مسلمانوں کی تعلیمی پستی اور درماندگی فکروادراک

عبدالعزیز
گزشتہ مردم شماری کی جو رپورٹ اخبارات میں شائع ہوئی ہے اسے پڑھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ رپورٹ میں دکھایا گیا ہے کہ ناخواندگی میں سب سے پیچھے مسلمان ہیں۔42.7 فیصد اب بھی مسلمانوں میں اَن پڑھ اور جاہل ہیں۔ جس مذہب یا دین میں تعلیم سیکھنے اور سکھانے کو فرض قرار دیا گیا ہو اور تعلیم کی اہمیت اور افادیت پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہو، اس مذہب اور ملت کے بچے دوسری قوموں اور ملتوں کے مقابلے میں سب سے پیچھے ہوں ، کس قدر تعجب اور حیرت کی بات ہے۔ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ لوگوں نے ملت کے بچوں کے سرپرستوں اور ماں باپ کو تعلیم کی طرف توجہ نہیں دلائی ہے۔ سرسید احمد سے پہلے اور ان کے بعد بھی اور آج تک یہ کام کسی نہ کسی سطح اور پیمانے پر جاری ہے مگر نیند اتنی گہری ہے کہ بیدار ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ غفلت اور لاپرواہی کی ایسی بیماری نے پکڑ لی ہے جو علاج کے باوجود ناسور بنی ہوئی ہے۔ جو لوگ یا گارجین یہ کہتے ہیں کہ تعلیم قسمت کی بات ہے، وہ اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی دھوکے میں رکھتے ہیں ، اسے آنکھ والا بنانے کے بجائے اندھا بنائے رکھنے پر مطمئن ہوتے ہیں۔ قسمت کے بارے میں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے، ہر فرد اور ہر شخص کے ہاتھ میں صرف کوشش اور دوڑ دھوپ ہے۔ ترقی اور کامیابی کی منزلوں پر اللہ تعالیٰ پہنچانے والا ہے مگر جو محنت سے جی چرائے گا، کاہلی، سستی اور آرام طلبی کا مظاہرہ کرے گا تو قدرت کی مشیت یا سنت یہ نہیں ہے کہ محنت کرنے والا پیچھے رہے گا اور جو محنت نہیں کرتا ہے ،وہ آگے ہوجائے گا۔ قسمت یقینا ًاللہ کے ہاتھ میں ہے۔ قسمت کے بارے میں علامہ اقبالؒ نے سچ کہا ہے ؎
اک آن میں سو بار بدل جاتی ہے تقدیر
ہے اس کا مقلد کبھی خورسند کبھی ناخوش
تقدیر کو بہانہ بناکر اپنے آپ کو دھوکہ دینا اور اپنے بچون کو جاہل مطلق رکھنا ایسا جرم اور گناہ ہے جو قابل سزا ہے جسے اللہ تعالیٰ ہر گز معاف نہیں کرے گا۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ معاشی طور پر بدحال ہیں اور پست ہیں وہ پڑھائی لکھائی کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ میرے خیال سے وہ بھی اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں، ایسی مثالیں بے شمار ہیں۔ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں میں جو معمولی درجے کا کام کرتے ہیں۔ قلی تھے، رکشا چلاتے تھے یا فٹ پاتھ پر یا کوئی اور چیز بیچتے تھے مگر وہ اپنے بچوں کو ڈاکٹر اور انجینئر بنانے کا عزم رکھتے تھے، وہ کامیاب ہوئے، ان کی محنت مسلسل اور کوشش پیہم نے بچے کو اعلیٰ تعلیم دلانے میں کامیاب ہوئی اور جس سے پسماندہ خاندان کا چہرہ بالکل بدل گیا۔ ایسے بھی بے شمار لوگ ہیں جو پیسے والے ہیں جن کی تجوری میں پیسے بھرے ہیں مگر وہ اپنے بچوں کو اپنی یا اپنے بچے کی نالائقی کی وجہ سے پڑھا لکھا نہ سکے اور بچوں کے ان پڑھ اور جاہل ہونے کی وجہ سے ان کے مرتے ہی خاندان پسماندگی کا شکار ہوگیا۔ آج کل مسلمانوں کے بہت سے ایسے ادارے ہیں جو طالب علموں کو ہر طرح سے مالی امداد دینے کیلئے تیار ہیں۔ ہر شہر اور قریہ میں یہ چیز دیکھنے میں آرہی ہے۔ اگر کوئی حرکت ہی نہیں کرے گا تو اس کی کوئی مدد کون کرسکتا ہے؟ ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کے جو تعلیمی ادارے ہیں ان کا معیار پست ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اساتذہ بالکل لاپرواہ ہوتے ہیں۔ ٹھیک سے اپنے فرائض ادا نہیں کرتے اور دوسری بات یہ ہے کہ گارجین کی بھی لاپرواہی ہوتی ہے۔ وہ اسکول کی انتظامیہ اور ٹیچروں سے مل کر اسکول کو بہتر اور معیاری بنانے کی کوشش نہیں کرتے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ بہت سے لوگ اصلاح اور آگاہی کا کام شروع کرتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ جماعت یا ملت بے سدھ پڑی ہے، کروٹ نہیں لیتی تو مایوس ہوکر کنارہ کش ہوجاتے ہیں اور عافیت اس میں دیکھتے ہیں کہ زندگی کے جو دن ہاتھ میں ہیں ،انھیں گھر پر سر چھپاکر اپنے پیدا کرنے والے کی عبادت میں صرف کردیں ۔ وہ شاید بھول گئے ہیں کہ خدا کی مخلوق کی خدمت بھی عبادت سے کم نہیں۔ انھیں حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے۔ انھیں حوصلہ اور اور کوشش کا صلہ ضرور ملے گا۔ علامہ اقبال نے کوشش ہی کو زندگی کہا ہے ؎
راز حیات پوچھ لے خضر خستہ گام سے
زندہ ہر ایک چیز ہے کوشش ناتمام سے
ملت کے بچوں میں ڈراپ آؤٹ دوسری قوموں اور ملتوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی خاص وجہ ہے گارجین کی لاپرواہی اور آرام طلبی ہے، وہ بچوں پر نظر نہیں رکھتے۔ اسکول کی انتظامیہ، سرمایہ کی فراہمی، اسکول کی عدم کارکردگی، اساتذہ کی عدم دلچسپی، اسکول کا غیر تعلیمی ماحول، تعلیم گاہوں میں بنیادی ضرورتوں کی عدم فراہمی، کلاسوںمیں طلبہ کا ہجوم یا بچوں کی لاپرواہی اور والدین کی عدم دلچسپی پست معیار تعلیم کی وجوہات ہیں۔ یہ سب عوامل دور ہوسکتے ہیں۔ اگر ماں باپ یا گارجین بیدار ہوجائیں، اپنے بچوں سے لاپرواہ نہ ہوں۔ ان کی ہر روز نگرانی کریںوہ کیا پڑھ رہے ہیں کیا نہیں پڑھ رہے ہیں؟ اپنی توجہ مرکوز کرلیں تھوڑا سا وقت بچوں کیلئے صرف کریں تو بچوں کی کایا پلٹ سکتی ہے اور بچے پڑھنے لکھنے میں توجہ دے سکتے ہیں، دلچسپی سے پڑھ سکتے ہیں۔ ان میں مقابلہ اور مسابقت کا جذبہ پیدا ہوسکتا ہے۔
موبائل: 9831439068
[email protected]