مذہبی دوریاں مٹانا ضروری ہے یا مسلکی؟ لمحہ ٔ فِکریہ

جاوید اختر بھارتی

آج چاہے بین الاقوامی سطح پر دیکھا جائے یا قومی سطح پر مسلمان منتشر ہی نظر آتا ہے اور اس کی پہچان دینی، مسلکی، سیاسی اور سماجی اعتبار سے دن پر دن دھندلی ہوتی جارہی ہے اور یہ صد فیصد حقیقت ہے کہ جو قوم اپنے اسلاف اور اپنی تاریخ کو بھلا دے، وہ قوم حاشیے پر پہنچ جاتی ہے اور احساس کمتری کا شکار ہو کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے معجزات کا انتظار کرتی ہے۔ آج مسلمانوں کو دیکھا جائے تو سب سے پہلے یہ دین سے دور ہوگئے ۔مسلمان جب تک دین پر عمل پیرا تھے تو کامیاب تھے، سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو آدھی دنیا پر خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق ؓکی حکومت تھی اور یہودیوں کویہ تشویش لاحق ہونے لگی تھی کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو جائے گی ۔حضرت عمر فاروقؓ کا انتقال ہوا تو یہودیوں نے کہہ دیا کہ عمر دس سال اور زندہ رہ گئے ہوتے تو یقیناً پوری دنیا پر مسلمانوں کی حکومت ہوجاتی۔ آج وہی قوم دین سے دور ہوگئی، سیاست سے بھی دور ہو گئی۔ سیاسی اور سماجی میدان میں اپنی پہچان کھو بیٹھی ہے۔ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑ نے کے بجائے مکتب فکر کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑ لیا نتیجہ یہ ہوا کہ خانوں اور فرقوں میںبٹ گئی۔
کل تک جو قوم کلمہ حق کی بنیاد پر متحد تھی آج مسلک کی بنیاد پر منتشر ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں سیاسی پہچان بنانا بہت آسان ہے، تقریر و تحریر، دعوت و تبلیغ، مدارس و مساجد کی تعمیر سب کچھ کی اجازت ہے، ایسے ملک میں بھی یہ قوم آج ہر سہولیات سے محروم ہونے لگی۔ خود کامیابی حاصل کرنے کے بجائے دوسروں کو ہرانے جتانے میں لگ گئی، ڈر اور دہشت کا شکار ہو گئی، چاپلوسی اور چمچہ گیری کا راستہ اختیار کرلیا، مسلکی شدت کو فروغ دیا، خاندانوں اور رشتہ داریوں میں دراڑیں پڑ گئیں ،اس کا فائدہ دوسری قوموں نے اٹھانا شروع کر دیا پھر بھی ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دائرہ اسلام سے باہر کرنے سے باز نہیں آیا۔ مذہبی اختلافات کو منظر عام پر لانے سے باز نہیں آیا ۔مدارس تو قائم کئے لیکن دین کو فروغ دینے کے بجائے مسلک اور فرقوں کو فروغ دیا۔ کچھ لوگوں نے رات میں نذرانے والا تو دن میں ٹھگنے والا کام کیا۔ ہندوستان میں آزادی کے بعد سے اب تک جب جب بھی اپنی شناخت قائم کرنے کا موقع آیا تو کچھ نام نہاد قسم کے مسلم سیاسی رہنماؤں نےنجی مفادات کے لئے کبھی آر ایس ایس سے ڈرایا ،کبھی ہندو مہا سبھا سے ڈرایا اور خودخفیہ طریقے سے کبھی کانگریس کا دامن تھاما، تو کبھی کسی اور کا دامن تھاما۔ لیکن قوم کے روشن مستقبل کے لئے نیک نیتی کے ساتھ مسلمانوں کا سیاسی اتحاد قائم نہیں کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کا مسلمانوں کے تئیں اختلافات شدید سے شدید تر ہوتے چلے گئے۔ مسجد کے نام پر جھگڑا، مدرسے کے نام پر جھگڑا، خانقاہوں کے نام پر جھگڑا، جلسہ و جلوس کے نام پر جھگڑا، دیوبندیت اور بریلیت کے نام پر جھگڑا، تقلید و غیر تقلید کے نام پر جھگڑا، عبادت کے طریقوں کے نام پر جھگڑا ، ذات برادری کا جھگڑا ، اونچ نیچ کا جھگڑا، حسب نسب کا جھگڑا ۔جبکہ حجتہ الوداع کے موقع پر ان سب کے خاتمے کا اعلان کردیا گیا ہے اور واضح طور پر فرمادیا گیا کہ مذہب اسلام کے اندر کسی کو فوقیت و برتری حاصل ہے تو صرف تقویٰ کی بنیاد پر حاصل ہے۔ لیکن اس کے باوجودآج ایک مضبوط قوم دُھنی ہوئی روئی کی طرح اُڑنےلگی ہے۔
کوئی پارٹی کامیابی کے بعد اکثر بی جے پی کے قریب ہوتی رہی تو کوئی پارٹی کامیابی کے بعد مسلمانوں کے ہاتھوں میں جھنجھنا تھماتی رہی۔مختلف موقعوں پر سیکولر پارٹیوں نے منافقانہ کردار ادا کیا اور ہمارے کچھ مسلم سیاسی رہنماؤں نے بھی مسلمانوں کوبی جے پی سے خوب ڈرایا اور ذاتی مفاد میں قوم کو سکوں کے طور پر خوب بھنایا اور حال ہی میں تو چاپلوسی کی ساری حدیں پار کر گئے۔ مختلف مقامات پر ایسے ایسے کام کئے گئے کہ یوں احساس ہونے لگا کہ یہ لوگ اگر موسیٰ علیہ السلام کے دور میں ہوتے تو شاید فرعون کو بچانے کے لئے دریائے نیل میں بھی کود جاتے اور کہتے کہ یہی اصل انسانیت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کچھ لوگ پارلیمنٹ میں رہنے کے بعد اب باہر رہ کے کرسی کے لیے بیتاب ہیں تو دوسری جانب کچھ شخصیات آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کرنے اور مساجد و مدارس میں تفریح کرانے میں لگی ہیں۔ آر ایس ایس سربراہ نے کوئی بیان ابھی دیا بھی نہیں اور یہ لوگ کہنے لگے کہ آر ایس ایس کا نظریہ اب بدل گیا ہے۔ کیا یہ چاپلوسی اور گمراہ کن بات نہیں ہے؟اب کچھ لوگ یہ کہنے لگے کہ اس ملاقات پر سیاست نہیں ہونی چاہیے ،آخر ملاقات ہی تو ہے۔ تو اس ملاقات کو منظر عام پر کیوں لایا گیا اور اب لوگ سوال کر رہے ہیں کہ ملاقات میں کیا ہوا، دین کی دعوت دی گئی یا کوئی سیاسی معاہدہ کیا گیا، اگر سیاسی گفتگو کرنی تھی تومدارس کے سروے پر بھاگوت سے بات کیوں نہیں کی گئی اور ان کا موقف کیوں نہیں جاننے کی کوشش کی گئی تو جواب کچھ نہیں دیا جارہا ہے، البتہ بچاؤ میں کہا جارہا ہے کہ بین المذاہب اتحاد کی ضرورت ہے۔
ارے پہلے بین المسالک اتحاد تو قائم کرو ،اس کے بعد بین المذاہب اتحاد کی بات کرنا۔ یہاں تو خود ہی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنی ہوئی ہیں اور احناف، اہلحدیث، اہلسنت جیسی عبارتوں سے سجائی گئ ہیں۔مساجد و مدارس کو تو مسلکی رنگ ضرور دیاگیا مگر اپنے کاروبار کو مسلکی رنگ سے دور رکھا گیا۔ کہیں اہلحدیث کلاتھ اسٹور نہیں، دیوبندی میڈیکل اسٹور نہیں، بریلوی جنرل اسٹور نہیں۔ ان ناموں سے کہیں کوئی ڈھابہ نہیں، کوئی سیلون نہیں، کوئی ہوٹل نہیں، پھل فروٹ ، سبزی منڈی بھی ان ناموں سے نہیں اور کسی نے اپنی دکان پر ایسا بورڈ بھی نہیں لگایا کہ وہ جس مسلک کا ماننے والا ہوتو دوسرے مسلک کے لوگوں کے لئے اس کی دکان پر آنا جانا ممنوع ہو۔ یعنی کسی مسلک کے ماننے والوں کے لئے کوئی پابندی نہیں، جس کا جی چاہے آئے اور پھل فروٹ، سبزی، دوا، کپڑا اور ضروریات زندگی و ضروریات پیٹ کے لئے دیگر کوئی بھی سامان خریدے کوئی بات نہیں۔ بس پابندی ہے مدارس میں اور بالخصوص اللہ کے گھر یعنی مسجد میں۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ دین کے معاملے میں انتشار و افتراق اور پیٹ کے معاملے میں اتفاق یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے۔
اپنا سارا اختلاف برقرار رکھتے ہوئے بین المذاہب اتحاد کی بات پوری طرح مضحکہ خیزہے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ بلا تفریق مکتب فکر کی بنیاد پر اتحاد قائم کیا جاتا جب سارے لوگ متفق و متحد ہو کر ایک اسٹج پر آتے تو اس کے بعد آر ایس ایس سربراہ کو بلاتے، اُن کے سامنے اپنا موقف پیش کرتے۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کے ماحول میں مذہبی دوری مٹانا ضروری ہے یا مسلکی دوری ؟ کچھ باتیں تلخ ضرور ہیں جس کے لئے گستاخی معاف۔
[email protected]