معاشرے کو احسن العمل بننے کی اشدضرورت ترقی یافتہ معاشروں کی فکری جدوجہد ہمارے لئے چشم کُشا !

سید مصطفیٰ احمد ،بڈگام
ہندوستان سے شائع ہونے والے  ایک مؤقّر رسالے’’دی کاروان‘‘ میں جاپان کے بارے میں دلچسپ معلومات پر تبصرہ کیا گیا تھاکہ دوسری عالمی جنگ سے پہلے جاپان نے ملک کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرکے کس طرح ایک اعلیٰ مثال قائم کی اور Manufacturing sector کے علاوہ جاپان کے پالیسی سازوں نے انسانی سرمایہ کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔ سماج کی حقیقی ترقی کی خاطر انہوں نے زراعت، تعلیم، human development، روزگار، وغیرہ اہم ضروریاتِ زندگی کی چیزوں کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔ ان کے زیر نظر سماج کا وہ ڈھانچہ تھا جو پائیدار ہونے کے علاوہ با اصول اور لچک دار بھی ہو، ایسا سماج جو زندگی جینے کے لئے ایک انسان کو احسن العمل ہونے کی طرف مائل کرےاور اس قسم کا سماج قائم ہو، جس میں خوشیوں کے چشمے ہر سو پھوٹتے ہوں۔ اُن کے مطابق وہ ملک حقیقی ترقی کرسکتا ہے، جو ظاہر سے زیادہ باطنی اشیاء پر توجہ مرکوز رکھتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں جس ملک میں انسانی سرمایہ کو کُل سرمایہ مانا جاتا ہے، اُس ملک کی ترقی میں کوئی بھی رکاوٹ حائل نہیں ہوسکتی ہے۔ ہاں! اگر کبھی کبھار رکاوٹیں اگرکہیں سے دَر بھی آجائیں، تو اُس ملک کاسماج ان سے نپٹنا جانتے ہیں، چٹانوں سے لڑتے ہوئے وہ اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنے ملک  و معاشرےکے قواعد و قوانین اور اصول و ضوابط کے مطابق اپنی راہیں خود بنا لیتا ہے اور اُنہی راہوں کو ہم انسانی سرمایہ کی معراج کا نام دیتے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ایک عام سی دِکھنے والی قوم ترقی کے اونچے پائیدان پر پہنچ پر دُنیا پر راج کرنے کے علاوہ اپنے باشندوں کو خوشحال زندگی کے لئے ہر سامان کیسے مہیا کرتی ہیں۔ کچھ کا مختصر ذکر درج ذیل سطروں میں کیا جارہا ہے۔
        پہلی وجہ ہے تہذیب یافتہ قوم ہونے کی نشانی:۔ جاپان کے لوگ لفظی طور پر تہذیب یافتہ نہیں ہیں۔ اس کے باوجود وہ زندگی کے ہر معاملے میں عملی طور پر تہذیب کی معراج پر براجمان نظر آتے ہیں۔ وہ زندگی کو بالکل مختلف انداز سے جیتے ہیں۔ اُن کے مطابق اس فانی زندگی کا مطلب ہے کہ اس زندگی پر تہذیب کا ایسا رنگ چڑھایا جائےجو نہ صرف خود کے لئے بلکہ دیکھنے والوں کے لئے بھی دل کے سکون اور آنکھوں کے لئے باعث اطمینان ہو۔گویا اُن کے نزدیک جعلی رنگ و روغن اور مصنوعی دکھاوے سے بہتر ہے کہ تہذیبی اقدار کی نازک اور حساس پَرتیں ملک کے باشندوں پر چڑھائی جائے تاکہ ملک کی عظمت میں چار چاند لگے۔ دوسری وجہ ہے مقصد حیات:۔ ان کے یہاں جو کوئی مقصد ہے، اُس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے وہ  ہرجائز طریقے پر کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ وہ ہار سے کبھی بھی نہیں گھبراتے ہیں اور ناجائز اور غیر قانونی طریقوں سے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتے ہیں،یعنی ایک مقصد حیات ہے اور جینا مرنا بھی اسی مقصد کے لئے ہے۔ اس طرح قوموں کے اندر ڈسپلن آتا ہے اور بد تہذیبی سے ایک انسان دور رہتا ہے۔ تیسری وجہ ہے شعور زندگی:۔ جس ملک یا قوم میں شعور پایا جاتا ہے، وہ ملک کبھی غربت اور افسردگی کا شکار نہیں ہوسکتا ہے۔ شعور جوابدہی کا مادہ اپنے ساتھ لاتا ہے اور جوابدہی آگے چل کر راستے معین کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ جوابدہی کے دوسرے معنیٰ ہے، اپنا محاسبہ کرنا۔ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے سے بہتر ہے کہ انسان اپنی غلطی کو تسلیم کرے اور گزرے ہوئے دن سے بہتر بننے کی کوشش کرے۔ وہ قوم جو لاشعوری میں دوسروں پر اس لئے الزام لگاتی ہے تاکہ اپنی شکست کا ایک معقول جواب ڈھونڈے، اُس قوم کی ترقی کا خواب کبھی بھی پورا نہیں ہوسکتا ہے۔ وہ ہمیشہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہیں گے۔ چوتھی اور آخری وجہ ہے حقیقی علم یا تعلیم:۔ وہ ممالک جو اصل ترقی کی دوڑ میں سرپٹ دوڑتے ہیں، وہ حقیقی تعلیم سے بخوبی آشنا ہوتے ہیں۔ اُن کے یہاں تعلیم کا مقصد انسانی ترقی ہے اور انسانی ترقی کا راز حقیقی تعلیم میں ہی مضمر ہے۔ جاپان میں تعلیم کا اتنا اچھا معیار ہے کہ تعلیم زندگی کے ہر شعبے میں کام آتی ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر تعلیم روشن مشعل کا کام کرتی ہے اور اندھیروں کو کوسنے کے بجائے اُجالے کے سامان مہیا کرتی ہیں۔
  اب ذرا غور کریں۔کیا ہمارا رویہ اس سے سو فیصد مختلف نہیں ہے؟ ہمارا شیوہ ہے کہ ہر سطح پر اور ہر معاملے میںہم دوسروں کو مورد الزام ٹھہرا کر خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے زندگی بے راہ روی کا شکار ہوگئی ہے۔ اب اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم بھی باشعور اور باوقار زندگی گزاریں، تو ہم سب پر لازم ہے کہ انسانی سرمایہ کے تحفظ اور اسے سنوارنے اور سجانے کے لئے جتنا ممکن ہوسکے ،اپناعقل و شعور اور وقت صرف کریں۔ دوسرے الفاظ میں حکومت سے لے کر عام انسان تک ہر کسی کو human resources development پر کام کرنا ہوگا۔ چنانچہ ترقی یافتہ ملکوں و معاشروں کی فکری جدوجہد ہمارے لئے چشم کُشا ہے،جو ہمیں فکری اصلاح کی طرف متوجہ کررہی ہے اور اس بات کا احساس دلا رہی ہے کہاپنے عمل کو معیاری سمجھنا  نہ صرف بے وقوفی بلکہ منافقت کی علامت ہے،لہٰذا معاشرے کو احسن العمل بننے کی ضروت ہے۔
جیسے کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ ملک و معاشرے کےبنیادی ڈھانچے کی اصل بنیاد انسانی سرمایہ ہے۔ شاندار عمارتیں تب ہی قابل تعریف ہوسکتی ہیں، جب سارے انسان عقل اور ڈسپلن کی معراج تک پہنچ چکے ہوں، اُن میں محنت کرنے کا مادہ کوٹ کوٹ بھرا ہو۔ وہ کسی بڑے مقصد کے لئے جینا اور مرنا جانتے ہوں۔ تب جاکر اونچی عمارتوں اور رنگین پارکوں کی قدرو قیمت ہوگی۔ جب شاندار شاہراہوں پر جاہل اور کاہل لوگوں کی قطاریں دوڑ رہی ہو، تو اس قوم کا خدا ہی حافظ ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ہر آن بدلتی ہوئی اس تیز رفتار دنیا میں ہم اپنا محاسبہ کرتے ہوئے حقیقی ترقی کی طرف دوڑنا شروع کریں۔ Lime light سے دور ایک بیج کی طرح اپنا وقت زمین کی گہرائیوں میں گزار کر ایک تناور درخت کی شکل میں نکل کر آئیں تاکہ ہم کہہ سکیں کہ ہم نے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس کی دی ہوئی Intellectual faculties کو بروئے کار لاکر انسانی سرمایہ کی رفت و بودمیں اضافہ کیا۔ بہتر ہے کہ انسانی سرمایہ پر زیادہ سے زیادہ توجہ مرکوز کی جائےاور با اصول زندگی گذاری جائے۔