عظیم ترین چیلنج ہے نئی نسلوں کی تعلیم فہم وفراست

 شہاب حمزہ

گاندھی جی نے ہندوستان کی سرزمین پر نئی نسلوں کے لیے ایسی تعلیمی نظام کا خواب دیکھا تھا جس کے بدولت بچوں کی جسمانی، ذہنی اور روحانی گویا مکمل ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جا سکے۔ آزادی کی جدوجہد کے ساتھ انہوں نے اس کی نفاذ کے لیے کتنی کوششوں کیں یہ ایک الگ سوال ہے ۔ لیکن ان کی نظریہ تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملکوں کی تعلیمی پالیسی اور تعلیمی نظام کا ہر پہلو نئی نسلوں کے روشن مستقبل کی ضمانت پیش کرتا ہے ۔ دنیا کا کوئی بھی ملک ترقی کا جتنا بھی دعویٰ کیوں نہ کر لے، اس وقت اس کے تمام دعوے کھوکھلے ثابت ہوتے رہیں گے جب تک وقت کے تقاضے کے عین مطابق جدید تعلیمی نظام سے بچوں کے ذہن کو آراستہ نہ کیا جا سکے ۔ اس روئے زمین کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کسی بھی زمانے میں صرف وسائل کی بنیاد پر عظیم حکومت قائم نہیں ہوئی ہیں بلکہ علم و تعلیم کی روشنی سے ہی حکومتوں کے چراغ روشن رہے ہیں اور جن عظیم ریاستوں نے علم و تعلیم پر توجہ مرکوز کی ہیں، ان کی بادشاہت دیر تک قائم رہی ہے ۔ وقت کے تقاضوں پر کھرے اترنے والے تعلیم یافتہ نئی نسلوں سے بڑھ کر کسی معاشروں اور ملک کے لیے کوئی اور وسائل نہیں ہو سکتا ہے ۔
آج پوری دنیا تغیرات کے دور سے گزر رہی ہے ۔تبدیلیوں کے عہد میں جن شعبوں میں سب سے زیادہ تبدیلی آرہی ہیں، وہ یقینی طور پر شعبۂ تعلیم ہی ہے ۔ پوری دنیا اسے بہتر بنانے کے طریقے اور فکر میں لگی ہے۔ اس پس منظر میں اگر ہم وطن عزیز کا جائزہ لیتے ہیں تو جو تصویریں سامنے آتی ہیں ،ان میں سب سے صاف تصویر یہ ہے کہ آج بھی ہندوستان نئی نسلوں کو خواندہ ساکچھر بنانے کی فکر میں مبتلا ہے ۔ اب سے تقریبا ایک صدی پہلے گاندھی جی نے کہا تھا کہ ساکچھرتا نئی نسلوں کی تعلیم کی جانب اٹھنے والا محض ایک قدم ہے یہ تعلیم وتربیت کی ضمانت ہرگز نہیں ہے ۔ آج ایک صدی کی جدوجہد کے بعد ہمارا ملک اس مقام پر آیا ہے کہ ہم فقط ساکچھرتا کے دیوانے بنے بیٹھے ہیں۔ اس سے بھی بڑی اور واضح حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز کے بے شمار بچے آج بھی بنیادی تعلیم سےمحروم اور اسکولوں کی دہلیز سے دور ہیں۔ ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں لاتعداد بچوں کے ہاتھ میں یا تو بھیک کا کٹورہ ہے یا مزدوری کے آلات ہیں ۔ ملک کے دیہی علاقوں کی تصویریں بھی مختلف نہیں ۔ بڑی تعداد میں ہمارے گاؤں کی نئی نسلیں آج بھی بنیادی تعلیم سے محروم ہیں ۔ غربت، افلاس اور تعلیم کے تئیں عدم بیداری نے بہت سے بچوں کو اسکول سے دور رکھا ہے۔حالانکہ نئی نسلوں کی تعلیم کے تئیں موجودہ حکومت سنجیدہ ہے۔ ان کی کوششوں سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ ہماری حکومت نے مفت تعلیم، مفت کتابیں، مفت یونیفارم اور مڈ ڈے میل سمیت دیگر اقدامات سے ایک انقلاب ضرور پیدا کیا ہے اور بچوں کی ایک بڑی تعداد اسکولوں تک آ پہنچی ہے ۔ وقت کے ساتھ اس نے اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے ۔ ان سب کے باوجود گزشتہ سال عظیم پریم جی یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق دو برس کرونا دہشت کے سائے میں وبائی دور سے گزرنے کے بعد تقریبا دو کروڑ بچے اسکول سے دور ہو گئے ہیں ۔ اس تعلق سے اکثر ماہرین کا یہ خیال تھا کہ ان دو کروڑ بچوں کو دوبارہ اسکول کی دہلیز تک رسائی ہونے میں کافی وقت درکار ہوگا اور عین ممکن ہے کہ ان بچوں کی مکمل تعداد اسکول تک دوبارہ نہیں پہنچ سکے گی ۔
حالات گواہی دیتے ہیں کہ ابھی ہمارا ملک نئی نسلوں کی بنیادی تعلیم پر الجھا ہے اور ساکچھرتا کے اسی ہدف کو عبور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ آج تعلیم کے تقاضے کیا ہیں ، بچوں کو کیسی تعلیم کی ضرورت ہے اور ہم کیا دے رہے ہیں ، ہماری نئی نسلیں کس سمت رواں ہیں اور کل ان کا مستقبل کیا ہوگا ۔ صدیوں سے ایک بار دہرائی جاتی رہی ہے کہ آج کے بچے کل کے مستقبل ہیں اور یقینی طور پر بچوں کی تعلیم و تربیت پر ہی ملک کی ترقی کا انحصار ہوتا ہے ۔ آزاد ہندوستان کی پہلی صبح سے ہی ملک میں نئی نسلوں کی تعلیم ایک عظیم ترین چیلنج بن کر رہ گیا ہے ۔ موجودہ دور میں یہ چیلنج اور وسیع شکل اختیار کر چکا ہے ۔ آج لازمی ہے کہ ہم نئی نسلوں کو ایسی تعلیم سے آراستہ کریں ،جس سے زمانے کے تقاضے پورے ہو سکیں، عالمی سطح پر تعلیمی پہچان قائم کی جا سکے ۔ نئی نسلوں کی ایسی تعمیر لازمی ہے جس کی بدولت ملک کی ترقی کی نئی عبارتیں لکھی جا سکیں اور اس کے لئے وقت کے تقاضے کے مطابق بچوں کی تعلیم کے لیے سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ملک آگے بڑھ سکے ۔ یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ہر ذمہ دار شہری کا فرض ہے کہ وہ اپنے معاشرے میں نئی نسلوں کے لیے تعلیم کی نئی شمع روشن کرنے کی کوشش کرے ،جس کی روشنی سے فقط معاشرہ ہی نہیں ملک کا مستقبل بھی روشن ہو سکے ۔متعدد تغیرات کی تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ چھوٹے پیمانے سےہی بڑی تبدیلیوں کا آغاز ہوتا ہے ۔
(رابطہ۔8350349807)
[email protected]