غِذا سے ایلرجی ۔۔۔؟ | وجوہات، علامات، احتیاط اور علاج

فکر ِ صحت
لیاقت علی
بہت سے لوگ کھانے پینے کے شوقین ہوتے ہیں۔ لیکن بعض لوگ کچھ کھانوں سے پرہیز کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں کھانے پینے کی کچھ چیزوں سے الرجی ہوتی ہے۔ حالیہ برسوں میں ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جنہیں لگتا ہے کہ انہیں کھانے پینے کی بعض چیزوں سے الرجی ہے یا ان کا معدہ ان چیزوں کو برداشت نہیں کر پاتا۔ لیکن تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اصل میں ان میں سے صرف چند لوگوں کو الرجی ہوتی ہے۔
امریکا کے ایک طبی رسالے میں رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ’’کھانے پینے کی چیزوں سے ہونے والی الرجی کے حوالے سے ماہرین مختلف رائے رکھتے ہیں‘‘۔ لیکن زیادہ تر ماہرین یہ مانتے ہیں کہ الرجی، مدافعتی نظام (بیماریوں کے خلاف لڑنے والا نظام) کی وجہ سے شروع ہوتی ہے۔ کھانے پینے کی کسی چیز سے ہونے والی الرجی کی وجہ اس چیز میں موجود پروٹین ہوتا ہے۔ مدافعتی نظام غلطی سے یہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ پروٹین جسم کے لیے نقصان دہ ہے۔ لہٰذا جب یہ پروٹین جسم کے اندر داخل ہوتا ہے تو مدافعتی نظام ایک اینٹی باڈی (ایک قسم کا پروٹین) بناتا ہے، جسے امیونوگلوبلین E کہا جاتا ہے۔
یہ اینٹی باڈی جسم میں داخل ہونے والے پروٹین کے خلا ف لڑتی ہے۔ پھر جب کوئی شخص دوبارہ وہ کھانا کھاتا ہے، جس میں وہ پروٹین ہوتا ہے تو یہ اینٹی باڈی کچھ کیمیکل بناتی ہے جن میں ہسٹامین نامی کیمیکل بھی شامل ہوتا ہے۔ عام طور پر ہسٹامین، مدافعتی نظام میں ایک مفید کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے ماہرین ابھی تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ امیونوگلوبلینE اور پھر ہسٹامین کے بننے کی وجہ سے لوگوں میں الرجی کی علامات کیوں ظاہر ہوتی ہیں۔ ان معلومات سے واضح ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص پہلی بار کوئی کھانا کھاتا ہے تو شاید اسے الرجی نہ ہو لیکن جب وہ وہی کھانا دوبارہ کھاتا ہے تو اسے الرجی ہو جائے۔
جس طرح بعض لوگوں کو کھانے پینے کی کچھ چیزوں سے الرجی ہوتی ہے، اسی طرح بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا معدہ کھانے پینے کی کچھ چیزوں کو برداشت نہیں کر پاتا۔ اس مسئلے کا تعلق نظامِ ہضم سے ہوتا ہے، اس لیے اس میں کوئی اینٹی باڈیز نہیں بنتیں۔ اصل میں کھانا ہضم نہ ہونے کی وجہ یا تو اینزائم (ایک کیمیائی مادہ) کی کمی ہو سکتی ہے یا پھر کھانے میں موجود کچھ خاص کیمیائی مادے جو معدے میں آسانی سے جذب نہیں ہوتے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ کچھ لوگ دودھ میں موجود شکر کو ہضم نہیں کر پاتے کیونکہ ان کا معدہ وہ اینزائمز نہیں بناتا جو دودھ سے بنی چیزوں میں موجود شکر کو ہضم کرنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔چونکہ کھانا ہضم نہ ہونے کی صورت میں اینٹی باڈیز نہیں بنتیں، اس لیے اس کی علامات اسی وقت ظاہر ہوجاتی ہیں جب ایک شخص پہلی بار کوئی کھانا کھاتا ہے۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ معدہ اس کھانے کی تھوڑی بہت مقدار تو ہضم کر لیتا ہے لیکن اگر اسے زیادہ مقدار میں کھایا جائے تو وہ اسے برداشت نہیں کر پاتا۔ اس کے برعکس جن لوگوں کو کھانے پینے کی کسی چیز سے الرجی ہوتی ہے، ان کے لیے اس کی تھوڑی سی مقدار بھی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔
علامات:گلے، آنکھوں یا زبان کی سُوجن، جسم پر دانے، خارش، متلی، اُلٹیاں یا دست۔ جن لوگوں کو شدید الرجی ہوتی ہے، ان کا بلڈپریشر بہت کم ہو سکتا ہے، انہیں چکر آ سکتے ہیں، وہ بےہوش ہو سکتے ہیں، یہاں تک کہ ان کے دل کی دھڑکن بھی بند ہو سکتی ہے۔ الرجی کی یہ علامات بڑی جلدی شدت اختیار کر سکتی ہیں اور جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔
الرجی کسی بھی کھانے کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔ لیکن عام طور پر یہ ان چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے: دودھ، انڈے، مچھلی، خول دار جانور (مثلاً جھینگے، کیکڑے)، مونگ پھلی، سویابین، میوہ جات (مثلاً بادام، اخروٹ، پستہ، کاجو) اور گندم۔ ایک شخص کو الرجی کسی بھی عمر میں ہو سکتی ہے۔تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اگر ماں یا باپ میں سے کسی ایک یا دونوں کو کھانے پینے کی کسی چیز سے الرجی ہے تو بچے کو بھی یہ الرجی ہو سکتی ہے۔ مگر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو انہیں اُس چیز سے الرجی نہیں رہتی۔ جب معدہ کسی چیز کو برداشت نہیں کر پاتا تو اس کی علامات عموماً الرجی کی علامات سے کم خطرناک ہوتی ہیں۔
اس کی علامات یہ ہو سکتی ہیں: پیٹ میں درد ہونا، پیٹ پھول جانا، گیس ہونا، مروڑ اٹھنا، سر درد ہونا، جِلد پر دانے یا تھکن اور بےچینی ہونا۔ لوگوں کا معدہ عام طور پر ان چیزوں کو برداشت نہیں کر پاتا: دودھ، گندم، گلوٹین (گندم کے آٹے میں موجود پروٹین)، الکُحل اور خمیر۔
علاج :اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو کھانے پینے کی کسی چیز سے الرجی ہے یا آپ کا معدہ اسے برداشت نہیں کر پاتا تو کسی ماہر ڈاکٹر سے چیک کروائیں۔ اگر آپ ڈاکٹر کو چیک کرائے بغیر کچھ کھانوں سے پرہیز شروع کر دیتے ہیں تو یہ آپ کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اس طرح آپ کے جسم کو کچھ ضروری اجزاء جیسے کہ وٹامن اور پروٹین وغیرہ نہیں ملیں گے۔جن لوگوں کو کھانے پینے کی چیزوں سے شدید الرجی ہے، ان کے لیے کوئی خاص علاج نہیں ہے، ماسوائے اس کے کہ وہ ان چیزوں سے مکمل پرہیز کریں جو الرجی کا باعث بنتی ہیں مگر جن لوگوں کو زیادہ شدید الرجی نہیں ہے یا جن کا معدہ کھانوں کی تھوڑی بہت مقدار برداشت کر سکتا ہے، وہ ان کھانوں کو کبھی کبھار اور تھوڑی مقدار میں استعمال کر سکتے ہیں۔ نیز، بعض صورتوں میں ایک شخص کو مکمل طور پر یا کچھ عرصے کے لیے اس کھانے سے پرہیز کرنا پڑتا ہے جسے اس کا معدہ ہضم نہیں کر پاتا۔