قلاش افسانچہ

خوشنویس میر مشتاق

چلہ کلان کی آمد سے سردیوں میں قدرے اضافہ ہوا ہے۔ اور ٹھٹھرتی سردیوں نے لوگوں کا جینا دوبھر کیا ہے۔ ادھر محکمہ موسمیات نے آنے والے چند دنوں کے اندر برف باری اور بارشوں کی پیشن گوئی کا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ یہ خبر سنتے ہی لوگوں میں اتھل پتھل مچ گئی۔ جہاں ایک طرف لوگ بازاروں کی زینت بننے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ وہیںدوسری طرف لوڈ کیریئرنما چلتی پھرتی دکانوں کی بنا چاند نکلے ہی عید ہوگئی۔
خبر پھیلتے ہی بازاروں میں کافی گہما گہمی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ اِدھر لوگ اشیائے خوردونوش کی خریدوفروخت کیلیے دو دو ہاتھوں سے پیسے لٹانے میں مشغول ہیں اُدھر چلہ کلان کی یخ بستہ سردیوں میں وہ جوان قلاش عورت اپنے روتے بلکتے بچوں کو بے یارومددگار الله کے واحد سہارے گھر میں ہی چھوڑ آئی ہے۔ اپنے تن پہ ملبوس اپنی واحد پھٹی پرانی چادر پھیلائے لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتی پھر رہی ہے۔ آنکھوں میں آنسو لئے اپنے ان معصوم بچوں کی بھوک مٹانے کی خاطر در در کی ٹھوکریں کھاتی پھر رہی ہے۔ کبھی کسی در سے خالی ہاتھ ہی لوٹنا پڑتا ہے تو کبھی کسی در سے تحقیر آمیز الفاظ سننے پڑتے ہیں۔ کبھی کھانے کے ایک نوالے کی خاطر سڑکوں پہ دھکے کھاتے پھر رہی ہے تو کبھی گلی کوچوں کی خاک چھانتی پھر رہی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔ “کہ بھوک تہذیب کے آداب بُھلا دیتی ہے۔” بلا شبہ غربت اور افلاس کے مارے لوگ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے خوار ہوتے پھر رہے ہیں ۔ معصوم ، روتے بلکتے جگر گوشوں کی آواز ابھی بھی اس جوان قلاش کے کانوں میں صدائے باز گشت بن کر گونج رہی ہے۔ مگر وہ جوان قلاش عورت خود سے اور دوسروں سے بے پرواہ ہوکر اپنے معصوم بچوں کی خاطر رل رہی ہے، جسے اپنے تن کی پرواہ ہے نہ لوگوں کے طعن کی۔ اسے اگر پرواہ تھی تو صرف اور صرف ان معصوم روتے بلکتے بچوں کی جو بھوک سے نڈھال ہو رہے ہیں۔ جو بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔ اسے اگر فکر تھی تو ان معصوم بچوں کی جن کے رونے کی آوازیں راہ چلتے لوگوں کے کلیجے چھلنی کر دیتی ہیں۔ لیکن افسوس! کسی کو بھی ان روتے بلکتے معصوم بچوں کا ذرا برابر بھی احساس نہیں ہے۔ انہیں اگر احساس ہے تو فقط اپنا تن ڈھانپنے اور اپنا پیٹ بھرنے کی ۔ جو لوگ شام کو پیٹ بھر کر اور ٹھونس ٹھونس کر سوتے ہیں انہیں دوسروں کی بھوک کا احساس کہاں ہوتا ہو گا ؟ کوئی جیئے یا مرے ان کی بھلا سے۔ انہیں اگر فکر ہے تو صرف اپنی اور اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کی۔
ورنہ! لوگ آج بھی بھوک سے مر رہے ہیں تڑپ رہے ہیں۔ آج بھی کئی لوگوں کے ہاں خالی چولہے ہی جل رہے ہیں۔ آج بھی خالی ہانڈیوں میں فقط کنکریاں ہی پک رہی ہے۔ آج بھی کئی مائیں اپنے بھوکے ننگے بچوں کو سلانے کی خاطر خالی چولہے ہی پھونک رہی ہیں۔ ابن آدم یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے بے حس و حرکت دیکھ رہا ہے۔ آج آسمان بھی غریبوں کی حالت زار دیکھ کر ماتم کناں ہے۔ انسانیت کا درس دینے والے آج خود انسانیت کو اپنے پیروں تلے روندھتے چلے جاتے ہیں۔ انسانیت کا دم بھرنے والے آج بھی غریبوں کی عزت نفس کو تار تار ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ انسانیت کے دعویدارآج انسانیت کا جنازہ اپنی آنکھوں سے اٹھتے دیکھ کر محض خاموش تماشائی بن بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیف صد حیف!!!!
���
ایسو اننت ناگ، کشمیر
[email protected]