہے اور رئیس الدین رئیس رفیق راز کی شاعری کے حوالے سے اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ ” رفیق راز خوش نصیب ہیں کہ نئی غزل کے شعراء میں انہوں نے اپنی مشق و ریاضت ، ڑرف نگاہی ،جانکاہی اور عرق ریزی کے بل پر اپنا منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ان کی تخلیقی توانائی کو جدت و ندرت اور نادرہ کاری کے نئے سانچوں اور پیمانوں کی تلاش رہتی ہے۔وہ غزل کی عمارت سازی میں سبھی کچھ نیا نیا چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی نئی غزل نئے مضمون ، نئی فکر ،نیا لہجہ اور نئے اسلوب سے عبارت ہوتی ہے۔وہ غزل کی تعمیر میں نئے الفاظ ، نئے تلازمات ، نئی اصطلاحات ، نئے استعارات ، نئی علامات ، نئے اشارات اور نئی نئی تراکیب کو بروئے کار لاکر غزل کو قطعا نیا ، انوکھا اور منفرد رنگ روپ عطا کر دیتے ہیں۔”
رفیق راز۔ نئی غزل اور نئی فکر کے منفرد شاعر _ صحفہ 38
شارق عدیل کے مضمون ” دیواں ہے مرا گرمئی اظہار سے روشن ” میں رفیق راز کے شعری مجموعے نخل آب ( 2015) کے اسلوب ، اس میں شامل چند غزلوں کی شرح اور ان کی خوبیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔گوشہ رفیق راز کا آخری مضمون خالد حسین کا ” رفیق راز کی شاعری نخل آب کے تناظر میں” ہے۔اس میں رفیق راز کی فکر ،ان کے یہاں اپنے ہم عصروں سے لفظیات کا مختلف ہونا، ان کی شاعری میں انسانی رشتوں کی کیفیت ،ان کی سماجی زندگی کے نظریات اور تصورات پر گہری نظر ، تخیل کی امیری اور فنی مہارت کا ذکر کیا گیا ہے اور ان کے کلام سے مثالیں بھی دی گئی ہیں۔مجموعی طور پر اس مضمون میں رفیق راز کی شاعرانہ صلاحیتوں اور خوبیاں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ رفیق راز کی شاعری کے مختلف گوشوں کو اجاگر کرنے والے ان سات مضامین کے بعد ان کی آٹھ غزلیں بطور نمونہ کلام شمارے میں شامل ہیں۔
اس شمارے کا چوتھا حصہ چار مضامین پر مشتمل ہے۔پہلا مضمون پروفیسر قدوس جاوید کا ” نند لال کول طالب کشمیری _ جموں و کشمیر میں غالب شناسی کا بنیاد گزار ” میں جموں و کشمیر میں غالب شناسوں، نند لال کول طالب کے دو شعری مجموعوں رشحات تخیل (1935) اور مرقع افکار ( 1952 ) کا ذکر ، طالب کشمیری کے تنقیدی کارنامے ” جوہر آئینہ_ جائزہ کلام غالب” میں شامل مضامین جو ” نوائے ادب ” میں اکتوبر 1961 ء سے 1968ء تک ” سرمایہ کلام غالب ” کے عنوان سے شائع ہوتے رہے کے ذیلی عنوانات ، طالب کشمیری کی غالب شناسی ، طالب کشمیری نے معائب کلام غالب کے عنوان سے غالب کی جن بعض خامیوں کی نشاندہی کی ہے مضمون میں ان سب کو زیر بحث لایا گیا ہے۔مجموعی طور پر یہ ایک بہترین تحقیقی مضمون ہے۔اس حصے کا دوسرا مضمون ڈاکٹر قسیم اختر کا “راج دیو کی امرائی میں صادقہ کی سحرکاری ” ہے۔اس مضمون میں صادقہ نواب سحر کے ناول ” راج دیو کی امرائی ” پر گفتگو کی گئی ہے۔فدا حسین بانہالی کے مضمون ” علامہ اقبال کا فلسفہ غم ” میں اقبال کے فلسفہ غم کو بانگ درا کی نظم ” فلسفہ غم ” کی مثال دے کر ہی نہیں سمجھایا گیا بلکہ میر ، غالب اور انیس کے کلام سے بھی مثالیں دے کر اقبال کے فلسفہ غم کو منفرد قرار دیا گیا ہے۔اس مضمون میں قرآن کریم کی آیات کو بھی کوٹ کیا گیاہے اور کلام اقبال سے ان اشعار کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں فلسفہ غم کی عکاسی ملتی ہے۔اس حصے کا آخری مضمون کرشن بھاوک کا ” علی سردار جعفری کے اشعار میں استہزا اور طنز ” ہے۔ اس بہترین مضمون میں علی سردار جعفری کی طنزیہ مزاحیہ شاعری کو موضوع بنایا گیا ہے۔شمارے کا پانچواں حصہ غزلیات اور نظموں پر مشتمل ہے۔اس حصے میں کل سولہ غزلیں ، علامہ اقبال کے چار بند بعنوان صبح اور دس نظمیں شامل ہیں۔
کشمیر میں ہی نہیں برصغیر میں افسانوی ادب کا غلغلہ ہے اور غیر افسانوی ادب پر کم ہی توجہ دی جارہی ہے۔کم رسالے ایسے ہیں جن میں انشائیے ، خاکے اور خطوط شائع ہوتے ہیں۔نگینہ کے ہر شمارے میں انشائیوں کو جگہ ملتی ہے۔اس شمارے میں بھی تین انشائیے سونٹے دیپک بدکی ، فن نقادی از کاچو اسفند یار خان اور خوشامد از ایس معشوق احمد شامل ہیں۔ان انشائیوں کے علاوہ بزم افسانہ از مشتاق کینی ، ظہیر خان کا مضمون کہتے ہیں کہ خالد کا ہے انداز مزاح اور شامل ہے۔ساتویں حصے میں آٹھ افسانے وحشی سعید کا افسانہ تلاش ، احمد رشید کا مداری ، ڈاکٹر عقیلہ کا بکھرے رنگ ، شیخ بشیر کا جانے یہ کیا ہوگیا، ڈاکٹر نذیر مشتاق کا دوسرا شوہر ، طارق شبنم کا فریب ، ڈاکٹر نیلوفر ناز نحوی کا وارث اور عبدالرشید راہگیر کا عشق ناتراشیدہ شامل ہیں۔ان افسانوں کے علاوہ زنفر کھوکھر کے دو اور خالد بشیر تلگامی کے پانچ افسانچے بھی اس حصے کا حصہ ہیں۔ اس حصے کے آخر میں پٹواری گھرانے کی تخلیقات کے تحت وریندر پٹواری کے دو افسانچے بود نابو اور سوال ، راجندر پٹواری کا افسانچہ ایک اور سانحہ اور ڈاکٹر اشوک پٹواری کا حق جمہوریت رسالے کی زینت کو بڑھا رہے ہیں۔آٹھویں حصے میں ڈاکٹر ریاض توحیدی کی روداد میں اور میری کہانی اور نور شاہ کے ڈرامہ میراجی کو شامل کیاگیا ہے۔رسالے کا نواں حصہ تعارف اور تبصروں پر مشتمل ہے۔ڈاکٹر شمس کمال انجم نے ذولفقار نقوی کی شاعری کا تعارف ذو الفقار نقوی کی شاعری ساحری ہے میں کیا ہے۔ڈاکٹر شاہ فیصل جان نے حامدی کاشمیری کے سفر نامے انجمن آرزو ، زاہد زنفر نے نذیر جوہر کے افسانوی مجموعے اور بھی غم ہے،ڈاکٹر اویناش امن نے دیپک بدکی کے افسانچوں کے مجموعے یہ کیسا رشتہ اور اقبال نیازی کی کتاب بچوں کے سو اسٹیج ڈرامے پر اشرف عادل کے تبصروں کو رسالے میں جگہ دی گئی ہے۔ دسواں حصہ حسب روایت نور شاہ کی پیشکش ادبی جھلکیاں شمارے کی زینت کو بڑھا رہے ہیں۔اس حصے میں نور شاہ نے 5 دسمبر 2021 ء سے لے کر 19 جون 2022 تک منعقد ہونے والے ادبی پروگراموں کی روداد بیان کی ہے۔شمارے کا آخری حصہ مکتوبات پر مشتمل ہے جس میں قارئین کے تاثرات اور محبت بھرے چودہ مختصر خطوط شامل ہیں۔
یک رنگی غربت کی علامت ہے اور رنگارنگی سے تزک و احتشام کا احساس ہوتا ہے۔نگینہ انٹرنیشنل کے شمارے اس اعتبار سے اہم ہوتے ہیں کہ ان شماروں میں ادب کی مختلف اصناف حمد سے کے کر غزل تک اور مضامین سے لے کر انشائیے تک ،یہاں تک کہ خطوط بھی شامل ہوتے ہیں۔ زیر نظر شمارے میں بھی بوقلمونی ہے۔یہ کشمیر کا واحد رسالہ ہے جو متنوع اصناف کا گلدستہ ہے اور مختلف قسم کے قارئین کی ادبی پیاس کو بجھانے میں کامیاب ہے۔دعا ہے کہ یہ رسالہ یوں ہی آب و تاب سے جاری رہ کر ادب کی خدمت جاری رکھے۔
رابطہ :- 8493981240
[email protected]