قبولیتِ دعا کہانی

عابد حسین راتھر

عُمیر پریشانی کی حالت میں اپنے ضلع کے بھرتی محکمہ کے ڈسٹرکٹ آفیسر کے آفس کے باہر لان میں بڑی بے چینی کے ساتھ انتظار کر رہا تھا کہ کب آفیسر صاحب دفتر پہنچیں گے اور وہ اُنہیں اپنی عرضی پیش کرے گا۔ اتنے میں گیٹ کے باہر کسی گاڑی کی ہارن بج گئی اور جیسے ہی گیٹ کیپر نے گیٹ کھولا تو سامنے آفیسر صاحب کی گاڑی کھڑی تھی۔ عُمیر خوشی محسوس کرتے ہوئے یہ سوچنے لگا کہ آج وہ کسی بھی صورت میں اپنا کام کروا کے جائے گا کیونکہ اِس سے پہلے بھی اُس نے کئی بار اِس دفتر کے چکر کاٹے تھے لیکن اُس کا مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ عُمیر یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ڈرائیور نے آفیسر کی گاڑی گیٹ کے اندر پارک کی اور آفیسر گاڑی سے اُتر کر اپنے آفس کی طرف چلنے لگا اور دفتر کا چپراسی گاڑی کی طرف دوڑتے ہوئے گاڑی سے اُس کا بیگ اور باقی سامان اٹھاتے ہوئے صاحب کے پیچھے پیچھے اُس کے آفس کے اندر داخل ہوا۔ عُمیر نے بھی صاحب سے ملنے کیلئے اُس کے آفس کی طرف قدم بڑھانے شروع کئے اور جیسے ہی وہ آفس کے دروازے کے عین سامنے پہنچ گیا تو اندر سے چپراسی نمودار ہوا اور تیز لہجہ میں کہنے لگا،
کیا ہے، کہاں گُھسے جارہے ہو؟
جی، ممجھ، مجھ، مجھے صاحب سے کچھ ضروری کام ہے— عُمیر نے کانپتی آواز میں جواب دیا۔
اِس پر چپراُس برس پڑا— ابھی باہر انتظار کرو، صاحب ابھی پہنچے ہیں۔ انہیں پہلے چائے پانی پی کے تھکاوٹ دُور کرنے دو پھر آپ اندر جاسکتے ہو۔ تقریباً دو ڈھائی گھنٹے کے بعد عُمیر کو اندر جانے کی اجازت ملی۔ اندر داخل ہوتے ہی عُمیر نے اِس غرض سے سلام کی کہ شاید آج آفیسر صاحب کو رحم آجائے اور اس پر ترس کھا کر اس کا مسئلہ حل کرے۔ سلام کا جواب دئے بغیر آفیسر جلدی میں کہنے لگا— بولو، کیا کام ہے۔
عُمیر نے جواب دیتے ہوئے کہا— سر، میں اِس سے پہلے بھی کئی بار آپ کے پاس آیا ہوں، میرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ عُمیر اپنی بات مکمل کرتا آفیسر اس کی بات کاٹتے ہوئے گرجتی ہوئی آواز میں کہنے لگا— یہاں دن میں ہزاروں لوگ اپنے مسائل لیکر آتے ہیں۔ آپ کو یاد رکھنے کے علاوہ ہمیں اور بھی بہت کام ہوتے ہیں۔ جلدی اور سیدھے بولو کیا مسئلہ ہے۔
آفیسر کے غصے سے عُمیر کا سارا جسم کانپے لگا اور بڑی مشکل سے ہمت جوڑ کر کہنے لگا۔۔۔ سر، میں حال ہی میں چوتھے درجے کی ملازمت کے شائع شدہ ویٹنگ لشٹ میں پہلے نمبر پر ہوں۔ جو امیدوار بھرتی ہوئے ہیں اُن میں سے ایک امیدوار نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر مقرر کردہ وقت میں ڈیوٹی جوائن نہیں کی ہے لہذا میں آپ سے التجا کر رہا ہوں کہ اس کے بدلے مجھے بھرتی کیا جائے۔
اس سے پہلے کہ عُمیر آگے کچھ اور بولتا آفیسر اس کی بات کاٹتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ ہاں، ہاں، مجھے یاد آگیا۔ اُس پوسٹ کے مستحق آپ ہی ہو مگر میں نے اس سے پہلے بھی کہا ہے کہ اس میں ہمیں کچھ مسائل درپیش ہیں، جیسے ہی وہ حل ہوں گے ہم آپ کو آگاہ کرینگے۔ آپ فِکر مت کرو۔ اِدھر اُدھر کے بہانے بنا کر آفیسر نے عُمیر سے اپنا دامن چھڑا لیا اور آج ایک بار پھر عُمیر اِس کمرے سے مایوسی اور ناامیدی کی حالت میں باہر نکلنے کیلئے مجبور ہوا۔
تقریباً دو مہینوں سے عُمیر ایسے ہی دفتر کے چکر کاٹ رہا تھا لیکن اس کی باتوں پر وہاں دھیان دینے والا کوئی نہیں تھا۔ گھر کے نامساعد حالات کی وجہ سے عُمیر کو اِس نوکری کی بہت زیادہ ضرورت تھی۔ محنت مزدوری کرکے عُمیر کو اچھی خاصی تعلیم دلوا کر اس کا باپ بُڑھاپے میں داخل ہو چکا تھا لیکن نوکری نہ ملنے کی وجہ سے عُمیر ابھی گھر پر بےکار بیٹھا تھا۔ محنت کرکے چوتھے درجے کی سرکاری ملازمت کے جاری کردہ ویٹنگ لشٹ میں اُس کا نام آیا تھا۔ وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا اور بڑا بیٹا تھا اور اس کی دو چھوٹی بہنیں ابھی زیرِ تعلیم ہی تھیں۔ گھر میں آمدنی کا کوئی خاص ذریعہ بھی نہیں تھا۔ لہذا عُمیر کو اِس نوکری کی بڑی جستجو تھی تاکہ نوکری حاصل کرکے وہ اپنے والدین اور اپنی چھوٹی بہنوں کا سہارا بن سکے اور اس کے والدین کی ساری امیدیں بھی اب عُمیر سے ہی وابستہ تھیں۔
آفیسر کے کمرے کے باہر کھڑا عُمیر مایوسی میں اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کاش کوئی مسیحا بن کر اُس کے سامنے آئے اور اس کی مدد کرے۔ کاش یہ لوگ اُس کی مجبوری سمجھ سکیں، کاش اِن لوگوں کو اِس کی حالت زار پر رحم آجائے اور اس کو اپنا حق فراہم کریں، کاش یہ لوگ اس کے سینے میں چھپے درد اور تڑپ کو سمجھ سکیں۔ لیکن وہاں سب لوگ انصاف سے عاری سرکاری کام میں کم اور آپسی گپ شپ میں زیادہ مست مگن تھے۔ عمیر کو کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ اس سے پہلے کئی بار اس نے وہاں باقی ملازمین سے منتیں کی تھیں، کئی بار ان کے سامنے آنسو بہائے تھے لیکن آج تک سب بے سود ثابت ہوا تھا۔ سبھی ملازمین یہی کہتے تھے ک سب کچھ بڑے صاحب کے ہاتھ میں ہے۔ مایوسی اور نااُمیدی کے اسی عالم میں عُمیر کو کسی نے پیچھے سے آواز دی۔ مُڑ کر دیکھا تو وہی چپراسی نظر آیا جس نے کچھ وقت پہلے اس کو ڈانٹا تھا۔ اشارہ کرتے ہوئے اُس نے عُمیر کو اپنی طرف بلایا۔ عُمیر قدم بڑھا کر جیسے ہی اس کے پاس پہنچا تو چپراسی کہنے لگا— ارے بھائی، ناداں بن کر کیوں اپنا وقت ضائع کر رہے ہو۔ جاؤ کوئی اور کام کرو، کیوں فضول میں یہاں اپنا وقت ضائع کررہے ہو۔ تمہیں کیا لگتا ہے کہ یہاں خالی ہاتھ تمہارا کام ہوگا۔ بڑے بیوقوف ہو تم، اگر واقعی چاہتے ہو کہ تمہارا کام ہوجائے تو بڑے صاحب کو تھوڑا خوش کرو۔
مُجھے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ میں کیا کروں اور آفیسر صاحب کیا چاہتے ہے۔ آفیسر صاحب سے کچھ کہنے سے بھی ڈرتا ہوں— عمیر نے پریشانی میں جواب دیا۔
تم دو منٹ یہی ہیں ٹھہرو میں ابھی صاحب سے تمہاری بات کرکے آتا ہوں— یہ کہتے ہوئے چپراسی آفیسر صاحب کے کمرے میں داخل ہوا۔ پانچ دس منٹ بعد چپراسی باہر نکلا اور عُمیر سے کہنے لگا— دیکھو بھائی، صاحب کا کہنا ہے کہ اس کام میں ایک لاکھ روپے لگیں گے۔ آپ کیلئے صاحب کو بڑی مشکل سے منایا ورنہ اُن کو اِس سے زیادہ اہم اور بھی بہت کام ہیں اور آپ کی فائل کا نمبر تقریباً دو تین سال بعد آئے گا۔ اور ہاں یہ سب تمہارے فائدے کیلئے ہیں لہٰذا کسی کو بتانا مت۔ ورنہ یہاں آتے آتے تمہارے جوتے گھس جائیں گے لیکن تمہارا کام نہیں ہوگا۔
یہ سن کر عُمیر کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ وہ شخص جو سو روپے کیلئے محتاج تھا اُس کیلئے ایک لاکھ روپے جمع کرنا کہاں ناممکن تھا۔ نوکری کی امید چھوڑ کر وہ اُداس دل اور مایوس قدموں کے ساتھ گھر کی طرف واپس لوٹا۔ گھر پر اس کے بوڑھے والدین خوش خبری کی امید میں تھے۔ لیکن گھر پہنچ کر عُمیر نے جب سارا ماجرا سنایا تو اُن کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ انہیں کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ انہیں ایسا محسوس ہورہا تھا گویا کوئی سیلاب ان کے سارے خواب اپنے ساتھ بہا کر لے جارہا ہے اور وہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ لیکن والدین کہاں اپنے بچوں کے خوابوں کو ٹوٹنے دیتے ہیں، چاہے انہیں اپنی جان ہی گِروی کیوں نہ رکھنی پڑے۔ پیسے جمع کرنے کیلئے عُمیر کی ماں نے اپنے تمام زیورات بیچ ڈالے۔ اس کے باپ نے بڑھاپے کی عمر میں بھی پانچ سال کیلئےکم مزدوری پر کام کرنے کیلئے گاؤں کے ایک امیر آدمی سے معاہدہ کرکے کچھ پیسے ادھار لئے۔ اس طرح چند دنوں میں پیسے اکٹھے کرکے عُمیر دوبارہ دفتر پہنچا اور سیدھے چپراسی کے پاس گیا جس نے بڑے صاحب سے فون پر کچھ باتیں کرکے عُمیر کو آفیسر کے کمرے میں اپنے ساتھ لیا۔ عُمیر چپراسی کے پیچھے پیچھے کمرے میں داخل ہوا۔ آفیسر نے بڑی خوشی اور جوش خروش سے اس کا استقبال کیا۔ عُمیر اپنے خیالوں میں گُم یہ سوچ رہا تھا کہ آج تک جس آفیسر نے کبھی بھی اس کے ساتھ اچھے طریقے سے بات نہیں کی آج وہ اس کے ساتھ اتنے اچھے سے کیسے برتاؤ کرسکتا ہے۔ باتوں سے فارغ ہوکر چپراسی نے عُمیر سے پیسے لئے اور ان کو گِن کر آفیسر کو پیش کئے۔ آفیسر صاحب عُمیر سے مخاطب ہوکر کہنے لگا— آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کل نوکری جوائن کرنے کیلئے ہمارے دفتر سے آڈر حاصل کرنے کیلئے آجانا۔ یہ سُن کر عُمیر کو کچھ اطمینان حاصل ہوا۔ دفتر سے نکل کر عُمیر کو پاس ہی ایک ہوٹل میں چائے پینے کاخیال آیا۔ وہ ہوٹل میں چائے پی رہا تھا اور دفتر کے پاس ہی مسجد سے ظہر نماز کی اذان ہوگئ۔ عُمیر نے چائے پی کے وضو بنایا اور مسجد میں نماز کیلئے داخل ہوا لیکن جماعت نماز پہلے ہی شروع ہوچکی تھی۔ عُمیر بھی جلدی جلدی جماعت نماز میں شامل ہوا۔ سلام پھیرنے کے بعد امام صاحب نے ذکر و ازکار کے بعد دعا مانگنا شروع کی اور عُمیر بھی جماعت کی چُھوٹی ہوئی رکعت مکمل کرکے دعا مانگنے میں شامل ہوا۔ جیسے ہی امام صاحب نے یہ دعا مانگی کہ اے اللّٰہ ہمارے معاشرے کو رشوت خوری اور بدعنوانی کے وبا سے نجات دلا تو عُمیر نے آمین کہنے کے بجائے امام صاحب کی طرف نظر ڈالی اور وہ ششدرہ رہ گیا۔ دعا مانگنے والا کوئی اور نہیں بلکہ دفتر کے آفیسر صاحب تھے!
مسجد سے نکلتے ہوئے عُمیر نے کسی شخص سے پوچھا— جس محترم نے ابھی ظہر کی جماعت پڑھائی کیا وہی مسجد کے امام ہے۔ اِس بات پر اُس شخص نے جواب دیا— نہیں بھائی صاحب، یہ پاس والے دفتر کے بڑے صاحب ہے۔ بہت ہی نیک اور عادل۔ سب لوگ اِن کی بہت عزت کرتے ہیں۔ جب کبھی امام صاحب ظہر کے وقت غیر حاضر ہوتے ہے تو امامت آفیسر صاحب ہی کرتے ہے۔ یہ جواب سنتے ہی عمیر اپنے آپ سے کہنے لگا— شاید ہمیں اللّٰہ سے ہمارے دعاؤں کے قبول نہ ہونے کی شکایت کرنے کا کوئی جواز نہیں ہیں۔ یہاں دعا مانگنے والے اور آمین کہنے والے دونوں ہی اللّٰہ کے مجرم ہیں۔
���
موبائل نمبر؛ 7006569430