عظمتِ اُردو اور نوحہ ٔاردو کا شاعر (’’نوائے شوق‘‘ اور ’’انشراح قلب‘‘کے حوالے سے)

عشاؔق کشتواڑی
کہانی
ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
جگدیش راج رانا المعروف عشاق ؔ کشتواڑی اپنی جائے پیدائش کی نسبت سے اردو کے ادبی حلقوں میں خاصے مشہور ومقبول ہیں ۔و ہ صوبہ جموں کے ضلع کشتواڑ کے رہنے والے ہیں ۔اردو کی محبت،عظمت اور تہذیب اُن کے جسم وجان میںکچھ اس طرح رچ بس گئی ہے کہ جس کا مؤثر اظہار وہ اپنے مطبوعہ شعری مجموعوں ’’رُودادِ کاشمیر‘‘ ۔’’ مہد سے لحد تک‘‘۔ذات برحق وپیکر خاکی‘‘۔’’متاع ِ سوز ونشاط‘‘۔’’متاع ِ سوز وگداز‘‘۔’’نوائے شوق‘‘اور’’انشراح قلب‘‘میں کرچکے ہیں ۔اُن کا کلام نہ صرف ہندوستان کے معیاری رسائل وجرائد میں شائع ہوتا ہے بلکہ پاکستان کے سہ ماہی’’چہار سو‘‘ اور’’ہماری شاعری‘‘جیسے معیاری رسائل کی بھی زینت بن چکا ہے ۔انھوں نے اپنے کلام میں یہ پیام بار بار دیا ہے کہ اردو کسی ایک فرقے ،علاقے یا مذہب کے ماننے والوں کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ ایک دلکش مشترکہ زبان ہے جس کے فروغ اور ترقی کی خاطر مسلمانوں ،ہندؤوں ،سکھوں ،عیسائیوں ،جینیوں اور بدھ مت کے ماننے والوں نے ہرطرح کی قربانیاں دی ہیں، اسے اپنے جذبات واحساسات اور افکار ونظریات کے اظہار کا وسیلہ بنایا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اُردو نے ہندوستان کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔عشاق ؔ کشتواڑی کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ اردو جہاں ایک سیکولر زبان کا درجہ رکھتی ہے تو وہیں اس زبان سے وابستہ میرتقی میرؔ،غالبؔ،اقبالؔ ،فراقؔ گوکھپوری، برج نارائن چکبستؔ، تلوک چند محروم ؔ،جگن ناتھ آزادؔ،فیض احمد فیضؔ،شیام لعل کالراعابدؔ ؔپیشاوری،احمد فرازؔ،ندافاضلیؔ،منورؔرانااور راحتؔ اندوری وغیرہم کے علاوہ پریم چند، کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی،اوپندر ناتھ اشکؔ،جوگندر پال ،رتن سنگھ،گوپی چند نارنگ، وہاب اشرفی ،ظہورالدّین ،شمس الرحمن فاروقی اور کئی دیگر نام ہیں جن کی اردو خدمات کو تاریخ ادب اردو نے اپنے اندر محفوظ رکھا ہے۔لیکن فرقہ پرستوں اور سیاسی نیتاؤں نے اپنے مفاد کی خاطراسے مسلمانوں کی زبان قراردے کر اس کے مشترکہ تہذیب کی علامت ہونے سے انکار کردیا ہے۔ غرضیکہ عشاؔق کشتواڑی نے اپنے مجموعہ ہائے کلام میں جہاں بیسیوں مقامات پراردو کی عظمت ،مقبولیت ،اہمیت وافادیت کا اظہار کیا ہے تو وہیں انھوں نے عصر حاضر میں اردو اور اردو والوں کا ماتم بھی کیا ہے۔
شاعری ،طبعیت کی موزونیت کا دوسرا نام ہے ۔شوق وذوق ہونا ہی شاعری کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ اگر کسی شخص کی طبعیت شاعری کے لئے موذوں نہ ہوتو اُسے شاعری نہیں کرنی چاہیے ۔وزن ،بحراورارکان کے علاوہ دیگر مقتضیات شاعری سے گہری واقفیت اُسی صورت میں ممکن ہے اگر طبعیت موزوں ہوگی ۔اس اعتبار سے جب ہم عشاقؔ کشتواڑی کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس بات کا بخوبی اندازہ اور احساس ہوجاتا ہے کہ اُن کے پاس طبعیت کی موزونیت ہے جو اُن سے بہتر کلام کرواتی ہے۔انھیں ذہنی وقلبی طور پر بیدار ومتحرک رکھتی ہے ۔اُن کی بیشتر نظمیں ،غزلیں ،رباعیات وقطعات میں زندگی اور زمانے کی تلخیوں ،کلفتوں اور نا انصافیوں کا ذکر موجود ہے ۔جو اپنے پورے شعری انسلاکات کے ساتھ قاری کو کہیں چونکاتی ہیں ،کہیں ہنساتی ہیں اور کہیں افسردہ کرتی ہیں ۔اردو کے ایک جیّد عالم اور معتبر نقاد پروفیسر قدوس جاوید نے عشاق ؔ کشتواڑی کی شاعری کو موضوع بناتے ہوئے ایک جگہ مناسب رائے قائم کی ہے ۔وہ لکھتے ہیں:
’’شاعری ایک بھید بھرا بستہ ہوتی ہے۔اس کی تہوں کو کھولنا ایک دشوار گزار کام ہوتا ہے۔لیکن دوسرے شعراکی طرح اگر عشاقؔ کشتواڑی کے زیر نظر شعری مجموعہ’’انشراح قلب‘‘کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ عشاقؔ کشتواڑی کے یہاں تخلیقات کا ایک سمندر مؤجزن ہے ۔عشاقؔ صاحب کے لسانی دائرے اورزاویئے قاری کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں ۔لیکن اُن کی شاعری میں ہر حال میں’’ شعریت ‘‘ مختلف صورتوں میںجلوہ گر ہوتی ہے۔اسی لئے عشاؔق کشتواڑی کی شاعری توجہ طلب ہے‘‘
(’’انشراح قلب پر ایک طائرانہ نظر‘‘مشمولہ۔انشراح قلب،عشاق ؔکشتواڑی،عرشیہ پبلی کیشنزدہلی۲۰۲۰؁ء ص۶)
عشاؔق کشتواڑی کے دو شعری مجموعے’’نوائے شوق‘‘اور’’انشراح قلب‘‘میرے مطالعے میںرہے ہیں ۔جہاں تک ’’نوائے شوق‘‘ میں شامل شعری مواد کا تعلق ہے یہ ۲۷۰ صفحات پر محیط ہے ۔اس مجموعے میں غزل کی فارم میں حمدیہ نظموں کے علاوہ ،ذاتی ،احبابی ،لسانی اور ادبی نظموں کے علاوہ اہم شخصیات کی تعریف وتوصیف سے متعلق نظمیں شامل کی گئی ہیں ان نظموں کے علاوہ مذکورہ شعری مجموعہ کے صفحہ ۲۱۲ سے ۲۵۸ صفحہ تک غزلیں شامل کی گئی ہیں اور اُس کے بعد کچھ قطعات ہیں ۔ایک دلچسپ بات یہ بھی کہ عشاؔق کشتواڑی کے ان دونوں شعری مجموعوں میں جو ابجدی نظمیں ہیں وہ پُر لطف ہیں اور جن کی قرات سے ایک حساس قاری کے دل میں گدگداہٹ سی پیدا ہوجاتی ہے ۔بہت سی نظمیں اردو کی عظمت سے تعلق رکھتی ہیں اور کہیں اردو کی حق تلفی اور اردو والوں کی بے حسی کو بھی نظمایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر درج ذیل اشعار پر دھیان دیجیے:
عشاقؔ تیرا ذہن ہے اردو کا خزینہ
تحریر میں تمہاری ہے اردو کا پسینہ
یاران ِ سخن آپ کو احساس نہیں ہے
اردو کے بطن کی ہوں میں اولاد نرینہ