گنڈ بل سانحہ رنج و غم اورمصائب میں صبر کا دامن نہ چھوڑیں!

بلال احمد پرے،ترال
اللہ رب العزت نے انسان کو بہتر سے بہترین تخلیق کردہ صورت دے دی ہے ۔ انسان کے اندر کافی اوصاف سمیٹ کر اس سے ایک منفرد مقام عطا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دائمی معجزہ قرآن کریم میں جا بجا بہت سارے اوصاف کا ذکر بھی فرمایا، جو ایک انسان میں پائے جاتے ہیں۔ اُنہی میں سے صبر بھی ایک ایسی وصف ہے، جس کی ذکر متعدد آیات مبارکہ کے اندر تاکید کے ساتھ آئی ہے۔ لیکن اکثر و بیشتر مواقع پہ انسان صبر جیسی اہم اور بڑی خصوصیت کو ہی کھو بیٹھتا ہے۔ مثلاً کسی خاص اقارب کی حادثاتی موت واقع ہونے پر ،وراثت کی تقسیم کے موقع پر، کاروبار میں اُتار چڑھاؤ آنے پر، زندگی کے مختلف شعبہ جات میں ناکامی کا منہ دیکھنے پر، کسی جھگڑالو آدمی کے ردعمل میں وغیرہ جیسے مواقع پر بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔
حال ہی میں گنڈبل سرینگر میں پیش آنے والے المناک سانحہ نے شہر و دیہات کو ماتم زدہ بنا دیا ۔ اس سانحہ پر جہاں ہر آنکھ نم اور ہر دل غمگین ہے، وہی اس پر صبر کے سوا  اورکوئی چارۂ کار بھی نہیں رہا ۔ وہ پھولوں کے مانند معصوم بچے، جو گھر سے اسکول کے لئے نکلے ، راستے میں ہی جہلم کے اندر ڈوب گئے اور اپنی پیاری یادیں چھوڑ گئے ہیں ۔ ان کے والدین پہ کیا گزری ہے، یہ درد ہر ذی ہوش فرد بخوبی محسوس کرسکتا ہے۔ اس دردو کرب اور غم کی گھڑی میں ہم سب اُن کے ساتھ شریک ِ غم ہیں۔ اُن کے جگر کے ٹکڑے اور آنکھوں کے تارے ہمیشہ کے لئے بچھڑ گئےہیں ،جس سے واقعی کسی بھی انسان کا دل دہلانےوالا واقعہ ہے۔ لیکن اسلام اپنے ماننے والوں کو ہر وقت، ہر لمحہ اور ہر حالت میں خوب راہ نمائی کرتا آیا ہےکہ جس سے انسان کسی بھی مصیبت ،المیہ اور رنج و غم کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ اس وقت ہر ایک کے ذہن میں یہی سوال پیدا ہو رہا ہے کہ ربّ العالمین نے ان ننھے منھے معصوم بچوں کو کیوں محبت کرنے والے والدین اور عزیز و اقارب سے جدا کیا ؟
 ظاہر ہے کہ اس طرح کے المناک حالات کا سامنا کرتے کے وقت انسان اپنی قوت ِ برداشت کھو جاتا ہے اور بے لگام ہوکر کچھ بھی کہتا رہتا ہے اور وہ کچھ بھی کر گذرتا ہے، جو اس کو زیب نہیں دیتا اور نہ ہی دین اسلام اس طرح کا کوئی طرزِ عمل اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ انسان اپنے مالک حقیقی کو بھی بُرا بھلا کہنے لگتا ہے اور کُفریہ الفاظ یا نازیبا زبان کا استعمال کرکے اللہ رب العالمین کی ناراضگی مول لیتا ہے۔ جب کہ  یہ بات واضح ہے کہ حقیقی صبر وہی ہے جو کسی بھی غم و پریشانی، مصیبت یا صدمے کی ابتداء میں ہی اختیار کیا جائے (صحیح المسلم) حالانکہ کسی بھی کٹھن حالات یا بُرے وقت کےدرد ناک سانحہ بعد تکلیف کی شدت آہستہ آہستہ دور ہو جاتی ہے اورپھر وہی انسان اپنی کی گئی حرکتوں پہ شرمندہ ہو جاتا ہے اور اُسے پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے۔ مولانا یوسف اصلاحی ؒ نے اپنی کتاب ’’ آداب زندگی ‘‘ میں اس طرح کے اوقات میں مسلمان کا ردعمل کے طور پر ہی ایک باب ‘ رنج و غم کے آداب ‘ کے زیر عنوان باندھا ہے ۔
ایسے کسی بھی واقعہ کے وقت ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے ،جہاں ہمیں لگتا ہے کہ ایک معصوم کی جان بنا کسی خطا کے چلی گئی ہو، ہمیں فوراً قرآن کریم و احادیث کی طرف لوٹنا چاہئے ۔ جس سے پڑھ کر مصیبت زدہ انسان کو تشفی حاصل ہو سکتی ہے، دل کو سکون مل سکتا ہے اور ایمان و یقین کی حرارت پیدا ہو سکتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالىٰ كا فرمان ہے کہ وہ ہماری آزمائش ہمارے مال، اولاد، بھوک، جان سے ضرور كرينگے ( البقرۃ؛ 155- 157 ) تاکہ صابرین کو پرکھا جائیں ۔
 یاد رہے کہ اللہ کے آخری نبیؐ کا یہ ارشاد بچے كے فوت ہونے پر صبر كرنے ميں خاص طور پر رہنمائی کرتا ہے ۔ امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰؐ نے فرمایا ’’جس مسلمان جوڑے کے تین بچے انتقال کر جائیں، اللہ رب العزت ان بچوں پر فضل و رحمت کرتے ہوئے اُن جوڑے کو جنت میں داخل فرمائے گا۔‘‘ صحابۂ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا ’’ اور دو بچے‘‘ ؟ تو آپؐ نے فرمایا اور دو بچے بھی۔ صحابہ ؓ نے پھر عرض کیا ’’ اور ایک‘‘ ؟ تو آپ ؐ نے فرمایا ،’’ ایک بھی ‘‘ ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اس ذاتِ پاک کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ،جس عورت کا کچا بچہ فوت ہو جائے اور وہ اس پر صبر کرے، تو وہ بچہ اپنی ماں کو اپنی ناف کے ذریعے کھینچتا ہوا جنت میں لے جائے گا ۔ (مسند امام احمد)
ربّ العالمین بہتر سے بہترین منصوبہ ساز ہے اور وہ بہتر جاننے والا ہے کہ دنیا میں بھیجے گئے انسانوں میں سے کس کو کب، کہاں اور کس حالت میں واپس بلانا ہے۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ سب سے اعلیٰ، دانا، کن فیکون، احد و صمد، رحیم و رحمان اور حکیم و بینا ہےاور اُس کی حکمتیں انسانی ذہن کے سمجھ بوجھ سے باہرہیں۔ رب الزوجلال کے کاموں میں جو شرور ہمیں نظر آتے ہیں، دراصل وہ بھی کُلی طور پر خیر خواہی کا ہی حصّہ ہوتے ہیں۔
ایسے واقعات کے رونما ہونے پہ اسلام خودکشی جیسے حرام فعل کی اجازت قطعاً نہیں دیتا بلکہ صبر و صلواۃ سے مدد لینے کی ترغیب کرتا ہے۔ ایسے مواقع پہ اللہ رب العزت کے شان میں کفریہ الفاظ کے کہنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ یہی مسلمان کا ایمان و یقین ہے ۔
ہمیں چاہئے کہ ایسی صورت حال میں ہم اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کے طریقہ کو اختیار کریں اور مصیبت کی اس گھڑی کو یاد کریں جب ہمارے آقا نامدار رسالت مآب سرور کونینؐ کے پہلے لخت جگر قاسمؓ دو سال چھ ماہ کے ہوئے تو اُن کا انتقال ہو گیا۔ اِس کے بعد دوسرا لخت جگر عبداللہؓ جو مکہ مکرمہ میں نبوت کے بعد پیدا ہوئے، ۲ سال سے کم عمر ی ہی میں انتقال ہو گیا۔ اُن ہی کی موت پہ مشرکیں مکہ نے  جناب رسول اللہؐ کو ابتر ( اولاد کے بغیر) کے طعنے دئیے ، تو اِس پر سورہ الکوثر نازل ہوئی، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپؐ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گااور اس کے بعد تیسرا لخت جگر ابراہیمؓ جن کی پیدائش مدینہ منورہ میں ۸ ہجری میں ہوئی، ۱۰ ہجری میں  ۱۶ یا ۱۸ ماہ کی عمر میں بیماری کی وجہ سے انتقال کر گیا۔ ابراہیمؓ کے انتقال پر نبی کریمؐ کافی رنجیدہ ہوگئے۔ چشمانِ مبارک سے آنسو جاری ہوئے لیکن بزبان درفشاں محمدؐ پہ اللہ رب العزت کی حمد و ثنا اور عظمت و کبریائی ہی رہی ۔اس طرح کے پے در پے اولادوں کے جانے کا غم یہاں نہیں رُکا، بلکہ آپؐ کی دختر نیک اختر سیدہ زینب ؓ جو سب سے بڑی صاحبزادی تھیں کو ہبار بن اسود (جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے) نے مدینہ کی طرف جاتے وقت نیزے سے حملہ کیا، شہزادی امام الانبیاء رحمت للعالمینؐ کو اپنی سواری سے چٹان پر گرا دیا گیا، جس سے وہ کافی زخمی ہوگئیں۔ مدینے میں اپنے ابا جان محمد رسول اللہؐ کی خدمت میں پہنچ کر سیدہ زینبؓ نے کفار کی طرف سے پہنچنے والے مظالم کا ذکر فرمایا ،تو نبی اکرم ؐ کا دل بھر آیا پھر ارشاد فرمایا، ’’زینب میری سب سے بہترین بیٹی ہے، جسے میری وجہ سے تکالیف سے دوچار کیا گیا۔‘‘ اور بعد میں آپؓ انہیں زخموں سے ۸ ہجری میں انتقال فرما گئی۔
 اپنے لخت جگروں کی وفات پر صبر کرنے کی اس سے بڑھ کر عظیم مثال کہاں مل سکتی ہے۔ اسے کہتے ہیں صبر جمیل ،جس کے بدلے میں ربّ العالمین اپنے نیک بندے کو جنت کے اندر بیت الحمد ( جامع الترمزی؛ 942 ) یعنی ایک خوبصورت محل عطا فرمائے گا۔اسی طرح حضرت ام سلیمؓ نے اپنے لاڈلے اور پیارے بیٹے کے فوت ہونے پر کس طرح سے صبر و ہمت کا دامن تھامے رکھااور کس طرح سے سنجیدگی و متانت کا اظہار کیا،وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
قرآن نے کہیں ‘اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ فرمایا تو کہیں ‘اللہ صبر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے، کا ارشاد فرمایا ہے ۔ کہیں انہیں خسارے سے بچنے والے ‘ قرار دیا گیا ہے ۔ کہیں صبر کرنے والوں سے دوہرےاجر کا وعدہ فرمایا گیا ہے ،اور کہیں دیگر نیکوں کاروں سے صبر کرنے والوں کو بےحساب انداز میں اجر ملنے کا وعدہ فرمایا گیا ہے ۔
صبر کا لغوی معنی برداشت سے کام لینے یا خود کو کسی بات سے روکنے کے ہے۔ شریعت کی اصطلاح کے مطابق صبر کا مطلب نفسانی خواہشات کو عقل پر غالب آنے سے باز رکھا جائے اور شرعی حدود سے باہر نہ نکل پانے کے ہے ۔ الغرض خوشی و غم، مصیبت و پریشانی جیسے مواقع پہ خود کو قابو سے باہر نہ جانے دیا جائے۔ صبر کے عمل میں ارادے کی مضبوطی اور عزم کی پختگی ضروری ہے ۔
حضرت یعقوبؑ نے بھی اپنے لخت جگر حضرت یوسفؑ اور بنیامین کو کھونے کے بعد اس رنج و غم اور بے قراری کی درد ناک اور غم زدہ گھڑی میں صبر کا دامن ہی تھامے رکھا۔ جب کہ ننھےمنھے حضرت یوسفؑ نے بھی اپنے والد سے جدائی پر صبر ہی سے کام لیا ۔حضرت ایوبؑ کا بیماری کی حالت میں بے انتہا صبر کیا ۔ ‘ جس کی بارہا مثال ہمیں اپنی زندگی میں بھی سننے کوملتی ہے۔ حضرت لقمانؑ کی اپنے بیٹے سے نصیحت کرنا دور جدید کے شدت پسند انسان کے لئے رہ نما اصول ہیں۔ جس پہ عمل پیرا ہونے سے انسان بلندی کا مقام حاصل کر سکتا ہے اور اللہ کا مقرب بندہ بن سکتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ اور تجھ پر جو مصیبت واقع ہو اس پر صبر کیا کر، یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔‘‘ (لقمان؛ ۱۷)
الغرض صبر سے بڑھ کر کوئی دوہری چیز نہیں ،جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے شمار نعمت، عظمت، رحمت و مغفرت حاصل ہونے کے وعدے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ زندگی کے مختلف مشکلات، غم و مصیبت زدہ حالات اور تنگ دست لمحات میں صبر کرنا سیکھیں ۔کسی بھی طرح کی غیر شرعی حرکت انجام دینے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اللہ رب العالمین سے مسلسل دُعا کرنی چاہیے جو ہمیں ہر طرح کی مشکل حالات میں حفاظت یقینی بنائے گا اور ان سے نجات دے گا۔ مزید ہمیں مصيبت كے وقت نبی کریمؐ نے جو دعا سكھائی ہے کہ ’’ اے اللہ ميری مصيبت ميں مجھے اجر دے اور اس كا نعم البدل عطا فرما۔‘‘ اس کا ورد کر کے صبر و اجر کا طلبگار بن کر رہنا چاہیے۔ اس دعا ميں بہت فضيلت اور اجر عظيم ہے ۔
(رابطہ۔ 9858109109)