مجھے تم سے ۔۔۔۔! افسانہ

پرویز مانوس

اُس کی فون پر کہی ہوئی باتیں تمام رات میرے ذہن کے دروازے پر دستک دیتی رہیں اور میں بستر پر کروٹیں بدلتا رہا _۔ تم کس بات پر مضطرب ہو ؟ کروٹیں بدل بدل کر اپنے ساتھ مجھے بھی ڈسٹرب کررہے ہو _
دفعتاً بیوی کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی تو میں نے ہوش سنبھالتے ہوئے کہا،
کچھ نہیں بس دفتری معاملات میں ذہن اُلجھا ہوا ہے۔ تم سے کتنی بار کہا ہے کہ بستر پر پہنچے سے قبل دفتری کام کاج دماغ سے نکال دیا کرو۔
میں نے بیڈ لیمپ آن کر کے دیوار پر لٹکی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھا تو رات کے دو بج رہے تھے۔ چلو سوجاؤ، کوئی بات نہیں،کہہ کر میں نے بتی گُل کردی ۔
میں حیران تھا کہ بیوی نے میری پریشانی کس طرح بھانپ لی۔
واقعی میں مضطرب تھا اور پریشانی کے عالم میں کوئی فیصلہ نہیں کرپا رہا تھا _اور سوچ رہا تھا کہ اگر اس بات کی بھنک میری بیوی کے کانوں میں پڑ گئی تو میری ازدواجی زندگی کا شیرازہ بکھرجائے گا _۔ دراصل چلہ کلاں کے دن تھے اور میں دفتری کام کے سلسلے میں جموں کے لئے ہوائی جہاز میں درمیان والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا کہ کھڑکی کی جانب ایک نہایت ہی خوبصورت دوشیزہ جس کی عمر غالباً تیس سال کے قریب رہی ہوگی _ مجھ سے مخاطب ہوئی ” آپ جموں جارہے ہیں یا دلی؟ ‘‘میں نے ججھکتے ہوئے کہا ” دلی نہیں جموں تک ہی جانا ہے ۔
اور آپ؟ میرے والد سول سیکرٹریٹ میں آفیسر ہیں _ میں اُنہی کے پاس جارہی ہوں۔ آج تو ائر لائنز والوں نے ہمارے صبر کا کافی امتحان لیا _ چار گھنٹےلیٹ ہو گئی فلائٹ ۔
جی بالکل، اگر گاڑی سے جاتے تو اب تک پہنچنے والے ہوتے، میں نے اُس کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا۔
کہتے ہیں جموں میں کافی دُھند کی وجہ سے جہاز کو رن وے پر اُترنے میں پریشانی ہو رہی ہے _ ۔
ابھی اور آدھ گھنٹہ درکار ہے اُڑان بھرنے میں دوسرے جہاز کو اترنا ہے تبھی ہمارا جہاز اُڑان بھرسکے گا کہہ کر میں موبائل پر سکرول کرنے لگا۔
میں کافی دیر سے محسوس کر رہا تھا کہ اُس نے ابھی تک اپنا موبائل ہاتھ میں نہیں اُٹھایا تھا کہ اُس کے نازک لبّوں میں جُنبش ہوئی _ ’’ ایکسکیوز می کیا میں آپ کا موبائل استعمال کر سکتی ہوں _‘‘۔
کیوں آپ کے پاس فون نہیں ہے؟ میں نے اُس کی جانب تعجب سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
جی ایسی بات نہیں ہے دراصل میرے فون کی بیٹری ڈیڈ ہوگئی _ پچھلے چار گھنٹوں سے مُسلسل انٹرنیٹ استعمال کر رہی تھی _ اور جلدی میں چار جر ساتھ لانا بھی بھول گئی ۔
ڈیڈ کو کال کرنی تھی، وہ پریشان ہونگے ،
اُن کا پریشان ہونا لازمی ہے، لیجئے کیجئے کال،
میں نے اپنا موبائل اُس دوشیزہ کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا _ ۔
اُس نےنمبر ٹائپ کر کے اپنے والد سے بات کی _
” وہ میرے فون کی بیٹری ڈیڈ ہوگئی ہے _ میں دوسرے کے فون سے کال کر رہی ہوں ، دراصل جہاز حد سے زیادہ لیٹ ہوگیا _ جی جی لینڈ کرتے ہی میں پھر اسی فون سے کال کروں گی، اوکے بائے _۔
لیجئے شکریہ _ اُس نے فون مجھے پکڑاتے ہوئے کہا۔
شکریہ کس بات کا سفر میں یہ سب چلتا رہتا ہے _
فون پکڑاتے ہوئے جونہی اُس کے ہاتھ نے میرے ہاتھ کو چُھوا تو میرے جسم میں برقی لہر سی دوڑ گئی ۔
اس دوران مجھے بھی دو چار کالز آئیں اور سب سے بات ہوئی۔ ایک بار پھر بیوی کی کال آئی تو بولی ” کب سے کال کر رہی ہوں صرف انگیج آرہے ہو _ واپس بھی کال نہیں کی _ ابھی بھی نہیں پہنچے؟ ‘‘
میں نے مختصر جواب دیا _ پہنچ کر کال کرتا ہوں اور کال کاٹ دی ۔ ابھی کال کٹی ہی تھی کہ ایک انجان نمبر موبائل کی اسکرین پر نمودار ہوا۔ بادلِ نا خواستہ کال اُٹھائی تو نسوانی آواز نے کانوں میں رس گھولا۔
ہیلو۔۔۔۔! خوبصورت ہے؟
خوبصورت؟؟؟سوری رانگ نمبر ہے _ میں نے کہہ کر کال منقطع کرنا چاہی تو اُس نے جلدی سے کہا’’ میرا فون ہے _ میں نے فون اُسے تھمادیا ‘‘ تھوڑی دیر بات کرنے کے بعد اُس نے کہا’’ سوری۔۔۔۔! دراصل ڈیڈ نے ممّا کو نمبر دیا ہوگا اُن سے رہا نہیں گیا‘‘۔
کوئی بات نہیں _ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اتنے میں ایک اور انجان نمبر سے کال آئی۔
خوبصورت ہے؟ آپ کا فون، میں نے اُس کی طرف فون بڑھا دیا _ اُڑان بھرنے تک ایک دو فون اور آئے اور پھر ہم فضا میں معلق ہو گئے ……… پچیس منٹ کے سفر کا پتہ ہی نہیں چلا کہ جہاز نے لینڈ کیا ۔
’’ڈیڈ کو کال کرلوں۔۔۔‘‘اُس نے مسکراتے ہوئے کہا تو میں نے فون حاضر کیا۔
ہم پارکنگ کی طرف بڑھے تو میں نے محسوس کیا کہ وہ میرے سراپا کا جائزہ لے رہی ہے۔ دفعتاً میرے کانوں سے اُس کے الفاظ ٹکرائے _ یہ اوور کوٹ آپ پرکافی پھب رہا ہے ۔
میں شکریہ ادا کئے بغیر نہ رہ سکا _ پھاٹک کے باہر کھڑی ایک قیمتی کار اُس کا انتظار کر رہی تھی _ ۔
چلئیے بیٹھئے …! اُس نے کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا _۔
نو تھینکس۔۔۔۔۔! میں یہاں سے تھری وہیلر لے لونگا، آپ جائیں _۔
یہ کیسے ممکن ہے؟ سفر میں کسی کو سر راہ چھوڑ دینا کہاں کا ا انصاف ہے؟
دراصل میرے ٹھہرنے کا انتظام سرکٹ ہاؤس میں کیا گیا ہے _ اس لئے آپ چلئے۔
ویسے تو آپ کوآج میرے ساتھ ہی چلنا چاہئے تھا۔
بہر حال ، آپ کو وہاں ڈراپ تو کر ہی سکتے ہیں _ اب آپ ہم سے یہ حق تو مت چھینئے ۔
یہ سُنتے ہی میں خاموشی سے اپنا بریف کیس لے کر کار میں داخل ہوگیا ۔ راستے بھر وہ مجھے ہی دیکھتی رہی کہ میرا ٹھکانہ آ گیا ۔کار سے باہر قدم رکھتے ہوئے میں نے شکریہ ادا کیا تو اُس نے مسکرا کر کہا _ “شکریہ کس بات کا سفر میں تو یہ سب چلتا ہی رہتا ہے _‘‘ پھر دونوں کا قہقہہ فضا میں تحلیل ہو گیا۔ _چلئے شام کو فون پر بات کرتے ہیں _ جی بہتر کہہ کر میں اپنے ٹھکانے کی طرف بڑھ گیا، کمرے میں پہنچ کر میں نے سوچا آنکھ سے اوجل دماغ سے اوجھل _ آج کون کس کو یاد رکھتا ہے _ میں نے سر جھٹک دیا۔۔
شام کا اندھیرا گھنا ہونے لگا تو میں نے کھڑکیوں پر پردے پھیلاکر کمرے کی بتیاں آن کردیں تو میرے موبائل کی رنگ بج اُٹھی _، میں نے غور سے دیکھا تو خوبصورت کے باپ کا نمبر تھا _ ہیلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔! میں نے آہستہ سے کہا تو آگے سے ایک مخملی آواز میرے کانوں میں رس گھولنے لگی _ ۔
السلام عليكم _ کیسے ہیں آپ؟
آرام فرما رہے ہیں؟
یقیناً آپ میرے ہی بارے میں سوچ رہے ہونگے!
یہ خوبصورت کی پُر کشش آواز تھی _، جی شُکر خدا وندکریم کا۔
آپ کو وہاں کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟
جی بالکل نہیں ۔۔۔۔سرکاری انتظام ہے،
آپ کب تک ہیں یہاں؟
کل مٹینگ ہے پرسوں نکل جاؤں گا _ اور آپ؟
ہم تو سردیاں یہیں پر گُزارتے ہیں _۔
دل نے چاہا آپ سے بات کروں تو کال کردی _آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا؟
جی نہیں ۔۔۔۔۔بالکل نہیں _ فون پر ہی سکرول کر رہا تھا _ میں نے آپ کو انسٹا پر فالو کیا ہے، دیکھ لیجئے گا ۔
اوکے۔۔۔۔۔کوئی بات نہیں _۔
آپ سے ایک بات کہنی تھی _
جی شوق سے کہئے۔
مجھے حیا آرہی ہے ۔۔۔۔۔پھر کبھی کہوں گی _۔
جیسے آپ کی مرضی اوکے خدا حافظ _ ۔
کال کٹ ہوتے ہی میں سوچ میں پڑ گیا کہ آخر وہ کیا کہنا چاہتی تھی؟
واپسی پر آفس میں بھی اُس نے کئی مرتبہ کال کی لیکن ہر بار کہتی مجھے آپ سے کچھ کہنا تھا لیکن میری ہمت نہیں ہورہی _ ہے ۔مجھ اُس کے ارادے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔ _ ایک دن میں نے اُسے صاف صاف بتادیا کہ میں ایک شادی شدہ شخص ہوں تو اُس کا جواب سُن کر میں حیرت میں پڑ گیا۔
مجھے اُس سے کیا؟ آپ کی پُر وجاہت شخصیت نے مجھے بے حد متاثر کیا بس۔۔۔۔!
آفس سے گھر پہنچا تو بیوی منتظر تھی _
دیر کیوں ہوگئی؟ خیریت تو ہے؟
ہاں ہاں خیریت ہی ہے ۔۔۔بس ایک دو فائلیں مکمل کرنی تھیں اسی لئے _
میں تو گھبرا ہی گئی تھی _۔
تم میری اتنی فکر کیوں کرتی رہتی ہو؟
میں نے بیگ ایک طرف رکھتے ہوئے پوچھا؟
کیا کہہ رہے ہو ؟ اُس نے دونوں بانہیں میرے گلے میں ڈالتے ہوئے کہا، میں نے تم سے محبت کی ہے اور مرتے دم تک کرتی رہوں گی،
یہ سُن کر میرے ماتھے پر پسینے کی بوندیں نمودار ہو گئیں، _ دماغ میں گھنٹیاں بجنے لگیں اور ذہن کے پردے پر وہ تمام عکس نمودار ہوئے جن حالات میں ہم نے لَو میرج کی تھی۔
کھانے کے بعد پھر خوبصورت کی کال آئی _ میں نے ڈرتے ڈرتے اُٹھائی تو وہ بولی۔ ” اس وقت میں بہت بے چین ہوں بستر جیسے کانٹوں سے بھرا ہوا ہے _ عجیب سی بے قراری محسوس کررہی ہوں _ سوچا آج آپ سے دل کی بات کہہ کر دل کا بوجھ ہلکا کرلوں ۔
ہاں ہاں کہئے _ میں نے بیوی کی طرف دیکھا جو بستر سے اُتر چکی تھی۔
دراصل۔۔دراصل ۔۔۔مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے کہہ کر اُس نے کال منقطع کردی۔
بیوی کا یہ جُملہ “میں نے تم سے محبت کی ہے اور مرتے دم تک کرتی رہوں گی اور خوبصورت کا یہ جُملہ کہ مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے _ میرے دل اور دماغ میں ہلچل مچا رہے تھے کہ ایک دم سے میرے دل میں محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا اور میری بانہوں نےبے ساختہ بیوی کو گھیرے میں لے لیا ۔
���
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛ 9622937142