مؤجدسے مکالمہ… افسانچے کی تنقید

محمد علیم اسمٰعیل

کچھ لوگوں کے سر پر مؤجد بننے کا بھوت سوار ہے اور وہ افسانچے کو موضوعات کے لحاظ سے، افسانچے میں بیان کی گئی چیزوں اور باتوں کے لحاظ سے اور افسانچے کی طوالت کے لحاظ سے، اسے ایک نئی صنف کا نام دے رہے ہیں اور اس نئی صنف کے موجد بننے کا دعویٰ بھی کر رہے ہیں۔ اس طرح افسانچے کے اردگرد کئی دعووں کا بے ہنگم شور برپا ہے۔
میں نے اردو میں سب سے پہلے سو لفظی کہانی لکھی اس لیے میں اس کا موجد ہوں۔
اردو میں پچاس لفظی کہانی میری ایجاد ہے اس لیے میں اس کا موجد ہوں۔
یک سطری کہانی میری ایجاد ہے۔ اس لیے میں…
میں نے اردو زبان میں سب سے پہلے پوپ کہانی لکھی اس لیے میں…
میں نے اردو میں مائیکرو فکشن کی شروعات کی اس لیے میں…
میں نے اردو میں سب سے پہلے فلیش فکشن لکھا، اس لیے میں…
میں نے کہا، سنو! یہ سب افسانچے ہی ہیں۔ میں یہ نہیں مانتا کہ یہ نئی اصناف ہیں۔ اس لئے میں تمھیں مؤجد ماننے سے انکار کرتا ہوں۔ کہانی یک سطری ہو، سو لفظی ہو یا پچاس لفظی، وہ افسانچے سے مختلف کیسے ہو سکتی ہے؟ افسانچے کو افسانچہ ہی رہنے دیجیے۔ کہانی کے الفاظ گِن کر اسے مختلف خانوں میں تقسیم نہ کیجیے۔
پوپ کہانی، فلیش فکشن، نینو فکشن اور مائیکرو فکشن یہ بھی مختصر کہانی ہی ہے۔ ہم دوسری زبان کے الفاظ اس وقت استعمال کرتے ہیں جب اردو میں اس کا متبادل موجود نہ ہو لیکن مختصر کہانی کے لیے جب ہمارے پاس اتنا پیارا لفظ ’افسانچہ‘ موجود ہے تو ہم پوپ کہانی، فلیش فکشن، نینو فکشن، مائیکرو فکشن جیسے الفاظ کیوں استعمال کریں؟؟
پھر ایک آواز آئی، میں مؤجد ہوں۔ میں نے صنف طنزانچہ ایجاد کیا ہے۔
میں نے پوچھا، طنزانچہ میں کیا ہوتا ہے؟
جواب ملا، اس میں طنز ہوتا ہے۔
میں نے پھر پوچھا، کیا اس میں کہانی ہوتی ہے؟
جواب ملا، ہاں….. ہوتی بھی ہے اور نہیں بھی۔
میں نے کہا، لیکن صاحب طنز تو افسانچے میں بھی ہوتا ہے اور افسانچے میں کہانی بھی ہوتی ہے۔ پھر طنزانچہ ایک نئی صنف کیسی ہوئی؟ اگر اس میں طنز کے ساتھ ساتھ کہانی بھی ہوتی ہے تو یہ افسانچہ ہی ہوا۔ آپ افسانچے کو نیا نام دے کر موجد کیسے بن سکتے ہیں؟
یہ سن کر انھیں غصہ آگیا اور انھوں نے مجھ سے کہا، طنزانچہ ایک نئی صنف ہے اور میں اس کا موجد ہوں۔ بس بات ختم۔ دراصل تم مجھ سے جلتے ہو، حسد کرتے ہو اس لیے ایسی باتیں کر رہے ہو۔
پھر ایک سمت سے کچھ شور سنائی دیا میں اس جانب ہو لیا۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد میرے سامنے طفلانچہ، بچکانچہ اور افسانچہء اطفال کے موجد کھڑے تھے۔ تینوں میں بحث ہورہی تھی اور تینوں بھی اپنے موجد ہونے کا دعویٰ کررہے تھے۔
میں نے ان سے پوچھا، آپ ابھی اپنی اپنی ایجاد کردہ صنف کے تعلق سے کچھ بتا رہے تھے؟
تینوں ایک زبان میں گویا ہوئے، بچوں کے لیے لکھے گئے افسانچوں کو….. اتنا کہہ کر وہ رک گئے اور ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔
میں نے کہا، اچھا اچھا… میں سمجھ گیا، بچوں کے لیے لکھے جانے والے افسانچوں کو آپ طفلانچہ، آپ بچکانچہ اور آپ افسانچہء اطفال کا نام دے رہے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ معاملہ موجد بننے کا ہے۔ ایک ہی صنف کو آپ تین لوگوں نے ایجاد کیا ہے اور اسے الگ الگ نام دیا ہے۔ اب آپ کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ اس صنف کا موجد کون ہے؟
میں مانتا ہوں بچوں کے لیے لکھی جانے والی کہانی چاہے مختصر ہو یا طویل وہ بچوں کی کہانی ہی کہلائے گی۔ اسے الگ سے کوئی نیا نام دینے کی ضرورت کیا ہے؟ یہ نئی صنف کیسے ہوئی؟ کیا نیا نام دے دینے سے یہ نئی صنف ہو جائے گی!!! اس طرح تو بے چارا افسانچہ بہت سارے حصوں میں تقسیم ہو کر رہ جائے گا اور افسانچہ بھی مسلمانوں کی طرح مختلف مسلکوں میں بٹ جائے گا۔
اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو عورتوں کے لیے لکھا جانے والا افسانچہ ’زنانچہ‘ کہلائے گا، بوڑھوں اور مُردوں کے لیے لکھا جانے والا افسانچہ بالترتیب بوڑھانچہ اور مُردانچہ کہلائے گا۔ اور جس افسانچے میں غلام کا ذکر ہو وہ غلامچہ، جس میں بندوق کا ذکر ہو وہ طمنچہ، جس میں تھال کا ذکر ہو وہ خوانچہ، جس میں کسی کو تھپڑ مارا گیا ہو وہ طمانچہ، اور جس میں کسی بند کلی کا ذکر ہو وہ غنچہ کہلائے گا۔ پھر آپ ہی سوچیے کہ اس طرح افسانچے کی صورت کیا سے کیا ہو جائے گی۔
کسی صنف کو ایجاد کرنا اور اس کا موجد بننا بری بات نہیں ہے لیکن تم لوگ ایک ہی صنف کو کتنی بار ایجاد کرو گے۔ ایک صنف ایک بار ہی جنم لیتی ہے اور اس کا موجد ایک ہی ہوتا ہے۔ تو پھر یہ تماشا کیا ہے؟
جس پودے کو آپ مسلسل پانی اور کھاد دیتے رہے وہ پودا اب ایک تناور درخت بن رہا ہے اور آپ لوگ موجد بننے کے چکر میں پڑ کر اپنے مقصد سے بھٹک رہے ہیں… اس بات کا مجھے بے حد افسوس ہے۔
میں نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے سبھی موجدان سے کہا، دیکھیے وہ بے چارا افسانچہ ایک کونے میں سہما ہوا کھڑا ہے۔ وہ ایک ننھی سی صنف ہے جو بڑی معصوم ہے۔ اس کا حال اس نو مسلم کی طرح ہو گیا ہے، جو اسلام سے متاثر ہو کر مسلمان تو بن گیا ہے لیکن بہتّر فرقوں میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ جائیے اور اس کا ہاتھ تھام لیجیے۔

���
نندورا ،مہاراشٹرا
موبائل نمبر؛8275047415