مسلمان اللہ کی نصرت و تائید سے محروم کیوں ؟ فکر انگیز

محمد امین اللہ
اللّٰہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے جس گروہ کو اپنی نصرت و تائید کا حقدار قرار دیا ہے، اسے اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن مقدس کی متعدد آیات میں بیان فرمایا دیا ہے ۔ ہر مسلمان پڑھا لکھا ، یا اَن پڑھ ، عالم، فاضل، مفتی و محدث اس بات سے واقف ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی 13 سالہ مکی زندگی سخت آزمائش و ابتلا کی زندگی تھی اور اصحابِ رسول ؐ بھی مشرکان مکہ کے جبر و ظلم کو نہایت صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کر رہے تھے ۔ لیکن پھر بھی بشری تقاضوں کی وجہ کبھی حزن و ملال کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی تو اللّٰہ تعالیٰ نے سورۃ المؤمنون میں فرمایا ، ’’ فلاح انہیں ملے گی جو مومن ہیں ۔‘‘سورۃ آل عمران میں آیت 139 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’نہ گھبراؤ نہ غم کرو تمہی کامیاب ہو گے اگر تم مومن ہو ۔‘‘
مکے کا سب سے دریدہ دہن مشرک امیہ بن خلف تھا، وہ آپ ؐ کو دیکھتے ہی بے اولاد ہونے کا طعنہ دیا کرتا تھا ۔ آپؐ جب گھر سے نکلتے تو یہ دعا کر کے نکلتے کہ اے اللہ امیہ بن خلف سے میرا سامنا نہ ہو ۔ اللّٰہ تعالیٰ کو اپنے محبوبؐ کی یہ حالت دیکھی نہیں گئی، تو اللّٰہ تعالیٰ نے خوش خبری والی سورت سورۃ ا لکوثر نازل فرمائی ۔ ’’آپ پر ہم نے خیر کثیر ( کوثر) نازل فرمایا ۔ نماز قائم کریں اور اللّٰہ کے راستے میں قربانی دیں ۔ بے شک آپ کا دشمن دم کٹا ( نا بود) ہو جائے گا ۔ ‘‘
بےشک اللہ کی نصرت و تائید قرآن مقدس ، نماز کے قیام اور قربانی سے مشروط ہے ۔ سورۃ البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ایمان والو صبر اور نماز سے مدد طلب کرو ۔ اللّٰہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔‘‘صبر کے معنی ڈٹ جانا ، دکھ مصیبت ، پریشانی دشمن کی جارحیت ، جان ومال و فصل کے نقصانات کو برداشت کرنا اور اپنے اصولوں پر سودہ نہ کرنا ، خوف و خطر ، لالچ و ترغیب کسی حال میں بھی ایمان و اصول کا سودا نہ کرنا ۔ جبر کا مقابلہ صبر سے ہی کیا جا سکتا ہے ۔اگلی آیت میں ارشاد ہے: صبر کرنے والوں کو اللّٰہ کی جانب سے بشارت ہے جو مصیبت اور جان و مال کے نقصانات پر قالو ان للہ و ان الیہ راجعون کہہ کر صبر کر تے ہیں ۔
سورۃ ح م سجدہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ بےشک جنہوں نے کہا اللّٰہ ہمارا رب ہے اور اس پر مستقم رہے تو فرشتے ان پر اُترتے ہیں اور کہتے ہیں نہ خوف کرو نہ غم کرو اور اس جنت کی بشارت سنو ،جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ، ہم دنیا اور آخرت میں تمہارا ولی اور مددگار ہیں ۔ جنت میں ہر وہ چیز ہے جو تم خواہش کرو گے یہ تمہارے رب کی طرف سے ضیافت ہے ۔‘‘
 اللّٰہ کے رسولؐ نے فرمایا ، نماز مومن کی معراج ہے ، جنت کی کنجی ہے ، میرے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔سورۃ العنکبوت میں ارشاد الٰہی ہے :’’بےشک نماز تمام فواحش اور منکرات سے روک دیتی ہے ۔‘‘
حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا کہ اللّٰہ کے رسولؐ کو جب کوئی سخت مرحلہ درپیش ہوتا، آپؐ نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے ۔( ابو داؤد )نماز مومن کی ڈھال ہے ۔ قرب الہٰی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا،’’ جب میری خواہش ہوتی ہے کہ اللّٰہ مجھ سے بات کرے ،تو میں قرآن پڑھنے لگتا ہوں اور جب یہ خواہش ہوتی ہے کہ میں اللّٰہ سے بات کروں تو میں نماز میں کھڑا ہو جاتا ہوں ۔‘‘ نماز اتحاد بین المسلمین اور اخوت و مساوات کی پہچان ہے ۔مومن وہ ہے جو اپنی نمازیں خشیت الٰہی کے ساتھ ادا کرتے ہیں ۔( سورہ المومنون )نماز کفر اور شرک کے درمیان کی دیوار ہے۔
آج عالمی سطح پر انسانوں کو یہی دو خطرات لاحق ہیں بھوک اور خوف، اگر اس سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہو تو رب کعبہ کی عبادت کرو ۔ ایک ہدایت یافتہ انسان با بصیرت ، معاملہ فہم ، جری اور با اخلاق ہوتا ہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے نبی رحمتؐ کو جامعیت اور دین مبین کے اکملیت کے ساتھ مبعوث فرمایا اور قرآن مقدس و آخری کتاب ہے جو آخر الزماں حضرت محمدؐ پر نازل فرمائی ۔ اگر کوئی بھی صاحب ایمان ہدایت کا طلبگار ہے ،اسے اس کتاب پر ہی عمل کرکے نصیب ہوگی ۔ حکم ربانی ہے :’’ ایمان والو اللّٰہ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ کرنے کا حکم ہے اور تم کو موت نہ آئے کہ تم مومن ہو ۔‘‘(  آل عمران )
 ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’بھلائی اس کو نصیب ہوئی جس نے پاکیزگی کو اپنایا اور رب کا ذکر بلند کیا اور نماز قائم کی ۔‘‘(سورۃ اعلیٰ)اس کے علاوہ قرآن مجید میں دنیا و آخرت میں کامیابی اہل تقویٰ ہی قرار دیئے گئے ہیں ۔ منتشر ، متفرق اور باہم دست و گریباں کوئی بھی قوم اپنی آزادی ، اپنے ملک اور اپنے دین کی حفاظت نہیں کر سکتی ۔ قرآن مجید میں ارشادِربانی ہے :’’ اللّٰہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ بازی نہ کرو ۔‘‘( سورۃ آل عمران )آج دنیا کے 57 آزاد ممالک مسلمانوں کے ہیں مگر عالمی بساط پر ان کی حیثیت ایک ٹھکرائی ہوئی قوم سے بد تر ہے۔
دو ہجری میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے ، تحویل قبلہ کی آیت نازل ہوئی اور مسلمان اللّٰہ کے رسولؐ کی امامت میں مسجد قبلتین میں اپنا رُخ مسجد اقصیٰ سے خانہ کعبہ کی طرف موڑ لئے گویا بنی اسرائیل سے امامت بنی اسماعیل کو منتقل ہو گئی ۔ اسی دو ہجری میں جہاد فرض ہوا ۔
اسلام دشمن قوتوں نے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کو جو بے عمل دانشور بھی ہیں اور ایک دنیا کی سب سے بڑی دینی جمات میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ جہاد نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی طرح رُکنِ اسلام نہیں ۔ جس کو ترک کرنے کے بعد مسلمانوں کی یہ ذلت ورسوائی مقدر بن چکی ہے ۔ یہی وہ شیطانی حربہ ہے کہ مسلمان آج موت سے ڈر رہا ہے اور دنیا سے محبت میں مبتلا ہے ۔ جس طرح روزے کی فرضیت کتب علیکم الصیام سے شروع ہے، اسی طرح سورہ البقرہ کی آیت 216 کتب علیکم القتال سے شروع ہے۔ ارشاد ِ ربانی  ہے : ’’اے لوگو تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے اور وہ تم پر طبعاً ناپسند معلوم ہوتا ہے اور یہ بات ممکن ہے کہ تم کسی امر کو ناپسند کرو، وہ تمہارے حق میں خیر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی امر کو بہتر سمجھو اور وہ تمہارے حق میں باعث خرابی ہو ، اور اللّٰہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔‘‘
سورۃ ا لنساء آیات 75۔ 76 میں ارشاد ِ الٰہی ہے :’’ اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم ان بےبس مردوں ،عورتوں اور بچوں کے لئے اللّٰہ کے راستے میں جہاد نہیں کرتے جو پکار رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں ان ظالموں کی بستی سے نکال اور اپنی جانب سے کسی ولی اور مددگار کو بھیج ۔ ایمان والے اللّٰہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں جبکہ کافر طاغوت کے لئے قتال کرتے ہیں ، پس تم شیطانی گروہوں سے قتال کرو اور شیطان کی ہر چال ضعیف ہے ۔‘‘دراصل جب سے مسلمانوں نے جہاد کا راستہ ترک کیا آج تک ذلت ورسوائی مقدر ہے ۔ مجھے کوئی دانشور ، فلسفی، مورخ کیا یہ بتا سکتا ہے کہ مسلمانوں کو عالمی طاغوت نے عسکری جارحیت کے سوا کس ذریعے سے غلام بنایا ۔ ترک خلافت کا خاتمہ ، مغلیہ سلطنت کا زوال ، ہو یا وسط ایشیا کا سقوط کوئی ایسی مثال نہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی نصرت و تائید کا حقدار اس گروہ ایمان و قرار دیا جو صبر ، نماز ، تقویٰ ، اتحاد بین المسلمین اور جہاد کو اپنی زندگی کا مقصد بناتے ہیں ۔