میرے دُکھ کی دَوا کرے کوئی! کہانی

ریحانہ شجر

اَمیرہ کا چہرہ سوسن کے پھول کی طرح سفید ہوچکا تھا جیسے کسی نے اس کے وجود سے خون کی ہر ایک بوند نچوڑ لی ہو۔ اس کے چہرے کے چھالے ،اد کھلا منہ ، منہ سے بہتا ہوا خون اور اس کے جسم کے باقی زخم بتا رہے تھے کہ وہ کس کرب سے گزر رہی تھی۔جس بیدردی سے اس کا وجود چھلنی کیا گیا تھا اسی قدر اس کی انا اور غیرت کو بھی بیدردی کے ساتھ ریزہ ریزہ کیا گیا تھا جس کی وجہ سے اس کی آنکھیں پرنم تھی اور اپنے آپ سے بیزار ، زندگی سے ناامید ایک پَر کٹے پنچھی کی طرح کسی انجانے درد سے تڑپ رہی تھی۔ مظلوم اور بےبس نظروں سے ہر آنے جانے والے کا جائزہ لے رہی تھی کہ شاید کوئی خبر پوچھے کسی کی بات سے ایک آدھ زخم بھر جائے لیکن کوئی اگر آ بھی جاتا تو وہ دو تیکھی ترچھی باتیں سنا کے اُلٹے پائوں واپس چلا جاتا تھا، جس سے ا س کی ذہنی اور جسمانی تکلیف میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔

امیرہ کے شوہر زمان کو پولیس تلاشی کررہی تھی۔ اس کو فون کیا گیا اور جواباً اس نے کہا کہ وہ شہر سے باہر کسی کام سے گیا ہوا ہے۔

چند دنوں بعد زمان نے خود تھانے میں حاضر ہو کر ایک ذمہ دار اور اچھا شہری ہونے کا فرض نبھایا۔

کیس عدالت تک پہنچ گیا۔

زمان کو عدالت نے بُلاکر مختلف سوالات پوچھے، جس میں اس کے پیشے، گھر اور بچوں کے بارے پوچھا گیا۔ زمان کے بیان سے ظاہر تھا کہ وہ اقتصادی طور پر سکون تھا اور شریف النفس شخص تھا ۔ زمان نے عرضی دی تھی کہ اس کی بیوی امیرہ کو عدالت میں پیش نہ کیا جائے کیونکہ امیرہ کافی کمزور تھی۔ لیکن عدالت نے اس کی عرضی کو برخواست کرکے امیرہ کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکمنامہ جاری کیا تھا اور اس کو عدالت میں پیش کیا گیا۔جہاں تک امیرہ کا تعلق ہے وہ کچھ کہنے کی حالت میں نہیں تھی ۔ وہ سب کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی، لیکن شوہر زمان کی اور دیکھ کر اس کے منہ سے ایک دل دہلا دینے والی چیخ نکل گئی۔

عدالت نے امیرہ کو سوال و جواب کےلئے بلایا ۔

جج صاحب نے پوچھا محترمہ امیرہ آپ اشارے سے بتا سکتی ہو کہ آپکے ساتھ کیا ہوا تھا۔ اس نے سر ہلا کر ہاں کہا اور وہ اشاروں میں کچھ سمجھانے لگی لیکن عدالت میں موجود فیصلہ ساز کمیٹی اور باقی لوگ امیرہ کے اشارے اور آوازیں سمجھ نہیں پائے شاید اس لیئے کہ وہ پیدائشی گونگی نہیں تھی جو اشاروں سے اپنی بات سمجھانے کے اہل ہوتے ہیں ۔ جج صاحب نے اس سے پوچھا کیا آپ اپنا بیان لکھ کر دی سکتی ہو؟ امیرہ نے خوشی سے سر ہلا کر ہاں کہا ۔ اس بیچ زمان نے کہا ’جج صاحب یہ معصوم اتنی پڑی لکھی نہیں ہے کہ اپنا بیان لکھ سکے۔ اس بےچاری کو تکلیف مت دو اور رونے لگا‘۔ جج صاحب نے کہا ’محترم زمان ہم آپکے جذبات کی قدر کرتے ہیں لیکن عدالت کیلئے کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہر پہلو کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ عدالت کے لئے اہم ہے کہ ملزمہ کو اپنی بات رکھنے کا پورا موقعہ دیا جائے۔عدالت جذبات کا احترام کر تی ہے لیکن عدالتوں کے فیصلے جذبات کی رو میں بہہ کر نہیں کئے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد امیرہ کے سامنے بورڈ رکھا گیا اور لکھنے کیلئے ایک لائٹ مارکر دے دیا گیا۔

امیرہ کانپتے ہوئے ہاتھ میں قلم اٹھا کر لکھنے لگی۔ اس کی تحریر سامنے پروجیکٹر پر نمودار ہو رہی تھی جس کو فیصلہ ساز کمیٹی اورعدالت میں موجود لوگ آسانی سے پڑھ سکتے تھے۔ اس نے لکھا ’

جج صاحب میں نے بی.ایس.سی کیا ہوا ہے‘۔امیرہ نے مزید لکھا کہ ’دوران تعلیم ہی والدین نے میری شادی زمان کے ساتھ طے کی تھی، شادی کے چند دنوں بعد ہی بی. ایس. سی فائنل ایئر کے نتائج کا اعلان کیا گیا اور میں پاس ہوگئی تھی ۔ میرے میکے والوں نے اس دن خوب ساری مٹھائی بھیج دی تھی۔ یہ پڑھ کر کمیٹی کے ممبران حیران رہ گئے اور اس کے شوہر زمان کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگے، جس نے تھوڑی دیر پہلے امیرہ کے ان پڑھ ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔

مزید اس نے اپنی تحریر میں بیان کیا کہ ’زمان کے پاس چھوٹی سی ریڈی میڈ گارمینٹ کی دکان ہے جس سے ہمارا گزارا مشکل سے ہوتا تھا۔ بچو ں کےپیدا ہونے کے بعد مشکلیں اور بڑھ گئیں ۔پچھلے دو سالوں سے تو حالت بد سے بدتر ہو گئی۔ میں نے اس سے پوچھ کر ہی آن لائن بی۔ ایس۔ سی نرسنگ پوسٹ کے لئے درخواست دی تھی اور اس امتحان میں پاس ہوکے اس نشست کیلئے منتخب بھی ہوگی۔ مجھے اس بات کی بہت خوشی تھی کہ میں گھر اور بچوں کی مناسب دیکھ بھال کرنے میں زمان کی مدد کر پائوں گی۔ میں نے اس کو اطلاع دے کر ہی جوائن کیا تھا ۔

پتہ نہیں اچانک کس وجہ زمان کو میری نوکری کھٹکنے لگی اور اسی نوکری کو لے کر ہم دونوں میں بحث ہو گئی۔ زمان نہیں چاہتا تھا کہ میں یہ نوکری کروں لیکن میں نے اس سے کہا کہ میں اہم ضرورتوں کیلئے بچوں کو تڑپتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی، بچوں کی تعلیم پہلے ہی کافی حد تی متاثر ہو چکی تھی ۔امیرہ کے ہاتھ تھر تھر کانپ رہے تھے لیکن وہ لکھتی رہی ۔ زمان سالوں سے لوگوں سے قرضہ لے رہا تھا لیکن اب قرضداروں نے مزید قرضہ دینے سے انکار کیا تھا اور پہلے د ی ہوئی رقم واپس مانگ رہے تھے، جس کو دینے کے لئے نہ زمان کے پاس رقم تھی اور نہ ہی کاروبارتھا۔ جج صاحب میں نے اپنی قابلیت کے بل پر اس نشست کو حاصل کیا تھا ،جس کی مجھے سخت ضرورت تھی ۔ ان حالات میں یہ موقعہ ضائع کرنا میرے لئے عقلمندی نہیں تھی ۔ میں باقاعدہ ڈیوٹی جانے لگی ۔ میں پہلے کی طرح گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ پھر کچھ دنوں بعد چھٹی کا دن تھا اورمیں گھر کے برامدے میں صفائی کرنے میں مصروف تھی کہ اچانک زمان اور اس کا دوست سکندر آیا۔ میں بھی ان کے پیچھے گھر کے اندر داخل ہوئی یہ سوچ کر کہ دونوں کے لئے چائے ناشتہ بنا لوں لیکن یہ دونوں کچھ اور سوچ کے آئے تھے۔ میرے شوہر زمان نے زبردستی میرا منہ بند کیا اور اس کے دوست سکندر نے میرے ہاتھ پاؤں باندھ لئے۔ دونوں نے ملکر میری زبان تیز دھار والے چاقو سے کاٹ دی اور میری انگلیاں کاٹنے کی بھی کوشش کی جس میں وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ اس کے بعد وہ الماری سے میری ڈگری سرٹیفکیٹ اور نوکری سے متعلق دستاویزات وغیرہ نکال کر گھر سے بھاگ گئے اور مجھے مرنے کیلئے چھوڑ دیا ۔ ان کے جانے کے بعد میرے دو سہمے ہوئے بچوں نے میری حالت دیکھ کر شور مچایا جن میں سے ایک بچہ پانچ سال کا ہے اور دوسرا بچہ تین سال کا۔ جس کے نتیجے میں پڑوسی آگئے اور مجھے ہسپتال پہنچا دیا۔ تب سے جو بھی نام نہاد اپنا یا پرایا آیا ، سبھی کا یہی کہنا تھا ، کہ ’تمہاری اپنی غلطی ہے‘۔ میری عدالت سے درخواست ہیں کہ میری غلطی کہاں ہے؟ کیا عزت سے ملا ہوا کام کرنا غلط ہے؟ یا بچوں کی تعلیم و تربیت ،مستقبل کے ساتھ سمجھوتہ اور گھر کی بربادی کا تماشا دیکھنا غلط ہے۔ جج صاحب ایسے انسان کو شادی نہیں کرنی چاہے جس کو اپنی شریک حیات کی مناسب اور معقول بات سے زیادہ غیروں کی نامناسب اور غیر معقول باتوں پر بھروسہ ہو۔

امیرہ نے اپنی تحریر جاری رکھتے ہوئے مزید بیان کیا کہ ’ جج صاحب دنیا کی کوئی عدالت مجھے میری زبان واپس نہیں دے سکتی ہے ۔ عورت پر تشدد جاری ہے اور جاری رہے گا۔ آج ایک امیرہ کو اپنی معقول بات بولنے پر زبان کاٹ دی گئی کل ایک اور عورت کسی دوسرے نام سے کسی اور تشدد کا نشانہ بنے گی۔ اپنے پرائے سارے غیرت مند مل کے ایک ہی راگ الاپتے رہینگے ۔ شوہر کے ساتھ بحث کیوں کی تھی ، اسلئے زبان کٹ گئی۔ اچھا بھلا لڑکا تھا شادی سے انکار کیوں کیا ۔ دیکھا نتیجہ ،تیزاب کا شکار ہوگئی۔ وغیرہ وغیرہ۔

عدالت اور پولیس کو زمان کے معصوم رویئے پر حیرت ہو رہی تھی، پولیس نے حرکت میں آکے ملزم زمان پر دباؤ بنا کر تفتیش شروع کی جس کے نتیجے میں زمان نے کہا یہ بات سچ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے۔ میں نے امیرہ کو نوکری کے لئے آن لائن فارم بھرتے دیکھا تھا۔ میں نے اعتراض نہیں کیا کیونکہ مجھے لگا کہ امیرہ میں اتنی قابلیت نہیں ہے کہ اسے نوکری مل جائے گی۔ لیکن جب اس نے جوائن کیا تو میں حیران ہوگیا اور اپنے دوستوں کو بتایا کہ میری بیوی کو صدر ہسپتال میں نرسنگ کی جاب لگ گئی ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا ،زمان’ تم اب جورو کے غلام ہو جاؤ گے۔ بیوی کمانے لگ گئی ہے تم کو چولہا سنبھالنا ہوگا، بچوں کا خیال رکھنا ہوگا ۔ وہ تھک کر آئے گی اس کے پیر دبانے ہونگے،یار تو تو گیا کام سے۔ زمان نے مزید کہا دوستوں کی باتیں میری برداشت سے باہر ہوگئیں اور انکی باتوں میں آکے میں نے پہلے امیرہ کو روکنے کوشش کی لیکن جب مجھے لگا کہ امیرہ اپنی بات پر قائم ہے تو میں نے دوستوں کے ساتھ مل کر امیرہ کی زبان اور انگلیاں کاٹنے کا پلان بنایا۔ میرا دوست سکندر اور میں امیرہ کی زبان کاٹنے میں کامیاب ہوئے لیکن اُنگلیاں نہیں کاٹ پائے کیونکہ امیرہ درد کی وجہ سے چیخ رہی تھی۔ ہم دونوں نے کاغذات اٹھا کر وہاں سے فرار ہو نے میں ہی خیر سمجھی۔ میں نے سوچا تھا جب امیرہ کا ہاتھ نہیں رہے گا اس کو خود ہی نوکری سے نکال دیا جائے گا تھا اس لئے اس کا ہاتھ کاٹنے کا منصوبہ بنایا تھا اور زبان اس لئے کاٹ دی تھی تاکہ یہ کسی کو کچھ بولنے کی حالت میں نہ رہے ۔اس طرح زمان نے اپنی بیوی امیرہ کے ساتھ تشدد کا اعتراف تو کیا لیکن اس کے چہرے پر پچھتاوے جیسی کوئی بات باقی نہیں تھی۔

���

وزیر باغ، سرینگر،[email protected]