اپنے وجود پر غور کرنا لازم ہے فکر انگیز

حمیرا فاروق ،آونیرہ 
کائنات کی تخلیق پر اگر نوعِ انسان غور خوض کر بھی لیں تو یہ اتنی وسیع و عریض ہے کہ اس کا تصور کرنا ہمارے اس چھوٹے سے دماغ میں نہیں سما سکتا ۔کبھی کبھار انسان جہالت سے کام لے کر اللہ تعالی کی پیدا کردہ مخلوق پر بھی شک کرنے لگ جاتا ہے حتیٰ کہ یہاں تک اٌتر آتا کہ کچھ چیزوں کو فضول کہتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے کائنات کی کوئی بھی چیز فضول پیدا نہیں کی بلکہ ہر ایک کو ایک مقصدِ خاص کے لیے پیدا کر دیا اور دنیا میں وہ کس چیز سے کون سا کام لے رہا ہے، یہ علم صرف اسی کے پاس ہے ۔ہمارے ذہنوں کی رسائی وہاں تک ممکن نہیں ۔ ہم بظاہر اپنے اس کند ذہن سے چیزوں کو دیکھ کر غلط فتوے لگا دیتے ہیں جو کہ صریح غلط اور باعث گناہ ہے ۔
انسان اپنے تئیں بہت خود غرض ہوتا ہے ۔وہ ہر چیز کو اپنے مفاد کی حد تک محدود رکھتا ہے ۔خواہ انسان کے مطالبے اگر پورے بھی کر دئیے جائیں، لیکن جب اس کے نفس کے خلاف کوئی کام ہو جائے تو وہ کوئی اور بہانہ ڈھونڈ کر منہ موڑ دیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا احسان فراموش اور مخلوقات کے ذریعے دی گئی شفقت اور محبت کی قدر و قیمت وقت پہ نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ ناشکرا رہ جاتا ہے ۔اپنی من مانی کی زندگی میں چل کر حرص و خواہش کے بھوت کو خود پہ سوار ہونے دیتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ بیچ راستے میں اٹک جاتا ہے ۔اس وقت پھر شکوے شکایت کرنےبیٹھ جاتا ہے۔وقت سے پہلے چیزوں کو حاصل کرنے کی جستجو ہی دراصل انسان کو ذہنی مریض اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانیاں پیدا کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔لیکن اس بات سے نادان بہت بے خبر ہے کہ جب تک اللہ تعالی کی مشیت اس کی مشیت سے مل نہ جائے تو تب ہر کام ادھورا رہ جاتا ہے اور اور جب اللہ کی مشیت بندے کی مشیت سے مل جائے تو تب بندے سے بڑھ کر کوئی خوش نصیب نہیں کی جس کی ہر خوشی رب پورا کر لیں ۔
انسان کو پہلے اپنے وجود پر غور و فکر کرنا چاہیے کہ جس طرح اللہ نے میرے اندر ہر اعضا کو ایک مقصدِ خاص کے لیے پیدا کیا تاکہ اس کے جسم کا نظام پوری طرح چل سکے ۔اسی طرح کائنات میں دیگر مخلوقات کا بھی ایک خاص مقصد ہوتا ہے جن کے بغیر یہ چل نہیں سکتی ۔ یہ چیزیں انسان کی سوچ سے باہر ہے ان کو اللہ کے ماسوا کوئی نہیں جانتا ۔کائنات کا نظام تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں میں ہے اور اسی کی مشیت غالب ہے، اگر انسان کے ہاتھوں میں یہ نظام ہوتا تو دنیا پوری کی پوری درہم برہم ہو جاتی ۔
انسان کو چاہیے کہ دنیا میں کسی بھی چیز کو حقیر و کمتر نہ سمجھے بلکہ ہر ایک کو اپنا رول دنیا میں نبھا کے جانا ہے اور اس پر اس کو جواب دہی بھی خود ہی دینی ہے۔ لوگوں کو بہکانا اور خود کے نفس کو بہلانے کا کام غلط انسان کا شیوہ ہے۔ ایک مدبر اور باحِس انسان یہ کام کر ہی نہیں سکتا اور جس جس چیز کا اختیار انسان کو اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے ،بہتر ہے کہ اس چیز پہ انسان بحث نہ کرے، ان چیزوں سے گریز کرنا ازبس لازمی  ہے ۔ چاہے پھر وہ معاملہ زندگی کا ہو تقدیر کا ہو یا دیگر چیزوں کا، انسان جتنا ان چیزوں سے دور رہے، اتنا ہی اس کو اٹک جانے کے کم امکانات ہیں اور اگر اللہ پر چھوڑ دیا جائے تو فیصلے کا انجام بحسن ہوگا۔ انسان ہونے کے ناطے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ میں انسان ہوں اور ذہن بھی محدود ہے ،اس لیے چاہیے کہ اِس محدود کو اُس لامحدود ذات کے ساتھ موازنہ نہ کرے، ورنہ خسارہ مقدر بن جائے گا ۔