صحابہ کرام ؓ کا ایثار و سخاوت اور حُسنِ سلوک مشعلِ راہ

محمدحنیف طیب

ایثار کہتے ہیں اپنی ضرورت کے وقت دوسرے کو ترجیح دینا۔اول تو صحابہ کرام ؓ کی ہرادا، ہر عادت ایسی ہی ہے، جس کی برابری تودرکناراس کا کچھ حصہ بھی کسی خوش قسمت کونصیب ہوجائے توعین سعادت ہے، لیکن بعض عادتیں ان میں سے ایسی ممتازہیں کہ انہیں کاخاصہ تھیں ۔صحابہ کرامؓ کے ایثار کی حق تعالیٰ نے کلام ﷲ میں تعریف فرمائی :’’ ُوثرون علیٰ انفسھم ولوکان بھم خصاصۃ ‘‘میں اس صفت کا ذکر فرمایاکہ وہ لوگ اپنے اوپر دوسروں کوترجیح دیتے ہیں، اگرچہ اُن پرفاقہ ہی ہو۔
ایک صحابی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بھوک اور پریشانی کی حالت کی اطلاع دی۔ حضورؐ نے اپنے گھر وں میں آدمی بھیجا کہیں کچھ نہ ملا تو حضورؐنے صحابہ ؓ سے فرمایاکہ کوئی شخص ہے جو ان کی ایک رات کی مہمانی قبول کرے۔ ایک انصاری صحابی ؓنے عرض کیا یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مہمانی کروں گا، وہ انہیں گھر لے گئے اور بیوی سے فرمایا کہ یہ حضور اکرم ؐکے مہمان ہیں جو تعظیم ہوسکے کرنا اس میں کسرنہ کرنا اور کوئی چیز چھپا کر نہ رکھنا۔ بیوی نے کہا ،خداکی قسم ،بچوں کی خاطر کچھ تھوڑا ساکھانارکھا ہے اور کچھ بھی گھر میں نہیں۔
صحابی ؓ نے فرمایا کہ بچوں کوبہلا کر سلادو اور جب وہ سوجائیں ،تو کھانالے کر مہمان کے ساتھ بیٹھ جائیں گے اور تم چراغ درست کرنے کے بہانے سے اُٹھ کراسےبجھادینا۔ چنانچہ بیوی نے ایسا ہی کیا اور دونوں میاں بیوی اوربچوں نے فاقہ سے رات گزاری۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ترجمہ ’’اور ترجیح دیتے ہیں اپنی جانوں پر اگرچہ اُن پر فاقہ ہی ہو‘‘۔ اس قسم کے متعددواقعات ہیں جوصحابہ ؓ کے یہاں پیش آئے چنانچہ ایک دوسرا واقعہ اسی قسم کالکھا ہے۔ایک صحابی ؓہر روز روزہ رکھتے تھے، افطار کےلیے کوئی چیز کھانے کی میسر نہ آتی ۔ ایک انصاری صحابی حضرت ثابتؓ نے انہیں دیکھ لیا۔ بیوی سے کہا کہ میں رات کو ایک مہمان لائوں گا،جب کھانا شروع کریں توتم چراغ کو درست کرنے کے حیلے سے بجھا دینا اور جب تک مہمان کا پیٹ نہ بھر جائے خود نہ کھانا۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، ساتھ میں سب شریک رہے جیسے کھا رہے ہوں۔ صبح کو حضرت ثابتؓ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوئے توحضوراکرم ؐنے فرمایا کہ رات کا تمہارا اپنے مہمان کے ساتھ برتائوحق تعالیٰ کو بہت ہی پسند آیا۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ابو طلحہؓ انصاری مدینہ منورہ میں سب سے بڑے باغ کے مالک تھے۔ ان کا ایک باغ تھاجس کانام بیر حاء تھا، وہ انہیں بہت ہی زیادہ محبوب تھا، مسجد نبوی کے قریب تھا۔پانی بھی اس میں نہایت شیریں اور وافر مقدار میں تھا۔ حضوراکرمؐ بھی اکثر اس باغ میں تشریف لے جاتے اور اس کا پانی نوش فرماتے۔ جب قرآن شریف کی آیت، ترجمہ:تم نیکی کے کامل درجے کو نہیں پہنچ سکتے ،جب تک ایسی چیزوں سے خرچ نہ کرو گے جو تمہیں پسند ہیں‘‘۔ نازل ہوئی تو ابو طلحہؓ حضوراکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھے اپنا باغ بیر حاء سب سے زیادہ عزیز ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ محبوب مال اللہ کے راستے میں خرچ کرو، اس لئے وہ اللہ کے راستے میں دیتا ہوں، آپؐ جیسا مناسب سمجھیں اس کے موافق اسے خرچ فر مادیں۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت مسرت کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ بہت ہی عمدہ مال ہے۔میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ اسے اپنے اہل قرابت میں تقسیم کر دو۔ ابو طلحہؓ نے اسے اپنے رشتے داروں میں تقسیم فرما دیا۔
حضرت ابو جہم بن حذیفہؓ کہتے ہیں کہ یرموک کی جنگ میں ، میں اپنے چچا زاد بھائی کی تلاش میں نکلا کہ وہ جنگ میں شریک تھے اور ایک مشکیزہ پانی کا میں نے اپنے ساتھ لیا کہ ممکن ہے کہ وہ پیاسے ہوں تو پانی پلائوں۔ اتفاق سے وہ ایک جگہ اس حالت میں پڑے ہوئے ملے کہ دم توڑ رہے تھے اور جاں کنی کا عالم تھا ۔ میں نے پوچھا پانی کا گھونٹ دوں؟ انہوں نے اشارے سے ہاں کی، اتنے میں دوسرے صاحب نے جو قریب ہی تھے اور وہ بھی مرنے کے قریب تھے آہ کی آواز بلند کی۔ میرے چچا زاد بھائی نے آواز سنی تو مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کیا۔میں ان کے پاس پانی لے کر گیا۔ وہ ہشام بن ابی العاص تھے، ان کے پاس پہنچا ہی تھا کہ ان کے قریب ایک تیسرے صاحب اسی حالت میں پڑے دم توڑ رہے تھے۔ انہوں نے آہ بلندکی۔ ہشامؓ نے مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کر دیا۔ میں ان کے پاس پانی لے کر پہنچا تو ان کا انتقال ہوچکا تھا۔ ہشامؓ کے پاس واپس آیا تو وہ بھی شہید ہو چکے تھے۔ ان کے پاس سے اپنے بھائی کے پاس لوٹا تو اتنے میں وہ بھی شہید ہو چکے تھے۔اس نوع کے متعدد واقعات کتب حدیث میں اکثرملتے ہیں۔ کیا انتہا ہے ایثار کی کہ اپنا بھائی دم توڑ رہا ہو اور پیاسا ہو ، ایسی حالت میں کسی دوسرے کی طرف توجہ کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے چہ جائیکہ اسے پیاسا چھوڑ کر دوسرے کو پانی پلایا جائے، ان شہداء کی روحوں کو اللہ جل شانہ اپنے لطف و فضل سے نوازے کہ موت کے وقت بھی جب ہوش و حواس سب ہی جواب دے جاتے ہیں، یہ نفوس قدسیہ ایثار و ہمدردی میں اپنی جان نثار کردیتے ہیں۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہؓ غزوۂ اُحد میں شہید ہو گئے اور کافروں نے آپؓ کے کان، ناک وغیرہ اعضا کاٹ دیئے اور سینہ چیر کر دل نکالا اور طرح طرح کے ظلم کئے۔ جنگ کے ختم ہونے پرحضور اکرمؐ اور دوسرے صحابہ ؓ شہیدوں کی نعشیں تلاش فرما کران کی تجہیز و تکفین کا انتظام فر ما رہے تھے کہ حضرت حمزہؓ کو اس حالت میں دیکھا اور نہایت صدمہ ہوا،اتنے میں حضرت حمزہؓ کی حقیقی بہن حضرت صفیہؓ تشریف لائیں کہ اپنے بھائی کی حالت دیکھیں۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خیال سے کہ یہ ایک عورت ہیں، ایسے ظلم کو دیکھنے کا تحمل مشکل ہوگا، ان کے صاحبزادے حضرت زبیرؓ سے ارشاد فرمایا کہ اپنی والدہ کو دیکھنے سے منع کرو۔حضرت زبیرؓ کہتے ہیں کہ میں جلدی سے روکنے کیلئے بڑھا، مگر وہ قوی تھیں، اور کہا کہ راستے سے ہٹ جاؤ۔ میں نے کہا کہ حضورراکرم ؐ نے منع فرمایا ہے تو فوراً کھڑی ہو گئیں۔ اس کے بعد دو کپڑے نکالے اور فرمایا کہ میں اپنے بھائی کے کفن کیلئے لائی تھی کیونکہ میں ان کے انتقال کی خبر سن چکی تھی۔ان کپڑوں میں انہیں دفنا دینا۔ ہم لوگ وہ کپڑے لے کر حضرت حمزہؓ کو کفنانے لگے کہ برابر میں ایک انصاری شہید موجود تھے، جن کا نام حضرت سہیلؓ تھا۔ان کا بھی کفار نے ایسا ہی حال کر رکھا تھا، جیسا کہ حضرت حمزہؓ کا تھا۔ ہمیں اس بات سے شرم آئی کہ حضرت حمزہؓ کو دو کپڑوں میں کفن دیا جائے اور انصاری صحابی ؓ کے پاس ایک بھی نہ ہو۔اس لئے ہم نے دونوں کیلئے ایک ایک کپڑا تجویز کر دیا، مگر ایک کپڑا ان میں بڑا تھا، دوسرا چھوٹا۔ تو ہم نے قرعہ ڈالا کہ جو کپڑا جن کے حصہ میں آجائے گا، وہ اُن کے کفن میں لگایا جائے۔
قرعہ میں بڑا کپڑاحضرت سہیلؓ کے حصے میں آیا اور چھوٹا حضرت حمزہؓ کے حصے میں آیا، جو ان کے قد سے بھی کم تھا کہ اگر سر کو ڈھانکا جاتا تو پائوں کھل جاتے اور پائوں کی طرف کیا جاتا تو سر کھل جاتا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سر کو کپڑے سے ڈھانک دو اور پائوں پر پتے وغیرہ ڈال دو،یہ دوجہاں کے بادشاہ کے چچا کا کفن ہے، وہ بھی اس طرح کہ ایک عورت اپنے بھائی کیلئے دو کپڑے دیتی ہیں، انہیں یہ گوارا نہیں کہ دوسرا انصاری صحابی ؓ بے کفن رہے۔ ایک کپڑا بانٹ دیا جاتا ہے اور پھر چھوٹا کپڑا اس شخص کے حصے میں آتا ہے، جو کئی وجہ سے ترجیح کا استحقاق بھی رکھتا ہے۔غریب پروری اور مساوات کے دعویدار اگراپنے دعوئوں میں سچے ہیں توان پاک ہستیوں کی اتباع کریں جو کہہ کر نہیں بلکہ کرکے دکھلا گئے۔ ایثاروسخاوت وہی شخص کرسکتا ہے جسے اپنے رب کریم پرکامل اعتماد و توکل ہو، سخاوت کااثرونتیجہ یہ ہے کہ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں، اسے پسند کرتے ہیں اور اس کے قریب ہونے لگتے ہیں۔ سخاوت کرنے والے مومن کو دنیا وآخرت میں سربلند ی اور غیرت کامقام حاصل ہوتا ہے۔موجودہ حالات میں جب ملک اور معاشرے کے مسلمان مختلف مسائل ، آزمائش اور مصیبت سے دوچارہیںاور وہ ہماری مدد و اعانت کے منتظر ہیں تو ایسے حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مواخات مدینہ کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے غریب ،مستحق اور مصیبت زدہ بھائیوں کی بھرپور مدد کریں،تاکہ ہمارا یہ طرزعمل اللہ اور اس کے حبیب حضرت محمد مصطفیٰؐ کے قرب و رضا کا باعث ہوگا۔