ضیاء الرحمن صدیقی ۔گلستان علم و ادب کے باغباں (۲) تجزیاتی محاکمہ

محمد وقار صدیقی

اور نہایت سلیس اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’میں جن لوگوں میں ٹھہرا ہواتھا ان میں سے میگی اور ان کی ماں کے بارے میں ناشتہ پر اس خط کے بارے میں بتا دیا تھا ۔ خط سن کرمیری میزبان نے کہا ’’جب آپ آ جائیں تو کچھ پیسہ بھی لیتے جائیں ،میگی نے ایک ہفتے سے کام نہیں کیا ہے۔ اسے تنخواہ بھی نہیں ملی ہے ہو سکتا ہے انہیں پیسے کی ضرورت ہو ۔‘‘ ۲؎( جنم دن،ص ۴۹)
مذکورہ تحریر یں اپنی سادگی کی ایسی اعلیٰ مثالیں ہیںجن سے کوئی بھی بھٹکا ہو اادبی مسافر اپنے کارواں تک رسائی حاصل کرسکتا ہے اور ایسی تحریروں کو ضرورت ہے جو ادب کو سطح مرتفع پر قائم کرسکے۔ بہت سے ایسے لکھنے والوں کو بھی دیکھا جو گرامر (قواعد)کی بڑی غلطیاں کر جاتے ہیں۔ مگر موصوف جیسی شاہکار شخصیت سے لغزش ہونا خلاف ِ ادب ہے ۔اس لئے کہ جہاںسے ادب نے پرورش پائی ہو،جہاں سے اس نے چلنا سیکھا ہو،طرزِ تکلم کا ہنر سیکھا ہو،جہاں سے ضیائے رحمانی کی شمع روشن ہوئی ہووہاں ایسی غلطیوں کودخل نہیںہے ۔ موصوف کو املا،تلفظ ،لفظوں کی ساخت اور اسکی ہیئت اس کی ماہیت اس کی ادبی شناخت اور زمانی شناخت سبھی پر ان کی مضبوط گرفت ہے ،جس کی وجہ سے ادب کی تعمیر میں نئی روح ڈال دیتے ہیں ۔ادب کی راہیں کتنی بھی دشوار اور گراں بار ہوں ۔یہ اپنے ہنر سے پہاڑوں کوکندہ کر کے اس پر اپنی شناخت اور نقوش قائم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیںکسی شاعر نے ایسی ہی شخصیت کے لئے کیا خوب کہا ہے ؎
ادب میں تیرے مقابل کسی میں کیا دم ہے
تو کوہِ نور کے ذروں میں جزوِ اعظم ہے
ایسی گراں قدرشخصیتیں جب طلوعِ صبحِ نو کی شعائیں بکھیرتی ہیںتو ریاضِ ادب کے پژمردہ و کم ہلائے ہوئے کلیوں میں جوبہار آتی ہے اس پر خزاں کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ ان ساری چیزوں کی عکاسی موصوف کی تحریروں میں جگہ جگہ نمایاں ہیں۔جہاں ہزاروں اہلِ مکتب ،اہلِ دانش اور اہلِ حکمت موجود ہو ں۔ان سبھی حضرات کے درمیان جب ان کی تحریریں جب پیش کی جاتی ہیں تو بلامبالغہ ہر شخص یہی کہہ اٹھتا ہے کہ یہ جناب پروفیسر ضیاؤالرحمن کی تحریرِ جمیل ہے۔ اُن کی کس کس تحریر کی بات کی جائے اور کس کس کو موضوعِ مباحثہ بنایا جائے عقل معذورہے ،قلم خاموش ہے اورقرطاس فریاد کناںہے ۔موصوف کے ترجمہ ’’جنم دن‘‘ سے ایک اور اقتباس ماحظہ کریں جو ان کے فصاحت کی دلیل ہے:۔’’سارادن ہم اس جھونپڑی میںبند رہے۔خطرہ سر منڈلا رہا تھا کہ جلدی ہی ہمیں کوئی ڈھونڈ نکالے گا اور ہمارا خاتمہ کر دے گا۔ پاپا کے قتل کے بعدہمارا مستقبل اندھیرے میں ڈوب گیا تھا۔ہمارے لئے بات کرنا بھی مشکل ہورہا تھا ۔ گرم لو کے تھپیڑے دروازے کی دراڑوں میں سے اندر آرہے تھے۔ہمارے گلے پیاس سے سوکھ گئے تھے۔ بعد دوپہر جھونپڑی کے پیچھے کھڑکی کے پاس پیڑ پر سے کسی نے ٹھنڈے پانی کی بالٹی لٹکائی ۔یہ مہربانی ہم پر ترس کھا کرچنٹانے کی تھی جو ہمارا مکان بنتے وقت وہاں مزدوری کیا کرتا تھا۔‘‘( جنم دن ،ص۸۹ (
موصوف کی دوسری شناخت ان کی شاعری سے بھی ہوتی ہے جہاں انہوں نے اپنے قلم سے نثری میدان میں فتحِ علم نصب کیا ہے وہیں شاعری کی زلفِ گرہ گیر کو سلجھانے کی کوشش بھی ہے۔ جیسا کہ موصوف کا کہنا ہے کہ ان کو شاعری سے بہت زیادہ شغف نہیں ہے مگر جو ذرہ جس جگہ ہے وہی آفتاب ہے ۔ان کی شاعری بھی ان کی نثر جیسی مقبولیت کی ضامن ہے ۔جہاں اتنی منزہ تحریریں اوراتنی دور اندیشی ہو وہاں ادب کے سارے اصناف دست بستہ نظرآتے ہیں ۔ان کی شاعری کا اگر مطالعہ کیا جائے تو زندگی کی سچائی، تجربات اور مشاہدات کی ترجمانی معاشرے کے مسائل اور سماج میں پیدا ہونے والے مخرب اخلاق کے اثرات سبھی چیزوں کو اپنی شاعری میں پیش کرتے ہیں اور ان کا حل بھی بتاتے ہیں۔موصوف کی خوبی یہ ہے کہ جدید دور میں جدیدیت کو بروئے کار رکھا ہے، مگر کلاسیکت سے انحراف بھی نہیں کیاہے ۔بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ شاعری ہمارے اساطیر اور قدماء کی مرہونِ منت ہے اور جدیدیت نے وہیں سے روشنی مستعار لی ہے۔ مگریہ مستعاری روشنی موصوف کے یہاں سورج کی چمک سے کم نہیںہے ۔جدید یت کی روایت کو استقامت دیتے ہو ئے ان کے اشعار اس طرح اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں؎
ہوا کے دوش پہ اس بار بھی شرر رکھنا
حکایتوں میں مرا نام معتبر رکھنا
یہاں پہ سادہ مزاجی سے کچھ نہیں ملتا
تم اپنی بات کو کہنے کا ایک ہنر رکھنا
شاعری اصل میںفکر کا میدان ہے اور فہم وادراک کا جہان ہے ۔ شاعری مسلسل کاوشوں سے وجود پذیر ہوتی ہے ۔جہاں علم ہوگا ،جہاں مشاہدات ہوں گے،جہاں تجربات ہوں گے جہاں مطالعہ میں سینکڑوں کتابیں نظروں میں سما ئی ہوں گی وہاں سے شعرکا ہر لفظ گہرہائے آبداربن کر نظرآتا ہے ۔موصوف کی شاعری اسی میدان کی تربیت یافتہ ہے ،اسی لئے ان کی شاعری میں فکر کا ایک جہاں روشن ہے کہتے ہیں؎
ذہن و دل میں فکروفن کا ایک جہاں رکھتا ہوں میں
عام لہجوں سے الگ طرزِ بیاں رکھتا ہوں میں
ٹوٹنا، گرنا، بکھرنا میری عادت میں شمار
بلبلہ ہو کر بھی بحرِ بیکراں رکھتا ہوں میں
ان کے مذکورہ اشعار سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ شاعری جدیدیت کی غمازی کرتی ہے مگر ان کا اسلوب اور لہجہ کلاسیکی رنگ آمیزی کی مثالیں پیش کرتا ہے۔ان کی شاعری میں جذبات کی مثالوں کے ساتھ تجربات کی روداد بھی ہے۔یہ کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتے اور نہ ہی محبوب سے محبت کی بھیک مانگنے پر مجبورہوتے ہیں، بلکہ اس کی آنکھ سے آنکھ ملانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔جہاں آرزوجرم ہو اور وضعِ محبت کو گناہ تسلیم کر لیا جاتا ہے وہاں بھی ان کی ذوق نظرذوقِ جمالیات ہی کی متلاشی رہتی ہے ؎
اشارہ کرکے اسے بزمِ غیر میں اکثرہم اس کے روئے حسیں کا عتاب دیکھتے ہیں
ہم اپنے لہجے کو بے آبرو نہیں کرتے
اسی لئے تو بہت گفتگو نہیں کرتے
غالب کی طرح نثرو شاعری پر یکساں قدرت رکھنا کسب علمی نہیں بلکہ ہدیۂ قدرت ہیں جو ہر کسی کو ودیعت نہیں ہوتیں ۔یہ انعام خاص لوگوں کے لئے مختص ہوتا ہے ۔جن میں اساطیر کے ناموں کی فہرست میں پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی کا نام خاص کر آج کے دور میں ایک بڑانام ہے ۔جہاں نثرو نظم تربیت پاتے ہوں وہ بارگاہِ ادب بارگاہِ ضیائے رحمانی ہی ہے ۔جہاں سے جب مہروماہ اپنی شعائیں بکھیرتی ہیں تو عالم ادب درخشاں ہو جاتا ہے اور جب ایسی شخصیتیں مفقود ہو جاتی ہیں تو فضائے عالم ِ ادب پر گرہن لگ جاتا ہے اور اس کی تاریکی اس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک ضیائے رحمانی کا ظہور نہ ہو جائے ۔ ہماراادب ایسی ہی شخصیات پر جا کر تما م ہوتا ہے ۔یہ اپنے عزم اور حوصلوں سے محبت کے سفینۂ غرقاب میں بھی طلاطم کا سہارا بھی نہیں ڈھونڈتے ہیں ۔کسی کے آگے دست دراز کرنا ان کی فطرت اورسرشت میں شامل نہیں کیونکہ سادات کے گھرانے سے جس کا تعلق ہوتا ہے اس کو دنیا و مافیہا میں کسی کے آگے سرِ نیاز خم کرنا زیب نہیںہے۔
موصوف کو ان کی ادبی اور علمی خدمات پر جن انعامات سے نوازا گیا ہے ان میں دو ایوارڈ بہت اہم ہیں ، پہلا انعام انٹر نیشنل ایجو کیشن کونسل (نئی دہلی) اور دوسرا( آتھرس گلڈ) ہماچل پردیش ہے ،اس کے علاوہ مدراس یونیورسٹی کا اردو ایوارڈ اور مختلف یونیورسٹیوں نے اپنے اپنے طور پر موصوف کی علمی کاوشوںکو سراہااورحوصلہ و قدر افزائی کے لیے ان کی اہم کتابوں پر بہار اردو اکیڈمی اور اترپردیش اردو اکیڈمی نے بھی انعامات سے نوازا۔
[email protected]>