’’مدتوں بعد‘‘ اور ’’دو گھنٹے کی محبت‘‘ کے آئینے میں عظیم انصاریؔ

ڈاکٹر مختار احمد فردین

اس قلمی دنیا میں ہم اپنے ادبی و قلبی دوست عظیم انصاری کا ان کے ہی شعر سے استقبال کرتے ہیں:؎
گفتگو کرتا ہے وہ شخص تو یہ لگتا ہے
دل کے جھرنے سے ترنم کی کوئی دھار گرے
قابل ِ ذکر و فکر اور نظریے کے اعتبار سے مجھے متذکرہ شخص بہت پسند ہیں اور انکی شخصیت پر مثبت انداز سے قلم اٹھاتے ہوئے یا کچھ لمحے کے لیے انکی زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے اس لیے خوشی ہو رہی ہے کہ اب آج کے بعد ہمارے Good Book of Friend List میں شامل ہو جائیں گے اور اس عظیم شخصیت کا اصل نام محمد عظیم ؔ انصاری ہے ،جب کہ اپنے قلمی نام عظیم ؔ انصاری صاحب کے نام سے اردو دنیائے ادب میں اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں اور قابلِ ستائش بات ان کے تعلق سے یہ ہے کہ آپ کی ترجمہ نگاری اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ آ پ کو بیک وقت کئی زبانوں پر دسترس حاصل ہےاور مصنف قابل ِ قدر کسی زمانے میں باوقار سمجھے جاتے تھے اور جاتے ہیں ،آج بھی جسے کئی زبانوں پر عبور حاصل ہو، جسے مادری زبان وادب پر دسترس حاصل ہوتا ہے۔ وہ آسانی سے اور زبانوں کو بھی اپنی شیریں زباں کی خصوصیت سے ترجمہ نگاری کو ایک نئی زندگی اسطرح سے پیش کرتے ہیں:
’’اصل کہانی کار بھی خود پر رشک کرنے کے ساتھ انکے ہاتھوں اور قلم کو چومنا پسند کرتا ہے اور یہ سب مصنف کی بولتی تحریروں سے مطالعہ کرتے ہوئے قارئین اپنی رائے قائم کرتے ہیںــ‘‘
یہاں آج میری تحریر میں عظیم ؔ انصاری صاحب کی دو کتابوں پر تاثرات مقصود ہے۔ پہلی کتاب’’ دو گھنٹے کی محبت‘‘، ایک اچھوتا نام ہے ۔ اس نام اور کتاب کے سرورق کو دیکھتے ہی بغیر مطالعہ کے آپ کے ذہن و دل پر نہ جانے کس کس گمان کے مقام سے آپ کی محبتوں کے حوالے کی ماضی ،حال اور مستقبل سے گذر ہوگا۔ ممکن ہے کہ آپ کی زندگی کا کوئی اٹوٹ حصہ اس سے جاملے، مگر خیالی خاکہ اور تصویر سے ندی کے اس کنارے سے جذبات کی وابستگی کو ہوڑہ برج کے اس کنارے پر واقع احساسات کو بتانے کی کوشش ہے۔ گرچہ یہاں خاکسار نے ان کی دو کتابوں کا مزید مصنف کی فکر کو یکجا ا س طرح سے کیا ہے، مثلاً’ مدتوں بعد‘ ، ’ دو گھنٹے کی محبت‘ کی اوپر دی گئی تصویریں ہیں۔آپ قارئین تصویر کو دیکھیں، اس لیے کہ تصویریں بولتی ہیں۔اوپر کی تصویر میں ایک جانب عظیم انصاری صاحب کی محبت ہے کہ آپ عظیم ہیں اور آپکی خواہش کے اس کتاب کو تحفتاًپیش کرتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں اور دوسری یہ کہ انکی اس کتاب پر میں کوئی رائے قائم کرسکوں، میری اتنی جرات کہاں کہ میں کچھ تبصرہ کرپاؤں۔ بہر حال’’ دوگھنٹے کی محبت‘‘ اور مخصوص تصویر میں اسطرح کھویا کے مجھے دکھینیشور کا ندی کنارے برگد کا درخت یاد آگیا، اور پھر مصنف کا خیالی خاکہ ضرور داستان محبت و پریم روگ سی کہانی کا گمان ہوتا ہے اور دوسری ’’کتاب مدتوں بعد‘‘ غزلیات پر مشتمل شعری مجموعہ 144 صفحات پر مشتمل سینکڑوں غزلیں، زندگی کے مختلف حصوں کا احاطہ اور ساتھ ہی ساتھ ہر زمین پر غزل لکھی ہیں۔ آپ نے، دنیائے اردوادب میں 2001ء سے باقاعدہ شاعری کر رہے ہیں۔ اب تو اپنے اشعار ، شعری تخلیقات کے آئینے میں ایک استاد کی حیثیت سے دیکھے جاتے ہیں جبکہ ادبی دنیا میں آپ 1981 میں ہی رکھ چکے تھے اور آپکو بنگلہ زبان وادب سے شوق و جنون حد درجہ تھا، جسکا ثبوت یہ ہے کہ آپ عظیم انصاری نے اس کتاب کو والدین کے نام کے نام منسوب کیا، جہاں والدین کی دعائیں انکی زندگی کی دشوار راہوں میں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ مصنف کا یہ اعلی درجے کا اظہار خیال ہے۔اس کتاب کو مختلف ماہرین نے دیکھا پرکھا مزید عظیم ؔ انصاری صاحب کی عظمت پر تب جاکر اپنی نیک تمنائوں اور تحریری دعاؤں سے نواز ا۔ قابل ِ ستائش اور مبارکباد ہیں میری نظر میں جناب محمد عظیم ؔ انصاری صاحب اپنے اس دو کتاب کے مصنف کی حیثیت سے اور آپ بلند ترین عزائم رکھتے ہیں اور حیرت ہے آپ سبھوں سے محبت کرتے ہیں، مگر انکی اس محبت کو دو گھنٹے کا نام نہیں دیا جا سکتا ہے، گرچہ میری ملاقات کل ہی ہوئی تھی اور آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیسری تصویریں اردو کے اولین ڈیجیٹل ماہنامہ ’’کائنات ‘‘ کے خالق اورمعتبر شخصیت کے مالک ڈاکٹر خورشید اقبال(حاجی) صاحب جو کہ سائنسی آدمی ہیں مزید اپنی زندگی کو بادب بنا کر ادبی سائنسداں بھی بن گئے۔ آج آن لائن ’کائنات ‘کی رسم رونمائی کے موقع پر یہ راز پروفیسر طیب نعمانی صاحب نے کھولا کہ اس زمانے کے اردو زبان وادب کے ماہرین و نقاد مغنی تبسم صاحب نے خورشید اقبال صاحب کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا تھا ۔آج مدتوں بعد پھر سے کائنات کو محبان اردو زبان وادب کی دنیا میں روشناس کرانے کے لیے پروگرام کا اہتمام کیا گیا اور شرکت والوں میں ماہرین اور دانشوران نے اظہار خیال کرتے ہوئے انکی کوششوں کو سراہا اور خاکسار ڈاکٹر مختار احمد فردین نے بھی اپنی گواہی درج کراکے ناقابل فراموشچشم گواہ بنا۔ ان کی شخصیت پر قلم ہم جیسے کم فہم نہیں اٹھا سکتے۔ تاثرات کے چند جملے قابل ِ احترام شخصیت کے مالک محترم ڈاکٹر خورشید اقبال صاحب ایڈیٹر ان چیف آن لائن کائنات کامیاب ترین پروگرام کے لئےمیں کس طرح سے اظہار تشکر ادا کروں اور دلی مبارکباد پیش کروں۔ستائش یہی ہے آپکی خوبیوں اور خداداد صلاحیتوں کا لوہا مان لیا۔ آپکی بے انتہا محبتوں کے حوالے سے اردو زبان وادب اور ماہرین نقاد مغنی تبسم جیسی قدآور شخصیت کے مالک، ادیبوں کے ادیب رہے مغنی تبسم صاحب نے آپکے نام سے شہر کی پہچان سے آپ دوست کا استقبال کیا ۔اور آپکے ہی حوالے سے آج مغنی تبسم صاحب مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع ملا۔ میں ستائش آج کی شام کا کروں یا پھر کائنات کی رسم رونمائیکی۔!یا آن لائن کی تعمیری فکر و عمل و فن کے خالق ڈاکٹر خورشید اقبال صاحب کی کوششوں کا،؟جنہوں نے اردو دنیائے ادب و ثقافت اور زبان وادب کو موجودہ نسل اور نسل نو کے لیے دوبارہ تحقیق کے لیے اردو دنیا کے دروازے کھول دیے۔۔۔۔میں کہاں سے ڈھونڈ لاؤں کہ کوئی تجھ سا۔۔۔۔۔۔ میرے نزدیک توخورشید اقبال رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں آج کی نسل نو کے لیے۔ اس لئےدل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں آپ کو اور میرے ہر دل عزیز اردو زبان وادب کے انمول رتن دوست پروفیسر طیب نعمانی صاحب کے ساتھ آجکی کی نشست میں تشریف لائے تمام مہمانان خصوصی و دیگرے شخصیات کا۔۔۔۔۔نیک تمنائیں اور مبارکباد قبول فرمائیں۔پھر بھی قابل ِ ستائش اور مبارکباد خورشید اقبال صاحب اور پروفیسر طیب نعمانی صاحب”)۔
آئیے موضوع کی جانب پھر لوٹ چلیں۔’’مدتوں بعد‘‘ اور ’’ دو گھنٹے کی محبت‘‘ کی 248 صفحات پر اور 24کہانیوں کے ساتھ، اہم پیرامیٹرز کی خصوصیات پر قدآور ادیب و شاعر کلیم حاذق، ایم نصر اللہ نصر، ڈاکٹر خورشید اقبال نے اس کتاب کے مصنف کی کوششوں کو سراہا اور چار چاند لگا دیا۔ راقم الحروف ڈاکٹر مختار احمد فردین آخری پیراگراف میں محترم عظیم ؔ انصاری صاحب کی پذیرائی اسطرح سے کرنا پسند کر وں گا کہ جس باغ کی والدین نے شفقت سے باغبانی کی تھیں ،آج اس باغباں میں سبھی عظیم ہیں ،جیسے شریک سفر اہلیہ عظیم صاحبہ(مہرالنساء)، فرحت عظیم، شیخ خورشید، نکہت عظیم، علی شاہد دلکش،شاہد عظیم اور میر کارواں محمد عظیم اللہ انصاری کو خراج محبت پیش کرتے ہیں انکے ہی اس شعر سے ان کی دو کتابوں کے لیے بہت بہت مبارک باد۔۔۔۔مدتوں بعد دو گھنٹے کی محبت ۔۔۔۔ کہ
مدتوں بعد ہوا پیڑ وہ سر سبز عظیمؔ
مدتوں بعد سہی اس پہ ثمر تو آیا
<[email protected]>