مائک ہاتھوں میں لئے ہر شخص صحافی نہیں! تراکیب اور اسلوب کا استعمال صحافتی پیشے کی پہچان

سید مصطفیٰ احمد ۔ بمنہ، بڈگام

صحافت ایک مقدس پیشہ ہیں۔ سماج حساسیت کا دوسرا نام ہے۔ یہ مختلف چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔سماج کے مختلف واقعات کو ہو بہو پیش کرنے کا نام صحافت ہے۔ اس تاویل سے اختلاف کی گنجائش ہے۔ صحافت کا دوسرا نام یہ بھی ہے کہ کسی بھی خبر کو ایسے جانچا ، دیکھا اور پرکھا جائے، جیسے ہم سکے کے دونوں اطراف کو جانچتے اور پرکھتے ہیں۔ لیکن جس قسم کی صحافت اس وقت ہمارے یہاں کشمیر میں پائی جاتی ہے، اُس کو دیکھ کر ایک ذی حس انسان دانتوں تلے اپنی انگلی دبانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ہمارے یہاں نام نہاد صحافیوں کا جو ٹولہ میدان ِ صحافت میں آیا ہے ،اُن کی کارکردگی نہ صرف مضحکہ خیز بلکہ انتہائی افسوس ناک ہوتی ہے۔ جب بھی کشمیر میں کہیںکوئی حادثہ ہوجائےیا کوئی المناک سانحہ پیش آجائے تو یہ صحافی حضرات صحافت کم ، ریا کاری اور ڈرامہ بازی زیادہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں،خاص طور پر اپنی کم علمی اور نااہلی سےجہاں اپنے آپ کو مذاق بناتے رہتے ہیں وہیں لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے رہتے ہیں۔
گنڈبل سرینگر کا حادثہ اس کی زندہ مثال ہے، جس میںننھے منےپھولوں کے علاوہ شادی شدہ افراد بھی دریائے جہلم کی لہروں کے نوالہ بن گئے۔ اس حادثے کی خبر سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس کے ذریعے ہی لوگوں تک جاپہنچی۔ گنڈبل سرینگر پہنچ کربعض صحافیوں کے علاوہ اِن ناتجربہ کار اَن پڑھ صحافیوں نے اس مسئلے پر اپنی جہالت کے اتنے دروازے کھول دیئے کہ شہادت پانے والے معصوم لوگوں کے لواحقین کو اپنے پیاروں کا رونا بھی نہیں رونے نہیں دیا ۔ جس گھر کے تین افراد جہلم کی لہروں میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ،اُس گھر کی ماں کا حال کیا ہوگا ،یہ تو ہر کوئی ذی ہوش شخص خون کے آنسو پی کربخوبی محسوس کرسکتا ہے۔ اسی طرح جس کے بیٹے ، پوتے یا کسی دوسرے عزیز کو جہلم کی خوفناک لہروں نے نگل کر ابھی تک واپس نہیں کئےہیں،اُنکے لواحقین پر کیا بیت رہی ہوگی،کوئی سنگ دِل انسان بھی سمجھ سکتا ہے۔ظاہر ہےیا تو اُنکی کی نعشیں پانیوں کے نیچےکہیںخار دار جھاڑیوں یا پتھروںمیں پھنس گئی ہیں،یا پھر پانی کی خوفناک لہروں نے اپنے ساتھ کہیں دور لے لیا ہو، اُن کے عزیزو اقار ب اور لواحقین ابھی تک اُنکے کفن و دفن کے منتظر ہیں۔ اُس ماں کی چیخیں آسمان کو چیرتی ہوئی ہر آنکھ کو نم کرتی ہیں،جوجہلم کے کنارےپر اپنے بیٹے کو پکارتے ہوئے درد بھرے لہجے میں کہتی ہے کہ میرے بیٹے !اب میں کس کے سہارے زندہ رہوں گی۔ میرے بیٹے !تیری موت کے ساتھ میری آنکھوں کی بینائی کھو گئی اور جگر پاش پاش ہوکے رہ گیا ہے۔ وہ سوگوار بوڑھی ماں اُس ناؤ پر بھی بُرا بھلا کہتی رہتی ہے ،جس نائو میںاُس کا اکلوتا بیٹا بھی سوار ہوا تھا۔وہ اُس پل پر لعنت ملامت کرتی رہتی ہے ،جس کی عدمِ تعمیر کے باعث اُنہیںنائو (کشتی)کے ذریعے دریائے جہلم پار کرنا پڑتا تھا،گویا جگر مراد آبادی کے الفاظ میں اب اُس ماں کا درد فغاں میں تبدیل ہوچکا ہے، اس لئے وہ لوگوں کے سامنے بے پرواہ ہوکر کچھ بھی کہہ کے دِل کا بوجھ ہلکا کر رہی ہے۔
حالانکہ یہ کوئی پہلا سانحہ نہیں ،جس میں انسانی زندگیاں تلف ہوئیں۔ایسے بے شمار واقعات مختلف شکلوں میں ہمارے یہاں پیش آچکے ہیں اور وقفہ وقفہ کے بعد آتے رہتے ہیں،جن میں چھوٹے بڑے ہر عمر کے لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں جبکہ اکثر و بیشتر ان حادثات کے اوقات میںانسانی اقدار کے جنازے نکلنے کے مناظر بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات وہ لوگ جو سرکاری طور پر ان حادثات کی نگرانی کرتے ہیں ، کے رویوں پر بھی بہت ترس آتا ہے۔ وہ لوگ اپنی ذمہ داریوں سے کیوںروگردانی کرتے ہیں یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ سب سے زیادہ ترس اُن نابکارنام نہاد صحافیوں پر آتا ہے،جن کی طوماری انتہائی افسو س ناک اور مضحکہ خیز ہوتی ہے۔یہاں میں اُن شائستہ اور پیشہ ور باضمیرصحافیوں کی بات نہیں کر رہا ہوں جوہر حال میں objective and fair journalism کے متمنی ہیں۔ میں اُن اَن پڑھ اور جاہل صحافیوں سے نالاں ہوں جو مائک لے کر آناً فاناً حادثے کی جگہ پر پہنچ کر اپنی جہالت کے تمام ثبوت میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اول تو وہ زبان کا غلط استعمال کرتے رہتے ہیں اور دوسرا وہ حالات کی نزاکت کو سمجھنے سے عاری ہوتے ہیں،جس کے نتیجے میںوہ صحافتی اصولوں کو مذاق بناتے رہتے ہیں اور بعض اوقات کسی معمولی بات کو رائی کا پہاڑبنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔ اب جو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کونسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ جاہل ، بے حِس اور بے ضمیر نام نہاد صحافی جنم لیتے ہیں۔ کچھ کا ذکر مندرجہ ذیل سطروں میں کیا جارہا ہے۔
پہلی وجہ ہے بے روزگاری
اب جب کہ بیروزگاری کا جِن بوتل سے باہر آچکا ہے تو ان لوگوں نے صحافت کے عظیم پیشے میں بنا سوچے سمجھے چھلانگ مار کر اس کا نام بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔ نہ کوئی سند اور نہ صحافت سے واقفیت اور نہ صحافتی اصولوں کی پاسداری کے سبب یہ نیم صحافی ہر ایری غیری بات کو خبر کے لسٹ میں ڈالتے ہیں اور گلا پھاڑ پھاڑ کر ذَرّے کو پہاڑ بنا دیتے ہیں۔ آج کا زمانہ ڈیجیٹائزیشن کا زمانہ ہے، آج آن لائن پیسے کمائے جاتے ہیں۔ یہ ہَوا کے ساتھ ہچکولے کھانے والے صحافی اس electronic money یا پھر digital money کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے شائستہ لباس زیب تن کرکے کاروبار کرتے ہیں۔ پھر یہی بے ضمیردانستہ یا نادانستہ طور پر معصوموں کی موت کا مذاق اڑاتے ہیں اوراُن کے لواحقین کےدردو غم میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔
دوسری وجہ ہے جانکاری کا عام ہونا
آج کا زمانہ information boom کا زمانہ ہے۔ بٹن دباتے ہی پوری دنیا کی جانکاری حاصل ہوجاتی ہے۔ اس سہل پسندی کا فائدہ اِن جہلاء نے خوب اٹھایا ہے۔ کچھ حسین الفاظ اپنی زبانوں پر ازبر کرکے اور جسم کے اعضاء کو سرکس میں ناچ دکھانے والی کی طرح اِدھر اُدھر کرکے یہ ناتجربہ کار صحافی ایسی بکواس کرتے رہتے ہیں جوصرف اُنہی کے سمجھ کی کھوج ہوتی ہے۔ کبھی جب طوطا کی طرح رٹی ہوئی باتوں کا دھاگہ ٹوٹ جاتا ہے تو پھر وہ فضول بکواس کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے اپنی بےعزتی کرواتے رہتےہیں۔
تیسری وجہ ہے صحافت کا گرتا ہوا معیار
آج کچھ اخبارات اور کچھ نیوز چینلز کو چھوڑ کر بیشترایسے اخبارات نظروں کے سامنے آتےہیں کہ انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ جمہوریت کے چوتھے ستون کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔ کچھ تو حقیر مفادات کے لئے اصولوں کی دھجیاں اڑارہے ہیں اور کہیں بے گناہوں کی عزت تار تار کی جاتی ہے۔ ان اخبارات اور نیوز چینلز پر صرف عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ نجی معاملات میں مداخلت کرنا اب بیشتر صحافیوں کا مشغلہ بن گیا ہے۔ کسی کی شادی نہیں ہورہی ہے تو کوئی ازدواجی زندگی سے تنگ آگیا ہے ،یہ کام اب پڑھے لکھے صحافی بھی بخوبی انجام دیتے ہیں۔
چوتھی اور آخری وجہ ہے ہماری کوتاہیاں
ہم نے ہی اِن جہلاء کو پنپنے کے مواقع فراہم کئے ہیں جس کی وجہ سے تسلیم شدہ حدود کو پھلانگ کر یہ لوگ بدمست ہاتھیوں جیسی حرکتیں کرتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ہم نے اُن کی نادانیوں کو پسند اور اپنے یاروں کے ساتھ شیئر کرکے لا شعوری طور ان کی مدد کی ہے، جس کی وجہ سے نازک دِکھنے والی یہ شاخ اب ایک تناور درخت کے روپ میں سامنے آئی ہے کہ روکنے سے بھی یہ طوفانِ بدتمیزی رُکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ اب ان کے پاس اتنا پیسہ اور اتنے چاہنے والے ہیں کہ ان کو شرافت کی زبان سمجھ ہی نہیں آتی ہے۔اب اگر وہ کسی کی موت پر جھوٹے آنسو بھی بہائیں، تو حیران ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے علاوہ اگر وہ بے ہودگی اور بے شرمی پر بھی اتر آئیں تو بھی دانتوں تلے اُنگلی دبانے کی حاجت نہیں۔ ہماری لاپرواہی اور تنگ نظری نے ہی ان کو دوام بخشا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ صحافت کے مقدس پیشے پر کوئی آنچ نہ آئے تو ہم سب کو صحافت کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو بھنور سے نکال کر ساحل پر لانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ یہ کام صبر طلب ضرورہے لیکن جب منزل حسین ہے تو پھر راستوں کے کانٹوں سے ڈرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ سب سے پہلی چیز جو اس ضمن میں کی جانی چاہئے وہ یہ کہ حکومت کو ان نام نہاد صحافیوں کو صحافت کے پیشے سے کوسوں دور رکھنا چاہیے جو بغیر سند اور رجسٹریشن کے صحافت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان کا پہلے صحافت کے کسی اچھے سکول میں داخلہ کروانا چاہیے۔ اس طرح وہ اس پیشے کی باریکیوں سے روشناس ہوکر مسخرے پن سے باز آئیں گے۔ اس کے علاوہ ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ سوشل میڈیا پر کسی بھی صحافی کو پروموٹ کرنے سے گریز کریں اور کسی بھی صحافی کی بات کو مقدّم سمجھنے سے باز رہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ جو صحافی لوگوں کے درمیان آتا ہے، اس سے مہذبانہ طریقے سے اُس کی صحافتی تعلیم اور تجربے کے بارے میں ضرور پوچھیں، بد کلامی، گالی گلوچ اور دھمکیوں سے پرہیز کریں۔ مزید برآں ہم خود سماج میں اُن طلبہ کو صحافی بننے میں مدد کر سکتے ہیں جو صحافت کا ذوق و شوق رکھتے ہیں۔ اُن کی مالی معاونت کرسکتے ہیں تاکہ وہ آنے کل میں صحافت کی مسند پر بیٹھ سکیں،تاکہ جاہل صحافیوں کی دکانیں بھی بند ہوسکیں اور عام لوگ حقیقی صحافت سے روشناس ہوسکیں۔ اس کا ایک اور فائدہ یہ ہوگا کہ لوگ افواہوں اور سچائی کے بیچ میں فرق کرسکتے ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ اس سے یہ ہوگا کہ کسی کی بے بسی اور مفلسی کا ڈنڈورا نہیں پیٹا جائے گا۔ اپنے بیٹے یا بیٹی کی موت پر نڈھال باپ یا ماں سے زبردستی بے جا سوالات نہیں پوچھیں جائیں گے اور لوگ بھی ان کے خلاف گالم گلوچ پر اُتر نہ آئیں گے۔ آخری مگر سب سے ضروری کام جو اس ضمن میں کیا جاسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ خود سچ اور جھوٹ کی حدیںمتعین کریں۔ کیونکہ دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمیں سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرکے نہیں دے سکتی ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خود اس حالت میں ہوں کہ ہم ہر بات کو سمجھیں، سوچیں ،پرکھیںاورتولیں۔ کوئی بھی خبر ہو، جذبات کی رو میں بہنے سے اجتناب کریں، مسلکی یا گروہی بندھنوں سے اُوپر اٹھ کر دیکھیںاور انسانیت کا دامن کبھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیں۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہمارے نجی معاملات کا پوری دنیا میں جو مذاق اُڑایا جارہا ہے اور ہماری بے بسی کا تمسخربنایا جارہا ہے، اس کو روکا جائے ۔ ہمارے رونے،چِلانے کی ویوڈیوز پر ایسے memes بنائےجاتے ہیں کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اس لیے مزید تاخیر کئے بہتر ہے کہ ہم بے لگام صحافیوں کو لگام لگا کر سیدھے راستے پر لانے کی کوشش کریں۔
رابطہ۔9103916455
[email protected]