عذاب ِ الٰہی میں عالمِ اقوام کیوں مبتلا؟ مذہب کولوگوں نے تماشہ بنایا ہے!

ابو نصر فاروق

اس وقت پوری دنیا اللہ کے عذاب کا شکار بنی ہوئی ہے اور خاص طورپر ہمارا وطنِ عزیز بھی عذابِ الٰہی میں مبتلا ہے۔پہلے جب قوموں پر اللہ کا عذاب آتا تھا تو پوری قوم ہلاک کر دی جاتی تھی۔چونکہ مسلمان نبی رحمت ؐکی امت ہے اور اب نہ کوئی نبی آئے گا ،نہ کوئی دوسری امت پیدا ہوگی، اس لئے اب اللہ کا عذاب پوری قوم کو ہلاک نہیں کرے گا بلکہ اُس کے گناہوں کے لحاظ سے اُس کے مخصوص حصے کو عذاب میں مبتلا کر دے گا۔غور کیجئے کہ ہمارے وطن کو پوری دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست ہونے کا اسے فخر حاصل تھا لیکن اب یہاں جمہوریت دم توڑتی نظر آرہی ہے۔ دانشور بتا رہے ہیں کہ معاشی تباہی اور بے روزگاری جس سطح پر آ چکی ہے ،ایسی پہلے کبھی نہیں تھی۔ عوام اور حزب مخالف کی سیاسی جماعتیں مل جُل کرحکمراں جماعت کے ساتھ معاملات سدھارنے کی تدبیریں کرتی تھیں لیکن اب ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے۔ ایسا یونہی نہیں ہو گیا ہے بلکہ اس ملک کے لوگ جب سو فیصد کرپٹ ہو گئے تو اللہ نے ان کو عذاب دینے کے لئے یہ سب کچھ کردیا۔ خاص بات یہ ہے کہ مسلمان جو پہلے سے ہی یہاں معتوب اور مظلوم بن کر جی رہے تھے، اب کھلم کھلا ان کے خلاف زہر اُگلا جارہا ہے اور پوری قوم کو ان کے خلاف بھڑکایا جارہاہے۔مسلمانوں کا کوئی لیڈریا رہبر اس کے خلاف کچھ نہیں کرپارہا ہے۔وہ خود اپنی بھلائی اسی میں دیکھ رہا ہے کہ ملت کی حمایت کرنے کی جگہ حکومت کی خوشامد کی جائے تاکہ وہ خود حکومت کے عتاب سے بچ سکے۔ ملک کے مسلمان منافرت کا رویہ اختیارکرگئے ہیںاور گناہوں میں سر سے پاؤں تک لت پت ہو گئے ہیں،اسی لئے اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ان کے حق میں آ گیا۔
۱۔جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا اور کفر کی حالت میں ہی جان دی، اُن پر اللہ اور فرشتوں اورتمام انسانوں کی لعنت ہے ،اوراسی لعنت زندگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیںگے،نہ اُن کی سزا میں کمی ہوگی اور نہ اُنہیں پھر کوئی دوسری مہلت دی جائے گی۔(سورہ البقرہ: ۲۶۱/۱۶۲)
۲۔ جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، اُن کے حامی و مددگار طاغوت ہیں اور وہ اُنہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں،جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے (سورہ البقرہ: ۲۵۷ )
۳۔جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ہے، اُنہیں اللہ کے مقابلے میں نہ اُن کا مال کچھ کام دے گا ،نہ اولاد،وہ دوزخ کا ایندھن بن کر رہیں گے ۔(سورہ آل عمران:۱۰)
۴۔اے نبی دنیا کے ملکوں میںخدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے۔یہ محض چند روزہ زندگی کا تھوڑا سا لطف ہے، پھر یہ سب جہنم میں جائیں گے جو بد ترین جائے قرار ہے۔ (سورہ آل عمران: ۱۹۷/۱۹۸)مسلمان اس آیت کو نہیں مانتے ہیں وہ جی جان سے خدا کے نافرمانوں جیسے بننے کی دھن میں لگے ہوئے ہیں۔
۵۔چھوڑو اُن لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اورتماشا بنا رکھا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ہاں مگر یہ قرآن سنا کرنصیحت اور تنبیہ کرتے رہو کہ کہیں کوئی شخص اپنے کئے کرتوتوں کے وبال میں گرفتار نہ ہو جائے،اور گرفتار بھی اس حال میں ہو کہ اللہ سے بچانے والا کوئی حامی و مددگار اور کوئی سفارشی اُس کے لئے نہ ہو ، اور اگر وہ ہر ممکن چیز فدیہ میں دے کر چھوٹنا چاہے تو وہ بھی اس سے قبول نہ کی جائے،کیونکہ ایسے لوگ تو خود اپنی کمائی کے نتیجے میں پکڑے جائیں گے، اُن کو تو اپنے انکار حق کے معاوضے میں کھولتا ہوا پانی پینے کو اوردرد ناک عذاب بھگتنے کو ملے گا(سورہ الانعا م:۷۰)مسلمان کو اس آفت سے پناہ مانگنی چاہئے تھی لیکن وہ تو ڈھیٹ بنا ہو اہے۔
۶۔(ان سے کہا جائے گا) نعمت ایمان پانے کے بعد بھی تم نے کافرانہ رویہ اختیار کیا؟ اچھا تو اب اس کفران نعمت کے صلہ میں عذاب کا مزہ چکھو۔ (آل عمران: ۱۰۶)
ان آیتوں میں کہاجارہا ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والے غیر مسلموں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں۔آج دنیا میں جو لوگ بھی خود کو مسلمان کہتے ہیں اور دین و شریعت سے غافل اور ناواقف ہیں وہ غیر مسلموں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔یہ اُن کا اتنا سنگین جرم ہے کہ اس کی سزا وہ دنیا میں بھی ذلیل و رسوا ہو کر اور اہل باطل کے غلام بن کر پارہے ہیں اور آخرت میں جہنم کی آگ اُن کا ٹھکانہ ہو گی۔
۷۔یقین جانو جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور ان کے مقابلے میں سرکشی کی ہے ،ان کے لئے آسمان کے دروازے ہرگز نہ کھولے جائیں گے،ان کا جنت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا۔(السجدہ: ۲۲)
۸۔جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔ (المائدہ:آیت۴۴) جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔(المائدہ:آیت۴۵ )جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔(المائدہ: ۴۷)
۹۔اورجو میرے ذکر(قرآن)سے منہ موڑے گا اس کے لئے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔ (طٰہٰ : ۱۲۴)
۱۰۔اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب! میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو مذاق کا نشانہ بنا لیا تھا۔(فرقان:۳۰)
۱۱۔اوراے نبی! ان کے سامنے اُس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا مگر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا۔آخر کار شیطان اس کے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا۔ اگر ہم چاہتے تواسے ان آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا،لہٰذا اس کی حالت کتے کی سی ہو گئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔ یہی مثال ہے ان لوگوں کی جوہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں۔تم یہ حکایات ان کو سناتے رہو شاید کہ یہ کچھ غو روفکر کریں۔ (اعراف:آیات۱۷۵/۱۷۶)
دین کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے قرآن کا سمجھ کر پڑھنا اور اُس کے احکام پر عمل کرنافرض اور لازم ہے۔جو لوگ قرآن کو سمجھ کر پڑھنا اور اُس پر عمل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں اُن کو کافر کہا جارہا ہے۔دنیا اور آخرت میں اُن کی رسوائی اور عذاب کی خبر دی جارہی ہے اور یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کے خلاف مقدمہ کریں گے کہ اُن کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ان لوگوں نے قرآن سے اپنا رشتہ توڑ لیا تھا۔رسول اللہؐ جس کے خلاف مقدمہ کریں گے اس کی شفاعت کیسے کریں گے او ر اللہ ان لوگوں کے اس سنگین گناہ کو معاف کیسے کرے گا۔کیا آج دنیا بھر کے مسلمان یہ سنگین گناہ نہیں کر رہے ہیں ؟
جو لوگ حافظ اور عالم بنتے ہیں اور نہ تو خود قرآن کے احکام پر عمل کرتے ہیں اورنہ امت کو قرآن کا علم دیتے ہیں بلکہ امامت کر کے مؤذن بن کے ، تراویح پڑھانے کی اجرت لے کر اور ناظرہ قرآن بچوں کو پڑھا کے صرف دولت کمانے کی دھن میں لگے ہوئے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کتا کہہ رہا ہے۔کتنے افسوس کا مقام ہے کہ جو خود گمرا ہ ہو وہ امت کی رہنمائی اور رہبری کیا کرے گا ؟
۱۲۔اورتم لوگ نہ تو،آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقے سے کھاؤ اور نہ حاکموںکے آگے ان کو اس غرض کے لئے پیش کروکہ تمہیں دوسروں کے مال کاکوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے۔ (البقرہ:۱۸۸)
۱۳۔اے لوگو جو ایمان لائے ہو،آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ،لین دین ہونا چاہئے آپس کی رضامندی سے۔اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین مانوکہ اللہ تمہارے اوپر مہربان ہے۔(النساء:۲۹)
۱۴۔دردناک سزا کی خوش خبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیںاور انہیںخدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ایک دن آئے گا کہ اسی سونے اور چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اس سے ان لوگوں کی پیشانیوں ، پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا،لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو۔(التوبہ : ۳۴)
شریعت حلال روزی کمانے اور کھانے کا حکم دیتی ہے اور حرام سے سخت پرہیز کرنے کی تاکید کرتی ہے۔لیکن اس دور میں چراغ لے کر ڈھونڈنے سے ایسے مسلمان نہیں ملیں گے جن کی آمدنی مکمل طور پر حلال ہو۔مسلمانوں کو عام طور پر حرام خوری کی عادت پڑ چکی ہے۔دولت کی ہوس حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔اللہ نے جن لوگوں ضرورت سے زیادہ دولت دے رکھی ہے ان کا فرض ہے کہ اپنی زیادہ دولت محتاجوں اور مجبوروں میں بانٹیں۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرتے۔جو صاحب نصاب ہے اُس پر زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے۔ جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتا ہے وہ ایمان کے دائرے سے باہر ہو جاتا ہے۔اسلامی حکومت ایسے انسا ن کو قتل کر دے گی۔آج کے مسلمان قارون بن کے دولت پر ناجائز قبضہ کئے بیٹھے ہیں۔ ایسے بخیل مسلمانوں کا کیا حشر ہونے والا ہے اوپر کی آیتوں میں اس کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ حرام کھانے والوں کی کوئی عبادت اور دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔
۱۵۔پھر تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لئے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں۔ جو ریاکاری کرتے ہیں۔اور معمولی ضرورت کی چیزیں لوگوں کو نہیں دیتے۔(الماعون:۴تا۷)
۱۶۔بیت اللہ کے پاس ان کی نماز کیا ہوتی ہے،بس سیٹیاں بجاتے اور تالیاں پیٹتے ہیں۔تو اب لو اس عذاب کا مزہ چکھو اپنے اس انکار حق کے بدلے میںجو تم کرتے رہے ہو۔( انفال:۳۵)
نماز دین کی بنیاد ہے۔ قرآن میں نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نماز اہل ایمان کو جوڑ کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بناتی ہے۔ نماز ایمان والوں کو ہر برائی سے روکتی اور مثالی مسلمان بناتی ہے۔لیکن اس دور کے مسلمان ایسی نماز نہیں پڑھتے ہیں۔ان کی نماز دکھاوے اور تماشے کی نماز ہے۔ان کی نماز اتحاد اور بھائی چارا پیدا کرنے کی جگہ تفرقہ بازی اور نفرت و عداوت پیداکرنے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ظالموں نے اللہ کے گھر مسجد تک کا بٹوارہ کر لیا۔مسجدیںاب اللہ کا گھر نہیںرہیںبلکہ فرقہ پرست مذہبی پہلوانوں کا اکھاڑا بن گئی ہیں۔اور یہ کام عام مسلمان نہیں بلکہ عالم اور فاضل ،پیر،سجادہ نشین اور مذہبی پیشوا کر رہے ہیں۔
۱۷۔میں اپنی نشانیوں سے اُن لوگوں کی نگاہیں پھیر دوں گاجو بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں۔(اعراف:۱۴۶ )
۱۸۔اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر، نہ زمین میں اکڑ کر چل،اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے آدمی کو پسند نہیںکرتا ہے۔ (لقمان:۱۸)
غرور اور تکبر اتنا سنگین گناہ ہے جس نے شیطان کو ملعون بنا دیا تھا۔مسلمانوں نے شریعت کے خلاف مسلم سماج کو اونچی اور نیچی ذات میں بانٹ کر فخر و غرورکا سنگین گناہ شروع کر دیا۔ اس گناہ میں ہر طبقہ کے مذہبی اورغیر مذہبی مسلمان شامل ہیں۔مسلمانوں کو اس سنگین گناہ کی بھر پور سزا مل رہی ہے مگر پھر بھی ان کو ہوش نہیں آ رہا ہے۔
شریعت کی تعلیم سے انجان، قرآن کی اہمیت اور علم سے محروم،حرام خوری کے عادی، کافر و مشرک کی طرح دولت کے پجاری، نمازی ہو کے بھی نماز کی برکتوں سے محروم اورشیطانی مزاج یعنی گھمنڈ، فخر وغرور اور اپنے آپ کو ناحق بڑا سمجھنے والے بد عقل، ناعاقبت اندیش، احمق اور دنیا پرست مسلمان اپنے گناہوں پر دھیان نہیں دیتے اور یہ نہیں سمجھتے کہ جب تک یہ گناہوں سے توبہ کر کے نیک اور صالح مسلمان نہیں بنیں گے ، اُس وقت تک نہ یہ اللہ کی رحمت کے حقدار ہوں گے اور نہ ہی دنیا اور آخرت میں ان کوعزت و نجات ملے گی بلکہ الٹا دنیا میں ذلت و رسوا ئی اور غلامی ان کا مقدر بن چکی ہے اور آخرت میں اس سے بھی زیادہ خطرناک اور بھیانک انجام ہونے والا ہے۔عام آدمی کو کیا کہئے اس وقت کا بڑا سے بڑا عالم بھی اپنی خرابیوں کی وجہ سے عوام کی نگاہ میں معتوب بن چکا ہے۔
رابطہ۔8298104514
[email protected]