میرے بچپن کے دِن

مہادیوی وَرما

ترجمہ:استوتی اگروال

مہادیوی ورما (۲۶ مارچ ۱۹۰۷ء –۱۱ ستمبر ۱۹۸۷ء)ایک ہندوستانی شاعرہ،مضمون نگار،خاکہ نگار،مصور،مترجم، اور ہندی ادب کی معروف ہستی تھیں۔انھیں ہندی ادب میں چھایا وادی دور کے چار بڑے ستونوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے،اور ’مارڈرن میرا‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ان کے اہم شعری مجموعوں میں ’نہار‘،’رشمی‘،’نیرجا‘،’یاما‘،’دیپ شکھا‘، اور نثری کتابوں میں’اتیت کے چل چتر‘،’اِسمرتی کی ریکھائیں‘،’پتھ کے ساتھی ‘ کا شمار کیا جاتا ہے۔آپ کو ۱۹۵۶ء میں پدم بھوشن،۱۹۷۹ء میں ساہتیہ اکادمی فیلوشپ، ۱۹۸۲ء میں ’یاما‘ کے لیے گیان پیٹھ ایوارڈ اور ۱۹۸۸ء میں پدم وِبھوشن سے سرفراز کیا گیا۔

بچپن کی یادوں میں ایک عجیب سی دِلکشی ہوتی ہے۔کبھی ۔۔۔کبھی لگتا ہے،جیسے خواب میں سب دیکھا ہوگا۔حالات بہت بدل جاتے ہیں۔
اپنے گھرانے مَیں میں کئی نسلوں کے بعد پیدا ہوئی۔میرے کنبے میں پہلے دو سو برس تک کوئی لڑکی تھی ہی نہیں۔سُنا ہے،اُس سے پہلے لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی قبرستان بھیج دیتے تھے۔پھر میرے بابا نے بہت دُرگا پوجا کی۔ہماری کُل دیوی دُرگا تھیں۔میں پیدا ہوئی تو میری بڑی خاطر ہوئی اور مجھے وہ سب نہیں سہنا پڑاجو دیگر لڑکیوں کو سہناپڑتا ہے۔گھر میں بابا فارسی اور اردو جانتے تھے۔ پِتانے انگریزی پڑھی تھی۔ہندی کا کوئی ماحول نہیں تھا۔
میری ماں جبلپور سے آئیں تب وہ اپنے ساتھ ہندی لائیں۔وہ پوجا۔۔پاٹھ بھی بہت کرتی تھیں۔پہلے پہل انھوںنے مجھ کو ’پنچ تنتر‘پڑھنا سِکھایا۔
بابا کہتے تھے،اِس کو ہم وِدُشی بنائیںگے۔میرے متعلق اُن کا ارادہ بہت اونچا رہا۔اس لیے’پنچ تنتر‘بھی پڑھا میں نے،سنسکرت بھی پڑھی۔یہ ضرور چاہتے تھے کہ میں اردو-فارسی سیکھ لوں،لیکن وہ میرے بس کی نہیں تھی۔میں نے جب ایک دن مولوی صاحب کو دیکھا تو بس،دوسرے دن میں چارپائی کے نیچے جا چھِپی۔تب پنڈت جی آئے سنسکرت پڑھانے۔ماں تھوڑی سنسکرت جانتی تھیں۔گیتا میں انھیں خاصی دلچسپی تھی۔پوجا-پاٹھ کے وقت میں بھی بیٹھ جاتی تھی اور سنسکرت سُنتی تھی۔اُس کے بعد انھوںنے مِشن اسکول میں داخلہ کروا دیا میرا۔مشن اسکول میں ماحول دوسرا تھاپرئیردوسری تھی۔میرا دل نہیں لگا۔وہاں جانا بند کر دیا۔جانے میں رونےدھونے لگی۔تب انھوںنے مجھ کو کراستھویٹ گرلس کالج میں بھیجا،جہاں میں پانچوے درجے میں داخل ہوئی۔یہاں کا ماحول بہت اچھا تھا اُس وقت۔ہندو لڑکیاں بھی تھیں،عیسائی لڑکیاں بھی تھیں۔ہم لوگوں کا ایک ہی میس(mess)تھا۔اُس میس میں پیاز تک نہیں بنتا تھا۔
وہاں ہاسٹل کے ہر ایک کمرے میں ہم چار لڑکیاں رہتی تھیں۔اُن میں پہلی ہی ساتھِن سُبھدرا کماری ملیں۔ساتوے درجے میں وہ مجھ سے دو سال سینئر تھیں۔وہ کویتائیں لکھتی تھی اور میں بھی بچپن سے تُک ملاتی آئی تھی۔بچپن میں ماں لکھتی تھیں،پَد بھی گاتی تھیں۔میرا کے پَد خاص طور سے گاتی تھیں۔سویرے’’جاگیے کرپا نِدھان پنچھی بَن بولے‘‘یہی سُنا جاتا تھا۔پربھاتی گاتی تھیں۔شام کو میرا کا کوئی پَد گاتی تھیں۔سُن سن کر میں نے بھی برج بھاشا میں لکھنا شروع کیا۔یہاں آکر دیکھا کہ سُبھدرا کماری جی کھڑی بولی میں لکھتی تھیں۔میں بھی ویسا ہی لکھنے لگی۔لیکن سبھدرا جی(سبھدرا کماری چوہان) بڑی تھیں،عزت مآب ہو چکی تھیں۔اُن سے چھِپا–چھِپا کر لکھتی تھی میں۔ایک دن انھوںنے کہا،’’مہادیوی،تم کویتا لکھتی ہو؟‘‘تو میں نے ڈر کے مارے کہا،’’نہیں۔‘‘آخرمیں انھوںنے میری ڈیسک کی کتابوں کی تلاشی لی اور بہت سا نکل پڑا اُس میں سے۔تب جیسے کسی مجرم کو پکڑتے ہیں،ایسے انھوںنے ایک ہاتھ میں کاغذ لیے اور ایک ہاتھ میں مجھ کو پکڑااور پورے ہاسٹل میں دِکھا آئیں کہ یہ کویتا لکھتی ہے۔پھر ہم دونوں کی دوستی ہو گئی۔کراستھویٹ میں ایک پیڑ کی شاخ نیچی تھی۔اُس شاخ پر ہم لوگ بیٹھ جاتے تھے۔جب دوسری لڑکیاں کھیلتی تھیںتب ہم لوگ تُک ملاتے تھے۔اُس وقت ایک رسالہ نکلتا تھا–’اِستری درپن‘–اُسی میں بھیج دیتے تھے۔اپنی تُک بندی چھپ بھی جاتی تھی۔پھر یہاں کوی سمیلن ہونے لگے تو ہم لوگ بھی اُن میں جانے لگے۔ہندی کا اُس وقت پرچار–پرسار تھا۔میں سنہ ۱۹۱۷ء میں یہاں آئی تھی۔اُس کے بعد گاندھی جی کا ستیاگرہ شروع ہو گیا اور آنند بھون آزادی کی لڑائی کا مرکز ہو گیا۔جہاں–تہاں ہندی کا بھی پرچار چلتا تھا۔کوی سمّیلن ہوتے تھے تو کراستھویٹ سے میڈم ہم کو ساتھ لے کر جاتی تھیں۔ہم کویتا سناتے تھے۔کبھی ہری اودھ جی صدر ہوتے تھے،کبھی شری دھر پاٹھک ہوتے تھے،کبھی رتناکار جی ہوتے تھے،کبھی کوئی ہوتا تھا۔کب ہمارا نام پُکارا جائے،بے چینی سے سنتے رہتے تھے۔مجھ کو اکثر پہلا انعام ملتا تھا۔سو سے کم تمغے نہیں ملے ہوں گے اُس میں۔
ایک بار کا قصہ یاد آتا ہے کہ ایک کویتا پر مجھے چاندی کا ایک کٹورا ملا۔بڑا نقاشی دار،خوبصورت۔اُس دن سبھدرا نہیں گئی تھیں۔سبھدرا ہمیشہ نہیں جاتی تھیں کوی سمیلن میں۔میں نے اُن سے آکر کہا،’’دیکھو،یہ ملا۔‘‘
سبھدرا نے کہا،’’ٹھیک ہے،اب تم ایک دن کھیر بنائو اور مجھ کو اِس کٹورے میں کھِلائو۔‘‘
اُسی بیچ آنند بھون میں باپو آئے۔ہم لوگ تب اپنے جیب خرچ میں سے ہمیشہ ایک–ایک،دو–دو آنے اپنے دیش کے لیے بچاتے تھے اور جب باپو آتے تھے تو وہ پیسہ اُنھیں دے دیتے تھے۔اس دن جب باپو کے پاس میں گئی تو اپنا کٹورا بھی لیتی گئی۔میں نے نکال کر باپو کو دِکھایا۔میں نے کہا،’’کویتا سنانے پر مجھ کو یہ کٹورا ملا ہے۔‘‘کہنے لگے،’’اچھا،دِکھا تو مجھ کو۔‘‘میں نے کٹورا اُن کی طرف بڑھا دیا تو اُسے ہاتھ میں لے کر بولے،’’تو دیتی ہے اِسے؟‘‘اب میں کیا کہتی؟میں نے دے دیا اور لوٹ آئی۔دُکھ یہ ہوا کہ کٹورا لے کر کہتے،کویتا کیا ہے؟پر کویتا سنانے کو انھوںنے نہیں کہا۔لوٹ کر اب میں نے سبھدر ا جی سے کہا کہ کٹورا تو چلا گیا۔سبھدرا جی نے کہا،’’اور جائو دِکھانے!‘‘پھر بولیں،’’دیکھو بھائی،کھیر تو تم کو بنانی ہوگی۔اب تم چاہے پیتل کی کٹوری میں کھلائو،چاہے پھول کے کٹورے میں–پھر بھی مجھے من ہی من خوشی ہو رہی تھی کہ انعام میں ملا اپنا کٹورا میں نے باپو کو دے دیا۔
سبھدرا جی ہاسٹل چھوڑ کر چلی گئیں۔تب اُن کی جگہ ایک مراٹھی لڑکی زیب النسا ء ہمارے کمرے میں آکر رہی۔وہ کولہاپور سے آئی تھی۔زیبُن میرا بہت سا کام کر دیتی تھی۔وہ میری ڈیسک صاف کر دیتی تھی،کتابیں ٹھیک سے رکھ دیتی تھی اور اِس طرح مجھے کویتا کے لیے کچھ اور وقت مل جاتا تھا۔زیبُن مراٹھی لفظوں سے ملی جُلی ہندی بولتی تھی۔میں بھی اُس سے کچھ–کچھ مراٹھی سیکھنے لگی تھی۔وہاں ایک اُستانی جی تھیں~زینت بیگم۔زیبُن جب ’’اِکڑے–تِکڑے‘‘یا ’’لَوکر–لَوکر‘‘جیسے مراٹھی شبدوں کو ملاکر کچھ کہتی تو اُستانی جی سے ٹوکے بِنا نہ رہا جاتا تھا–’’واہ!دیسی کوّا،مراٹھی بولی!‘‘زیبُن کہتی تھی،’’نہیں استانی جی،یہ مراٹھی کوّا مراٹھی بولتا ہے۔‘‘زیبُن مراٹھی عورتوں کی طرح کناری دار ساڑی اور ویسا ہی بلائوز پہنتی تھی۔کہتی تھی،’’ہم مراٹھی ہوں تو مراٹھی بولیں گے!‘‘
اُس وقت یہ دیکھا میں نے کہ فرقہ واریت نہیں تھی۔جواوَدھ کی لڑکیاں تھیں، وہ آپس میں اودھی بولتی تھیں، بندیل کھنڈ کی آتی تھیں،وہ بندیلی میں بولتی تھیں۔کوئی فرق نہیں آتا تھا اور ہم پڑھتے ہندی تھے۔اردو بھی ہم کو پڑھائی جاتی تھی،لیکن آپس میں ہم اپنی زبان ہی بولتے تھے۔یہ بہت بڑی بات تھی۔ہم ایک میس میں کھاتے تھے،ایک پرئیرمیں کھڑے ہوتے تھے،کوئی تکرار نہیں ہوتی تھی۔
میں جب وِدھیا پیٹھ آئی،تب تک میرے بچپن کا وہی سلسلہ چلا جو آج تک چلتا رہا ہے۔کبھی کبھی بچپن کے سنسکار ایسے ہوتے ہیں کہ ہم بڑے ہو جاتے ہیں،تب تک چلتے ہیں۔بچپن کا ایک اور بھی سنسکار تھا کہ ہم جہاں رہتے تھے وہاں جوارا کے نواب رہتے تھے۔اُن کی نوابی چھِن گئی تھی۔وہ بیچارے ایک بنگلے میں رہتے تھے۔اُسی کمپائونڈ میں ہم سب لوگ رہتے تھے۔بیگم صاحبہ کہتی تھیں–’’ہم کو تائی کہو!‘‘ ہم لوگ اُن کو ’تائی صاحبہ‘کہتے تھے۔اُن کے بچے ہماری ماں کو چچی جان کہتے تھے۔ہمارے جنم دن وہاں منائے جاتے تھے۔اُن کے جنم دن ہمارے یہاں منائے جاتے تھے۔اُن کا ایک بیٹا تھا۔اُس کو راکھی باندھنے کے لیے وہ کہتی تھیں۔ بہنوں کو راکھی باندھنی چاہیے۔راکھی کے دن سویرے سے اُس کو پانی بھی نہیں دیتی تھیں۔کہتی تھیں،راکھی کے دن بہنیں راکھی باندھ جائے تب تک بھائی کو بھوکا پیاسا رہنا چاہیے۔باربار کہلاتی تھیں–’’بھائی بھوکا بیٹھا ہے،راکھی بندھوانے کے لیے۔‘‘پھر ہم لوگ جاتے تھے۔ہم کو لہریے یا کچھ ملتے تھے۔اِسی طرح محرم میں ہرے کپڑے اُن کے بنتے تھے تو ہمارے بھی بنتے تھے۔پھر ایک ہمارا چھوٹا بھائی ہوا وہاں،تو تائی صاحبہ نے پِتاجی سے کہا،’’دیور صاحب سے کہو،وہ میرا نیگ ٹھیک کرکے رکھیں۔میں شام کو آئوں گی۔‘‘وہ کپڑے وپڑے لے کر آئیں۔ہماری ماں کو وہ دلھن کہتی تھیں۔کہنے لگیں،’’دلھن، جن کے تائی-چاچی نہیں ہوتی ہیں وہ اپنی ماں کے کپڑے پہنتے ہیں،نہیں تو چھ مہینے تک چاچی-تائی پہناتی ہیں۔میں اِس بچے کے لیے کپڑے لائی ہوں۔وہ بڑا خوبصورت ہے۔میں اپنی طرف سے اِس کا نام ‘من موہن‘ رکھتی ہوں۔‘‘
وہی پروفیسر من موہن وَرما آگے چل کر جموں یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے،گورکھپور یونیورسٹی کے بھی رہے۔کہنے کامطلب یہ کہ میرے چھوٹے بھائی کا نام وہی چلا جو تائی صاحبہ نے دیا۔اُن کے یہاں بھی ہندی چلتی تھی،اردو بھی چلتی تھی۔یوں،اپنے گھر میں وہ اودھی بولتے تھے۔ماحول ایسا تھا اُس وقت کہ ہم لوگ بہت قریب تھے۔آج کے حالات دیکھ کر لگتا ہے،جیسے وہ خواب ہی تھا۔آج وہ خواب کھو گیا۔
شاید وہ خواب سچ ہو جاتا تو ہندوستان کی کتھا کچھ اور ہوتی۔
٭٭٭
اگروال جیویلرئرس، سیرونج، مدھیہ پردیش
موبائل نمبر؛9340710963
[email protected]