ملت کی دختران میں ارتداد کا رجحان۔ذمہ دار کون؟ حال احوال

جاوید اختر بھارتی

آخر کب تک ہم خواب غفلت میں پڑے رہیں گے۔ دن بدن ناقص رسم و رواج کو بڑھاتے رہیں گے، شادی بیاہ کو مشکل ترین بناتے رہیں گے، جہیز کے مطالبات کرتے رہیں، لڑکیوں کے رشتے میں چھان بین اور باریک بینی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے، زر و زمین پر نظر دوڑاتے رہیں گے، نکاح کو صرف شادی کارڈ پر مسنون لکھ کر اس کی دھجیاں اڑاتے رہیں گے، سنت پر عمل کرنے سے کب تک منہ موڑتے رہیں۔ یاد رکھیں! یہ ساری باتیں دین سے دوری اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہونے کے زمرے میں آتی ہیں اور ساتھ ہی ان خرافات کو بڑھاوا دینا ارتداد کی راہ میں ایندھن ہے اور آج نتیجہ سامنے ہے۔
سوشل میڈیا پر اور اخباروں کے صفحات پر برابر ایسی خبریں نظروں سے گزر تی ہیں کہ آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور جسم کانپ اٹھتا ہے دل و دماغ پر عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ ایک باپ کی پگڑی کیسے اچھلنے لگی اور گھر کیسے ماتم کدہ بننے لگا ،ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اچانک ناگہانی حادثات ہوتے ہیں ،گھر کا کوئی فرد موت کی آغوش میں سما جاتاہے تب گھر ماتم کدہ میں تبدیل ہوجاتا ہے، مگر آجکل تو جیتے جی ایسا منظر پیش آنے لگا۔ ماں باپ کتنے لاڈ پیار سے اولاد کی پرورش کرتے ہیں، بیٹے اور بیٹیوں کو نور نظر و لخت جگر کہتے ہیں ایک باپ فقیر ہوکر بھی بیٹے کے لئے بادشاہت کا خواب دیکھتا ہے، بیٹی ہے تو اس کے لئے اچھا رشتہ تلاش کرتا ہے اور جب بیٹی کی وداعی ہوتی ہے تو باپ کہتاہے کہ اے میری دختر جان شرافت دُکھ سہنے کی ہمت کرنا، اپنے بڑوں کی عزت کرنا، ساس کی بیٹی بن کر رہنا، ان کی سننا اور اپنی کہنا،ماں کہتی ہے کان میں آکر، روئی کھوئی شکل بناکر، آنکھوں سے آنسو بہا کر، بیٹی یہ ہے وقت جدائی، تو تو ہوئی ہے آج پرائی، میں نے تجھے نازوں سے پالا، تو ہے میری آنکھوں کا اجالا، دیکھ چھانے لگا گھر میں اندھیرا، چھوٹ رہا ہے آنکھوں کا تارا، خوشیوں میں پوشیدہ غم ہیں، دودھ کی میرے تجھ کو قسم ہے، آبرو دنیا میں رہ جائے، کوئی نہ تجھ پہ انگلی اٹھائے۔ پھر باپ لڑکھڑاتے ہوئے اور آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے قدم بڑھاتا ہے اور بیٹی سے لپٹ کر کہتاہے۔ لے کے چلا کوئی باپ کی لاٹھی اور ماں کے گلے کا ہار۔ بیٹی وہ دیکھ ڈولی ہے تیار بیٹی وہ دیکھ ڈولی ہے تیار۔ تجھے شوہر کی خدمت کرنا ہے، بیٹی آج سے تیرے نام کے ساتھ میرا نام نہیں بلکہ تیرے شوہر کا نام ہوگا، اب ولدیت نہیں بلکہ زوجیت لکھی جائے گی، تیرے جنم کے ساتھی ہم تھے اور تیرے کرم کا ساتھی تیرا شوہر اور تیری سسرال والے ہیں، بیٹی یہی قانون قدرت ہے۔ ڈولی کہیں سے اٹھتی ہے تو ارتھی کہیں سے اٹھتی ہے، بیٹی تو جس گھر میں پیدا ہوئی ہے اب اسی گھر میں آئے گی تو مہمان کہلائے گی اور اب تیرا باپ بھی تیرے گھر جائے گا تو مہمان کہلائے گا۔ بیٹی یاد رکھنا شوہر کا وہ مقام ہے کہ اتفاقاً باپ اور شوہر ایک ساتھ پانی مانگ دیں تو باپ سے پہلے شوہر کی خدمت میں پانی پیش کرنے کا حکم ہے۔ جا بیٹی جا تیرا گھر آباد رہے ، تیری خوشیاں آباد رہے۔ واقعی جب قاضی نکاح کے لئے لڑکی سے اجازت لینے جاتا ہے تو وہ عجیب منظر ہوتاہے نکاح کی اجازت دیتے ہوئے لڑکی کا وجود کانپ جاتا ہے، پورا جسم لرزہ براندام ہوجاتا ہے اور اسے یقین ہوجاتا ہے کہ بس اب میرے نام کے آگے آج سے میرے باپ کا نام ختم۔ آج سے بنت فلاں نہیں بلکہ زوجہ فلاں لکھنے کا سلسلہ شروع ہوگا، آج سے میرا سفر سسرال کے لئے ہوگا اور وہاں سے دوسرا سفر قبرستان کے لئے ہوگا۔ یقیناً بیٹی کی وداعی کا منظر بڑا غمناک ہو تا ہے اور یہی ہے قانون قدرت۔ کی پالے کوئی اور لے کوئی خدمت۔ پھر بھی نہ جانے کیسے آج ہماری ملت کی بیٹیوں کے قدم بہکنے لگے اور اپنے خاندان کی ناک کٹوانے لگیں اور بے شرمی و بے حیائی اور بے غیرتی یہاں تک پہنچ گئی کہ مرتد تک ہونے لگیں، ایک خدا کو ماننے والی منکر خدا سے شادیاں رچانے لگیں، دین و دنیا دونوں برباد کرنے لگیں، رب کے قرآن اور نبی کے فرمان سے منہ موڑنے لگیں، سیرت فاطمہ زہرا کو ٹھکرانے لگیں، کلمۂ حق کا انکار کرنے لگیں، بیٹیوں کے اندر اتنی ہمت کہاں سے آئی کہ گھر کی دہلیز کے باہر قدم نکالنے لگیں، باپ کی پگڑی کو روند نے لگیں، ماں کے دودھ اور اس کے ارمانوں کی دھجیاں اڑانےلگیں ، رب کے قرآن اور نبی کے فرمان سے رشتہ توڑنے لگیں، اپنے ہاتھوں کو کفر کے ہاتھوں میں دیکر ساتھ رہنے اور ساتھ جینے مرنے کا فیصلہ کرنے لگیں، اسلام کے شامیانے سے بغاوت کرنے لگیں۔ خود راقم الحروف کے علاقے میں ایسا واقعہ رونما ہوچکا ہے آج تو ماحول اتنا خراب ہوگیا کہ لوگوں کی زبان سے یہ دعا نکلنے لگی کہ ا ے اللہ بیٹی دینا تو دولت بھی دینا ،اے اللہ بیٹی دینا تو ہماری عزت کو سربازار نیلام ہونے سے بھی بچانا۔ لیکن کیا کبھی ہم نے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچا یا بس اس طرح کی خبریں اخبار میں پڑھا، چار دن تبصرہ کیا پھر ختم۔ یاد رکھنا اگر اس پر روک نہیں لگائی گئی تو آج جو ارتداد کا دھواں اٹھ رہا ہے جو کل شعلہ بن سکتاہے ،اس لئے معاشرے کی اصلاح ضروری ہے۔ مگر خود اپنے گھر سے اور مساجد سے یعنی گھر کا سرپرست اپنی ذمہ داری نبھائے اور ائمہ مساجد اپنی ذمہ داری نبھائے۔ خطبہ جمعہ میں بیٹیوں کو ارتداد سے روکنے کی اپیل کریں، نکاح و شادی کو آسان بنانے پر زور دیں، زیادہ سے زیادہ گاؤں میں ہی اپنی بیٹوں اور بیٹیوں کا رشتہ کریں اور ایک باپ جب اپنی بیٹی کا کہیں رشتہ طے نہیں کیا ہے تو بیٹی کے ہاتھوں میں موبائل کہاں سے آئی، ہر مہینے بیٹی کی موبائل میں ریچارج کہاں سے آتا ہے اور کیسے ہوتاہے، بیٹی کس سے گھنٹوں گھنٹوں بات کرتی ہے ،ان ساری حرکتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے میں جہیز ناسور ہے، مہنگی مہنگی شادیاں نکاح کو مشکل بنارہی ہیں اور زنا کو آسان بنا رہی ہیں ، زنا آج اتنا آسان ہو گیا کہ ہمارے دروازے پر دستک دینے لگا، دروازہ کھلنے بھی لگا نتیجہ یہ ہوا کہ کفر کا پنجہ ملت کی بیٹیوں کے گریبان تک پہنچ گیا۔ خدارا ہوش میں آئیں، تعلیم و تربیت پاکیزہ انداز میں کریں، صرف تعلیم سے مسلہ حل نہیں ہو گا کیونکہ علم کے میدان میں بھی عریانیت کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ یقیناً علم ایک سرمایہ ہے مگر یاد رکھیں علم دین عظیم سرمایہ ہے اور تربیت کا مقام یہ ہے کہ تعلیم میں کہیں سے کوئی کمی رہ گئی ہے تو تربیت سے بھرپائی کی جاسکتی ہے، لیکن تربیت میں کمی رہ گئی تو اسے تعلیم سے بھی نہیں سنوارا جاسکتا۔ اسی لئے مذہب اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر کام شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھو اور ظاہر بات ہے کہ کسی غلط کام کرنے کے لئے کسی کی ہمت نہیں ہے کہ بسم اللہ پڑھے ،یعنی بسم اللہ پڑھنے کے بعد ایک ایسی باؤنڈری میں بندہ آجاتاہے کہ جس باؤنڈری میں ظلم و زیادتی اور حق تلفی و ناانصافی کی گنجائش ہی نہیں ہوتی ،ورنہ علم کا استعمال تو جنگ و جدال میں بھی ہوتا ہے، جنگی ساز و سامان میں بھی ہوتا ہے، ایک دوسرے پر چڑھائی کرنے کے لئے بھی ہوتا ہے، ہیرو شیما اور ناگاساکی پر علم کا استعمال ہوا، پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بھی علم کا استعمال ہوا لیکن بسم اللہ میں اللہ کا نام آتا ہے اور جبریلِ امیں جب بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اقرأ تو آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور جب کہا کہ اقرأ باسم ربک الذی خلق تو رسول کائنات نے بھی وہی لفظ دہرایا، اس لئے پہلے صرف یہ کہا کہ پڑھو، اس لئے خاموش رہے اور جب دوسری تیسری بار کہا تو اس میں رب کا نام آگیا اور رب کا نام لے کر پڑھنے کا مطلب یہ ہوا کہ جنگ کے لئے دستہ روانہ کرتے وقت بھی تاکید فرماتے کہ خبردار کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھانا، کسی بوڑھے پر تلوار نہ چلانا، کوئی امان مانگے تو اس پر حملہ نہ کرنا، راستے میں کسی پر زور آزمائی نہ کرنا الغرض رب کا نام لے کر علم حاصل کرنا اور بغیر رب کا نام لئے تعلیم حاصل کرنے کے فرق کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے۔
ہمیں دختران اسلام کو تعلیم یافتہ بھی بنانا ہے مگر اس کے لئے پختہ عزم کے ساتھ انتظام بھی کرنے کی ضرورت ہے اس کے لئے ہمیں مدارس میں ان ساری تعلیمات کا انتظام کرنا ہوگا جو یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے ۔جب ہمارے مدارس میں وہ انتظامات ہوں گے تبھی دختران ملت کا تحفظ ہوگا اور تبھی مدارس سے گھر تک تربیت کا انداز و اثر یکساں ہوگا اور انہیں فاطمہ زہرا کے پردے اور دوپٹے کا تقدس سمجھ میں آئے گا، پھر ان کے قدموں میں لغزش نہیں آئے گی، انہیں دنیا کی حرص و ہوس اور لالچ کا جھانسا دینے میں کوئی کامیاب نہیں ہوگا کیونکہ وہ مذہب اسلام کی تعلیمات سے واقف ہوں گی۔
موبائل8299579972
[email protected]