نظمیں

سردی میں
ہوئی ناگفتہ بہ حالت مری کیا یار سردی میں
نہیں ہے کارگر کُرتا نہیں شلوار سردی میں

مزاجاً جسم پہ ہر شے لگے یخ بستہ صورت ہے
وہ ہو سُوتی یا پھر اُونی لگے بیکار سردی میں

اسیرِ خانہ ہیں سارے بمؤجب سخت سردی کے
نہیں پنگھٹ پہ آتی ہے نظر گُلنار سردی میں

نظر افروز موسم کیا ہوا کرتا تھا جموں میں
مگرامسال موسم خود ہوا بیمار سردی میں

فہم سے دور ہے مولیٰ یہ تیری کِرشمہ سازی
کوئی متلاشی سردی کا کوئی بے زار سردی میں

ہدایت تھی یہ اطباء کی رہو عُشاق ؔ گرمی میں
فضائے شہر لیکن کیا بنی آزار سردی میں

عُشاقؔ کشتواڑی
حال جموں
موبائل نمبر؛9697524469

کائنات کی سانس ہے
نظم ہوا کی مانند ہے
کائنات کی کوکھ سے جنم لیتی ہے
کائنات کی دھڑکن پہ دھڑکتی ہے
کہیں بانجھ بن کے وقت کو چھو کر نکلتی ہے
کہیں خود سے ٹکرا کے حاملہ ہوجاتی ہے
سُکھ کے دُکھ سے بھاری بھر کم ہوجاتی ہے
اگلی نسل کی خاطر۔۔۔۔۔۔۔
نظم بادل بن کے اُڑتی پھرتی ہے
وقت کے نیلے کاغذ پہ
اپنے اشک کی بوندوں سے
کائنات کا دکھ سُکھ لکھتی ہے۔۔۔۔۔
نظم بارش بن کے برستی ہے
کائنات کے سوکھے بدن پہ
کھیت کھلیانوں پہ
دور تک بِکھری ریت پہ
گہرے نیلے سمندر کی سطح پر
ہوا خوشبؤں کا وصل ہے
رنگوں کا ہجر ہے
موسموں کا تغیر ہے
نظم ہوا کی مانند ہے
نظم کائنات کی سانس ہے
مجھے سانس لینے دو
نظم لکھنے دو۔۔۔۔۔!!!!!

علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اننت ناگ،موبائل نمبر؛9419045087

ٹھوکر
الفاظ اُلفتوں کے سب جعلی ہو گئے
جیب ہمارے جب سے خالی ہو گئے
آ تی نہیں سمجھ کسی کو باتیں میری
سخنور سے اب جو ہم سوالی ہو گئے
جو روز اڑا رہے تھے میرے گھر دعوت
ہم ان کے لیے اچانک اب خیالی ہو گئے
اک شام میرے حالات تنگ کیا ہو ئے
اچانک صبح کو ہم بھدی گالی ہو گئے
چھپتے پھر رہے میرے جو تھے ہم نوا
مفلس ہوئے تو جیسے کہ موالی ہو گئے
سنتا نہیں کوئی مجھے دو گھڑی کے لئے
کیوں آج یہاں سارے جلالی ہو گئے
ٹیکا بنا کر مانگ میں سجاتے تھے کبھی
بدلہ جو وقت کان کے بالی ہو گئے
چرچے بھی خوب ہو رہے ہیں چوراہوں پر
کافی کے مگ چائے کی اب پیالی ہو گئے
بھروسہ کرے دانشؔ کیسے اپنوں پر بھلا
میرے لیے سبھی اب پلاؤ خیالی ہو گئے

افتخار دانش ؔ
سنگھیا چوک،کشن گنج (بہار)
موبائل نمبر؛9113436803